بدھ، 15 جولائی، 2015

صدقۂ فطر کا وقت

فطرہ کے اوقات
(۱)واجب وقت: رمضان کے آخری دن کے غروب سے واجب ہوگا۔
(۲) جواز کا وقت: رمضان کا پورا مہینہ۔
(۳)فضیلت کا وقت: عید کی نماز سے پہلے۔
(۴)کراہت کا وقت: عید کی نماز کے بعد۔
(۵) حرمت کا وقت: عید کا دن گزر جانے کے بعد
            عید کے دن عید کی نماز سے قبل ہی فطرہ ادا کرنا سنت ہے۔ کیوں کہ حدیث میں اس کا حکم گزرچکا۔ اگر نماز خلافِ معمول تاخیر سے ادا ہو تو دن کے ابتدائی حصہ میں ہی ادا کردینا سنت ہے،تاکہ مستحقین کو کشادگی حاصل ہوجائے۔ بغیر عذر کے عید کا دن گذرنے تک تاخیر کرنا حرام ہے، کیوں کہ اصل مقصود عید کے مبارک دن مستحقین کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز کرنا ہے۔ فی الحال مال پاس نہ ہونا، یا مستحقین کا ہی موجود نہ ہونا عذر شمار ہوگا۔ بلا عذر تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوگا، اور فوراً اس کی قضاء لازم ہے۔
مسئلہ: واجب وقت میں تنگدست اور غریب آدمی پر فطرہ واجب نہیں ہے، چاہے بعد میں دولت آجائے۔ لیکن عید کا دن گذرنے سے پہلے ادائیگی کی قدرت ہوجائے تو ادا کرنا سنت ہے۔
مسئلہ: فطرہ کے مسئلہ میں غریب آدمی سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد کے لئے عید کے دن اور اس کے بعد والی رات کے کھانے پینے کے اخراجات ، مناسب کپڑے،مکان،خادم(بصور ضرورت و احتیاج)، قرض(چاہے موخر ہو اور صاحبِ قرض تاخیر سے متفق ہو) سے زائد مال نہ ہو، جو فطرہ میں ادا کرسکے۔
مسئلہ: جس کے پاس مذکورہ اخراجات سے زائد مال ہو اس پر فطرہ واجب ہے۔
نوٹ: فطرہ کے لئے زکوٰۃ کی طرح بقدر نصاب مال کی شرط نہیں ہے۔
وضاحت: مناسب کپڑے، مکان وغیرہ کہنے سے برعکس صورت نکل گئی، لہٰذا اگر کسی کا مکان اعلیٰ درجہ کا ہو جسے فروخت کر کے اپنے مناسب مکان حاصل کرنے کے بعد فطرہ کے کئے رقم بچ سکتی ہے تو یہ لازم ہے اگر کسی کے ذمہ سابقاً (پہلے ہی )فطرہ  واجب ہوچکا ہے تو اب ادائیگی کے لئے مکان فروخت کرے  نہ کہ لباس، کیوں کہ اس صورت میں یہ قرض کے حکم میں ہے۔ خادم کے احتیاج کا مطلاب اپنے یا زیر کفالت افراد کی خدمت کے لئے احتیاج ہے نہ کہ کھیتی باڑی میں کام کرنے یا جانوروں کی دیکھ ریکھ کا احتیاج۔
مسئلہ: کسی عورت کا شوہر غریب ہو تو شوہر پر اس کا فطرہ واجب نہیں ہے۔ اگر عورت کے پاس مال ہو تو اسے اپنا فطرہ ادا کرنا سنت ہے۔
مسئلہ: اگر عورت شوہر کی نافرمانی کرے اور نفقہ ساقط ہوجائے تو پھر عورت کو خود اپنا فطرہ ادا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: جو شخس فطرہ کی کچھ مقدار ادا کرسکتا ہو اسے وہ ادا کرنا لازم ہے تاکہ بقدر امکان واجب کی ادائیگی ہوسکے۔
مسئلہ: جو شخص چند صاع دے سکتا ہو تو پہلے اپنا فطرہ مقدم کرے، کیوں کہ مسلم شریف کی حدیث میں اپنی ذات سے ابتداء کا حکم موجود ہے کہ " پہلے اس پر(خود پر) صدقہ کرو پھر کچھ بچے تو اپنے اہل پر، مزید ہو تو دیگر رشتہ داروں پر" پھر بیوی کا فطرہ ادا کرے کیوں کہ اس کے اخراجات زیادہ تاکیدی ہیں ۔ پھر اپنے نابالغ بچہ کا فطرہ ادا کرے کہ اس کا نان نفقہ نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ پھر باپ،دادا ،نانا وغیرہ پھر ماں،دادی،نانی وغیرہ کا فطرہ پھر بالغ اولاد کا جبکہ اپہج یا پاگل ہوں۔

نوٹ:نفقہ میں ماں کو باپ پر مقدم کیا جاتا ہے، کیوں کہ نفقہ احتیاج کے پیش نظر ہے، اور ماں نسبتاً زیادہ محتاک ہے، اور فطرہ تطہیر (پاکی) اور شرف کے لئے ہے جس کا باپ زیادہ مستحق ہے، کیوں کہ بیٹا اسی کی طرف منسوب ہوتا ہے اور اس کے شرف کی وجہ سے مشرف ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں