جمعہ، 24 جولائی، 2015

سلام و ملاقات کے متفرق مسائل

سلام و ملاقات کے متفرق مسائل


مسئلہ ۱۔ کسی گروہ میں بعض کی تخصیص کر کے سلام کرنا یا جواب دینا مکروہ ہے۔
۲۔عجمی(غیر عربی) زبان میں سلام کرنا جائز ہے جب کہ مخاطب سمجھے، گو عربی میں سلام کرنے پر قادر ہو اور اس سلام کا جواب فرض ہے کیوں کہ یہ بھی سلام ہی کہلائے گا۔
۳۔کسی ذمی(غیر مسلم) کو سلام کرنا حرام ہے، اگر سلام کے بعد پتہ چلا کہ وہ ذمہ ہے تو اس سے یہ کہنا مستحب ہے: میں نے اپنا سلام واپس لیا یا میرا سلام لوٹا دو۔
۴۔اگر مسلمانوں کے درمیان کوئی غیر مسلم بھی ہو تو سلام کرتے وقت دل میں اس کا استثناء کرے۔
۵۔کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔
۶۔ انسانوں سے خالی کسی جگہ داخل ہو تو یہ کہنا مستحب ہے: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ
۷۔ بلا عذر سلام کے علاوہ کسی دوسرے الفاظ سے ابتداء نہ کرے: مثلاً صبھ بخیر، اور ان الفاظ کا جواب واجب نہیں ہے، اگر جواب میں دعا دے تو بہتر ہے البتہ اس کے سلام نہ کرنے کی وجہ سے تادیباً جواب نہ دینا بہتر ہے۔
۸۔ أَطَالَ اللَّهُ بَقَاءَكَ  (اللہ تمہیں طویل زندگی دے) کے ذریعہ کسی بزرگ،صاحبِ علم یا عادل حکمراں کے لئے دعا دینا بہتر ہے ورنہ مکروہ ہے۔
۹۔ کسی سے  ملاقات پر پشت جُھکانا مکروہ ہے، کسی کی دینی فضیلت مثلاً: زہد و تقوی وغیرہ کی وجہ سے اس کا ہاتھ چومنا (بوسہ لینا) مستحب ہے، مال و دولت اور جاہ وغیرہ کی وجہ سے مکروہ ہے، کمسن بچہ کے گال کا بوسہ لینا گو دوسرے کا بچہ ہو مستحب ہے، نیز اپنے اصول و فروع کا شفقت و رحمت سے بوسہ لینا مستحب ہے۔ تبرکاً کسی نیک میت کے چہرہ کا بوسہ لینے میں حرج نہیں۔
۱۰۔ آنے والے میں کوئی ظاہری فضیلت ہو مثلاً :علمِ، دین داری، شرف، باپ دادا وغیرہ ہونا تو اکرام و احترام کے طور پر اس کے لئے کھڑا ہونا مستحب ہے، نہ  کہ ریا و بڑائی کے طور پر۔ آنے والے کو یہ تمنّا کرنا کہ لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے رہیں یعنی وہ بیٹھ جائے اور دیگر لوگ کھڑے رہیں جیسا کہ جابروں کی عادت ہوتی ہے، حرام ہے۔
۱۱۔ ملاقات کے وقت بشاشت کے ساتھ مصافحہ اور مغفرت وغیرہ کی دعا مستحب ہے۔
۱۲۔ کسی کے گھر جانا ہو اور دروازہ بند ہو، تو سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام کرے، پھر اجازت چاہے اگر جواب نہ ملے تو تین مرتبہ اس عمل کو دوہرائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ لوٹ جائے، اگر اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے؟ تو اپنا نام وغیرہ لے کر صراحت کرے کہ وہ پہچان سکے ، میں فلاں شیخ یا فلاں قاضی ہوں کہنا، یا اپنی کنیت بیان کرنے میں حرج نہیں جب کہ اس کے بغیر پہچانا نہ جائے۔ صرف میں ہوں یا خادم ہے وغیرہ کہنا مکروہ ہے۔
۱۳۔ نیک حضرات، پڑوسی جو کہ بدکار نہ ہوں، بھائی بند اور رشتہ داروں کی ملاقات اور ان کا اکرام کرنا مستحب ہے، اس طور پر کہ نہ اسے پریشانی ہو اور نہ انہیں۔ ان سے اپنی ملاقات کا مطالبہ بھی مستحب ہے۔ مریض کی عیادت مستحب ہے۔
۱۴۔ چھینک آئے تو ہاتھ یا کپڑا وغیرہ منہ پر رکھنا، اور حتی الامکان آواز پست کرنا مستحب ہے۔ چھینک کے بعد اَلْحَمْد ُلله  کہے، اگر نماز میں ہے تو آہستہ کہے، اگر پیشاب یا صحبت وغیرہ کر رہا ہو تو دل میں کہے۔ چھینکنے والا اَلْحَمْد ُلله کہے تو تین مرتبہ تک اسے جواب دے یعنی يَرْحَمُكَ الله(اللہ تجھ پر رحم فرمائے) کہے اور چھینکنے والا جواب میں کہے   يَهْدِيكُمْ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ  ( اللہ تمہیں ہدایت بخشے اور تمہارے احوال درست کرے) یا کہے : يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ (اللہ ہمیں اور تمہیں بخش دے) دونوں جو جمع کرنا بہتر ہے کوئی ،
حدیث: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی چھینکے تو چاہئے کہ وہ کہے: "الحَمْدُ لِلَّهِ" اور اس کا بھائی یا صاحب اس کو کہے(جواب دے):" يَرْحَمُكَ اللَّهُ" پس جب اس  کو  يَرْحَمُكَ اللَّهُ کہا جائے تو چاہئے کہ وہ کہے:" يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ"(صحیح بکاری 6224)
حدیث ۲: آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی چھینکے تو چاہئے کہ وہ اللہ کی حمد بیان کرے(الحمد للہ  کہے)  راوی کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ نے بعض محامد بیان کئے اور فرمایا اور جو اس کے پاس ہو اس کو کہنا چاہئے:" يرحمُك اللهُ" اور  یہ ان کو جواب دے"يغفرُ الله لنا ولكم"(سنن ابی داود 5031، سنن کبریٰ نسائی 9982،مستدرک حاکم)
بہت چھینکنے والے کا حکم:- کوئی مسلسل تین سے زائد مرتبہ چھینکے تو بعد میں جواب سنت نہیں، بلکہ کہے کہ آپ کو زکام ہے اور اسے عادفیت کی دعا دے۔
 جو شخص چھینکنے والے سے پہلے ہی کہے وہ دانت،پیٹ اور کان درد سے محفوظ رہے گا۔
۱۵۔جمائی نا پسندیدہ ہے حتی الامکان اسے روکنے کی کوشش کرے، نہ رکے تو ہاتھ وغیرہ سے منہ چھپائے۔ آہ کرتے ہوئے منہ کھول کے اطمینان سے جمائے لینے کی مذمت وارد ہوئی ہے اور اس ہیئت سے شیطان خوش ہوکر ہنستا ہے۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں اور جمائی کو برا سمجھتے ہیں تم میں سے جس شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہر اس مسلمان کا جو چھینک کو سنے یہ فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جمائی شیطان کا فعل ہے تم میں سے جس کو جمائی آئے تو جس حد تک ممکن ہو اُسے روکے اس لئے کہ جب کسی شخص کو جمائی آتی ہے تو شیطان دیکھ کر ہنستا ہے۔(مشکوٰۃ از بخاری  ) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جب کوئی "ہا" کہتا ہے یعنی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔(مشکوٰۃ  باب العطاس والتثاؤب)
۱۶۔ کسی سے اللہ کے لئے محبت ہو تو اسے اس کی اطلاع دینا مستحب ہے جو اپنے حسن ساتھ سلوک سے پیش آئے اسے دعا دے۔ جلیل القدر عالم یا بزرگ شخصیت کو اس طرح کہنے میں حرج نہیں: فِداکَ اَبی واُمِّی(میرے والدین آپ پر قربان)

(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں