اتوار، 22 مئی، 2016

کیا عمداً نماز چھوڑنے والا نماز قضاء کرے گا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قضاء نماز
نماز ہر مسلمان پر وقتِ مقررہ پر فرض ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں   إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ( سورة النساء آیت 103)، نیز نمازوں کو وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کی تاکید بہت سی احادیث میں آئی ہے، ایک حدیث میں آپ ﷺ نے سب سے افضل عمل نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا فرمایا ہے۔(سنن الترمذی حدیث 173)، نیز نمازوں کو چھوڑنے پر اللہ کے رسول ﷺ نے بہت سی وعیدیں بیان فرمائی ہیں ، ایک حدیثِ پاک میں ہےکہ بندے  اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے(مسند احمد 14979)، نیز ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو متعمداً(جان بوجھ کر) نماز چھوڑتا ہے  اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوجاتا ہے(مسند احمد 22075)۔ اس لئے ایک مسلمان کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ نماز کو اپنے اوقات پر ادا کرے، اور ان سے غافل نہ رہے۔ لیکن بھول کر یا نیند کی وجہ سے یا لا علمی میں جو نمازیں چھوٹ جاتی ہیں ان کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟ کیا ہم صرف توبہ و استغفار کریں گے یا ان کو قضاءبھی کریں گے؟ اس کی تفصیل ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: "مَنْ نَسِىَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلاَّ ذَلِكَ". {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِى} (صحیح البخاری حدیث 597)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو نماز کو بھول جائے تو چاہئے کہ وہ اس کو پڑھے جب اسے یاد آجائے، اس کا کفارہ صرف یہی ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتےہیں) قائم کرو نماز کو میرے ذکر کے لئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 597)
          علامہ ابن الملقن ؒ(متوفیٰ 804ھ) نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم الحديث دال عَلَى وجوب القضاء عَلَى النائم والناسي، كثرت الصلاة أو قلت، وهذا مذهب العلماء كافة .......
یہ حدیث سونے والے اور بھولنے والے  پر  نماز کی قضاء  کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے ، اور یہی تمام علماء کا مذھب ہے۔
 پھر آگے چل کر ابن ملقن  ؒ فرماتے ہیں:
فإن تركها عامدًا فالجمهور عَلَى وجوب القضاء أيضًا إلا ما حكي عن داود وجمع يسير ........
 اگر جان بوجھ کر چھوڑے تو جمہور علماء بھی اس پر قضاء کے واجب ہونے کے قائل ہیں سوائے چند کہ جو داود اور تھوڑے لوگوں کے بارے میں مروی ہے۔
آگے چل کر فرماتے ہیں:
احتج الجمهور بالقياس عَلَى الناسي، وهو من باب التنبيه بالأدنى عَلَى الأعلى، ومن نفي القياس فغير معتد بخلافه، وقد قَالَ - صلى الله عليه وسلم -: "فليصلها إذا ذكرها" والعامد ذاكر لها، ثم المراد بالنسيان: الترك، سواء كان مع ذهول أو لم يكن، قَالَ تعالى: {نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ} [التوبة: 67] أي: تركوا معرفته وأمره فتركهم في العذاب، ثم الكفارة إنما تكون عن ذنب غالبًا، والنائم والناسي ليس بآثم، فتعين العامد.

 جمہور علماء نے بھولنے والے پر قیاس کر کے اس حدیث سے دلیل لی ہے اور یہ ادنیٰ سے اعلیٰ پر تنبیہ کے قاعدے سے ہے (یعنی جس چیز پر ادنیٰ امر پر تنبیہ کی جائے تو اعلیٰ پر بدرجہ اولیٰ تنبیہ ہوگی ، جیسے بھولنا ادنیٰ عمل ہے اور جان بوجھ کر چھوڑنا اعلیٰ ہے جب بھولنے سے نماز قضاء لازم ہے تو جان بوجھ کر چھوڑنے سے بدرجہ اولیٰ لازم ہوگی) پھر آگے فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: " فليصلها إذا ذكرها " یعنی چاہئے کہ وہ پڑھ لے جب اسے یاد آجائے، پھر نسیان سے مراد چھوڑنا ہے، چاہے بھول و غفلت سے ہو یا عمداً ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ "(سورہ توبہ:67) یعنی ان لوگوں نے اس کی معرفت کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب میں چھوڑا۔ پھر کفارہ اکثر گناہ ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، اور سونے والا اور بھولنے والا، تو متعین ہوگیا کہ عمداً نماز چھوڑنے والا ۔(التوضیح جلد 6 صفحہ286،287)
          اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (متوفیٰ 852 ھ)   عمداً نماز چھوڑنے پر جو اقوال ہیں جیسا کہ ابن الملقنؒ نے بھی ذکر کیا ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وَوُجُوبُ الْقَضَاءِ عَلَى الْعَامِدِ بِالْخِطَابِ الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ قَدْ خُوطِبَ بِالصَّلَاةِ وَتَرَتَّبَتْ فِي ذِمَّتِهِ فَصَارَتْ دَيْنًا عَلَيْهِ وَالدَّيْنُ لَا يَسْقُطُ إِلَّا بِأَدَائِهِ فَيَأْثَمُ بِإِخْرَاجِهِ لَهَا عَنِ الْوَقْتِ الْمَحْدُودِ لَهَا وَيَسْقُطُ عَنْهُ الطَّلَبُ بِأَدَائِهَا فَمَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ عَامِدًا فَإِنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَقْضِيَهُ مَعَ بَقَاءِ إِثْمِ الْإِفْطَارِ عَلَيْهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
          "عمداً نماز چھوڑنے والے پر قضاء کا واجب ہونا وہ خطاب اول کے ذریعہ ہے اس لئے کہ اس کو نماز کا حکم تھا اور وہ اس کے ذمہ مرتب تھی تو وہ دَین(قرض) ہوگیا اس کے ذمہ اور قرض بغیر اس کے ادا کئے ہوئے ساقط نہیں ہوتا تو وہ نماز کو اپنے وقت سے نکالنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا اور اس سے نماز کا سوال ساقط ہوجائے گا اس کو قضاء کرنے سے(یعنی کیوں کہ اس نے عمداً نماز چھوڑی اور اس کے وقت سے الگ پڑھی تو اس کو اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھنے کا گناہ ہوگا  مگر جو قرض ذمہ تھا قضاء کرنے سے وہ ساقط ہوجائے گا۔) پس جیسا کہ جو رمضان میں عمداً روزہ نہ رکھے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس کو قضاء کرے ساتھ میں اس پر رمضان میں روزہ نہ رکھنے کا گناہ باقی رہے گا واللہ اعلم۔(فتح الباری ج 2 ص 71-72)
امام نوویؒ (متوفیٰ 676 ھ) نے قضاء نمازوں کے بارے میں شرح مھذب میں رقمطراز ہیں:
أَمَّا حُكْمُ الْفَصْلِ فَفِيهِ مَسْأَلَتَانِ إحْدَاهُمَا مَنْ لَزِمَهُ صَلَاةٌ فَفَاتَتْهُ لَزِمَهُ قَضَاؤُهَا سَوَاءٌ فَاتَتْ بِعُذْرٍ أَوْ بِغَيْرِهِ فَإِنْ كَانَ فَوَاتُهَا بِعُذْرٍ كَانَ قَضَاؤُهَا عَلَى التَّرَاخِي وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَقْضِيَهَا عَلَى الْفَوْرِ قَالَ صَاحِبُ التَّهْذِيبِ وَقِيلَ يَجِبُ قَضَاؤُهَا حين ذكر للحديث وَاَلَّذِي قَطَعَ بِهِ الْأَصْحَابُ أَنَّهُ يَجُوزُ تَأْخِيرُهَا لحديث عمران ابن حُصَيْنٍ وَهَذَا هُوَ الْمَذْهَبُ وَإِنْ فَوَّتَهَا بِلَا عُذْرٍ فَوَجْهَانِ كَمَا ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ أَصَحُّهُمَا عِنْدَ الْعِرَاقِيِّينَ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ الْقَضَاءُ عَلَى الْفَوْرِ وَيَجُوزُ التَّأْخِيرُ كَمَا لَوْ فَاتَتْ بِعُذْرٍ وَأَصَحُّهُمَا عِنْدَ الْخُرَاسَانِيِّينَ أَنَّهُ يَجِبُ الْقَضَاءُ عَلَى الْفَوْرِ وَبِهِ قَطَعَ جَمَاعَاتٌ مِنْهُمْ أَوْ أَكْثَرُهُمْ وَنَقَلَ إمَامُ الْحَرَمَيْنِ اتِّفَاقَ الْأَصْحَابِ عَلَيْهِ وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّهُ مُفَرِّطٌ بِتَرْكِهَا وَلِأَنَّهُ يُقْتَلُ بِتَرْكِ الصَّلَاةِ الَّتِي فَاتَتْ وَلَوْ كَانَ الْقَضَاءُ عَلَى التَّرَاخِي لَمْ يُقْتَلْ

"بہرحال فصل(قضاء نماز کی) کے حکم میں دو مسئلے  ہیں ان میں سے ایک جس پر نماز لازم تھی تو اس سے وہ چھوٹ گئی تو وہ اس کو قضاء کرے گا چاہے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹے یا بغیر کسی عذر کے، پس اگر اس کی چھوٹی ہوئی نماز عذر کی وجہ سے ہے تو اس کے قضاء کرنے میں وسعت و گنجائش ہےاور مستحب ہے کہ وہ اس کو فوراً قضاء کرلے۔ تھذیب کتاب کے مصنف نے کہا اور کہا جاتا ہے اس کی قضاء کرنا واجب ہے حدیث کے ذکر کے موقعہ پر، اور جمہور اصحاب فقہاء کہتے ہیں کہ نماز قضاء کرنے میں تاخیر کرنا جائز ہے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ والی حدیث کی بنیاد پر اور یہی مذھب ہے۔
اگر بغیر کسی عذر کے نماز چھوڑے یعنی عمداً نماز نہ پڑھے تو اس میں صحیح بات عراقی فقہاء کے نزدیک  یہی ہے کہ  اس کی فوری قضاء کرنا مستحب ہے اور تاخیر جائز ہے جیسا کہ اگر عذر کی وجہ سے چھوٹی ہو ، اور خراسان کے فقہاء کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ فوراً اس کا قضاء کرنا واجب ہے اور یہی بات خراسان کی ایک جماعت کہتی ہے یا ان میں سے اکثر کی رائے یہی ہے اور امام الحرمیںؒ نے فقہاء شوافع کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس لئے کہ وہ اس کو چھوڑ کر ضائع کرنے والا ہے نیز نماز عمداً چھوڑنے کی بناء پر قتل کیا جائے گا اور اگر قضاء کرنے میں رخصت و مہلت ہوتی  تو قتل نہیں کیا جاتا۔(فقہاء شوافع کے نزدیک عمداً نماز چھوڑنے والے کو قتل کیا جائے گا )( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 69 )
آگے امام نوویؒ  علماء امت کے مسالک قضاء نمازوں کے سلسلہ  مین ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فرع فِي مَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ فِي قَضَاءِ الْفَوَائِتِ قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا أَنَّهُ لَا يَجِبُ ترتيبها ولكن يستحب وبه قال طاووس وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو ثَوْرٍ وَدَاوُد وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ يَجِبُ مَا لَمْ تَزِدْ الْفَوَائِتُ عَلَى صَلَوَاتِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قالا فان كان فِي حَاضِرَةٍ فَذَكَرَ فِي أَثْنَائِهَا أَنَّ عَلَيْهِ فَائِتَةً بَطَلَتْ الْحَاضِرَةُ وَيَجِبُ تَقْدِيمُ الْفَائِتَةِ ثُمَّ يُصَلِّي الْحَاضِرَةَ وَقَالَ زُفَرُ وَأَحْمَدُ التَّرْتِيبُ وَاجِبٌ قَلَّتْ الْفَوَائِتُ أَمْ كَثُرَتْ قَالَ أَحْمَدُ وَلَوْ نسى الفوائت صحت الصلوات التى يصلي بَعْدَهَا قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَلَوْ ذَكَرَ فَائِتَةً وَهُوَ فِي حَاضِرَةٍ تَمَّمَ الَّتِي هُوَ فِيهَا ثُمَّ قَضَى الْفَائِتَةَ ثُمَّ يَجِبُ إعَادَةُ الْحَاضِرَةِ
