ہفتہ، 4 اپریل، 2020

اللہ کے سوا کسی سے مانگنا جائز نہیں

چنانچہ شیخ الاسلام ابن خزیمہ شافعیؒ نے اس سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ آپ نے پہلے دو روایتیں نقل کیں :
          ۱۔نبئ کریم ﷺْ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی منزل پر اترے تو یہ جملے پڑھے: ’’اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے کلماتِ تامہ کی پناہ لیتا ہوں مخلوق کے شر سے ۔
          ۲۔ ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا تھا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم نے شام کے وقت یہ کلمات ’’اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق‘‘ پڑھ لئے ہوتے تو بچھو تمہیں نقصان نہ پہنچاتا۔
          یہ دونوں حدیثیں ذکر کرنے کے بعد امام ابن خزیمہؒ فرماتے ہیں: ائے عقلمندو! کیا یہاں سے یہ بات واضح طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ نبئ کریم ﷺ کے فرمان کے بموجب مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے  مخلوق کی پناہ لینا جائز نہیں۔
          کیا تم نے کسی عالم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں مخلوق کے شر سے کعبہ کی پناہ لیتا ہوں یا میں صفا و مروہ کی پناہ لیتا ہوں ، یا میں عرفات و منی کی پناہ لیتا ہوں ۔
          جو بھی اللہ کے دین کا علم رکھتا ہو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے مخلوق کی پناہ لے۔
            ابن خزیمہ ؒ کا یہ قول کہ ’’کیا تم نے کسی عالم کو یہ کہتے سنا۔۔۔ ‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہلِ حق کا اجماع ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے مانگنا جائز نہیں۔ (تحفۂ توحید : 86-87)

امام شافعیؒ غیراللہ سے مانگنا کفر کا سبب ہے


(۱۸) چنانچہ اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے بانئ مسلک حضرت امام شافعیؒ کا قول نقل کرتے ہیں  کہ ’’غیراللہ‘‘ کو مؤثر سمجھنے اور اس کو کائنات میں متصرف سمجھنے والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے اس سلسلہ میں ایک قاعدۂ کلیہ بنا دیا ہے۔
          آپ ساحر کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أنہ إن وصف ما یوجب الکفر ، مثل ما اعتقد أھل بابل من التقرب إلی کواکب السبعۃ ، وأنھا تفعل ما یلتمس منھا فھو کافر

یعنی اگر وہ موجباتِ کفر سے متصف ہو جیسے کہ اہلِ بابل کا عقیدہ تھا   کہ وہ ’’سات ستاروں‘‘ کا قرب چاہتے تھے ، اور یہ سمجھتے تھے کہ ان ستاروں سے جو کچھ مانگا جاتا ہے وہ اس کو پورا کر دیتے ہیں (پس جو بھی یہ عقیدہ رکھے) تو وہ کافر ہے۔               (تفسیر ابن کثیر :۱/۱۴۷)
یہاں حضرت امام شافعیؒ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر یہ صاف بتلا دیا کہ اہلِ بابل ’’غیراللہ‘‘ سے وہ چیزیں مانگتے تھے جو اللہ سے مانگی جاتی ہیں لہٰذا یہ غیراللہ سے مانگنا ان کے کفر کا سبب ہے۔
          (۱۹) تقریباً یہی بات ’’ابن الصباغ شافعیؒ‘‘ نے بھی بیان کی ہے کہ ساحر اگر ان ستاروں کے تقرب کا عقیدہ رکھتا ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ان سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں وہ دیدیتے ہیں تو وہ کافر ہے۔ یہ بات امام رافعیؒ نے العزیز:۱۱/ ۵۶ پر ان سے نقل کی ہے ، نیز ابن حجر مکیؒ نے الاعلام بقواطع الاسلام ص ۱۰۰ پر ان سے نقل کی ہے۔
          (۲۰) حضرت امام شافعیؒ کی ایک اور  عبارت ملاحظہ ہو:
آپؒ حضورﷺ کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’قد جعل اللہ بالناس کلھم الحاجۃ الیھم فی دینھم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو دینی معاملات میں حضورﷺ کا محتاج بنایا ہے۔
          یعنی نبی کی اتباع کئے بغیر اور آپ کے طریقہ پر چلے بغیر اللہ کی رضامندی حاصل نہیں ہو سکتی، لہٰذا اللہ کی رضا کے لئے نبی کے طریقہ کی ضرورت ہے۔
          پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ للہ ولرسولہ المن و الطول علی جمیع الخلق ، وبجمیع الحاجۃ إلی اللہ تعالیٰ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کا پوری مخلوق پہ احسان ہے ، اور مخلوق اپنی تمام حاجتوں کے لئے اللہ کی محتاج ہے۔
          اب دیکھئے ! جب یہ فرمایا کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے تو یہاں دینی یا دنیوی کی قید نہیں لگائی ، بلکہ عام رکھا ،یعنی اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی کی محتاج ہے۔(الام:۶/ ۲۰۲)
          ہم یہاں واضح کرتے چلیں کہ متقدمین (یعنی امام شافعیؒ اور ان کے بعد قریبی لوگوں) کے زمانہ میں انبیاء اور صالحین سےمانگنے کا باطل رواج نہیں تھا ، اور کسی کے ذہن میں اس کا خیال بھی نہیں آتا تھا ، ہاں! البتہ فرقِ باطلہ ’’غیراللہ‘‘ کی پناہ مانگتے تھے ،چونکہ یہ بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے ، اس لئے علماء و ائمہ  نے اس پر  رد کیا ہے۔ (تحفۂ توحید : 84-86)

اہلِ قبور کے وسیلہ سے دعا کرنا بھی شرک ہے

بقول علامہ مقریزیؒ اہلِ قبور کے وسیلہ سے دعا کرنا بھی شرک ہے

(۱۷) علامہ مقریزی شافعیؒ فرماتے ہیں: زیارتِ قبور کے سلسلہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں:
إنھا علی ثلاثۃ اقسام: قوم یزورون الموتیٰ فیدعون لھم ، وھٰذہ الزیارۃ الشرعیۃ ، و قوم یزورنھم ، یدعون بھم ، فھٰؤلاءھم المشرکون فی الألوھیۃ والمحبۃ ، وقوم یزورونھم فیدعونھم أنفسھم ، وھؤلاءھم المشرکون فی الربوبیۃ                                   (تجریدالتوحید المفیدص۴۴)
یعنی زیارتِ قبور کے سلسلہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں : ایک تو وہ لوگ جو قبروں کی زیارت کرتے ہیں اور اہلِ قبور کے لئے دعا کرتے ہیں ، یہ زیارت کا صحیح اور شرعی طریقہ ہے۔
دوسرے وہ لوگ جو ان کی زیارت کرتے ہیں ، اور ان کے طفیل دعا کرتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں باری تعالیٰ کی صفتِ الوہیت میں شرک کرتے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جو قبروں کی زیارت کرتے ہیں ، اور خود اہلِ قبور سے ہی مانگتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو صفتِ ربوبیت میں شرک کرتے ہیں۔
جی ہاں  ! علامہ مقریزی بھی شافعی ہی ہیں ، اور توسل کے مسئلہ میں کس قدر محتاط ہیں دیکھئےکہ آپ تو اہلِ قبور کے طفیل مانگنے کو بھی شرک قرار دے رہے ہیں ۔  (تحفۂ توحید : 84)

ولی کو کرامت میں مستقل بالذات سمجھنا کفر ہے


ولی کو کرامت میں مستقل بالذات سمجھنا کفر ہے

(۱۶) اب صاحبِ نہایہ علامہ رملیؒ کی بھی ایک عبارت دیکھ لیجئے! جس میں آپ نے صاف طور پر واضح کردیا کہ کرامت میں ولی مستقل بالذات نہیں ہوتا  ،چنانچہ آپ فتاویٰ رملی جلد نمبر ۴ صفحہ ۳۳۷ پر فرماتے ہیں:
قال الأئمۃ: ماجاز أن یکون  معجزۃ لنبی جاز أن یکون کرامۃً لولی ، لا فارق بینھما إلا التحدی ، فمرجع الکرامۃ إلی قدرۃ اللہ تعالیٰ ، نعم إن أراد استقلال الولی بذلک فھو کفر
یعنی ائمہ کرام فرماتے ہیں: جس چیز کا نبی کے لئے بطورِ معجزہ کے ہونا ممکن ہے اسی چیز کا ولی کے لئے بطور کرامت کے صادر ہونا ممکن ہے ، معجزہ اور کرامت میں تحدّی یعنی چیلنج کے سوا کوئی فرق نہیں ، پس کرامت دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف لوٹتی ہے۔ ہاں ! اگر کوئی کرامت میں ولی کو مستقل بالذات سمجھے (یعنی یہ سمجھے کہ ولی اس کو اپنے اختیار اور اپنی قدرت سے کرتا ہے) تو وہ کافر ہے۔

جائز وسیلہ کا استعمال بھی بُری چیز ہے


بقول علامہ کردیؒ جائز وسیلہ کا استعمال بھی بُری چیز ہے

(۱۵) اور پھر صاحبِ بغیہ علامہ کردیؒ کے حوالہ سے مزید نقل کرتے  ہیں:
وإن کان مرادہ التوسل بھم إلی اللہ تعالیٰ فی قضاء مھماتہ مع اعتقادہ أن اللہ ھو النافع الضار المؤثرۃ فی الأمور فالظاھر عدم کفرہ وإن کان فعلہ قبیحًا                                                                                         بغیہ : ۳۶۸ ۔ ۳۶۹
’’ اور اگر اس کی مراد یہ ہو کہ وہ ان واسطوں کا اللہ تعالیٰ سے اپنے معاملات کے لئے دعا کرنے میں محض وسیلہ لیتا ہے ، اور اس کا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو نفع نقصان کا مالک اور کائنات کے امور میں متصرف سمجھتا ہے ، تو ظاہر ہے کہ یہ کفر نہیں ہے۔تاہم اس کا یہ فعل قبیح اور برا ہے۔‘‘ .....
اور مزید یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ توسل کی جو صورت جائز ہے بہرحال اس کا استعمال بھی بُرا ہے۔


بالخصوص اس لئے بھی کہ آج کل کے عوام ویسے بھی کمزور اور غلط عقیدوں میں مبتلا ہیں جیسے کہ خود صاحبِ بغیۃ المسترشدین نے وضاحت کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں عوام کا عقیدہ اور نظریہ کیا ہوتا ہے ہم  اس سے  بخوبی واقف ہیں۔ (تحفۂ توحید: 82 مع تصرفات قلیلہ)

اللہ کے علاوہ کسی کو متصرف سمجھنا شرک ہے


صاحبِ بغیہ کی پیش کردہ  وہ عبارت دیکھئے جو اس سلسلہ میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتی ہے:
أما الوسائط بین العبد وبین ربہ ! فان کان یدعوھم کما یدعو اللہ تعالیٰ فی الأمور ویعتقد تأثیرھم فی شیئ من دون اللہ فھو کفر
ترجمہ: ’’بہرحال اللہ اور رب کے درمیان واسطے بنانا ، اگر وہ واسطے بنانے والا اپنے معاملات میں ان واسطوں سے دعا مانگتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں اور اللہ کے علاوہ ان کو معاملات میں مؤثر اور متصرف سمجھتا ہے تو یہ کفر ہے۔‘‘
یہاں صاحبِ بغیہ نے اس شخص کے کفر کا صریح اعلان کر دیا ہے جو اللہ کے علاوہ کسی کو مؤثر اور کائنات میں متصرف سمجھ کر پکارے۔(تحفۂ توحید:  81)

عوام کی زبان سے نکلنے والے جملے بسااوقات توحید میں خلل کا سبب بن جاتے ہیں

عوام کی زبان سے نکلنے والے جملے بسااوقات توحید میں خلل کا سبب بن جاتے ہیں

(۱۳)فرماتے ہیں:
نعم ینبغی تنبیہ العوام علی الفاظٍ تصدر منھم تدل علی القدح فی توحیدھم فیجب ارشادھم وإعلامھم بأن لا نافع ولا ضار الا اللہ تعالیٰ ، لا یملک غیرہ لنفسہ ضرا ولا نفعا إلا بإرادۃ اللہ تعالیٰ ، قال تعالیٰ لنبیہ علیہ الصلاۃ والسلام: قل إنی لا أملک لکم ضرا ولا رشداً(الجن:۲۱)
ترجمہ: ’’تاہم عوام کو متنبہ کرنا ضروری ہے کہ ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو ان کی توحید (اور عقیدہ) میں خلل اور خرابی کا سبب بن جاتے ہیں ،لہٰذا ان کی رہبری کرنا اور ان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ نفع نقصان کا مالک محض اللہ تعالیٰ ہے ، کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ کے بغیر اپنی ذات کے بھی نفع و نقصان کا  مالک نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ وہ یوں کہہ دیں کہ : ائے لوگو ! میں تمہارے نہ نقصان کا مالک ہوں نہ ہدایت کا۔‘‘                (بغیۃ المسترشدین)
 صاحبِ بغیہ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کس طرح گمراہی میں مبتلا ہوتی ہے ۔ (تحفۂ توحید :80)

نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ ہی کو سمجھو


علامہ ابن حجر مکی شافعی ؒمزیدفرماتے ہیں:
آپ اپنی مشہور کتاب الفضل المبین میں ’’وإذا استعنت فاستعن باللہ‘‘ یعنی ’’جب مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مانگو۔‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دینی اور دنیوی امور میں سے ہر معاملہ میں صرف اللہ ہی سے مدد طلب کرو ، اس لئے کہ یہ بات یقینی ہے کہ صرف اللہ ہی ہر چیز دینے پر قادر ہے ، اور اللہ کے سوا ہر کوئی عاجزِ محض ہے ، حتی کہ خود اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ، (دوسرے کی کیا مدد کریگا۔) مدد تو اس سے مانگی جاتی ہے جو مدد کرنے پر قادر بھی ہو۔ (اور وہ صرف اللہ ہی ہے۔)
پھر اسی حدیث میں آگے ایک جملہ ہے : ’’وان اجتمعوا علی أن یضروک بشیئ لم یضروک إلا بشیئ قد کتبہ اللہ‘‘
یعنی ’’پوری مخلوق اگر تمہیں تکلیف پہنچانے پر جمع ہو جائے تو سب ملکر بھی تمہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتے ، مگر اتنی ہی جتنی اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھی ہے۔‘‘
اس جملے کی تشریح میں ابن حجر مکی شافعیؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں: ’’نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ ہی کو سمجھو ، وہی نفع پہنچانے والا اور وہی نقصان پہنچانےوالا ہے ، اس کے سوا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘
پھر مزید ارشاد فرماتے ہیں: یہ دوسرا جملہ پہلے جملے کی تاکید ہے ، اور اس میں اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ، اور تن تنہا اللہ ہی تمام معاملات میں تصرف کرنے والا ہے، نفع نقصان کا مالک وہی ہے، اور اللہ کے علاوہ ہر کسی سے رخ موڑ لے ، جس کو یہ یقین ہوگا کہ نفع نقصان کا مالک تن تنہا اللہ ہے وہ اپنی حاجتیں صرف اللہ کے سامنے پیش کرے گا، جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو جب آگ میں ڈالنے کے لئے منجنیق میں رکھا گیا تو حضرت جبرئیل ؑ نے آکر فرمایا : کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ تو فرمایا: ’’أما إلیک فلا‘‘ کہ ’’تم سے میری کوئی حاجت نہیں( میری حاجت تو اللہ پوری کریگا۔‘‘) (تحفۂ توحید : 76)

وہ آیات اور احادیث جن میں مصیبت کے دور کرنے کیلئے اور مدد مانگنے کیلئے صرف اللہ کو پکارنے کا حکم ہے


 وہ آیات اور احادیث جن میں مصیبت کے دور کرنے کیلئے اور مدد مانگنے کیلئے صرف اللہ کو پکارنے کا حکم ہے

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ        (سورہ الفاتحہ)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مددمانگتے میں۔

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (پارہ ۸ رکوع نمبر ۱۴ )
ترجمہ : تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو یقیناً وہ حدسے گزرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (پارہ ۲۴ رکوع نمبر ۱۱)
ترجمہ :تمہارا رب کہتاہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار سنوں گا ، جو لوگ میری بندگی سے اکڑتے ہیں اورتکبر کرتے ہیں، آئندہ جھکے ہوئے ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (پارہ ۷ رکوع نمبر ۸ )
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو خوداس کے سوا اسے دورکرنے والا کوئی نہیں، اور اگر وہ تمہیں بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہی ہے ۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (پارہ ۱۱ رکوع نمبر ۱۶ )
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی  تکلیف پہنچادےتو اس کےسواکوئی نہیں ہے جو اسے دور کردے اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانے  کا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اسکے فضل کا رخ پھیردے وہ اپنافضل اپنے بندوں میں سے جسں کو چاہتاہے ، پہنچادیتا ہے اور وہ بہت بخشنےوالا بڑا مہربان ہے ۔


اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا (پارہ ۹ رکوع نمبر ۵ )
ترجمہ:اللہ سے مدد مانگو اور صبرسے کام لو

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَ                        (پارہ۲۰ رکوع ۱۰ )
ترجمہ: (ائے پیغمبر ان سے) کہو، ذرایہ بتلاؤ کہ اگر اللہ تم پررات کو ہمیشہ کیلئے قیامت تک مسلط رکھے تو اللہ کےسوا کونسا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لے کر آئے ؟بھلا کیا تم سنتے ہو؟

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ (پارہ ۲۹ رکوع ۲ )
ترجمہ:اور ان سے پو چھئے کہ اگر تمہارا پانی (کنؤں یا چشموں کا) نیچے اتر جائے، تو کون ہے جو تمہارے لئے چشمے جاری کرے گا؟

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ( پارہ ۲۰ رکوع نمبر۱)
ترجمہ: بھلاوہ کون ہے کہ جب کوئی بے قراراسے پکارتا ہے تو وہ اس دعاکو قبول کرتاہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہےکیا (پھر بھی تم کہتے ہوکہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔






عن ابن عباسؓ ،کنت خلف النبیؐ، یوما فقال: یاغلام انی اعلمک کلمٰت: احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک، اذا سألت فاسأل اللہ  واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم: ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیء ، لم ینفعوک الا بشیء  قدکتبہ اللہ لک (رواہ الترمذی و قال : حدیث حسن صحیح)
ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺکے پیچھے سوار تھا آپﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:ائے لڑکے!تو اللہ کے حقوق کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت کر گا، توُ  اللہ کے حقوق کی حفاظت کرتواس کو اپنے سامنے پائے گا۔ اور جب کچھ  مانگنا ہو تو اللہ تعا لیٰ سے مانگ، اور جب مدد کی ضرورت ہوتو اللہ تعالیٰ سےمددطلب کر، اور یقین رکھ کہ ساری جماعت اگر تجھے کوئی نفع پہنچانے پر جمع ہو جائے تو تجھے کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیاہے۔)ترمذی)
’’اللہ سے مانگ‘‘   یعنی صرف اللہ تعالیٰ سے مانگ اس لیے کہ عطیّات کے خزانے اسی کے پاس ہیں۔ اور عطاء و بخشش کی کنجیاں اسی کےہاتھ میں ہیں ۔ ہر نعمت یا نقمت، خواہ دُنیا کی ہو یا آخرت کی، جو بندے کو پہنچتی ہے یا اس سے دفع ہوتی ہے وہ صرف اسی کی رحمت سے ملتی ہے ، کیونکہ وہ جوادِ مطلق ہے۔ اور وہ ایساغنی ہے کہ کسی کامحتاج نہیں ۔ اس لیے امید صرف اسی کی رحمت سے ہونی چاہیے۔ بڑی بڑی مہمات میں التجااسی کی بارگاہ میں ہونی چاہیے اور تمام امور میں اعتماد اسی کی ذات پر ہونا چاہیے۔ اس کے سواکسی سے نہ مانگے کیونکہ اس کے سواکوئی دوسرانہ دینے پر قادرہے نہ روکنے پر، مصیبت ٹالنے پر، نہ نفع پہنچانے پر۔ کیونکہ اس کے ماسواخوداپنی ذات کے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، اور نہ وہ موت و حیات کی قدرت رکھتے ہیں۔
قبیلۂ بنو الہجیم سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی فرماتے ہیں:
’’قلت یا رسول اللہ إِلَامَ تَدْعُو؟ قَالَ: " أَدْعُو إِلَى اللہ وَحْدہ، الَّذِي إِنْ مَسَّكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتہ، كَشَفَ عَنْكَ، وَالَّذِي إِنْ ضَلَلْتَ بِأَرْضٍ قَفْرٍ دَعَوْتہُ، رَدَّ عَلیْكَ، وَالَّذِي إِنْ أَصَابَتْكَ سَنۃٌ فَدَعَوْتہُ، أَنْبَتَ عَلیْكَ ‘‘
میں نے عرض کیا ائے اللہ کے رسول ﷺ  آپ کس کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں؟ فرمایا: میں اس اللہ وحدہ لاشریک کی طرف لوگوں کو بلاتا ہوں کہ جب تم کو کوئی مصیبت پیش آئے تو تم اس کو پکارتے ہو ، اور وہ تمہاری مصیبت دور کرتا ہے ، جب تم کسی چٹیل میدان ،صحراء میں ہو  اور تمہاری سواری گم ہو جائے ، تو تم اس کو پکارتے ہو ، وہ تمہاری سواری لوٹاتا ہے ، اور اگر تم پر قحط سالی آتی ہو ، اور تم اس کو پکارتے ہو تو وہ تمہارے لئے (بارش برسا کر زمین سے) غلہ اگاتا ہے۔
             حضرت پیرانِ پیر شاہ عبدالقادرجیلانیؒ الفتح الربانی کی مجلس ۶۱ میں فرماتے میں:
ان الخلق عجز عدم، لا ھلک باید یھم ولا ملک، لا غنیٰ بایدیھم ولا فقر، ولاضر بایدیھم ولا نفع، ولا ملک عندھم الا للہ عزوجل لا قاد ر غیرہ ، ولا معطی ولا ما نع ولا ضار ولا نافع غیرہ، ولا ممیت غیرہ
ترجمہ: بےشک مخلوق عاجز اور عد م محض ہے، نہ ہلا کت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ ملک، نہ مالداری ان کے قبضہ میں ہے نہ فقر، نہ نقصان ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ نفع،نہ اللہ تعالیٰ کے سواان کے پاس کوئی ملک ہے اور نہ اس کے سواکوئی قادر ہے، نہ اس کے سوا کوئی دینے والا ہے۔نہ روکنے والا، نہ کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے، نہ نفع دے سکتا ہے، نہ اس کے سوا کوئی زندگی دینے والا ہے نہ موت۔
          یہی عقیدہ تمام اولیاء اللہ کا اور تمام اکابراہل سنّت کا ہے۔( تحفہ ٔ توحید: 40-43)

کفاربھی شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے تھے


کفاربھی شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے تھے


یہ بات بھی صحیح ہے، کہ اگرچہ مشرکینِ عرب بعض جزوی امور اور معاملات  (اور تکوینی امور)میں خدا تعالیٰ کے بندوں کو عطائی اور غیرمستقل طورپر متصّرف اور سفارشی مانتے تھے۔ لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مصیبتوں میں صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے سب ان کے دل اور دماغ سے ایسے وقت بالکل نِکل جاتے تھے۔
قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (40) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ﴿۴۱﴾ (پ:۷، سورہ انعام)
تو کہہ، دیکھوتو اگر آوے تم پراللہ کا عذاب یا آوے تم پر قیامت،کیا اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کو پکاروگے۔ بتاؤ اگر تم سچےّ ہو، بلکہ اسی کو پکاروگے،پھروہ    دُور کردے گا اس کو پکاروگے۔ اگر اس کی مرضی ہوئی اور تم بھُول جاؤگے جن کو تم شریک کرتے ہو۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں بھی بیان فرمایا ہے کے کفار جب سمندر کی موجوں میں گھر جاتے ہیں ۔تواس وقت اصل خداہی یاد آتا ہے۔ اب وہ  یوں کہتے ہیں۔
لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے نجات   دی تو ضرور ہم شکرگزار  لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔
 یہی مضمون سورہ بنی اسرئیل میں اس طرح بیان کیاگیا ہے۔
وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ
یعنی جب سمندر  میں تمھیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو جن (دیوتاؤں) کو تم پکار تے ہووہ سب غائب ہوجاتے  ہیں ۔بس صرف اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے۔



فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (پ ۲۰ ،عنکبوت ، ۷ع )
پھر جب سوار ہوئے کشتی میں، پکارنے  لگے اللہ تعالیٰ کو، خالص اسی پر رکھ کر اعتقاد، پھر جب بچالایا ان کو زمین کی طرف، اسی وقت لگے شرک کرنے۔
حضرت عکرمہ ؓ  بن ابی جہل فتح مکہّ کے موقع پر اس خوف کے مارے کہ کہیں میں اپنی اسلام دشمنی کی پاداش میں قتل نہ کردیا جاؤں،بھاگ کر سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوگئے۔ جب کشتی بھنور میں موجوں کے تھپیڑوں سے دوچار  ہوئی تو ملاّحوں نے کہا :
اخلصوا فان الھتکم لا تغنی  عنکم  شیئاً ھٰھنا
خالص اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کرتے ہوئے اسی کو پکارو، کیونکہ تمہارے دوسرے اِلہٰ اس موقع پر کسی کا م نہیں آسکتے۔
حضرت عکرمہؓ نے کہا: اگرسمندر میں وہ کام نہیں آسکتے تو خشکی پر اللہ تعالیٰ کے سواکون کام آسکتاہے؟ پھر عہد کیا کہ اے اللہ میں اقرار کرتاہوں کہ اگر تونے مجھے اس مشکل سے نجات دی تو میں حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ  پر بیعت کرلوں گا، کیونکہ یہی سبق تو ہمیں وہ بتلاتے ہیں۔ جس سے ہم بھاگے بھاگے پھرتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دی اور انہوں نے اپنا وعدہ پوراکیا اور مسلمان ہوگئے۔
(نسائی:۲/ ۱۵۲ ،البدایہ والنھایہ:۴/۲۹۸، والصارم المسلول:ص۱۰۹)
حضرات ! یہ مشرکین کا وہی  گروہ تھا جو خشکی پر ’’یا ابراھیم أغثنی‘‘ اور ’’اعل ھبل ‘‘اور ’’یاعزّٰی‘‘وغیرہ کہا کرتے تھے۔ مگر موجوں کے تھپیڑوں میں وہ سب کچھ فراموش کر کے صرف ذات باری  تعالیٰ پر اعتماد کیا کرتے تھے اور صرف اسی کو پکارا کرتے تھے اور ہر باحیامسلمان کا یہی عقیدہ ہونا چاہیئے۔
فتح مکہ سے پہلے مکہ میں شدید قحط پڑا تھا ، تو حضرت ابو سفیان جواس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ، مکہ سے سفر کر کے حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور قحط سالی دور ہوئے کیلئے دعا کی درخواست کی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قوم فرعون کا حال بیان فرمایا کہ جب کوئی عذاب ان پر آتا ہے تو فوراً حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ سے دعاکی درخواست کرتے ہیں ۔                                                دیکھے سورہ اعراف آیات(۱۳۴)
حضرت حصینؓ فرماتے ہیں: اسلام لانے سے قبل ایک مرتبہ آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺنے مجھ سےسوال کیا۔ حصینؓ !میں نے کہا: جی۔ فرمایا: کتنے اِلہٰوں کی تم روزانہ عبادت کرتے ہو ؟
میں نے کہا: حضرت ! سات کی،   ایک آسمان پر ہے اور باقی چھ زمین پر۔
آپﷺنے فرمایا:
فایّھم تعدّ لرغبتک ورھبتک؟  قال: الذی فی السماء
ان میں خوف اور رجا ، امید وبیم کے لیے تم کس اِلہٰ کو کام کا سمجھتے ہو؟ حضرت حصین ؓ نے کہا وہ  تو وہی ہے جو آسمانوں میں ہے۔
  آپ ؐ نے فرمایا ۔اگرتم مسُلمان ہو جاؤ تو میں تمہیں دو کلمے سکھادوں ۔
چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد وہ دوکلمے انہوں نے سیکھ لیے۔
(رواہ احمدوالنسائی باسناد صحیح  )
ان آیات واحادیث سے معلوہوا کہ مشرکین اگر چہ بعض حالات میں غیروں کو سفارشی مان کر پکارا کرتےتھے۔ لیکن جب انتہائی مصیبت کا شکار ہوتے اور دریا کی موجوں میں مبتلا ہوتے تھے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے اور تمام مافوق الاسباب سفارشی  بھوُل جاتے تھے ۔لیکن جب خشکی پر قدم دھرتے تو وہی  شرک شروع کر دیتے تھے ۔ یعنی غیر اللہ کو متصرف مان کر پُکارنا۔
یہ تو قرآنی مشرک تھے ، جو شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں، افسوس صدافسوس آج سعدی صاحب  اور ان جیسے حضرات مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ مصیبت کے وقت غیراللہ کو پکاراجائے۔
اور اسی  پر بس نہیں؛ بلکہ اپنی بات کی نسبت  ان مقتدرعلماء اور فقہاء کی طرف بھی کردی ، جن کے علم و تقدس اور جن کے صحیح العقیدہ ہونے کی گواہی تاریخ دیتی ہے۔
کیا سعدی صاحب  ان بڑے بڑے علماء امام نووی، حافظ ابن حجر اور امام بخاری وغیرہ کو ان کفار سے بھی بدتر سمجھتے ہیں کہ کفار تو مصیبت میں اللہ کو پکاریں، اور یہ جلیل القدر علماء ’’غیر اللہ‘‘ سے مدد مانگنے کا درس دیں! (العیاذ باللہ)(تحفۂ توحید : 36-39)

قرآنی آیات و احادیث جن میں اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنے سے منع فرمایا ہے


قرآنی آیات و احادیث جن میں اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنے سے منع فرمایا ہے

حضرات! قرآنِ کریم کی چند آیات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں  کہ مشرکین ’’غیراللہ‘‘ کو فریادرس اور تکلیف دور کرنے والا سمجھ کر پکارتے  تھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مشرکین کی ’’دعا یدعو‘‘ کے الفاظ کو سامنے رکھ کرتردید فرمائی کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ نہ نفع کے مالک ہیں اور نہ ضرر کے اور نہ ہی ان کو تمہاری تکلیفوں اور مصیبتوں کی اطلاع ہے ، اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ اور مؤمنین کو یہ حکم دیا  کہ اللہ تعالیٰ کے نیچے کسی کو نہ پکارو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ
بےشک وہ لوگ جن کو تم پکارتے ہو ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ ، وہ ہرگز مکھی نہیں بنا سکیں گےاگرچہ سارے جمع ہو جائیں۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (4) وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ
تو کہہ بھلا دیکھو جن کو تم پکارتے ہو اللہ تعالیٰ کے علاوہ  ، دکھاؤ تو مجھ کو انہوں نے کیا بنایا  زمین میں ، یا ان کی شراکت ہے آسمانوں میں۔ لاؤ میرے پاس کوئی کتاب اس سے پہلے کی یاکوئی (عقلی دلیل اور) علم جو چلا آتا ہو ، اگر ہو تم سچے ۔ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو پکارے اللہ تعالیٰ کے سوا ، ایسے کو کہ نہ پہنچے اس کی پکار قیامت کے دن تک اور ان کو خبر نہیں ان کے پکارنے کی۔

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
اور وہ لوگ جن کو تم پکارتے ہو ، اللہ تعالیٰ کے سوا  ، وہ مالک نہیں کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے ، اگر تم ان کو پکاروتو سنیں نہیں تمہاری پکار ، اور اگر سنیں بھی تو پہنچ نہ سکیں  تمہارے کام پر  اور قیامت کے دن منکر ہوں گے تمہارے شرک سے اور کوئی نہ بتلائے گا تجھ کو جیسا بتلائے خبر رکھنے والا ۔(یعنی خدا تعالیٰ)

قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ
آپ کہہ دیجئے ، بھلا دیکھو تو جن کو پکارتے ہو تم اللہ کے سوا  ، اگر چاہے اللہ تعالیٰ مجھ پر کچھ تکلیف تو وہ ایسےہیں کہ کھول دیں تکلیف اسکی ڈالی ہوئی ، یا اگر وہ چاہے مجھ پر مہربانی تو وہ ایسے ہیں کہ روک دیں اس کی مہربانی کو؟ تو کہہ مجھ کو اللہ تعالیٰ ہی بس ہے، اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں بھروسہ رکھنے والے۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ
آپ کہہ دیجئے پکارو تم ان کو جن کو تم اللہ تعالیٰ کے نیچے خیال کرتے ہو ، وہ مالک نہیں ذرہ بھر کے آسمانوں میں اور زمین میں ، اور نہ ان کی ان دونوں میں کوئی شراکت ہے، اور نہ ان میں کوئی اس (اللہ تعالیٰ) کا مددگار ہے۔
ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا شرک یہ بتلایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ غیر اللہ تکوینی امور (تکلیف سے نجات دینے والے اور مہربانی کرنے) میں ایک ذرہ کے مالک نہیں ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا  دوسری مخلوق کو مشکل کشا جان کر پکارتے ہیں وہ تو ان کی بات کو نہ سن سکتے ہیں اور نہ ان کو اس کی کچھ خبر ہے۔قیامت تک پکارو ، وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اور اگر بالفرض وہ تمہاری تکلیف کو سن بھی لیں تو تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ اور تمہارے اس شرک (پکارنے) کا قیامت میں صاف انکار کریں گے، اور یہ ساری باتیں بتلانے والا وہ ہے جس سے کوئی بات چھپی ڈھکی نہیں ۔
اور اسی آخری آیت میں اس قسم کے پکارنے پر شرک کا لفظ بولا گیا ہے۔
ان آیتوں کو بغور پڑھیے ، بار بار پڑھیے اگر انسان کے سینے میں دل ہے تو کہیں نہ کہیں اسے یہ آیتیں جھنجھوڑیں گی ، اور اس کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوگا کہ واقعۃً ’’غیراللہ‘‘  کو پکارنا صحیح نہیں ہے۔  (تحفہ ٔ توحید : 33-35)