بدھ، 30 ستمبر، 2015

طہارت کے مسائل کے متعلق احادیث

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
          "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخس کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے، اور جس کی ہجرت دنیا پانے کے لئے تھی یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے تھی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔(متفق علیہ)
          امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اسے سات جگہ ذکر کیا ہے اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں جہاد کے باب میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن مھدیؒ نے فرمایا:اگر میں کوئی کتاب کی تصنیف کرتا تو اس کے ہر ایک باب کو اس حدیث سے ضرور شروع کرتا۔(تحفۃ المحتاج)
طہارت کا بیان
۲۔حضرت ابو ہریرہ (عبد الرحمن بن صخر) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا:
          "جب اللہ کے رسول ﷺ نماز میں تکبیرکہتے تو قرأت شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر خاموش رہتے۔" تو میں نے کہا:"اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان، میں نے آپ کا سکوت تکبیر اور قرأت کے درمیان دیکھے ہے آپ (ان کے درمیان) کیا فرماتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: میں یہ (دعا) کرتا ہوں:
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ
"اے میرے پروردگار! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرمادے جیسے آپ مشرق اور مغرب کے درمیان دوری فرمائی ہے، اے میرے پروردگار! مجھے خطاؤں سے ایسا پاک و صاف فرمادے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک و صاف کیا جاتا ہے، اے میرے پروردگار! میری خطاؤں کو دھودے برف اور ٹھنڈک کے پانی سے۔"(متفق علیہ،صحیح بخاری باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم باب ما یقول بین  تکبیرۃ الاحرام)

۳۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سمندر کے پانی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
          "اس کا پانی پاک ہے، اس کا مردار حلال ہے۔(رواہ احمد و ابن ماجہ باب الوضوء بماء البحر)
          ابن حبان ؒنے اسے صحیح کہا اور حافظ ابو علی بن السکنؒ نے فرمایا: یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس باب میں مروی ہے۔
نیز ابوداود،ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا ہے۔ ترمذی،بخاری،ابن خزیمہ،ابن حبان اور ابن السکن نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
۴۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(صحابہؓ نے) فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ بے شک آپ وضوء فرماتے ہیں بئر بضاعۃ سے اور اس میں  لوگ گندگی ڈالتے ہیں اور حیض کے کپڑے ڈالتے ہیں اور  ناپاک چیزیں ڈالتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔(قاسم بن اصبغؒ نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ روایت بئر بضاعۃ کے متعلق سب سے بہترین (احسن)ہے ۔ اور ابن القطانؒ نے فرمایا: یہ حسن ہے)
          ابو داود،نسائی اور ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابو سعید سعد بن مالک خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا اور امام احمد ؒ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا۔
۵۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے "مشرکہ کے مشکیزہ" کے قصہ میں مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو  جو جنبی (حالتِ جنابت میں)تھا  اس (مشکیزہ) میں سے (پانی کا ) برتن دیا پھر فرمایا:  تم جاؤ  اور اس کو  اپنے اوپر ڈال لو۔"(متفق علیہ)
۶۔ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے حیض کے خون کے متعلق دریافت کیا جو کپڑے کو لگ جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو لکڑی سے کھرچ دو اور اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے دھودو۔(رواہ ابواود،نسائی ، ابن ماجہ)
اس کو ابن خزیمہؒ اور ابن حبانؒ نے صحیح قرار دیا اور ابن القطانؒ نے فرمایا: اس کی سند صحۃ کی انتہا پر ہے اور میں نہیں جانتا کے اس میں کوئی علت ہے۔
۷۔ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائی پھر کہا: ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا ہے تو وہ اس کے ساتھ کیا کرے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اس کو رگڑ کر صاف کردو پھر  ہاتھ کی انگلیوں سے رگڑتے ہوئے پانی ڈالو پھر اس پر پانی ڈالو(یہاں تک کے اثر چلا جائے) پھر اس میں نماز پڑھو۔"(متفق علیہ)
۸۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک برتن سے غسل کیا  بڑے پیالہ سے (پانی لیکر) جس میں آٹے کا اثر تھا۔(رواہ نسائی، ابن ماجہ)
          نسائی اور ابن ماجہ نے اسے ایسی سند سے روایت کیا ہے جو صحیح کی  ہے سوائے عبد اللہ بن عامر الاشعری جو ابن ماجہؒ کے شیخ ہیں انہوں نے ان سے تفرد کیا ہے اور میں ان کا حال نہیں جانتا ہون۔ پس اگر وہ عبد اللہ بن براد الاشعری ہیں جیسا کہ ابن ماجہ نے نسبت کی ہے دوسری مرتبہ تو وہ صحیح کے رجال میں سے ہیں۔
۹۔ اسماعیل بن عیاش سے مروی ہے انہوں نے فرمایا مجھے صفوان بن عمر نے حدیث بیان کی اور وہ حسن بن ازہر سے روایت کرتے ہیں وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا: تم لوگ مشمس پانی سے غسل  مت کرو  کیوں کہ اس سے برص(کی بیماری) لاحق ہوتی ہے۔(رواہ دار قطنی)
          یہ سند صحیح ہے کیوں کہ اسماعیل کی روایت شامیوں سے ہے اور اس کی متابعت مغیرہ بن عبد القدوس عن صفوان ہے تو اس کو ذکر کیا، اس کو ابن حبان نے اپنی "ثقات" میں روایت کیا ہے اور وہ دونوں  مدد کر رہے ہیں ابراہیم بن یحیٰ عن صدقۃ بن عبد اللہ عن ابی الزبیر عن جابر عن عمر ؓ ناپسند کرتے تھے مشمس پانی سے وضو کرنا اور فرماتے  کہ اس سے  برص لاحق ہوتی ہے۔ اور تحقیق امام شافعیؒ، ابن جریجؒ اور ابن عدیؒ وغیرہ نے اس "ابراہیم" کی توثیق بیان کی ہے۔ اور میں نے رائج روایتوں کو ان ضعف کی وجہ سے بلکہ ان کے موضوع ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔
۱۰۔ حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے موری ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے اس پانی کے متعلق دریافت کیا گیا جو بیابان/صحراء میں ہوتا ہے اور اس میں درندے اور چوپائے بار بار لوٹتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
          "پانی جب دو قلہ کو پہنچ جاتا ہے تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا ہے۔"(رواہ ابوداود،نسائی،ترمذی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ،ابن حبان)
ابن خزیمہؒ ،ابن حبانؒ،ابن مندہؒ، طحاویؒ اور حاکمؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے نیز امام حاکمؒ نے یہ اضافہ کیا: کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
۱۱۔ ابو داود اور ابن حبان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں " تو بیشک وہ نجس نہیں ہوتا" یحیٰ بن معین نے فرمایا: اس کی سند جید(عمدہ) ہے۔
۱۲۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے کہ فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب پانی  "قلال ھجر " کے دو قلہ  کو پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی۔(الکامل لابن عدی)
اسکو ابن عدیؒ نے روایت کیا ہے، اس کی سند میں مغیرہ بن صقلاب کے ہی متعلق ابن عدیؒ نے کلام کیا ہے۔ اور ابو حاتمؒ نے فرمایا: وہ صالح الحدیث ہے، اور ابو زرعہؒ نے فرمایا: لا بأس بہ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قلال ھجر:- قلال قلۃ کی جمع ہے ، بڑے گھڑے کو کہتے ہیں اور "ھجر" مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے۔ وہاں کے بنے ہوئے مٹکے مدینہ میں زیادہ استعمال کئے جاتے تھے۔
۱۳۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          "جب مکھی تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے پورا اس میں ڈبائے پھر اسے نکال کر بھینک دے کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔"(رواہ البخاری،ابو داود،ابن خزیمۃ، ابن حبان)
          ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اپنے اس پر کو آگے کرتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے۔(یعنی وہ پہلے اپنا بیماری والا پر ڈالتی ہے)
          ۱۴۔حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          "پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی سوائے جو اس کی بو اور اس کے مزے اور اس کے رنگ پر غالب آجائے۔"(رواہ ابن ماجہ)
          اس کی سند میں رشدین بن سعد ہے اور اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، لیکن امام احمدؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ یہ صالح الحدیث ہے۔
۱۵۔ حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ  ﷺ کی یہ بات یاد رکھی:
جو شیز تمہیں شک میں ڈالے اس  کو چھوڑ دو اور اس چیز کی طرف متوجہ ہو جو تم کو شک میں نہ ڈالے۔(رواہ احمد،ترمذی،نسائی،ابن حبان،حاکم)
امام ترمذیؒ نے حسن صحیح فرمایا اور حاکم نے صحیح الاسناد فرمایا۔
۱۶۔ ابو قتادہ حارث بن ربعی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بلی کے متعلق فرمایا: بے شک وہ نجس(ناپاک) نہیں ہے، بے شک وہ تمہارے پاس بار بار آنے والی ہے۔(رواہ مالک،ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ،ابن حبان)
      ترمذی،ابن خزیمہ ، ابن حبان ،حاکم اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ۔

منگل، 29 ستمبر، 2015

طہارت کے مسائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال 1: طہارت کے لغوی معنی کیا  ہیں؟
جواب: طہارت کے لغوی معنیٰ نظافت (پاکی و صفائی )اور گندگیوں سے پاک ہونے کے ہیں۔(تہذیب الاسماء واللغات 3/188)
سوال 2: طہارت کے شرعی معنی کیا ہیں؟
جواب: طہارت کے شرعی معنی حدث کو دور کرنا ،نجاست کا ازالہ کرنا ہے یا اس کے معنی میں جو ہو جیسے تیمم، تجدیدِ وضوء، وضو میں دوسری یاتیسری مرتبہ دھونا، اور نجاست کا زائل کرنا، اور مسنون غسل۔۔۔۔(تہذیب الاسماء واللغات3/188)
سوال 3: نجاست کو دور کرنے کے لئے کیا شرط ہے؟
جواب: نجاست کو دور کرنے کے لئے یا حدث سے پاکی حاصل کرنے کے لئے ماء مطلق شرط ہے۔(منھاج الطالبین67)
سوال 4: ماء مطلق کسے کہتے ہیں؟
جواب: ماء مطلق ایسے پانی کو کہتے ہیں جس پر ماء(یعنی پانی) کا اسم بغیر کسی (لازم) قید کے واقع ہو۔ اور متغیر پانی اس سے مستغنی (بے نیاز ) ہے جیسے زعفران کا پانی۔ یہ ایسا تغیر ہے جو مطلق ماء کے اسم کو روکتا ہے۔(منھاج الطالبین67)
سوال 5: کیا ایسے پانی سے وضو کرسکتے ہیں جس میں کنجال یا مٹی وغیرہ ہو؟
جواب: ہاں!  ایسے پانی سے وضو کرسکتے ہیں نیز ایسے پانی سے بھی وضو کرسکتے ہیں جو بہت عرصہ رکھے رہنے کی وجہ سے متغیر ہوگیا ہو،مٹی اور کنجال کی وجہ سے متغیر ہوا ہو اور وہ پانی جو اپنی  جگہ میں ہو اور اسی طرح جو متغیر ہوا ہو لکڑی یا تیل کی وجہ سے۔(منھاج الطالبین67)
سوال 6: کیا سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے ؟
جواب: سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی سے طہارت حاصل کرنا مکروہ ہے۔(منھاج الطالبین67)
سوا ل 7: ماء مستعمل کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: حدث کو دور کرنے کے لئے جو پانی استعمال ہوا ہو اس کو ماء مستعمل کہتے ہیں۔
جو پانی فرض طہارت میں استعمال ہوا ہو وہ طہور (یعنی پاک کرنے والا ) نہیں ہے اور جو پانی نفل  طہارت (جیسے تجدیدِ وضوء) میں استعمال ہوا ہو تو  وہ طہور بھی ہے۔ (روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتین 7، منھاج الطالبین 67)
سوال 8: کیا نجاست گرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے؟
جواب: اگر پانی دو قلہ سے کم ہو تو نجاست گرنے سے وہ ناپاک ہوجاتا ہے۔
سوال 9: دو قلہ کی کتنی مقدار ہوتی ہے؟
جواب: دو قلہ تقریباً ۵۰۰ بغدادی رطل ہیں (یعنی تقریباً ۱۹۳ کلو پانی)۔(منھاج الطالبین 68، تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/66)
سوال ۱۰: اگر دو قلہ پانی ہو اور اس میں نجاست گر جائے اور اس کا اثر نظر آئے تو کیا وہ پانی پاک رہے گا؟
جواب: اگر پانی دو قلہ ہو اور نجاست کے گرنے سے اس میں تغیر آگیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔(منھاج الطالبین 68)
سوال ۱۱: کیا جس جانور میں بہنے والا خون نہ ہو اس کے مر جانے سے پانی ناپاک ہوتا ہے؟
جواب: وہ جانور جس میں بہنے والا خون نہ  ہو تو اس سے پانی نجس نہیں ہوگا۔(منھاج الطالبین 68)
سوال 12: پانی  کے متغیر ہونے میں کن چیزوں کا اعتبار کیا جائے گا؟
جواب: پانی کے متغیر ہونے میں  اس کے مزے یا اس کے رنگ یا اس کی بو کا اعتبار کیا جائے گا (یعنی ان میں سے کسی میں تغیر ہوا تو وہ متغیر پانی کے حکم میں ہوگا) (منھاج الطالبین 68)
سوال 13: اگر وضو کرنے والے کو اشتباہ ہوجائے کہ پانی  پاک ہے یا نجس تو وہ کیا کرےگا؟
جواب: اگر وضو کرنے والے کو یہ اشتباہ ہوجائے تو وہ اجتھاد کرے گا اور اس میں سے جس پانی کی پاکی کا غالب گمان ہو جائے اس سے طہارت حاصل کرلے۔(منھاج الطالبین 68)

نوٹ: یہ مختصر مسائل ذکر کئے گئے ہیں اگر آپ کو کسی میں کچھ تفصیلی سوال ہو تو علماء سے رجوع کریں ، نیز یہاں بھی سوال کرسکتے ہیں تاکہ ہم آگے اس سوال کی تحقیق علماء سے کرلیں اور اس کو شامل کرلیں۔ تفصیل کے لئے علماء کرام سے ربط کرلیں۔

اتوار، 27 ستمبر، 2015

طہارت کا مختصر مکمل بیان ابن ملقن شافعی

کتاب الطہارۃ
       اس کے لغوی معنیٰ نظافت ہیں،  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ" یعنی  "اور ہم نے آسمان سے تم پر پانی اتارا  تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں پاک کریں"۔(سورہ الانفال آیت ۱۱)
پانی کی قسمیں:
طھور: اور مطلق مفہوم آپ کے قول سے: ماء(پانی)
مکروہ: وهو المشمس بقطر حار في إناء منطبع. اور وہ مشمس منطبع برتن میں  (ڈھال کر بنائے جانے والابرتن )
صرف طاھر: اور وہ فرض میں مستعمل پانی جب تک کہ وہ تھوڑا ہو، اور وہ متغیر پانی جو کثیر طاھر چیز کے ملنے سے ہوا ہو۔
نجس: اور وہ جس میں نجاست ملی ہو-اور وہ دو قلہ سے کم ہو- اگر وہ ایسا مردار نہ ہو جس میں بہنے والا خون ہو، یا  اسکا طرف نہیں پایا جائے، یا وہ دو قلہ کو پہنچ جائے-اور وہ پانچ سو بغدادی رطل تقریباً ہے-اور تغیر ہوگیا۔
مشتباح پانی کا بیان:
فصل:جب پاک پانی نجس کے مشابہ ہوجائے (تو ) وہ اجتھاد کرے(غور و فکر کرے) اور اسے  پاک گمان کرے کسی علامت سے اس کی طہارت واضح ہوجائے تو اور اگر اندھا ہو- اور اسے یقین ہوجائے، اور پھر سے اجتھاد کرے جب تک وہ طاہر ہو یقین سے، اور پہلا دوسرے کی وجہ سے ناقض نہیں ہوتا۔
برتنوں کا بیان: سونے ،چاندی  کے برتنوں کا استعمال حرام ہے، اور اسی طرح ان کو لینا اور مزین کرنا حرام ہے، اور ان کے ذریعہ تضبیب زینت اور کبر کے لئے کسی ایک سے مکروہ ہے۔
مسواک کا بیان: مسواک ہر حالت میں سنت ہے اور یہ مؤکد ہوتا ہے وضو اور نماز کے وقت اور منہ کے متغیر ہونے کے وقت، اور روزہ دار کے لئے زوال کے بعد مکروہ ہے۔
نواقضِ وضو کا بیان:
وضو واجب ہوتا ہے منی کے علاوہ دونوں سبیلین سے کچھ نکلنے سے، اور بغیر متمکن سونے سے، اور نشا اور بیہوشی کی وجہ سے عقل پر غلبہ کی وجہ سے، بڑی غیر محرم عورت کو چھونے سے اور آدمی باطن کف سے (یعنی ہتھیلی) سے شرمگاہ کو چھونے سے۔
محدث(بے وضو)  کے لیے کیا چیزیں حرام ہیں اس کا بیان:
حدث کی وجہ سے پانچ چیزیں حرام ہیں
۱۔نماز،
۲۔جمعہ کا خطبہ،
۳۔طواف،
۴۔قرآن کے چھونا، اور
۵۔اس کو اٹھانا الّا یہ کہ وہ تابع ہو۔
وضو کے فرائض کا بیان:
اور وضو کے چھ فرائض ہیں:
۱،۲۔ نیت طہر پر منحصر ہو چہرہ کے کسی حصہ کو دھونے کے وقت ۔ اور وہ  یعنی چہرہ جس کے ذریعہ مواجہہ واقع ہوا ہو،  اور واجب ہے پانی کا پہنچانا اس پر کے ہر بال کے اندر تک سوائے مرد کی گھنی ڈاڑھی کے،
۳۔ دونوں ہاتھ کہنیوں کے ساتھ، پس اگر اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو باقی کا دھونا واجب ہے، اور
۴۔مسح کرنا جس پر رأس (سر)مطلق استعمال ہو، اور
۵۔دونوں پیروں کا ٹخنوں سمیت دھونا، اور
۶۔اسی طرح ترتیب سے کرنا۔
وضو کی سنتوں کا بیان:
مسنون ہے
۱۔بسم اللہ پڑھنا،
۲۔دونوں ہتھیلیوں کا دھونا اور مکروہ ہے ان دونوں کا برتن میں اس سے پہلے داخل کرنا  اگر ان دونوں کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو،
۳۔ کلی کرنا اور
۴۔ناک میں پانی داخل کرنا، اور ان کو تین چلووں میں جمع کرنا اولی (بہتر)ہے، اور
۵۔پورے سر کا مسح کرنا، اور
۶۔دونوں کانوں کا مسح اس کے سوراخ کے ساتھ، اور
۷۔انگلیوں کا خلال کرنا،
۸۔داہنے کے بائیں پر مقدم کرنا، اور
۹۔تکرار،
۱۰۔موالات یعنی ایک عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا عضو دھونا،
۱۱۔وضو کے بعد شھادتین پڑھنا۔
مسح علی الخفین کا بیان:
اور خف پر مسح کرنا-اگرچہ اوپر سے کم ہوـ غسل کے بدلے  موقت ہے ،مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات حدث سے ،اس شرط کے ساتھ کے ان دونوں کو طہارت پر پہنا ہو، اور  ان دونوں کو پہن کر چل سکتا ہو، اور پانی کے داخل ہونے کو روکتا ہو بغیر سلے ہوئے ، اور وہ دونوں پورے محل فرض (یعنی دونوں پیر ٹخنوں سمیت موزے کے اندر چھپ جائیں) کو ساتر ہوں۔
اور دھونے کی واجب مدت باطل ہوتی ہے  مدت پوری ہونے سے اور (خف کو)  اتارنے سے، پس دونوں پیروں کو دھؤے گا اگر ان دونوں(موزوں) کو مسح کی طہارت پر اتارا ہو۔
استنجاء کا بیان:
 استنجاء واجب ہے پانی یا پتھر کے ذریعہ اور ان دونوں کو جمع کرنا افضل ہے، اور واجب ہے تین مرتبہ مسح کرنا چنانچہ اگر صاف نہ ہو تو زائدہ کرے۔
اور صحراء و بیابان میں قبلہ کی جانب رخ کرنے اور پیٹھ کرنے سے بچیں کسی چیز کے حائل کے بغیر۔
سوراخ،ٹہرے ہوئے پانی،ہوا چلنے کی جگہ،پھلدار درخت کے نیچے،سائے دار درخت کے نیچے،بیچ راستے میں اور بات کرتے وقت بول کرنا مکروہ ہے۔
اور مسنون ہے داخل ہوتے وقت یہ کہے: " باسم الله، اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث " ترجمہ: اللہ کے نام سے، اے پروردگار میں مذکر و مؤنث شیطان سے آپکی پناہ چاہتا ہوں"۔اور نکلتے وقت:" غفرانك "
جنابت کے غسل کا بیان:
غسل کے موجبات موت،حیض،نفاس اور ولادت بغیر خون کے، اور جنابت:حشفہ یا اس کے بقدر فرج  میں داخل ہونے سے، اور منی کے خروج سے۔ اور اس (منی) کے خواص اچھل کرنکلنا،نکلتے وقت لذت کا حاصل ہونا اور بو ہے۔
غسل کے فرض: نیت،پانی کا بال اور جلد تک پہچانا ہے۔
اور اس کی سنتیں: وضو کرنا،رگڑنا،تکرار،پے در پے، حیض کے اثر کو مشک سے لاحق کریں یعنی غسل کے بعد روئی جیسی چیز میں خوشبو لیکر اپنے فرج میں داخل کرے ورنہ اسی طرح
جنبی پر کیا چیزیں حرام ہیں ان کا بیان:
جنابت سے وہ چیزیں حرام ہوتی ہیں جو حدث سے حرام ہوتی ہیں اور (مزید) قرآنِ کریم کی تلاوت اور مسجد میں رہنا (بھی )حرام ہے۔
مسنون غسلوں کا بیان:
پندرہ غسل مسنون ہیں: وہ یہ ہیں
۱۔جمعہ،
۲،۳۔عیدین،
۴،۵۔سورج و  چاند گہن،
۶۔استسقاء،
۷۔میت کو غسل دینے والے شخص کا غسل،
۸۔کافر کا جب وہ اسلام قبول کرلے اس حالت میں کے وہ جنبی نہ ہو،
۹،۱۰۔مجنون اور بیہوش شخص جب اس کو افاقہ ہوجائے،
۱۱۔احرام کے لئے،
۱۲،۱۳۔ مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے کے لئے،
۱۴۔وقوف(عرفہ) کے لئے،
۱۵۔ایامِ تشریق میں رمی کے لئے۔
نجاست کو صاف کرنے کا بیان:
ہر نشہ والی چیز نجس ہے اور اسی طرح منی کے علاوہ جو بھی سبیلین(آگے اور پیچھے کی شرمگاہ ) سے نکلے نجس ہے، چنانچہ اس کا دھونا واجب ہے سوائے چھوٹے بچے کے پیشاب کے جو دودھ کے سوا کچھ بھی نہ کھاتا ہو پس اس پر پانی چھڑکیں۔ اور کتا ، خنزیر  اور ان کی فرع(نسل) کے علاوہ تمام حیوان پاک ہیں۔
اور تمام مردار نجس ہیں سوائے مچھلی ،ٹڈی اور آدمی کے۔ اور مردار کے بال اور اس کی ہڈی نجس ہے سوائے آدمی کے بال کے۔
کتا یا خنزیر (کے جھوٹے) کو سات مرتبہ  دھونا ان میں ایک مرتبہ مٹی سے، اور (باقی)تمام نجاستیں ایک مرتبہ دھوئی جائے گی اور تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔
نجس العین پاک نہیں ہوگی سوائے اس شراب کے جو  خود بہ خود سرکہ بن  گئی اور  وہ چمڑا جو موت کی وجہ سے نجس ہوا ہو تو وہ دباغت سے  پاک ہوجائے گا۔
تیمم کا بیان
تیمم کی شرط پانی کا نہ پایا جانا ہے یا اس کے استعمال کرنے سے معذور ہونا ہے کسی بیماری کے ساتھ جس سے وہ ڈرے  اور وقت کا داخل ہونا اور پانی کا طلب کرنا وہم کے وقت، اور پاک مٹی۔
تیمم کے فرائض:
۱۔فرض کی نیت ،
۲۔چہرے کا مسح کرنا اور
۳۔دونوں ہاتھوں کا مسح کرنا کہنیوں تک، اور
۴۔ترتیب۔
تیمم کی سنتیں:
۱۔ تسمیہ،
۲۔داہنے کو مقدم کرنا اور
۳۔پے در پے کرنا۔
تیمم کو باطل کرنے والے اشیاء:
۱۔ ہر وہ چیز جو وضو کو باطل کرتی ہے، اور(مزید)
۲۔نماز کے علاوہ میں پانی کا پایا جانا، یا ایسی نماز میں پانی کا پایا جانا جس سےساقط نہیں ہوتای،اور
۳۔مرتد ہونا۔
 اور ہر فرض کے لئے تیمم کرے گا۔
جبائر(پٹی) والا اس پر مسح کرے گا تیمم کے ساتھ اور اس کو نہیں لوٹائے گا اگر اس کو باندھا ہو طہارت کی حالت میں اگر وہ اعضاء تیمم میں نہ ہو، اور اس  (نماز) کو لوٹائے گا فاقد الطہورین(ایسا شخص جس کو پانی اور مٹی دونوں نہ ملے)،اور تیمم نادر جگہوں میں جس میں پانی کمیاب یا نایاب ہو،اور مسافر کے لئے جو گناہ کے کام کے سفر میں ہو اور سخت سردی کی وجہ سے ان سب پر اعادہ کرنا واجب ہے

حیض،نفاس اور استحاضہ کا بیان
حیض کی کم سے کم ایام-اور وہ(حیض) خارج ہوتا ہے صحت کے راستے سے ولادت کے سبب کے علاوہ سے- ایک دن اور ایک رات ہے، اس شرط کےساتھ کہ  اس کو دیکھا ہو تقریباً نو ۹ سال (کی عمر)کے بعد اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن اور پندرہ راتیں ہیں، اور طھر (پاکی)کی کم سے کم مدت دو حیضوں کے درمیان کا فصل ہے یعنی پندرہ دن اور اس کی اکثر مدت کی کوئی حد نہیں، اور اس کا غالب حیض کے غالب کا بقیہ ہے اور حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینہ ہیں اور اکثر مدت چار سال ہے۔
اور نفاس کی اقل مدت-اور یہ وہ خون ہے جو ولادت کے بعد جاری ہوتا ہے- ایک لحظہ (تھوڑی دیر) ہے، اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن ہے اور غالب چالیس یوم ہے۔
اور استحاضہ: خون کا ان دونوں (حیض و نفاس)کے علاوہ جاری ہونا، چنانچہ اگر وہ مبتداہ ہے رکتا ہے ایک دن اور ایک رات میں تو حیض میں اور باقی مہینہ طہر میں، یا معتادہ ہے تو اس کی عادت، یا ممیزہ ہے تو اس کی تمییز یا متحیرہ ہے تو  وہ احتیاظ کرے گی۔
حیض و نفاس کی وجہ سے کیا حرام ہوتا ہے اس کا بیان:

حیض و نفاس کی وجہ سے وہ حرام ہوتا ہے جو جنبی ہونے کی وجہ سے حرام ہوتا ہے اور (مزید) روزہ، مسجد میں داخل ہو نا اگر اس کے آلودہ کرنے کا ڈر ہو، وطی،فائدہ اٹھانا جو ناف اور گھٹنوں کے درمیان ہو اور طلاق۔
(التذکرہ فی الفقہ الشافعی لابن ملقن مترجم فرحان باجرائی شافعی)

ہفتہ، 26 ستمبر، 2015

مکمل مختصر نماز کا طریقہ ابن ملقن الشافعی

کتاب الصلاۃ
(اس کا لغوی معنیٰ)یہ دعا ہے، اور فرض نمازیں پانچ ہیں۔
نماز کے اوقات:
ظہر: اور اس کا اول وقت زوالِ شمس ہے اور اس کا آخر وقت (ہر) چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجانا استواء کے سائے کے علاوہ، اور اسی وقت عصر کا وقت داخل ہوتا ہے، اور مختار یہ ہے کے اس کا وقت(عصر کا) سائے کے دوگنا ہونے تک رہتا ہے اور جواز کا وقت غروب تک ہے، او ر تب ہی  مغرب کا وقت داخل ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے طہارت ،ستر عورت ، اذان و اقامت اور پانچ رکعات پڑھنے کے بقدر۔ اور اس کے لئے برقرار رکھا گیا ہے شفق احمر غائب ہونے تک، اور اسی وقت عشاء کا وقت داخل ہوتا ہے اور مختار ایک تہائی ہے اور جواز طلوعِ فجر ثانی تک ہے اور وہ صادق ہے، اور اسی وقت فجر کا وقت داخل ہوتا ہے، اور مختار قول اسفار ہے اور جواز کا وقت طلوعِ شمس تک ہے۔
نماز کے واجب ہونے کے شرائط کا بیان:
اس کے واجب ہونے کی شرطیں: اسلام،بلوغ،طہارت ہے پس نماز واجب نہیں حائضہ ، نفساء پر۔ اور نماز کا حکم دیا جائے گا سات سال سے اور مارا جائے نماز کے چھوڑنے پر دس سال کی عمر سے جیسے روزہ جب وہ طاقت رکھتا ہو۔
مسنون نمازوں کا بیان
اور مسنون نمازیں پانچ ہیں،
(۱-۵) عیدین، سورج گہن  و چاند گہن کی نماز اور استسقاء کی نماز۔
اور سننِ راتبہ مؤکدہ دس  رکعت ہیں۔
۱۔فجر سے پہلے  دو رکعتیں،
۲۔ ظہر سے پہلے دو  رکعتیں اور
۳۔ ظہر کے بعد  دو رکعتیں ،
۴۔مغرب کے بعد دو رکعتیں
۵۔عشاء کے بعد دو رکعتیں۔
اور سنتیں ۔ چار ظہر سے پہلے اور اس کے بعد، اور عصر سے پہلے اور وتر کم سے کم ایک رکعت، اور کمال سے قریب  یہ ہے کہ تین رکعتیں دو سلام سے پڑھیں اور اس کی انتہاء گیارہ رکعتیں ہیں۔
اور تین نفلیں مؤکدہ ہیں: تہجد- اور وہ  رات کی نماز ہے اگر چہ کم ہو- اور چاشت کی نماز- اور یہ کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں- اور تراویح اور یہ بیس رکعات ہیں-مدینہ والوں کے علاوہ کے لئے- دس سلام کے ساتھ۔
(نماز کا )انکار کرنے والے کا بیان
جس نے فرض کا انکار کیا اس پر ظاہراً جمع ہے، اس نے کفر کیا۔ یا اس کو سستی سے تر ک کیا تو اسے قتل کیا جائے گا جب اس کو  نکالے ضروری وقت سے (یعنی ایک نماز کے وقت ختم ہونے تک اسنے کاہلی سے نماز ادا نہ کی )اور روزے میں اسے قید کیا جائے گا اور افطار سے روکا جائے گا۔
نماز کی شرطوں کا بیان
نماز کی چھ شرطیں ہیں۔
۱۔ نماز کے فرائض کی معرفت ہونا، اور
۲۔ اس لہ سنتوں کی معرفت ہونا
۳۔ وقت کی معرفت ہونا،
۴۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا سوائے خوف کی نماز اور سفر کی نفل کے اور
۵۔حدث اور خبث سے پاک ہونا، اور
۶۔ ستر کا ڈھانکنا ،  اور
ستر:مرد اور باندی کا ستر ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ہے اور آزاد عورت کا ستر چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ (پورا جسم )ہے۔
نماز کے ارکان کا بیان
نماز کے ارکان دس ہیں:-
۱۔ نیت، اور وہ فعل ، فرض  کا قصد اور تعیین ہے- اور شرط نہیں لگائی جائے گی نفل ِمؤقت میں نفل کے ارادہ کی، اور شرط لگائی جائے گی اس کے علاوہ میں صرف فعل کے قصد کی۔
۲۔  قیام فرض نماز میں قادر شخص پر
 پس اگر عاجز ہو تو اس پر اس کے حال کے مطابق،
 اور قادر شخص نفل میں بیٹھ کر،ا ور کروٹ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے، نہ کہ اشارہ اور چت لیٹ کر۔
۳۔تکبیرِ تحریمہ "اللہ اکبر " یا "اللہ الاکبر"۔
۴۔ سورہ فاتحہ کا پڑھنا ہر رکعت میں سوائے مسبوق کی رکعت میں اور بسم اللہ اس(سورہ فاتحہ) میں سے ہے اور اس کی تشدیدات اور اس کے حروف کی رعایات اور اسی طرح اس کا بدل۔
۵۔ رکوع، اور اس سے اٹھنا اور
۶۔ سجدے اور اس سے اٹھنا، پھر سجدے کرنا، اور  تمام اطمینان سے ادا کرنا  اور
۷۔جلسہ اخیرہ اور
۸۔اس میں تشہد اور
۹۔نبی کریم ﷺ پر درود اور
۱۰۔پہلا سلام۔
نماز کی سنتوں کا بیان
نماز سے پہلے کی سنتیں:
اذان اور اقامت اور وہ دونوں سنتِ کفایہ  فرض نمازوں میں،
نماز کی سنتیں:
۱۔تکبیرِ تحریمہ ،رکوع،اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین(دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) کرنا،
۲۔داہنا ہاتھ بائیں پر رکھنا، اور
۳۔ دعاء استفتاح، اور تعوذ ہر رکعت میں  پڑھنا اور