ہم نے ذکر کیا ہے کہ ہمارا مسلک(امام نوویؒ شافعی المسلک ہیں) چھوٹی ہوئی نمازوں کو ترتیب سے ادا کرنا واجب نہیں لیکن مستحب ہے اور یہی بات طاووسؒ،حسن بصریؒ،محمد بن حسنؒ، ابو ثورؒ اور داود رحمہم اللہ کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ و مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں: قضاء نمازوں میں ترتیب اس وقت واجب ہے جب اس کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی تعداد ایک دن و رات سے زیادہ نہ ہو، وہ دونوں فرماتے ہیں پس اگر وہ وقت کی نماز ادا کررہا ہو پھر اسی دوران چھوٹی ہوئی نماز یاد آگئی تو وقت کی نماز باطل ہوجائے گی اور اس پر واجب ہے کہ پہلے چھوٹی ہوئی نماز ادا کرے پھر وقت کی نماز پڑھے۔
زفر اور احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں: ترتیب واجب ہے چاہے چھوٹی ہوئی نمازیں کم ہوں یا زیادہ، امام احمدؒ فرماتے ہیں اگر چھوٹی ہوئی نماز بھول جائے تو اس کی اس کے بعد والی نمازیں صحیح ہوجائے گی۔ امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ فرماتے ہیں اگر چھوٹی ہوئی نماز وقت کی نماز ادا کرتے وقت یاد آئے تو وقت کی نماز کو مکمل کرے گا پھر چھوٹی ہوئی نماز ادا کرے  پھر وقت کی نماز کو لوٹائے گا۔( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 70)
آگے امام نوویؒ نے ان کے دلائل ذکر کئے ہیں پھر فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ الَّذِينَ يُعْتَدُّ بِهِمْ عَلَى أَنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً عَمْدًا لَزِمَهُ قضاؤها وخالفهم أبو محمد على ابن حزم فقالا لَا يَقْدِرُ عَلَى قَضَائِهَا أَبَدًا وَلَا يَصِحُّ فِعْلُهَا أَبَدًا قَالَ بَلْ يُكْثِرُ مِنْ فِعْلِ الْخَيْرِ وَصَلَاةِ التَّطَوُّعِ لِيَثْقُلَ مِيزَانُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى وَيَتُوبُ وَهَذَا الَّذِي قَالَهُ مَعَ أَنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ مِنْ جِهَةِ الدَّلِيلِ وَبَسَطَ هُوَ الْكَلَامَ فِي الِاسْتِدْلَالِ لَهُ وَلَيْسَ فِيمَا ذَكَرَ دَلَالَةٌ أَصْلًا وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِ الْقَضَاءِ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ (أَمَرَ الْمُجَامِعَ فِي نَهَارِ رَمَضَانَ أَنْ يَصُومَ يَوْمًا مَعَ الْكَفَّارَةِ أَيْ بَدَلَ الْيَوْمِ الَّذِي أَفْسَدَهُ بِالْجِمَاعِ عَمْدًا) رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ وَرَوَى أَبُو دَاوُد نَحْوَهُ وَلِأَنَّهُ إذَا وَجَبَ الْقَضَاءُ عَلَى التَّارِكِ نَاسِيًا فَالْعَامِدُ أَوْلَى
علماء کا اجماع  اس بات پر ہے کہ جو نماز کو عمداً(جان بوجھ کر) چھوڑے اس پر اس کا قضاء کرنا لازم ہے اور ان کے خلاف ابو محمد علی ابن حزم نے کہا ہے پس وہ فرماتے ہیں وہ اس کی قضاء پر کبھی بھی قادر نہیں ہوسکتا اور اس کا کرنا ہمیشہ صحیح نہیں ،انہوں نے کہا : بلکہ وہ خیر کے کام کثرت سے کرے اور نفل نماز زیادہ ادا کرے تاکہ قیامت کے دن اس کا میزان وزنی ہو اور اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے۔ اور یہ بات جو انہوں نے کہی ہے وہ اجماع کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ باطل ہے دلیل کے اعتبار سے بھی اور استدلال میں طویل کلام کیا لیکن اس میں انہوں نے اصل دلیل ذکر ہی نہیں کی (کہ جس کی بنیاد پر وہ یہ کلام کر رہے ہیں)
اور وہ حدیث جو قضاء کے واجب  ہونے پر دلالت کرتی ہے ، وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کے دن میں جماع کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ ایک دن کا روزہ رکھے اور ساتھ میں کفارہ  بھی دے یعنی اس دن کے بدلے جو اس نے عمداً جماع کے ذریعہ فاسد کیا ہے۔ اس کو بیہقی نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابو داود نے بھی اسی طرح نقل کیا اور  جب قضاء بھول کر نماز چھوڑنے والے پر واجب ہوگی تو عمداً نماز چھوڑنے والے پر تو ضرور واجب ہوگی۔( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 71)
قارئین! ان محدثین و فقہاء کے اقوال کو نماز کی قضاء کرنے کے سلسلہ میں جو وارد ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز کا اپنے وقت پر ادا  نہ کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے، حدیث میں بھول کر نماز چھوڑنے والے کو یاد آتے ہی ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جب بھولنے والے، سونے والے کا یہ حکم ہے تو بدرجہ اولیٰ عمداً ادا نہ کرنے والے کو تو گناہ بھی ہوگا اور قضاء بھی کرنا پڑے گا، صرف توبہ و استغفار کرنے سے گناہ معاف ہوگا نہ کہ نماز کا چھوڑنا جو اس کے ذمہ شرعاً قرض ہے وہ ادا نہیں ہوگا۔ لہذا اپنی تمام عمداً یا سہواً(جان بوجھ کر یا بھول کر) چھوٹی ہوئی نمازوں کا اندازہ کیجئے اور ان کو فوراً قضاء کرنے کی فکر کریں اور آگے سے ہر نماز کو  اپنے وقت پر ادا کریں کیوں کہ یہ ہم پر فرض ہے۔
آج کل بعض حضرات جو نماز یں عمداً چھوٹ گئی ہیں(جیسا کہ دین سے دوری کی بنیاد پر آج کل اکثر کا حال ہے ) ان کے بارے میں فتویٰ دے رہے ہیں کہ بس توبہ و استغفار کرلیں اور آگے سے قضاء نہ کریں۔ اور اس سلسلہ میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جیسا کہ امام نوویؒ نے فرمایا جو اوپر گذر چکا ہے نیز یہ اجماعِ امت کے خلاف ہے اور باطل ہے۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہم اہلِ علم سے ہی مسئلہ پوچھیں اور سلف صالحین فقہاء و محدثین کے بیان کردہ باتوں کے تحت قرآن و حدیث کو سمجھیں نہ کہ خود سے سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ ہی ان سے مسائل کا سوال کریں جو اس لائن کے نہیں ہیں کیوں کہ ہر لائن کا ماہر الگ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کا پابند بنائے اور دین کی صحیح فکر عطا فرمائے۔ آمین

