جمعہ، 24 جولائی، 2015

سلام و ملاقات کے متفرق مسائل

سلام و ملاقات کے متفرق مسائل


مسئلہ ۱۔ کسی گروہ میں بعض کی تخصیص کر کے سلام کرنا یا جواب دینا مکروہ ہے۔
۲۔عجمی(غیر عربی) زبان میں سلام کرنا جائز ہے جب کہ مخاطب سمجھے، گو عربی میں سلام کرنے پر قادر ہو اور اس سلام کا جواب فرض ہے کیوں کہ یہ بھی سلام ہی کہلائے گا۔
۳۔کسی ذمی(غیر مسلم) کو سلام کرنا حرام ہے، اگر سلام کے بعد پتہ چلا کہ وہ ذمہ ہے تو اس سے یہ کہنا مستحب ہے: میں نے اپنا سلام واپس لیا یا میرا سلام لوٹا دو۔
۴۔اگر مسلمانوں کے درمیان کوئی غیر مسلم بھی ہو تو سلام کرتے وقت دل میں اس کا استثناء کرے۔
۵۔کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔
۶۔ انسانوں سے خالی کسی جگہ داخل ہو تو یہ کہنا مستحب ہے: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ
۷۔ بلا عذر سلام کے علاوہ کسی دوسرے الفاظ سے ابتداء نہ کرے: مثلاً صبھ بخیر، اور ان الفاظ کا جواب واجب نہیں ہے، اگر جواب میں دعا دے تو بہتر ہے البتہ اس کے سلام نہ کرنے کی وجہ سے تادیباً جواب نہ دینا بہتر ہے۔
۸۔ أَطَالَ اللَّهُ بَقَاءَكَ  (اللہ تمہیں طویل زندگی دے) کے ذریعہ کسی بزرگ،صاحبِ علم یا عادل حکمراں کے لئے دعا دینا بہتر ہے ورنہ مکروہ ہے۔
۹۔ کسی سے  ملاقات پر پشت جُھکانا مکروہ ہے، کسی کی دینی فضیلت مثلاً: زہد و تقوی وغیرہ کی وجہ سے اس کا ہاتھ چومنا (بوسہ لینا) مستحب ہے، مال و دولت اور جاہ وغیرہ کی وجہ سے مکروہ ہے، کمسن بچہ کے گال کا بوسہ لینا گو دوسرے کا بچہ ہو مستحب ہے، نیز اپنے اصول و فروع کا شفقت و رحمت سے بوسہ لینا مستحب ہے۔ تبرکاً کسی نیک میت کے چہرہ کا بوسہ لینے میں حرج نہیں۔
۱۰۔ آنے والے میں کوئی ظاہری فضیلت ہو مثلاً :علمِ، دین داری، شرف، باپ دادا وغیرہ ہونا تو اکرام و احترام کے طور پر اس کے لئے کھڑا ہونا مستحب ہے، نہ  کہ ریا و بڑائی کے طور پر۔ آنے والے کو یہ تمنّا کرنا کہ لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے رہیں یعنی وہ بیٹھ جائے اور دیگر لوگ کھڑے رہیں جیسا کہ جابروں کی عادت ہوتی ہے، حرام ہے۔
۱۱۔ ملاقات کے وقت بشاشت کے ساتھ مصافحہ اور مغفرت وغیرہ کی دعا مستحب ہے۔
۱۲۔ کسی کے گھر جانا ہو اور دروازہ بند ہو، تو سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام کرے، پھر اجازت چاہے اگر جواب نہ ملے تو تین مرتبہ اس عمل کو دوہرائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ لوٹ جائے، اگر اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے؟ تو اپنا نام وغیرہ لے کر صراحت کرے کہ وہ پہچان سکے ، میں فلاں شیخ یا فلاں قاضی ہوں کہنا، یا اپنی کنیت بیان کرنے میں حرج نہیں جب کہ اس کے بغیر پہچانا نہ جائے۔ صرف میں ہوں یا خادم ہے وغیرہ کہنا مکروہ ہے۔
۱۳۔ نیک حضرات، پڑوسی جو کہ بدکار نہ ہوں، بھائی بند اور رشتہ داروں کی ملاقات اور ان کا اکرام کرنا مستحب ہے، اس طور پر کہ نہ اسے پریشانی ہو اور نہ انہیں۔ ان سے اپنی ملاقات کا مطالبہ بھی مستحب ہے۔ مریض کی عیادت مستحب ہے۔
۱۴۔ چھینک آئے تو ہاتھ یا کپڑا وغیرہ منہ پر رکھنا، اور حتی الامکان آواز پست کرنا مستحب ہے۔ چھینک کے بعد اَلْحَمْد ُلله  کہے، اگر نماز میں ہے تو آہستہ کہے، اگر پیشاب یا صحبت وغیرہ کر رہا ہو تو دل میں کہے۔ چھینکنے والا اَلْحَمْد ُلله کہے تو تین مرتبہ تک اسے جواب دے یعنی يَرْحَمُكَ الله(اللہ تجھ پر رحم فرمائے) کہے اور چھینکنے والا جواب میں کہے   يَهْدِيكُمْ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ  ( اللہ تمہیں ہدایت بخشے اور تمہارے احوال درست کرے) یا کہے : يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ (اللہ ہمیں اور تمہیں بخش دے) دونوں جو جمع کرنا بہتر ہے کوئی ،
حدیث: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی چھینکے تو چاہئے کہ وہ کہے: "الحَمْدُ لِلَّهِ" اور اس کا بھائی یا صاحب اس کو کہے(جواب دے):" يَرْحَمُكَ اللَّهُ" پس جب اس  کو  يَرْحَمُكَ اللَّهُ کہا جائے تو چاہئے کہ وہ کہے:" يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ"(صحیح بکاری 6224)
حدیث ۲: آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی چھینکے تو چاہئے کہ وہ اللہ کی حمد بیان کرے(الحمد للہ  کہے)  راوی کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ نے بعض محامد بیان کئے اور فرمایا اور جو اس کے پاس ہو اس کو کہنا چاہئے:" يرحمُك اللهُ" اور  یہ ان کو جواب دے"يغفرُ الله لنا ولكم"(سنن ابی داود 5031، سنن کبریٰ نسائی 9982،مستدرک حاکم)
بہت چھینکنے والے کا حکم:- کوئی مسلسل تین سے زائد مرتبہ چھینکے تو بعد میں جواب سنت نہیں، بلکہ کہے کہ آپ کو زکام ہے اور اسے عادفیت کی دعا دے۔
 جو شخص چھینکنے والے سے پہلے ہی کہے وہ دانت،پیٹ اور کان درد سے محفوظ رہے گا۔
۱۵۔جمائی نا پسندیدہ ہے حتی الامکان اسے روکنے کی کوشش کرے، نہ رکے تو ہاتھ وغیرہ سے منہ چھپائے۔ آہ کرتے ہوئے منہ کھول کے اطمینان سے جمائے لینے کی مذمت وارد ہوئی ہے اور اس ہیئت سے شیطان خوش ہوکر ہنستا ہے۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں اور جمائی کو برا سمجھتے ہیں تم میں سے جس شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہر اس مسلمان کا جو چھینک کو سنے یہ فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جمائی شیطان کا فعل ہے تم میں سے جس کو جمائی آئے تو جس حد تک ممکن ہو اُسے روکے اس لئے کہ جب کسی شخص کو جمائی آتی ہے تو شیطان دیکھ کر ہنستا ہے۔(مشکوٰۃ از بخاری  ) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جب کوئی "ہا" کہتا ہے یعنی جمائی لیتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔(مشکوٰۃ  باب العطاس والتثاؤب)
۱۶۔ کسی سے اللہ کے لئے محبت ہو تو اسے اس کی اطلاع دینا مستحب ہے جو اپنے حسن ساتھ سلوک سے پیش آئے اسے دعا دے۔ جلیل القدر عالم یا بزرگ شخصیت کو اس طرح کہنے میں حرج نہیں: فِداکَ اَبی واُمِّی(میرے والدین آپ پر قربان)

(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

ان لوگوں کو سلام کرنا مسنون نہیں ہے

ان لوگوں کو سلام کرنا مسنون نہیں ہے

۱۔قضاء حاجت کرنے والا،
۲۔جو کھانا کھا رہا ہو،
۳۔سونے والا،
۴۔صحبت کرنے والا،
۵۔ جو حمام میں نظافت حاصل کر رہا ہو،
۶۔نمازی
۷۔سجدہ کرنے والا،
۸۔تلبیہ پڑھنے والا،
۹۔مؤذن،
۱۰۔ جو اقامت کہہ رہا ہو،
۱۱۔اونگھنے والا،
۱۲۔ خطیب،
۱۳۔جو خطبہ سن رہا ہو،
۱۴۔جو دعا میں کھویا ہوا ہو،
۱۵۔حاکم کے روبرو موجود فریقین۔
          مذکورہ افراد کو کوئی سلام کرے تو ان پر جواب واجب نہیں سوائے اس شخص کے جو خطبہ سن رہا ہو کیوں کہ اس پر جواب لازم ہے، تلبیہ پڑھنے والے کو لفظاً سلام کا جواب دینا مستحب ہے۔ مؤذن اور نمازی کو مستحب ہے کہ اشارہ سے جواب دیں ورنہ فارغ ہونے کے بعد لفظاً جواب دیں، جب کہ زیادہ دیر نہ گذری ہو۔ کھانے والا شخص لقمہ نگلنے کے بعد دوسرا لقمہ منہ رکھنے سے پہلے  اسے سلام کرنا مسنون ہے۔ اور اس صورت میں جواب واجب ہے، لقمہ چباتے یا نگلتے وقت سلام مسنون نہیں ہے۔ قضاء حاجت اور جماع کی حالت میں جواب مکروہ ہے۔

          قرآن کی تلاوت کرنے والا،مدرس اور طلبہ کو سلام کرنا مسنون اور ان کو جواب دینا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص تلاوت میں بالکل محو اور تدبر میں مستغرق ہو تو امام اذرعیؒ کا خیال ہے کہ یہ بھی دعا میں محو شخص کی طرح ہے(یعنی اسے سلام کرنا مستحب ہے)۔
(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

جمعرات، 23 جولائی، 2015

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب: محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ھاشم بن المطلب بن عبد مناف الامام عالم العصر ناصر الحدیث فقیہ الملت ابو عبد اللہ القریشی ثم المطلبی الشافعی المکی۔
          امام شافعیؒ کے نسب میں جو مطلب بن عبد مناف ہیں، وہ آپ ﷺ کے پردادا ہاشم کے بھائی ہیں، تو گویا عبد مناف پر جاکر آپ ﷺ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ امام شافعیؒ مطلبی سادات میں سے ہیں۔
پیدائش: امام شافعیؒ کی ولادت با سعادت  ۱۵۰؁ھ میں بمقام غزّہ فلسطین میں ہوئی۔ آپؒ کے والد ادریس نوجوانی میں ہی انتقال کر گئے، لہٰذا امام صاحب نے اپنی والدہ کے گود میں یتیمی کی حالت میں پرورش پائی۔
مکہ مکرمہ میں: والدہ دو سال کی عمر میں انھیں لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائیں، اور یہیں وہ پروان چڑھے، تیر اندازی کی طرف توجہ دی اور تمام ہم عصروں پر اس فن میں فوقیت لے گئے، پھر عربی زبان و شعر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں بلند مقام حاصل کیا۔ پھر ان کا دل فقہ کی طرف مائل وہا اور اس میں تمام ہم عصروں پر تفوق حاصل کی۔
تحصیل علم اور اساتذہ: مکہ مکرمہ میں مسلم بن خالد زنجی (مفتی مکہ)، داود بن عبد الرحمن عطار،محمد بن علی شافع،سفیان بن عینیہ، عبد الرحمن بن ابی بکر الملیکی،سعید بن سالم،فضیل بن عیاض اور دیگر علماء سے علم حاصل کیا۔
          جب امام شافعیؒ کی عمر بیس سال سے کچھ اوپر ہوئی ، تو مدینہ منورہ کی طرف رختِ سفر باندھا اور امام مالکؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ ان کے روبرو حفظاً مؤطا سنا کر اس کی سند حاصل کی، نیز ابراہیم بن ابی یحییٰ، عبد العزیز الدراوردی، عطاف بن خالد، اسمٰعیل بن جعفر اور ابراہیم بن سعد وغیرہ حضرات سے کسبِ فیض فرمایا۔
          یمن میں حضرات مُطَرِّف بن مازن،ہشام بن یوسف القاضی اور دیگگر علماء سے تحصیل علم کیا، اور بغداد میں امام محمد بن حسن، عبد الوہاب ثقفی اور دیگر کئی افراد سے علم حاصل کیا۔  امام صاحب نے طلبِ علم میں مکہ مدینہ کے بعد کوفہ،بغداد،فارس اور اطارف کے عجمی علاقے پھر ربیعہ و مصر کے علاقے،شمالِ عراق پھر جنوب روم پھر حران پھر فلسطین اور دیگر علاقوں کا سفر کیا۔
          امام شافعیؒ نے بکثرت کتابیں تصنیف فرمائیں اور علم کو مدون کیا۔ اور احادیث کی اتباع کرتے ہوئے دیگر حضرات کا رد کیا۔ نیز اصولِ فقہ اور فروع فقہ پر کتابیں تحریر کیں۔ اور حضرت کی کافی شہرت و مقبولیت ہوئی اور بکثرت طلبہ خدمت میں تحصیل علم کے لئے حاضری دینے لگے۔
شاگرد: درجِ ذیل علماء کرام نے امام شافعیؒ سے احادیث روایت فرمائی
حمیدی،ابو عبید قاسم بن سلام،احمد بن حنبل،سلیمان بن داود، ہاشمی،ابو یعقوب بویطی،ابو ثور،حرملہ، موسی بن ابی الجارود مکی،عبد العزیز مکی،حسین بن علی کرابیسی، ابراہیم بن المنذر،حسن بن محمد زعفرانی،احمد بن محمد ازرقی،احمد بن سعید ہمدانی،احمد بن ابی شریح الرازی،احمد بن یحییٰ مصری، احمد بن عبد الرحمٰن وہبی، ابراہیم بن محمد شافعی، اسحاق بن راہویہ،اسحاق بن بہلول،ابو عبد الرحمٰن احمد بن یھییٰ شافعی،حارث ابن سریج،حامد بن یحییٰ بلخی،سلیمان بن داود،ھہری،عبدالعزیز بن عمران، علی بن معبد، علی بن سلمہ،عمرو بن سواد، ابوحنیفہ قحزم بن عبد اللہ، محمد بن یحییٰ،سعود بن سہل،ہارون ابن سعید،احمد بن سنان،احمد بن عمرو،یونس بن عبدالاعلی،ربیع بن سلیمان مرادی،ربیع بن سلیمان جیزی، محمد بن عبد اللہ بن  الحکیم،بحر بن نصر خولانی اور ان کے سوا ایک جم غفیر۔

          امام دارقطنیؒ نے امام شافعیؒ سے روایت کرنے والوں کے متعلق دو جز میں ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ قدیم و جدید اکابر علماء نے اس امام کی شان اور مناقب میں کتابیں لکھی ہیں۔(تحفۃ الباری مقدمہ)

سلام کے آداب و احکام ۲

سلام کے آداب
آپﷺ کا ارشاد ہے:" چھوٹا بڑے کو،سوار شخص چلنے والے کو،چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور قلیل کثیر(چھوٹی جماعت بڑی جماعت) کو سلام کرے۔"(متفق علیہ)
حدیث کی ترتیب کے مطابق سلام کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی اس کے برعکس کرے تو یہ مکروہ نہیں ہے، گو خلافِ سنت ہے، مذکورہ ترتیب اس وقت ہے جب کہ راستہ میں ملاقات ہو لیکن اگر کسی بیٹھے ہوئے شخص کے پاس کوئی آئے تو آنے والا سلام کرے، خواہ چھوٹا  ہو یا بڑا، قلیل ہو یا کثیر، جو رکا ہوا ہو یا لیٹا ہوا ہو، وہ بھی بیٹھے ہوئے کی طرح ہے۔ اگر قلیل پیدل اور کثیر سواروں میں ملاقات ہو تو دونوں میں تعارض ہے۔(اور ابتدا میں دونوں برابر ہوں گے اور جو پہل کرے اسے فضیلت حاصل ہوگی)۔
غائبانہ سلام کا جواب: اگر کسی کے ذریعہ سلام کہلوائے یا خط میں سلام لکھ کر روانہ کرے تو اس کا جواب بھی لازم ہے۔ جو قاصد دوسرے کا سلام لائے جواب میں اسے بھی شامل کرنا مستحب ہے، پس اس طرح جواب دے: وَعَلَيْكَ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ۔ کوئی شخص کسی کے سلام کو دوسرے تک پہنچانے کی ذمہ داری لے تو پہنچانا اس پر لازم ہے، کیوں کہ یہ امانت ہے۔
نمازی کا سلام: نمازی سلام پھیرتے وقت پاس موجود حضرات پر سلام کی نیت کرے تب بھی اس کا جواب لازم نہیں ہے۔
عورت اور سلام

 کسی عورت کا عورت کو یا اپنے محرم رشتہ دار کو یا آقا کو یا شوہر کو سلام کرنا مسنون ہے۔ اسی طرح غیر محرم کو بھی جب کہ عورت بوڑھی ہو اور قابلِ شہوت نہ ہو۔ ان تمام صورتوں  میں مرد کے سلام کا جواب اس پر لازم ہے۔ اگر کوئی قابلِ شہوت عورت تنہا ہو تو اسے کسی اجنبی مرد(غیر محرم) کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا حرام ہے اور اس مرد پر اس عورت کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے۔ اگر عورت ایک سے زائد ہوں یا مرد ایک سے زائد ہوں تو سلام کا جواب دینا فرض ہے۔
(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

بدھ، 22 جولائی، 2015

سلام کے آداب و احکام ۱

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلام کے آداب و احکام ۱
سلام کا جواب: کوئی عاقل مسلمان (گو ممیز بچہ ہو) مکلف مسلمانوں کی جماعت کو (یعنی ایک سے زائد افراد کو) سلام کرے (اور سلام کرنا اورع جواب دینا مطلوب و مشروع ہو) تو اس صورت میں جواب دینا فرضِ کفایہ ہے،مجمع میں سے کسی ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے۔ اگر کسی ایک شخص کو سلام کرے تو اس پر جواب دینا فرضِ عن ہے۔ کسی مسلمان کو جو فاسق و بدعتی نہ ہو سلام کرنا مسنون ہے، ابو داود کی حدیث میں سلام کی ابتداء کرنے والے کو اللہ (کی رحمت) سے زیادہ قریب بتلایا ہے۔
آیتِ قرآن:
وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا
ترجمہ:" اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔"(سورہ النساء : ۸۶)۔
          ایک حدیث میں ہے کہ غذرنے والے مجمع میں سے ایک شخص کا سلامکرنا اور بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک کا جواب دینا کافی ہے۔(ابو داود)۔
          ایک شخص جواب دے تو ثواب صرف اسے ملے گا اور دوسروں سے گناہ و حرج ساقط ہوگا۔ صرف ممیز بچہ کے جواب دینے سے فرض ساقط نہ ہوگا۔
سلام کرنے کے الفاظ(ابتداء کے الفاظ):۔
السَّلَام عَلَيْكُمْ سَلَامُ اللَّهِ عَلَيْكَ سَلَامِي عَلَيْكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ سَلَامٌ
آخری دو نوں الفاظ (یعنی عَلَيْكُمُ السَّلَامُ، عَلَيْكُمُ سَلَامٌ) مکروہ ہیں تاہم جواب دینا فرض ہے۔
          اگر تنہا شخص سلام کرے یا جواب دے تو علیکم کی جگہ صرف عَلَیکَ (تجھ پر) کہنا کافی ہے، لیکن ساتھ موجود فرشتوں کی وجہ سے جمع کا صیغہ یعنی علیکم (تم پر) کہنا مستحب ہے، مجمع کے سلام یا جواب میں صرف علیک کہنا کافی نہیں، بلکہ علیکم کہنا ضروری ہے۔
سلام کے جواب  کے الفاظ:۔
وَعَلَيْكُمْ السَّلَامُ ، عَلَيْكُمْ السَّلَامُ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، وَعَلَيْكُمْ سَلَام،عَلَيْكُمْ سَلَام، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
جواب   میں  وعلیکم السلام کہنا (یعنی ابتداء واو کے ساتھ) افضل ہے، ابتداءً  وعلیکم السلام کہنا صحیح نہیں اور اس سلام کا جواب فرض نہیں ہے۔ سلام یا جواب میں صرف  السلام یا صرف علیکم کہنا کافی نہیں ہے، خواہ دوسرے لفط کی دل میں نیت ہو۔ اگر کوئی  السلام علی سیدنا یا  مولانا یا   السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى یا السَّلَامُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ تو جواب دینا فرض نہیں ہے کیوں کہ یہ سلام کا شرعی صیغہ نہیں ہے۔
          اگر ملاقات پر دونوں بہ یک وقت علیکم السلام کہیں، تو جو ان میں سے جواب کی نیت سے یہ نہ کہے، اسے دوسرے کا جواب دینا فرض ہے۔
          کوئی شخص آتے وقت سلام کرے یا جدا ہوتے وقت دونوں صورتوں میں جواب فرض  ہے جیسا کہ سلام کرنا سنت ہے۔
سلام اور جواب کے الفاظ میں  وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ  کا اضافہ مسنون ہے، اگر سلام کرنے والا یہ اضافہ کرے جب بھی جواب میں یہ اضافہ واجب نہیں ہے۔
بہرہ کا سلام کرنا یا بہرہ کو سلام کرنا: کسی بہرہ کو سلام کرے تو الفاظ کے ساتھ اشارہ بھی کرے، تاکہ وہ سمجھے اور جواب دے۔ بہرہ کسی کو سلام کرے تو جواب میں الفاظ اور اشارہ دونوں واجب ہیں، اگر اس کے منہ پر دیکھنے کی وجہ سے مثلاً اسے اس کے جواب کا اندازہ ہوجائے تو اشارہ واجب نہیں ہے۔
گونگے کا سلام: گونگے کا اشارہ میں اسلام کرنا اور جواب دینا معتبر ہوگا۔
اتصال: سلام اور جواب میں عقد (خرید و فروخت وغیرہ) کے ایجاب و قبول کی طرح اتصال شرط ہے (یعنی زیادہ فاصلہ نہ ہو) اگر فاصلہ ہوا تو (جواب فوت ہوگیا اب) اس کی قضا نہیں۔
          کسی کو مختلف گروہ (بہ یک وقت) سلام کریں اور یہ سب کے جواب کی نیت سے ایک مرتبہ وعلیکم السلام کہے تو کافی ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے سلام کریں، اور زیادہ افراد ہوں تو ایک جواب سب کے لئے کافی نہیں ہوگا، کیوں کہ مشروط اتصال موجود نہیں۔
پاگل،فاسق و بدعتی کو سلام کا جواب دینا: پاگل اور نشہ میں مست شخص کو جواب دینا واجب نہیں ہے، اسی طرح فاسق اور بدعتی کے سلام کا جواب بھی واجب نہیں تاکہ اس سے ان کو یا دوسروں کو زجر و تنبیہ حاصل ہو۔
غیر مسلم کے سلام کا جواب: اگر کوئی ذمی کسی مسلم کو سلام کرے تو اسے  وعلیک یا  علیک کہنا واجب ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ کی حدیث میں اس کا حکم موجود ہے لیکن امام بلقینیؒ، اذرعیؒ اور زرکشیؒ نے اسے مسنون قرار دیا ہے۔
اشارہ سے سلام کرنا:صرف ہاتھ وغیرہ کے اشارہ سے سلام کرنا  خلافِ اولیٰ ہے اور اس کا جواب فرض نہیں ہے کیوں کہ اس طرح سلام سے ترمذی و نسائی کی حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ لفظ اور اشارہ کو جمع کرنا افضل ہے۔ جو نماز میں یا دور ہونے یا گونگا ہونے کی وجہ سے لفظاً جواب نہیں دے سکتا اسے اشارہ میں جواب دینا مشروع ہے۔

مسئلہ: اگر دو آدمی ایک دوسرے کو بہ یک وقت سلام کریں تو دونوں پر جواب لازم ہے اگر آگے پیچھے کریں تو دوسرے کا سلام بطورِ جواب کافی ہے البتہ وہ اس سے ابتدا کا، یا ابتدا و جواب دونوں کا قصد کرے تو جس نے پہلے سلام کیا اس پر جواب لازم ہے۔(جاری)

(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

منگل، 21 جولائی، 2015

تصویر و ویڈیو کے احکام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تصویر و ویڈیو کے احکام

احادیث:
حدیث ۱: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو۔"(مؤطا مالکؒ،بخاری و مسلم)۔
حدیث ۲:  "قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں مصوروں (تصویر بنانے والوں) کو یقیناً شدید ترین عذاب ہوگا۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۳: "بے شک جو تصویر بناتے ہیں، قیامت کے دن ان کو عذاب ہوگا۔" ان سے کہا جائے گا: تم نے جو پیدا کیا اس میں روح پھونکو(زندہ کرو)۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۴: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: آپ ﷺ ایک مرتبہ سفر سے تشریف لائے اور میں نے ایک تصویر والا پردہ  لٹکا رکھا تھا، پس جب آپ ﷺ نے یہ دیکھا تو اسے ہٹانے کا حکم دیا اور فرمایا:" جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن سخت ترین عذاب ہوگا۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۵: آپ ﷺ نے مصوروں سمیت کئی گناہ گاروں پر ایک حدیث میں لعنت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری)۔
          امام نوویؒ نے فرمایا: علماء فرماتے ہیں کہ کسی حیوان کی تصویر بنانا سخت حرام ہے، یہ کبائر میں داخل ہے کیوں کہ اس پر مذکورہ بالا شدید ترین وعید وارد ہے، چاہے تحقیر و تذلیل کے طور پر استعمال کے لئے بنائے یا کسی اور مقصد سے، بنانا ہر حال میں حرام ہے خواہ کپڑے میں بنائے یا بچھونے میں، درہم و دینار( نوٹ وغیرہ) یا برتن و دیوار پر۔
غیر جاندار کی تصویر بنانا حرام نہیں۔ مسلم وغیرہ میں ابن عباسؓ سے اس کی اجازت منقول ہے۔
          امام خطابیؒ فرماتے ہیں کہ مصوروں کو اتنی سخت وعید اس لئے ہے کہ تصویریں اللہ کے علاوہ پوجی جاتی تھیں، نیز اس کو دیکھنا فتنہ کا طاعث ہے اور بعض نفوس اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اگر تصویر سائے دار نہ ہو (یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ) پر ہو اور اسے روندا جاتا ہو،(چلنے پھرنے کی جگہ ہو) یا استعمال کے ذریعے اس کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہو تو اس چیز کا استعمال جائز ہے(گر چہ اس تصویر کا بنانا حرام ہے) اگر دیوا رپر آویزاں یا پوشاک اور عمامہ وغیرہ پر ہو جس میں تحقیر کا پہلو نہ ہو تو اس کا استعمال بھی حرام ہے۔
          امام رافعیؒ نے جمہور سے نقل فرمایا کہ تصویر کا سر کاٹ دیا جائے تو ممانعت ختم ہوجائے گی، لیکن امام متولی اس سے متفق نہیں۔
          نہایة، فتح الوھاب اور تحفة وغیرہ کتب میں بچیوں کے لئے گڑیا کو جائز قرار دیا ہے کیوں کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ اس سے کھیلا کرتی تھیں اس میں حکمت یہ کہ اولاد کی تربیت کی مشق حاصل ہوجائے۔ بعض علماء نے ممانعت کی روایت کے پیش نظر اس اجازت کو منسوخ قرار دیا ہے۔
          سکوں پر مکمل تصویر ہو تب بھی اسے استعمال کرنے اور ساتھ رکھنے میں حرج نہیں، اسلاف اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔
        ویڈیو سے متعلق تنبیہ: دورِ حاضر میں تصویر ہی کی ایک ترقی یافتہ اور بسہولت دستیاب لعنت و مصیبت ویڈیو ہے جس کا نشہ باوجود کئی مفاسد کے لوگوں کے دماغ پر چھا چکا ہے اور اس زہریلے سانپ کو حسین ہار سمجھ کر گلے میں لٹکالیا ہے، حالانکہ متحرک تصاویر کے مفاسد واضح ہیں، اس کے ذریعہ شادی کی عام مجلسوں کی تصویر کشی تو ایک عام سی بات بن ہی چکی ہے، مزید آگے بڑھ کر عورتوں کھانے پینے وغیرہ کی اداؤں کو بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ بلکہ شیطان نے تو ایسا مخمور کردیا ہے کہ حجلۂ عروسی اور فراشِ عروسی کے مناظر تک اس کیمرہ اور کیمرہ مین کو رسائی حاصل ہورہی ہے، کیا یہی نکاح کے سنت کی ادائیگی کا طریقہ ہے، کہ حیاء کو بالکل بالائے طاق رکھ کر فحاشی اور بے پردگی کا یوں مظاہرہ کیا جائے۔
          یہ مقدس مذہبِ اسلام کی عفت مآب بیٹیاں ہیں، یا نعوذ باللہ کسی قحبہ خانی کی عصمت فروش اور بے حیا عورتیں ؟ ذرا تو ہوش کے ناخن لیجئے، مردوں اور عورتوں کی غیرت اور حیا کہاں مرگئی؟ اللہ تعالیٰ امت کو تمام فتنوں سے بچ کر سنت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(تحفۃ الباری ۳/۶۵)

پیر، 20 جولائی، 2015

مصافحہ و معانقہ کرنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مصافحہ و معانقہ کرنا

احادیث
(۱)حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے قتادہؓ نے پوچھا کہ کیا صحابۂ کرامؓ میں مصافحہ کا معمول تھا؟ انہوں نے فرمایا: "جی ہاں"(صحیح بخاری)۔
(۲) آپ ﷺ سے پوچھا گیا، ملاقات پر اپنے بھائی کے لئے جھک جائیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:"نہیں"۔ پوچھا گیا: تو کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرلیں؟ فرمایا:"ہاں"۔(ترمذی وحسنہ)۔
(۳)ارشادِ نبویﷺ ہے:"جو بھی دو مسلمان بوقت ملاقات مصافحہ کرلیں، بچھڑنے سے پہلے ضرور ان کی مغفرت ہوگی۔"(مسند احمد،ابوداود،ترمذی)
          ابو داود کی ایک روایت میں ہے:"اور دونوں اللہ کی حمد اور استغفار کریں"۔(فتح الباری۔۱۱/۵۵)۔
          دو مردوں اور دو عورتوں کو بوقت ملاقات مصافحہ مسنون ہے۔ اگر ایک مرد و عورت آپس میں محرم یا میاں بیوی ہوں یا ایک حدِ شہوت سے کمسن ہو، تو مصافحہ جائز ہے۔ حسین امرد سے مصافحہ  حرام ہے۔ جسے جذام یا برص جیسی بیماری ہو اس سے مصافحہ مکروہ ہے۔
        معانقہ  (گلے ملنا۔ بغلگیر ہونا) اور سر میں بوسہ لینا مکروہ ہے البتہ کوئی سفر سے آیا ہو یا عرفاً کافی مدت کے بعد ملاقات ہو تو حدیث کی روشنی میں سنت ہے، جبکہ جنس متحد ہو (یعنی مرد کو مرد سے اور عورت کو عورت سے گلے ملنا اس صورت میں سنت ہوگا) لیکن امرد مستثنیٰ ہے۔
          کسی زندہ آدمی کے ہاتھ کو بوسہ دینا سنت ہے، جب کہ کسی دینی فضیلت و بزرگی کی وجہ سے ہو، کسی دنیوی امر مثلاً مالداری،وزارت وغیرہ کی وجہ سے مکروہ ہے، کسی مجبوری کی وجہ سے حرج نہیں۔
          اہل فضل کے لئے اکراماً کھڑے ہونا مستحب ہے، ریا اور تفخیم کے طور پر منع ہے۔
تنبیہ: بعض علاقوں میں عید،شادی، اور جنازہ کے موقع پر معانقہ کا معمول و اہتمام ہے لیکن حدیث و فقہ کی کسی کتاب میں ان اوقات میں معانقہ کی مشروعیت احقر کی نظر سے نہیں گذری۔ شرعی ثبوت کے بغیر کسی چیز کا اہتمام کرنا اور رسم بنا لینا کہ وہ کوئی مطلوب اور شرعی عمل محسوس ہونے لگے، قطعاً مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(تحفۃ الباری ۳/۱۷)

نا محرم کو چھونے کا حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نا محرم کو چھونے کا حکم
جہاں نا محرم کو دیکھنا ممنوع ہے، تو اس کو  چھونا بھی حرام ہے، کیوں کہ چھونا شہوت بھڑکانے میں دیکھنے سے بڑھ کر ہے، اسی لئے چھونے سے انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور صرف دیکھنے سے انزال ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
            لہٰذا کسی  آدمی کا امرد  کو بھی چھونا حرام ہے، اور بلا حائل کسی آدمی کی ران رگڑنا بھی حرام ہے۔ حائل کے ساتھ کسی آدمی کی ران رگڑنا جائز ہے، جب کہ بلا شہوت ہو اور فتنہ کا خوف نہ ہو۔ امرد کی ران حائل کے ساتھ بھی چھونا حرام ہے۔
            کبھی چھونا جائز اور دیکھنا حرام ہوتا ہے، مثلاً طبیب جب کہ صرف چھو کر مرض کا پتہ لگا سکتا ہو۔
            نکاح کے قصد، گواہی اور تعلیم کے لئے دیکھنے کی اجازت کے باوجود چھونا حرام ہے۔
محرم کے پیٹ،پشت اور پیر وغیرہ کو بلا حائل بغیر حاجت و شفقت کے چھونا یا اس کا بوسہ لینا حرام ہے۔ حاجت یا شفقت کی صورت میں جائز ہے، جب کہ شہوت یا فتنہ کا خوف نہ ہو۔
آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا اور حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عائشہؓ کا بوسہ لیا تھا۔(بخاری شریف)۔
            صاحبِ مغنی نے حاجت و شفقت کے بغیر بھی جواز کو ترجیح دی ہے۔ والدہ وغیرہ کا پیر دبانا حاجت کی صورت میں جائز ہے۔
بال و ناخن کا حکم: جن اشیاء کا بدن پر ہوتے ہوئے دیکھنا حرام ہے، جدائی کے بعد بھی حرام ہے۔ اسی لئے علماء نے موئے زیرِ ناف اور عورت کے ناخن و بال کو دفن کرنا واجب قرار دیا ہے۔
دو مرد یا دو عورتوں کا ساتھ لیٹنا:۔
دو مرد یا دو عورت کا برہنہ ایک ہی کپڑے میں لیٹنا حرام ہے، جب کہ بستر ایک ہو، گرچہ ایک دوسرے سے مس نہ ہوں، یا ماں باپ کے ساتھ ہوں جب کہ بچہ دس سال  کا ہوچکا ہو، کیوں کہ مسلم شریف کی حدیث میں دو مردوں کو یا دو عورتوں کو اس طرح ایک ہی کپڑے (چادر) میں سونے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث: آپ ﷺ نے فرمایا" سات سال کی عمر میں اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو ، دس سال کے ہو جائیں تو نماز (میں کوتاہی ) پر مارو اور ان کے بستر جدا کردو۔"(ابو داود،حاکم۔تلخیص)۔
            دارقطنی اور حاکم کی ایک روایت میں سات سال میں بستر کی جدائی کا حکم دیا ہے۔
بچہ جب دس سال(یا بعضوں کے نزدیک سات سال) کا ہوجائے تو والدین و بھائی بہنوں سے جدا سلانا واجب ہے جبکہ بدن پر کپڑا نہ ہو ورنہ گنجائش ہے۔

(تحفۃ الباری ملخصاً)۔

اتوار، 19 جولائی، 2015

نا محرم یا اجنبی عورت یا مرد کو دیکھنا،اس کی آواز سننا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نا محرم یا اجنبی عورت کو دیکھنا،اس کی آواز سننا کیسا ہے؟

ایک بالغ کے لئے اجنبی عورت کے بدن کا کوئی بھی حصہ دیکھنا حرام ہے، یہاں تک کہ ناخن اور بال وغیرہ بدن سے جدا ہونے کے بعد بھی دیکھنا حرام ہے۔ اس کی آواز سننا حرام ہے،گرچہ تلاوت کی آواز ہو، جب کہ فتنہ کا خوف یا آواز سے لطف اندوز ہو،ورنہ حرام نہیں۔ اس میں اَمرد کا بھی یہی حکم ہے۔
اَمرد ایسا نو عمر لڑکا جسے ابھی داڑھی نہ آئی ہو اور غالباً داؑھی اگنے کی عمر تک نہ پہنچا ہو ۔اگر بڑی عمر کے باوجود داڑھی نہ ہو تو وہ امرد نہیں کہلائے گا
            عورت کے لئے سنت ہے کہ اجنبی سے بات کرتے وقت آواز کچھ موٹی اور بھاری نکالے یا منہ پر ہاتھ رکھے۔(قلائد)۔
آیت:  قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور :۳۰)۔
ترجمہ: " آپ مسلمانوں مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔"(النور :۳۰)۔
احادیث: ۱۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اتفاق نگاہ کے متعلق سوال کیا، تو فرمایا: "نگاہ پھیر لو"(مسند احمد،مسلم،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۲:۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: "اے علی! ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ ڈالو۔۔۔۔"(مسند احمد،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۳ :۔ حجۃ الوداع میں ایک عورت آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی تو حضرت فضلؓ اس کی طرف دیکھنے لگے، تو آپﷺ نے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دوسری  طرف پھیر دیا ۔۔۔۔۔(بخاری)(نیل الاوطار ۶/۱۲۸)۔
عورت کا کسی اجنبی مرد کو دیکھنا
امام نوویؒ فرماتے ہیں کے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اسے اجنبی مرد کے کسی بھی حصہ کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔
آیت:  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور :۳۱)۔
ترجمہ: اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔"(سورہ النور:۳۱)۔
حدیث: ایک مرتبہ حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حضرت ام  سلمہؓ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ان سے پردہ کا حکم دیا، اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا وہ تو نابینا ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:"کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، تم انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟"(ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن حبان)۔
امام بلقینیؒ وغیرہ کا قول  ہے کہ فتنہ کا خطرہ نہ ہو تو اسے مرد کے چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا جائز ہے۔(مغنی  ۳/۱۳۲)۔
امرد کو دیکھنا: اَمرد ایسا نو عمر لڑکا جسے ابھی داڑھی نہ آئی ہو اور غالباً داؑھی اگنے کی عمر تک نہ پہنچا ہو ۔اگر بڑی عمر کے باوجود داڑھی نہ ہو تو وہ امرد نہیں کہلائے گا۔
            شہوت کے ساتھ خوبصورت امرد کی طرف نگاہ بالاجماع حرام ہے،بلکہ شہوت کے ساتھ تو باریش شخص اور محرم عورتوں کی طرف بھی نگاہ قطعاً حرام ہے، اگر دیکھنے سے لطف اندوز ہو(لذت حاصل ہو) تو اسے شہوت کی نگاہ شمار کریں گے۔ شہوت نہ ہو، لیکن فتنہ کا اندیشہ ہو تب بھی امرد کی طرف نگاہ حرام ہے۔
            امام نوویؒ کے نزدیک شہوت اور فتنہ کے خوف کے بغیر بھی امرد کو دیکھنا حرام ہے، جبکہ وہ محرم نہ ہو، اکثر حضرات کے نزدیک اس صورت میں دیکھنا حرام نہیں۔ امرد کے ساتھ خلوت(تنہائی) یا اس کے بدن کے کسی حصہ کو چھونا بھی حرام ہے۔(اعانۃ ۳/۲۶۳)۔

(ملخصاً تحفۃ الباری)۔

جمعہ، 17 جولائی، 2015

عیدین کا خطبہ

عید کے خطبہ کا وقت اور اس کا طریقہ
مسئلہ: عید کا خطبہ نماز کے بعد ہے۔
حدیث:  (۱)حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے آپ ﷺ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ خطبہ سے پہلے نماز عید ادا کرتے تھے۔(رواہ البخاری و مسلم)
حدیث : (۲) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، میں آپ ﷺ کے ساتھ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن نکلا تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا۔(رواہ البخاری)
لہٰذا امام نماز سے فراغت کے بعد منبر پر چڑھ کر سلام کر کے (جمعہ کی طرح بقدر اذان) بیٹھ جائے، پھر دوبارہ کھڑے ہو کر دو خطبے دے، اور ان دونوں خطبوں کے ارکان جمعہ کے خطبہ کے مانند ہیں۔ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا مستحب ہے۔
مسئلہ : ان خطبوں کو قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر دینا جائز ہے۔
مسئلہ: اگر صرف نماز پڑھے اور خطبہ نہ دے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مسئلہ: کوئی منفرد(اکیلا) عید کی نماز  ادا کرے تو اسے خطبہ دینے کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ: عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام اور عید الاضحیٰ میں قربانی کے احکام بتلانا مستحب ہے۔
مسئلہ: پہلے خطبہ کے ابتداء میں پے در پے (اور جدا جدا) نو (۹) تکبیرات اور دوسرے خطبہ کے ابتداء میں سات تکبیرات پڑھنا مستحب ہے۔
مسئلہ: ان تکبیرات کے درمیان اللہ تعالیٰ کی حمد و تہلیل اور ثنا کے کلمات پڑھنا جائز ہے۔
مسئلہ: مذکورہ نو اور سات تکبیرات نفس خطبہ میں سے نہیں ہیں، بلکہ یہ خطبہ کے لئے بطور مقدمہ کے ہیں۔
مسئلہ: خطبہ کہ دھیان و توجہ سے سننا مستحب ہے اور نہ سننا مکروہ ہے۔
عید کی نماز شروع ہونے کے بعد یا خطبہ کے دوران  آنے والے کے متعلق احکام
مسئلہ: عید کی نماز اگر عید گاہ میں پڑھی گئی اور نماز کے بعد دوران خطبہ کوئی آئے تو وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے بلکہ بیٹھ کر خطبہ سنے اور خطبہ ہونے کے بعد عید کی نماز چاہے عید اہ میں ادا کرے یا اپنے گھر جاکر۔
مسئلہ: اگر عید کی نماز مسجد میں پڑھی گئی اور نماز کے بعد دورانِ خطبہ  کوئی آئے تو سب سےپہلے عید کی نماز ادا کرے پھر خطبہ سنے اور تحیۃ المسجد الگ سے پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تحیۃ المسجد کا ثواب عید کی نماز کے ضمن میں مل جائے گا۔
مسئلہ: امام نماز سے پہلے ہی خطبہ دے تو خطبہ شمار نہ ہوگا جیسا کہ فرض کی نماز پچھلی سنت فرض سے پہلے پڑھے تو شمار نہیں ہوتی۔
عید کی نماز کی قضاء
مسئلہ: عید کی نماز اگر فوت (چھوٹ) ہو جائے تو اس کی قضاء کرنا مستحب ہے۔
مسئلہ: رمضان کی تیس تاریخ کو زوال سے اتنی دیر پہلے، جس میں لوگوں کا جمع ہو کر عید کی نماز ادا کرنا ممکن ہو ، اور دو عادل شخص گذشتہ رات (یعنی تیسویں رات) چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو روزہ توڑ کر نماز پڑھیں اور یہ نماز ادا شمار ہوگی۔ قضاء نہ ہوگی۔
مسئلہ: اگر غروبِ شمس کے بعد گواہی دیں تو نماز کے  سلسلہ میں گواہی قبون نہ کریں کیوں کہ گواہی قبول کرنے کی صورت میں سوائے نماز چھوڑنے کے کچھ فائدہ نہیں۔ لہٰذا دوسرے دن نماز اداءً پڑھے قضاء نہ ہوگی۔
مسئلہ: اگر زوال کے بعد غروب سے پہلے یا زوال سے اتنی دیر پہلے جس میں نماز پڑھنا ممکن نہ ہو گواہی دیں تو روزہ توڑ دیں البتہ نماز فوت ہو جائے گی، اب اس کی قضاء کرے خواہ اسی دن قضاء کرے یا دوسرے دن۔ لیکن اگر شہر کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اُسی دن جمع ہونا ممکن ہو تو اسی دن پڑھنا افضل ہے، ورنہ دوسرے دن پڑھنا افضل ہے۔
حدیث: ایک قافلہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں آکر گذشتہ رات چاند دیکھنے کی گواہی دینے لگا تو آپ ﷺ نے انہیں روزہ افطار کرنے اور (دوسرے دن) صبح کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔( احمد،نسائی، بیہقی، صححہ الخطابی)
مسئلہ: دو آدمیوں نے زوال سے پہلے یا مغرب سے پہلے گواہی دی اور زوال کے بعد یا مغرب کے بعد عادل قرار دئے گئے تو جس وقت عادل قرار دئے گئے اس وقت کا اعتبار ہوگا، لہٰذا پہلی صورت میں نماز قضاء پڑھے اور دوسری صورت میں اداء پڑھے۔
نوٹ:- یہ مذکورہ ساری تفصیل اس صورت میں ہوگی جب کہ تمام لوگوں کو اشتباہ ہوجائے اور سب کی نماز فوت ہوجائے۔ لیکن اگر چند افراد کو اشتباہ ہونے کی وجہ سے نماز فوت ہوجائے( تو ادا کی گنجائش نہیں) بلکہ قضاء کرے ۔

جمعہ کے دن عید کا مسئلہ

            جمعہ کے دن عید آجائے اور عید کی نماز کے لئے ایسی بستیوں کے لوگ آجائیں جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے تو ایسے لوگوں کو جمعہ چھوڑ کر واپس اپنی بستی میں جانے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر ان لوگوں کے جانے سے پہلے جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں جمعہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(فتح الوھاب)
(مأخوذ ملخصاً تحفة الباری فی الفقه الشافعی ازشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم بن علی خطیب حفظہ اللہ)