۴۔جہر وسر اس کی جگہ میں(یعنی جہری نماز میں جہر اور سری میں سر)، اور
۵۔آمین اور
۶۔(ضمّی )سورہ کی تلاوت، اور
۷۔تکبیر ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت، اور
۸۔سمع الله لمن حمده  ربنا لک الحمد کہنا اور
۹۔رکوع اور سجدوں میں تسبیح پڑھنا، اور
۱۰۔ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا جلوس میں ،
۱۱۔ بائیں ہاتھ کو پھیلا کر رکھنا اور داہنے ہاتھ کو بند رکھنا مسبحہ(شہادت کی انگلی) کے سوا،
۱۲۔ اس (شہادت کی انگلی )کو اٹھانا اپنے (تشہد میں) إلا الله کہنے کے وقت، اور  
۱۳۔پہلا تشہد، اور
۱۴۔تمام جلوس میں افتراش  کی کیفیت میں بیٹھنا سوائے قعدے اخیرہ کے چنانچہ اس میں تورّک کریں گے،
۱۵۔ اور صبح(فجر) کی نماز میں دعاء قنوت  پڑھنا اور رمضان کے آخر نصف کی وتر کی نماز میں  دعاء قنوت پڑھنا، اور
۱۶۔ پہلا قعدہ۔
عورت کیا مختلف کرے گی اس میں مرد سے کا بیان
اور عورت آدمی سے مختلف کرے گی رکوع اور سجود میں (ہاتھ پہلو سے )جدا رکھنے میں، پس وہ (عورت) ان کو (ہاتھ کو پہلو سے)ملائے گی، اور
۲۔جہر (قرأت )میں آدمیوں کی موجودگی میں وہ آہستہ کرےگی، اور
۳۔عارض کی موجودگی میں تسبیح میں وہ (یعنی عورت) تصفیق کرے گی یعنی بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ مارے گی۔ اور
۴۔اس کا ستر اس کا بیان گذر چکا ہے۔
نماز کے مبطلات کا بیان
اور نماز کو باطل کرتی ہے
۱۔عمداً کلام کرنا،
۲۔ عملِ کثیر،
۳۔ حدث،اور
۴۔نجاست کا لگ جانا  بغیر ازالہ کے حالاً،
۵۔ ستر کا کھل جانا،
۶۔ نیت کا متغیر ہو جانا،
۷۔ قبلہ سے پھر جانا،
۸۔ کھانا،
۹۔پینا،
۱۰۔قہقہہ لگانا آواز سے، اور
۱۱۔مرتد ہونا۔
نماز میں جو ہے اس کا اجمالاً بیان
فرض نمازوں کی رکعات سترہ ہیں، ان میں چونتیس سجدے اور ۹۴ تکبیریں اور ۹ تشہد اور دس سلام ہیں۔ اور دو رکعت والی نماز میں جملہ اکیس (۲۱) ارکان ہیں اور  تین رکعت والی نماز میں جملہ اٹھائیس (۲۸) ارکان  ہیں اور چار رکعت والی نماز میں پینتیس (۳۵) ارکان ہیں۔
سجدے سہو کا بیان
جو کوئی فرض چھوڑ دے تو اس کو ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، چنانچہ اگر قریب میں ہی یاد آجائے تو اس پر بناء کرے گا ورنہ از سر نو اداکرے گا،
 اور اگر کوئی سنت چھوڑے اس کی طرف نہیں لوٹے گا اس کے محل چھوٹ جانے کے بعد، اور اگر کوئی سنت بعض(سنت ابعاض)   چھوڑے جیسے دعاء قنوت  سہو کا سجدہ کرے گا، اور جب شک واقع ہو رکعات کی تعداد میں تو کم پر بناء کرے گا اور سہو کے لئے سجدہ کرے گا، اور اس کی (سجدہ سہو کی) جگہ  سلام سے پہلے ہے۔
اوقاتِ منہیہ کا بیان
نماز حرام ہے بغیر  سبب والی (یعنی نفل)
۱۔ (سورج کے)طلوع کے وقت  ،
۲۔ غروب کے وقت  اور  
۳۔ استواء کے وقت سوائے جمعہ کے  دن (یعنی جمعہ کے دن استواء کے وقت نماز حرام نہیں ) ،
۴۔ فجر کے بعد طلوع  شمس تک اور
 ۵۔عصر کی نماز کے بعد غروب تک،
اور نماز  باطل ہوجاتی ہے ۔ اور کوئی چیز ان میں سے مکروہ نہیں مکۃ المکرمہ میں۔
جماعت کی نماز کا بیان
جماعت فرض نمازوں میں سنت ہے، اور امام کی اقتدا  کی نیت کرنا  ضروری ہے، اور  مرد اور خنثیٰ (ہجڑے )کی اقتدا  عورت کے پیچھے صحیح نہیں ہوگی،  اور (مرد اور خنثیٰ )غلام کی اور  ممیّز بچہ کی اقداء کرے گا، اور آزاد اور بالغ ان دونوں سے اولیٰ ہیں۔
اور اُمِّی امی کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوگی، اور وہ(امی) شخص ہے جو سورہ فاتحہ پڑھنے میں غلطی کرتا ہو۔
اور جب  دونوں مسجد میں جمع ہوجائیں (یعنی امام و مقتدی) تو اقتدا ءصحیح ہے جب تک کہ وہ  (مقتدی) اس (امام) کے آگے نہ بڑھ جائے۔اور جب وہ نماز پڑھائے اس (مسجد )کے باہر جائز ہے اس کی نماز جب تک کہ ان دونوں کے درمیان کچھ حائل نہ ہوالا یہ کہ(اس صورت کے) ان (امام اور مقتدی کے درمیان  ۳۰۰  ذراع(ہاتھ) کا فاصلہ ہو جائے (تو  اقتداء درست نہیں ہوگی)۔
قصر اور جمع کا بیان
طویل مباح سفر میں رباعیات(چار رکعات والی نماز) کا قصر کرنا جائز ہے۔اور وہ دو مرحلہ ہیں سواری کے سفر کے ذریعہ(تقریباً ۴۸ میل)، اور تکبیرِ تحریمہ کے وقت قصر کی نیت کرنا ضروری ہے، اور  بقیہ (نماز میں)اس کے منافی چیزوں سے بچنا ضروری ہے ۔
اور جمع تقدیم اور جمع تأخیر  دونوں جائز ہے سوائے بارش کی صورت میں پس اس میں جمع تاخیر منع ہے۔
جمعہ کا بیان
جمعہ فرضِ عین ہے  ان شرائط کے ساتھ
۱۔اسلام یعنی مسلمان ہونا،
۲۔بالغ ہونا،
۳۔عقل والا ہونا،
۴۔آزاد ہونا،
۵۔مذکر  ہونا،
۶۔صحتمند ہونا اور
۷۔مقیم  ہونا۔
جمعہ ادا کرنے کے شرائط:
۱۔شہر،
۲۔چالیس لوگ ہو اسی شہر کے جو بغیر ضرورت کے وہاں سے منتقل نہ ہوتے ہوں ، اور
۳۔وقت کا ہونا۔
جمعہ کے فرائض:  
۱۔نماز سے پہلے دو خطبے  دینا اور
۲۔ان دونوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرنا، اور
۳۔ان دونوں خطبوں کا مکمل چالیس لوگوں کا سننا۔
جمعہ کی سنتیں:
۱۔ غسل کرنا،
۲۔ خوشبو لگانا،
۳۔سفید لباس پہننا،
۴۔سکون و وقار کے ساتھ چلنا، اور
۵۔کوئی اس حالت میں داخل ہو کے امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو مختصر رکعات (تحیۃ المسجد)نماز پڑھے پھر بیٹھے۔
عیدین کا بیان
عیدین کی نماز سنت ہے، پہلی رکعت میں  سات (زائد)تکبیریں کہے تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ، اور دوسری رکعت میں چھ تکبیریں کہے قیام کی تکبیر کے علاوہ، اور اس کے بعد دو خطبے دے۔
اور (عید کی )تکبیر (اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔)کہیں گے عید کی رات سورج غروب ہونے سے لے کر نماز میں داخل ہونے تک، اور عید الاضحیٰ میں ہر فرض نماز کے بعد یوم النحر کے ظہر سے ایام تشریق کے آخر تک، اور مختار قول عرفہ کے دن کی فجر سےتکبیرات  شروع کریں  گے اور ایام ِ تشریق کے آخر کی عصر میں ختم کریں گے۔
کسوف (گہن کی نماز) کا بیان
اور گہن کی دو رکعتیں پڑھیں گے، ہر رکعت میں دو قیام اور دو رکوع ہوں گے، قراءت اور تسبیح کو لمبا کریں گے، اور اس کے بعد(نمازکے بعد)  خطبہ دیں گے، سورج گہن میں قراءت سراً(آہستہ) اور چاند گہن میں قراءت جہراً(آواز) سے کریں گے۔
استسقاء کی نماز کا بیان
اور صلاۃ الاستسقاء  حاجت کے وقت متأکد ہوجاتی ہے، امام لوگوں مظالم سے نکلنے اور تین دن روزہ رکھنے کا حکم دے، اور چوتھے دن ان کے ساتھ عاجز و ذلیل ہوکر روزہ کی حالت  میں پرانے کپڑوں میں نکلے، اور دو رکعت نماز عید کی نماز کی طرح ادا کرے، اور خطبہ دے اور اپنی چادر کو تحویل و تنکیس کرے، اور کثرت سے دعا اور استغفار کرے۔
تحویل یعنی چادر کو وہ حصہ جو دائیں کندھے پر ہو اسے بائیں کندھے پر ڈالے اور جو بائیں کندھے پر ہو اسے دائیں کندھے پر ڈالے۔
تنکیس یعنی چادر کے اوپری حصہ کو نیچے کرنا اور نچلے حصہ کو اوپر کرنا۔
خوف کی نماز کا بیان
اور خوف کی نماز جائز ہے بطن نخل،ذات الرقاع اور عُسفان کے طریقہ پر،اور  مقابلہ کرنے والا پس وہ اس کے حال کے مطابق نماز پڑھے گا قبلہ کی طرف یا اس کے علاوہ رخ کر کے۔
لباس کا بیان
مردوں پر  ریشم کا استعمال اور وہ کپڑا جس میں ریشم کی مقدار زیادہ ہو حرام ہے، اور اسی طرح سونا مگر ضرورت کے وقت، رہی بات عورت کی تو اس کے لئے (جائز ہے) اس کا پہننا اور اس کو بچھانا۔
جنازے کا بیان
 میت کو غسل دینا ،اس کو کفن پہنانا ،اس پر نماز پڑھنا اور اس کو دفن کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ اور شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا، اور نہ ہی اس پر نماز پڑھی جائے گی، اور اس کو دفن کرنا فرضِ کفایہ ہے، اسی طرح چھوٹا بچہ جس کو دست نہ آئے  (اور نہ روئے)۔
اور اس پر پانی کا بہانہ واجب ہے نجاست کے ازالہ کے بعد، اور مستحب ہے کہ تین مرتبہ پانی اور بیری کا  استعمال کرے، اور آخر میں کافور (پانی میں)ملائے اور تین سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔ اس میں ایک قمیص  ہوگی عمامہ نہ ہوگا۔
اور (نمازِ جنازہ  میں) اس پر چار مرتبہ تکبیر کہی جائے گی، پہلے تکبیر کے بعد قراءت کی جائے گی، اور دوسری تکبیر کے بعد نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا جائے گا اور اس سے  پہلے الحمد للہ کہنا مستحب ہے، اور اس کے بعد مومنین اور مومنات کے لئے دعا ہے اور میت کے لئے دعا کریں گے تیسری تکبیر کے بعد اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیریں گے۔
اور اس کو لحد میں قبلہ کی جانب رخ کر کے دفن کریں گے، اور قبر کو ہموار کیا جائے  اور چونا نہیں لگایا جائے ، اور اس پر رونے میں کوئی حرج نہیں ہے  بغیر نوحہ و ندب کے(نوحہ کہتے ہیں واویلا کرکے رونے کو اور ندب کہتے ہیں محاسن بیان کرتے ہوئے رونے کو)۔

اور میت کے اہل اس کے دفن سے تین دن تک تعزیت کی جائے گی۔

(التذکرہ فی الفقہ الشافعی لابن ملقن مترجم فرحان باجرائی الشافعی)