فرحان باجري الشافعی

ہفتہ، 21 مئی، 2016

قرآنی تعویذ یا ایسی تعویذ جس میں اللہ کا ذکر ہو وہ ممنوع نہیں

قرآنی تعویذ یا ایسی تعویذ جس میں اللہ کا ذکر ہو وہ ممنوع نہیں

قال ابن حجر العسقلانيؒ  في فتح الباري
هَذَا كُلُّهُ فِي تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ وَغَيْرِهَا مِمَّا لَيْسَ فِيهِ قُرْآنٌ وَنَحْوُهُ فَأَمَّا مَا فِيهِ ذِكْرُ اللَّهِ فَلَا نَهْيَ فِيهِ فَإِنَّهُ إِنَّمَا يُجْعَلُ لِلتَّبَرُّكِ بِهِ وَالتَّعَوُّذِ بِأَسْمَائِهِ وَذِكْرِهِ
خلاصہ:-
ابن حجر عسقلانیؒ الشافعی نے تعویذ کے موضوع پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:
یہ تمام باتیں ان تمائم وغیرہ کے بارے میں ہے جس میں قرآن اور اس جیسے میں سے کچھ لکھا ہوا نہ ہو پس بہرحال جس (تعویذ) میں اللہ کا ذکر ہو تو اس سے منع نہیں کیا گیا ہے، کیوں کہ اس کے ذریعہ برکت حاصل کی جاتی ہے اور اللہ کے اسماء اور اس کے ذکر سے تعوذ کی جاتی ہے۔
(فتح الباری 6/142)


جمعرات، 19 مئی، 2016

اللہ اعلم کہنا بھی علم ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ اعلم کہنا بھی علم ہے
السلام علیکم، بہت سے لوگ جو یوٹیوب و سوشل میڈیا میں بہت سا دینی کام اور ریسیرچ پیش کرتے ہیں اور بہت سی باتوںمیں لوگوں کو غلط بات سے دور رکھتےہیں ، بے شک ان کی نیت کی بقدر ان کو اجر ملے گا لیکن اگر وہ بنیادی باتیں اگر معلوم کر لیتے تو بہتر ہوتا تھا۔ بہت سے مبلغین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مفتی بنے بیٹھتے ہیں یا وہ ایسی باتوں میں جس کا انہیں علم نہیں ہے بغیر سوچے سمجھے اس کے بارے میں سوال ہوتے ہی  جواب دی دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ان کو اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے۔ اور اس سے وہ حدیث کی رو سے جھوٹو ں میں شمار ہوجاتے ہیں کیوں کہ مسلم شریف کی مشہور حدیث ہے کہ "آدمی کا جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات(بغیر تحقیق کے ) دوسروں تک  پہنچا دے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہر سوال کا برجستہ جواب دینا اور سوال ہوتے ہی جواب دیدینا یہ کمال نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی بات پر علم نہیں تو آپ وقت لے سکتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق کر کے جواب دے سکتے ہیں اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں، جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا تو اکثر وہ لا ادری(مجھے علم نہیں ) کہتے تھے، اسی طرح امام مالک بن انسؒ سے 48 مسائل پوچھے گئے تو ان میں سے انہوں نے 32 مسائل کے بارے میں لا ادری کہا۔ نیز سفیان بن عیینہ ؒ اور سحنون بن سعیدؒ دونوں نے فرمایا، فتویٰ دینے میں وہ شخص زیادہ دلیر ہوتا ہے جو علم میں کم ہوتا ہے۔(فتاویٰ ابن الصلاحؒ جلد 1 صفحہ 12-13)
اور مزید محدثین و فقہاء کے اقوال کو محدث ابن الصلاحؒ نے اپنی اس کتاب میں نقل کیا ہے۔
اب ہمیں سونچنا چاہئے کہ ان بڑے بڑے مجتھدین و محدثین اکثر لا ادری کہتے تھے تو آج کل کے مترجم کتابیں ہم پڑھ کر کیا ہر بات کا جواب دے سکتے ہیں۔
چاہئے کہ تحقیق کریں اور جواب دیں اور عوام الناس کو بھی چاہئے کہ وہ ماہر علماء سے مسائل کو دریافت کریں۔ اور عوام کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر بات کا فوراً جواب دینا یہ کوئی کمال نہیں اگر ہوتا تو صحابہ کرامؓ اور مجتھدین و محدثین کیا باکمال نہیں تھے؟؟؟
قرآنِ کریم آپ پڑھیں کئی جگہ پر آپ کو آیت ملے گی "یسئلونک۔۔۔۔" یعنی لوگ آپ سے سوال کرتےہیں۔۔۔۔ یہ وہ آیتیں جس کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا گیا تھا آپﷺ نے توقف فرمایا اور وحی کے منتظر رہے۔ اسی طرح سورہ کہف اور دیگر سورتیں جن کا شانِ نزول آپ ﷺ سے سوال کیا جانا ہے۔
تو ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لینی چاہئے کہ ہر سوال کا جواب دینے والا باکمال نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کر کے جواب دینا اگرچہ اس میں دیر لگے یہ کمال ہے۔ اور کسی بات کا جواب معلوم نہ ہونا اور اس وقت اس کا جواب  نہ دینا ، نہ یہ شرم کی بات ہے نہ کم علمی ، کی بات ہے، بلکہ اس وقت جواب نہ دینا اور تحقیق کر کے جواب دینا یہ تقویٰ اور دیانت داری کی بات ہے۔ جیسا کہ اس حدیث شریف میں ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے (لوگوں کو مخاطب کرکے) کہا۔ لوگو! تم میں سے جو شخص کسی بات کو جانتا ہو وہ اس کو بیان کردے اور جو نہ جانتا ہو اس کی نسبت وہ کہہ دے کہ اللہ ہی جانتا ہے اس لئے کہ جس چیز کا اس کو علم نہیں ہے اس کی نسبت اللہ اعلم( اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے واسطے فرمایا   یعنی میں اس قرآن پر تم سے کوئی اجرت یا بدلہ نہیں مانگتا اور اس میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں۔(بخاری و مسلم از مشکاۃ المصابیح کتاب العلم فصل الثالث حدیث نمبر272 )

یہ سب باتیں لکھنے کی وجہ ایک ویڈیو بنی ہے جس میں اڈوکیٹ فیض صاحب نے سوال پر بالکل واقعہ کے خلاف جواب دیا ہے اسی طرح بہت سی مرتبہ میں نے ڈاکڑ ذاکر نائک کو بھی دیکھا ہے کہ وہ فوراً جواب دینے میں غلطی کرتے ہیں اور فوراً جواب دینا لوگ کمال سمجھتے ہیں، بلکہ یہ کمال نہیں ہے۔ اسی طرح بعض تبلیغی بھائی بھی وقت لگا کر آکر فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں چاہئے کہ وہ بھی اس سے بچیں۔ اور فیس بک وغیرہ پر تو بہت سے مفتیانِ کرام پھرتے ہیں چاہئے کہ ہم بھی بچیں اور معتبر ذرائع یعنی ماہر علماء سے معلوم کریں۔
ویڈیو کی لنک یہ ہے 
اور ہم نے اصل جو حدیث اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ذہن میں آئی تھی اس کو رومن بھی کردیا وہ آخر میں لکھی ہے۔ اور مضمون ذہن میں آتے گیا تو وہ طویل ہوگیا۔


Hazrat Abdullah bin Masood razi Allahu nahu se riwayat hai ke unho ne kaha: Logo! Tum me se jo Shakhs kisi baat ko jaanta ow wo usko bayan karde aur jo na jaanta ho as ki nisbat wo keh de ke “Allah hi Jaanta hai”  is liye ke jis cheez ka us ko Ilm nahi hai uski Nisbat ALLAHU ALAM  (Allah Behter Janta hai) kehna bhi ILM ki ek Qism hai, Chunache Allah Ta’ale ne Apne Nabi ke waste farmaya “IS QURAN PAR TUM SE KOI UJRAT YA BADLA NAHI MAANGTA AUR US ME TAKALLUF KARNE WALE LOGON ME SE NAHI HUN.(BUKHARI O MUSLIM AZ MISHKAT KITABUL ILM FASL 3 HADEES NO 272)

تراویح کی رکعات و مسائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محدثِ کبیر و فقیہ امام نووی الشافعیؒ  اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں
تراویح  دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعات ہیں
میں (نوویؒ) کہتا ہوں: چنانچہ اگر چار رکعات ایک سلام سے پڑھے تو صحیح نہیں ہے۔ قاضی حسینؒ نے فتاویٰ میں اسے ذکر کیا ہے اس لئے کہ یہ مشروع کے خلاف ہے۔ اور تراویح یا قیامِ رمضان کی نیت کریں گے ، صرف مطلق نیت کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ ہر سلام کے بعد دو رکعات تراویح کی نیت کرے گا۔ واللہ اعلم(اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں)
امام شافعیؒ نے فرمایا: اور میں نے اہل مدینہ کو دیکھا وہ 39 رکعات پڑھتے تھے ، ان میں تین رکعات وتر کے ہوتے۔
ہمارے  اصحاب کہتے ہیں: اہل مدینہ کے علاوہ  کسی کے لئے یہ جائز نہیں (یعنی 39 رکعات پڑھنا)۔

اور تراویح میں جماعت افضل ہے صحیح قول پر اور اسی طرح اکثر  فقہاء کہتے ہیں۔ اور دوسرا قول: تنہا پڑھنا افضل ہے پھر عرقی فقہاء  اور صیدلانی ؒوغیرہ نے کہا: اختلاف جو ہے وہ حافظِ قرآن کے متعلق ہے اور وہ تراویح پڑھنے سے سستی نہ کرتا ہو اور اس کے پیچھے ہٹنے سے مسجد میں جماعت خراب نہ ہوتی ہو (یعنی تراویح جماعت سے پڑھنا یا تنہا پڑھنا اس میں جو افضلیت کا اختلاف ہے وہ  اس حافظِ قرآن کے متعلق ہے جو تراویح پڑھنے سے سستی نہیں کرتا ہو اور اس کے تنہا پڑھنے سے مسجد میں تراویح کی جماعت میں کوئی خلل نہ آتا ہو)  پس اگر ان میں سے کچھ بھی نہ پایا جائے تو جماعت سے پڑھنا قطعاً افضل ہے۔۔۔۔۔۔ اور تراویح کا وقت شروع ہوتا ہے عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد۔(روضة الطالبین و عمدۃ المفتین للنوویؒ )


بیس رکعات تراویح امام شیرازی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قیامِ رمضان کا بیان
امام شیرازی متوفیٰ 476 ھ فرماتے ہیں

اور سنن راتبہ میں سے قیام رمضان ہے اور وہ بیس رکعات ہیں دس سلاموں کے ساتھ ہے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جسے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے فرمایا:" نبی کریم ﷺ قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے سوائے اس کے وہ ان کو عزیمت کا حکم دیتے تھے، پس آپ ﷺ فرماتے: جو رمضان میں قیام کرے ایمان و احتساب کے ساتھ اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ اور افضل ہے کہ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھی جائے اسے امام البویطیؒ نے  اسے بیان کیا ہے جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے لوگوں کو جمع کیا۔ اور ہمارے بعض اصحاب جو یہ کہتے ہیں کہ تنہا تراویح پڑھنا افضل ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ چند راتیں تراویح پڑھیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے ساتھ پڑھی پھر آپ ﷺ مؤخر کردئے اور اپنے گھر میں باقی مہینہ نماز پڑھی۔ اور مذھب یعنی فتویٰ پہلا ہے یعنی جماعت سے تراویح پڑھنا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ تراویح سے رکے  تاکہ وہ صحابہ پر فرض نہ ہوجائے اور نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ڈرا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے پھر تم اس سے عاجز ہوجاؤ۔(المھذب فی الفقہ الشافعی 280-281)