جمعہ، 3 جولائی، 2015

مسائلِ زکوٰۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
زکات کے معنیٰ عربی زبان میں لفظ "زکات" پاک صاف کرنے، نشو ونما،برکت اور کثرتِ خیر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
شرعاً  مخصوص طریقہ سے مال یا بدن کی جانب سے نکالی جانے والی چیز کو "زکات" کہتے ہیں کیوں کہ زکات مال کو پاک کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو گناہ سے پاک کرنے اور مال کے اضافہ واصلاح اور آفات سے بچانے کا سبب ہے۔ زکوٰۃ کی مختلف قسمیں ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
زکات کی فرضیت: قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے اور یہ اس کا دینی اہم رکن ہونا بالکل قطعی اور واضح ہے۔ لہٰذا جو زکات کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہوجائے گا۔(بشرہ الکریم  2/40)
جو زکات کی فرضیت کا قائل ہو لیکن ادا نہ کرے وہ فاسق اور گنہگار ہے، آخرت میں سخت عذاب اسے ہوگا اورحکومتِ اسلامیہ قہراً و جبراً اس سے زکات وصول کرے،چاہے اس کے لئے قتال کی نوبت آئے جیسا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے طرز سے واضح ہے۔(بخاری و مسلم)(الفقہ المنھجی ۲/۱۴)
قرآنِ کریم و احادیثِ شریفہ میں زکات کا حکم
آیاتِ قرآنیہ
۱) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ اور قائم رکھو نماز کو اور دیتے رہو زکوٰۃ(سورہ بقرہ ۴۳،۱۱۰)
۲)خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا"لیجئے ان کے مال میں سے صدقہ(زکوٰۃ)  اس کے ذریعہ ان کو پاک کرے اور ان کا تزکیہ کرے"(سورہ التوبہ ۱۰۳)
۳)وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ "اور جو لوگ گاڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں(مثلاً زکوٰۃ نہ دیں اور حقوقِ واجبہ نہ نکالیں) تو ان کو خوش خبری سنا دیجئے دردناک عذاب کی۔"(سورہ التوبہ آیت ۳۴)
احادیثِ شریفہ:
۱)حدیثِ جبرئیل علیہ السلام میں جب انہوں نے آپ ﷺ سے اسلام کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" اسلام یہ ہے کہ تم توحید و رسالت کی گواہی دو اور نما قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بصورتِ استطاعت بیت اللہ کا حج کرو۔(متفق علیہ)
۲) صحیحین کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے اوپر کی پانچوں باتوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے۔
۳)  جس کو اللہ نے مال دیا پھر وہ اس کی زکوٰۃ نہ دے تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا، آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے والا سانپ بن جائے گا(یعنی خطرناک اور بہت زہریلا سانپ) اور اس کے گلے کا طوق بنایا جائے گا۔ پھر وہ اس کے جبڑے کو گرفت میں لے کر (ڈسے گا) اور کہے گا میں تیرا مال ہوں اور میں تیرا خزانہ ہوں پھر یہ آیت تلاوت فرمائی  وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَالخ(صحیح بخاری)
۴) کسی کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور ان کا حق(زکوٰۃ) ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ان جانوروں کو سب سے زیادہ بڑی اور موٹی شکل میں لایا جائے گا۔(پھر یہ جانور مالک کو) اپنے کھروں سے روندتے اور سینگوں سے مارت رہیں گے۔ جب آخری جانور گذرے جائے گا تو پھر پہلا لایا جائے گا( اور یہ سلسلہ سزا اور رسوائی کا جاری رہے گا) جب تک کہ لوگوں کا فیصلہ نہ ہوجائے۔"(متفق علیہ)
۵) جس مال میں زکوٰۃ شامل ہوگا (یعنی جس میں سے زکوٰۃ ادا نہ کی گئی یا بغیر حق کے جس نے زکوٰۃ لے کر اپنے مال میں اسے شامل کیا) وہ برباد ہوجائے گا۔(الشافعی،البخاری فی تاریخہ،حمیدی)
سونے چاندی کی زکوٰۃ
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ:"اور جو لوگ گاڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں(مثلاً زکوٰۃ نہ دیں اور حقوقِ واجبہ نہ نکالیں) تو ان کو خوش خبری سنا دیجئے دردناک عذاب کی۔"(سورہ التوبہ آیت ۳۴)
مسئلہ:آیت میں کنز سے وہ مال مراد ہے جس کی زکوٰۃ نہ ادا کی گئی ہو۔زکوٰۃ ادا کردی جائے تو وہ شرعاً کنز نہیں ہے چاہے مدفون ہو یا نہ ہو۔"(الحاوی ۳/۷۲)
مسئلہ:۲۰ مثقال  سونے اور ۲۰۰ درہم چاندی پر سال غذرجائے تو چالیسواں حصہ (۱/۴۰) زکوٰۃ واجب ہے۔
احادیث:
۱)"پانچ اوقیہ (۲۰۰ درہم) سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔"(متفق علیہ)
۲) پانچ اونٹ سے کم میں کچھ واجب نہیں اور ۲۰ مثقال (سونے)سے کم میں کچھ واجب نہیں اور ۲۰۰ درہم (چاندی) سے کم میں کچھ واجب نہیں۔(دار قطنی)
۳)(سونے میں) تم پر کچھ واجب نہیں یہاں تک کہ ۲۰ دینار ہوجائے، تمہارے پاس ۲۰ دینار ہو اور اس پر سال گذر جائے تو اس میں سے نصف دینار واجب ہے، زائد ہو تو اس مین بھی اسی حساب سے نکالے۔"(ابو داؤد،ترمذی)(تلخیص الحبیر)
بخاری  میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے "چاندی میں چالیسواں حصہ واجب ہے۔" چونکہ سونا اور چاندی منجانب اللہ سائمہ جانوروں کی طرح اضافہ کے لئے مہیہ کئے گئے ہیں اس لئے اس میں زکوٰۃ واجب کیا گیا ہے۔
مسئلہ: مذکورہ نصاب سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔
مسئلہ:اگر ملاوٹ ہو تو ملاوٹ بغیر خالص سونے یا چاندی کی مقدار نصاب کے برابر ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔
مسئلہ: سونے چاندی کے علاوہ ہیرے جواہرات وغیرہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں اس پر زکوٰۃ کا تذکرہ نہیں ہے اور یہ اشیاء کام کاج اور استعمال کے جانوروں کی طرح استعمال کے لئے مہیا ہیں۔
مسئلہ: سال مکمل ہونے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
دورِ حاضر میں نصاب
۱) فقہ شافعی میں دورِ حاضر کی ایک مشہور اور معتبر کتاب "الفقہ المنھجی" میں سونے کا نصاب ۹۶ گرام اور چاندی کا نصآب ۶۷۲ گرام قرار دیا ہے۔(الفقہ المنھجی ۲/۳۱)
۲) دکتور وہبہ زحلی نے سونے کا نصاب ۹۶ گرام( یا درہم کا اعتبار کرتے ہوئے ۸۵ گرام) اور چاندی کا نصاب تقریباً ۶۴۲ گرام قرار دیا ہے۔(الفقہ الاسلامی ۲/۷۵۹)
۳)فقہ الزکوٰۃ میں علامہ یوسف القرضاوی کی تحقیق کے مطابق ایک ۲ء۹۷۵ گرام اور ایک دینار ۴ئ۲۵ گرام کے مساوی ہے ، لہٰذا سونے کا نصاب ۸۵ گرام اور چاندی کا نصاب ۵۹۵ گرام ہوگا۔(فقہ الزکوٰۃ القرضاوی ۱/۲۶۰)
نوٹ: احتیاطاً کم مقدار کو اختیار کرنا بہتر ہے۔
مسئلہ: سونے چاندی کی حرام اشیاء جیسے برتن اور مکروہ جیسے زینت کی خاطر چاندی کا معمولی سا جوڑا اور پیوند یا حرام و مکروہ زیور میں زکوٰۃواجب ہے۔
زیورات میں زکوٰۃ
مباح اور جائز زیورات میں زکوٰۃ واجب نہیں( جیسے عورتوں کے کنگن) جب کہ مالک کو اس کا علم ہو اور ذخیرہ اور خزانہ کی نیت نہ ہو۔ کیوں کہ سونا چاندی میں زکوٰۃ کا تعلق ان سے جائز انتفاع سے بے نیازی سے ہے نہ کہ ان کے جوہر(اور اصل مادے) سے، کیوں کہ ان کی ذات میں کوئی غرض نہیں ہے۔ لہٰذا انتفاع ہی نہ ہو یا مکروہ  وحرام ہو تو زکوٰۃ واجب ہے۔ اور جائز انتفاع کی صورت میں واجب نہیں کیوں کہ وہ کام کاج کے جانوروں کے مشابہ ہے۔
دلائل:
۱)حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ "ہمارے علم میں کسی بھی خلیفہ نے زیورات کی زکوٰۃ کا حکم نہیں دیا۔"(ابن ابی شیبہ)
۲)حضرت ابن عمرؓ اپنے بیٹیوں اور کنیزوں کو سونے کے زیورات پہناتے اور اس کی زکوٰۃ نہ نکالتے۔(مؤطا امام مالکؒ)
۳)حضرت عائشہؓ اپنے زیر پرورش یتیم بھتیجیوں کے زیورات کی زکوٰۃ نہ نکالتیں۔(مالک،الشافعی)
۴) ایک شخص نے جابرؓ سے زیورات کے متعلق پوچھا تو فرمایا"اس کی زکوٰۃ عاریت دینا ہے۔"(الشافعی،البیھقی)
۵)امام بیھقیؒ نے حضرت جابرؓ سے اور امام دارقطنی و بیھقی نے حضرت انسؓ اور حضرت اسماءؓ سے زیورات میں عدم زکوٰۃ کو نقل فرمایا۔"(تلخیص الحبیر ۲/۱۸۹)
مسئلہ:مالک کو زیورات کا علم نہ مثلاً وراثت میں مباح (جائز) زیور ملے اور سال غذرنے تک اسے اس بات کا علم نہ  ہوا تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے، کیوں کہ اس نے مباح استعمال کے لئے رکھنے کی نیت نہیں کی۔
مسئلہ:اگر کوئی ذخیرہ اور خزانہ کی نیت سے زیورات رکھے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے۔

(مأخوذ ملخصاً تحفة الباری فی الفقه الشافعی ازشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم بن علی خطیب حفظہ اللہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں