جمعہ، 18 ستمبر، 2015

قربانی کے مسائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اُضحیہ(قربانی)
۱۰/ذو الحجہ سے ایامِ تشریق کے آخر تک اللہ سے تقرب حاصل کرنے کے لئے جو مویشی ذبح کیا جاتا ہے اسے اضحیۃ (قربانی کہتے ہیں)۔ یہ دراصل ضَحوَۃ   سے ماخوذ ہے یعنی دن کا ابتدائی حصہ، کیوں کہ اس کا ابتدائی وقت وہی ہے۔
مشروعیت:- عیدین ،زکوٰۃ اور صدقہ فطر کی طرح یہ بھی      ۲؁ھجری میں مشروع ہوا۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے اس کی مشروعیت ثابت ہے۔
آیت: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الکوثر :۲)
ترجمہ: "سو آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔"
نوٹ: اس آیت میں اصح قول کے اعتبار سے نحر سے قربانی کے جانوروں کو نحر کرنا مراد ہے۔
۱۔ یوم النحر یعنی ۱۰ ذو الحجہ کو سب سے پسندیدہ عمل:
مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِقُرُونِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ، لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا»
 آپ ﷺ نے فرمایا :" یوم النحر (۱۰/ذو الحجہ) میں ابن آدم نے (قربانی کے جانور کا) خون بہانے سے محبوب تر کوئی عمل نہیں کیا، اور بلاشبہ وہ بروزِ قیامت اپنے سینگ، کھُر اور بالوں سمیت آئے گا اور یقیناً اس کا خون روئے زمین پر گرنے سے پہلے بارگاہِ الیی میں پہنچ جائے گا اور (قبولیت سے سرفراز ہوگا) پس اسے خوش دلی سے انجام دو۔(ابن ماجہ ۳۱۲۶ ، ترمذی حدیث نمبر ۱۴۳۹حسنہ)
۲۔ قربانی ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت:-
 عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: «قُلْت: أَوْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: سُنَّةُ أَبِيكُمْ إبْرَاهِيمَ، قَالُوا: مَا لَنَا مِنْهَا؟ قَالَ: بِكُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَةٌ، قَالُوا: فَالصُّوفُ؟ قَالَ: بِكُلِّ شَعْرَةٍ مِنْ الصُّوفِ حَسَنَةٌ»
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت قرار دیا اور فرمایا کہ اس کے ہر بال اور اون میں ایک ایک نیکی ملے گی۔(مسند احمد۱۹۲۸۳ ،ابن ماجہ ۳۱۲۷ بسند ضعیف)
۳۔ جو وسعت کے بعد قربانی نہ کرے اس پر وعید:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا "
 آپﷺ جو حیثیت و گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔(مسند احمد ۸۲۷۳،سنن بیہقی ۱۹۰۱۲ ضعیف مرفوعاً صحیح موقوفاً)
نوٹ:-امام حاکمؒ و ذہبیؒ نے صحیح کہا ہے(مستدرک حاکم۷۵۶۵)
۴۔ ذبح کا طریقہ:-
عن أنس، قال: «ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمَّى وَكَبَّرَ وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صَفَحَاتِهِمَا»

 آپ ﷺ نے دو سفید (یا سفید و سیاہ) سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی، اپنے دست مبارک سے انہیں ذبح کیا اور اللہ کا نام لیا اور تکبیر پڑھی اور اپنا مبارک قدم ان کے گردن کے کنارے پر رکھا۔(مسلم کتاب الاضاحی ۱۹۶۶)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں