جمعرات، 23 جولائی، 2015

سلام کے آداب و احکام ۲

سلام کے آداب
آپﷺ کا ارشاد ہے:" چھوٹا بڑے کو،سوار شخص چلنے والے کو،چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور قلیل کثیر(چھوٹی جماعت بڑی جماعت) کو سلام کرے۔"(متفق علیہ)
حدیث کی ترتیب کے مطابق سلام کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی اس کے برعکس کرے تو یہ مکروہ نہیں ہے، گو خلافِ سنت ہے، مذکورہ ترتیب اس وقت ہے جب کہ راستہ میں ملاقات ہو لیکن اگر کسی بیٹھے ہوئے شخص کے پاس کوئی آئے تو آنے والا سلام کرے، خواہ چھوٹا  ہو یا بڑا، قلیل ہو یا کثیر، جو رکا ہوا ہو یا لیٹا ہوا ہو، وہ بھی بیٹھے ہوئے کی طرح ہے۔ اگر قلیل پیدل اور کثیر سواروں میں ملاقات ہو تو دونوں میں تعارض ہے۔(اور ابتدا میں دونوں برابر ہوں گے اور جو پہل کرے اسے فضیلت حاصل ہوگی)۔
غائبانہ سلام کا جواب: اگر کسی کے ذریعہ سلام کہلوائے یا خط میں سلام لکھ کر روانہ کرے تو اس کا جواب بھی لازم ہے۔ جو قاصد دوسرے کا سلام لائے جواب میں اسے بھی شامل کرنا مستحب ہے، پس اس طرح جواب دے: وَعَلَيْكَ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ۔ کوئی شخص کسی کے سلام کو دوسرے تک پہنچانے کی ذمہ داری لے تو پہنچانا اس پر لازم ہے، کیوں کہ یہ امانت ہے۔
نمازی کا سلام: نمازی سلام پھیرتے وقت پاس موجود حضرات پر سلام کی نیت کرے تب بھی اس کا جواب لازم نہیں ہے۔
عورت اور سلام

 کسی عورت کا عورت کو یا اپنے محرم رشتہ دار کو یا آقا کو یا شوہر کو سلام کرنا مسنون ہے۔ اسی طرح غیر محرم کو بھی جب کہ عورت بوڑھی ہو اور قابلِ شہوت نہ ہو۔ ان تمام صورتوں  میں مرد کے سلام کا جواب اس پر لازم ہے۔ اگر کوئی قابلِ شہوت عورت تنہا ہو تو اسے کسی اجنبی مرد(غیر محرم) کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا حرام ہے اور اس مرد پر اس عورت کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے۔ اگر عورت ایک سے زائد ہوں یا مرد ایک سے زائد ہوں تو سلام کا جواب دینا فرض ہے۔
(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں