جمعہ، 17 جولائی، 2015

عیدین کی تکبیرات اور متفرق مسائل

تکبیرات کا بیان
تکبیرات کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہے جو نماز اور خطبہ میں پڑھی جاتی ہے جس کا بیان گذرچکا ہے اور دوسری قسم ان دونوں کے علاوہ ہے ۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں۔
(۱)تکبیرِ مُرسَل(مطلق)
(۲) تکبیرِ مقَیّد
(۱)تکبیرِ مرسل :تکبیرِ مرسل اسے کہتے ہیں جو کسی ایک حال کے ساتھ خاص نہ ہو، بلکہ مسجدوں ،گھروں، راستوں اور رات و دن میں میں پڑھی جائے۔ تکبیرِ مرسل دونوں عیدوں میں مشروع ہے ۔
تکبیرِ مرسل کا وقت: تکبیرِ مرسل کا وقت عید کی رات سورج غروب ہونے سے لیکر امام کا عید کی نماز کے لئے تکبیرِ تحریمہ باندھنے تک ہے۔ تنہا نمازی کے خود کے تکبیرِ تحریمہ کا اعتبار ہوگا۔۔
نوٹ: عید الفطر کی رات میں نماز کے بعد تکبیر پڑھنا مسنون نہیں۔ (مغنی المحتاج ۲/۳۱۴)
مسئلہ: تکبیرِ مرسل عیدین کی رات و دن گھروں ، مسجدوں،بازاروں اور راستوں میں چاہے حضر میں ہو یا سفر میں عید گاہ  جاتے وقت اور عیدگاہ میں بلند آواز سے کہنا مستحب ہے۔
حدیث: آپﷺ عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں عید گاہ آنے تک بلند آواز سے تکبیر و تہلیل کہتے۔(رواہ الحاکم والبیھقی)
نوٹ: حاجی حضرات اس سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ عید الاضحیٰ کی رات میں تکبیر نہ کہیں بلکہ تلبیہ پڑھیں۔
(۲)تکبیرِ مقید: تکبیرِ مقیدصرف عید الاضحیٰ میں مشروع ہے، عید الفطر میں نہیں۔
مسئلہ: تکبیرِ مرسل اور مقید منفرد،باجماعت نماز پرھنے والے،مرد،عورت مقیم اور مسافر سبھی کو پڑھنا سنت ہے۔
تکبیرات کا وقت
عید الاضحٰ کے موقع سے لوگوں کی دو قسمیں ہوں گی۔
(۱) حجاج کرام،               (۲) حجاج کے علاوہ
مسئلہ:حجاج کرام یوم النحر میں ظہر کے بعد سے تکبیر کی ابتداء کریں اور ایامِ تشریق کے آخری دن صبح کی نماز کے بعد ختم کریں۔
مسئلہ: حجاج کے علاوہ دیگر لوگ عرفہ کے دن فجر کے بعد سے ابتداء کریں اور ایام تشریق کے آخرید دن عصر کے بعد تک پڑھتے رہیں۔
حدیث: حضرت علیؓ اور حضرت عمارؓ سے مرو ی ہے: آپ ﷺ عرفہ کے دن صبح کی نماز کے بعدسے تکبیر کی ابتداء کرتے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر بعد ختم کرتے۔(رواہ الحاکم)
ایام تشریق: ایامِ تشریق عید الاضحیٰ کے بعد تین دن ہیں یعنی ۱۱/۱۲/۱۳ ذو الحجہ(الفقہ المنھجی)
مسئلہ: اگر امام مقتدی کے مسلک کے خلاف تکبیر کہے، مثلاً عرفہ کے دن تکبیر کہے اور مقتدی اس دن تکبیر کا قائل نہ ہو یا اس کے برعکس ہو تو مقتدی تکبیر کہنے اور نہ کہنے میں اپنے مسلک پر عمل کرے ،امام کی موافقت ضروری نہیں۔ کیوں کہ سلام پھیرتے ہی امام کی اتباع کا حکم اور دونوں کا تعلق ختم ہوچکا۔
قضاء نماز اور نوافل کے بعد تکبیر پڑھنے کا حکم
مسئلہ:دیگر ایام کی فوت شدہ نماز کی ایام میں تشریق میں قضاء کرے یا ایامِ تشریق کی فوت شدہ نماز ان ہی ایام میں قضاء کرے تو اس کے بعد تکبیر کہنا مستحب ہے۔
مسئلہ: اسی طرح سنن رواتب،مطلق نفل اور نمازِ جنازہ کے بعد بھی تکبیر کہنا مستحب ہے۔
حاصل کلام یہ کہ ایامِ تشریق میں جو بھی نماز پڑھی جائے اس کے بعد تکبیر کہنا مستحب ہے۔
مسئلہ: ایامِ تشریق کی فوت شدہ نماز دیگر ایام میں قضاء کرے تو اس کے بعد تکبیر کہنے کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ: اگر کسی نماز کے بعد تکبیر کہنا بھول جائے تو یاد آنے پر تکبیر کہہ دے، فاصلہ کم ہو یا زیادہ، گرچہ اپنی جگہ سے اٹھ چکا ہو۔
مسئلہ: مسبوق اپنی نماز پوری کرنے ے بعد تکبیر کہے۔
عید کی تکبیرات
تکبیر کا طریقہ یہ ہے کہ۔ تین مرتبہ بالترتیب تکبیر کہے۔
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
البتہ افضل اور مشہور الفاظ یہ ہیں
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَاَللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
ترجمہ:اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔(فتح الوھاب)
مذکورہ تین تکبیروں میں سے تیسری کے بعد ان کلمات کو بھی بڑھانا اچھا ہے۔
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ الله بكرة وأصيلا لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَلَا نَعْبُدُ إلَّا إيَّاهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَأَعَزَّ جُنْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ لَا إله إلا الله والله أكبر.
ترجمہ: اللہ بہت ہی بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے بہت تعریفیں ہیں اور اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں صبح و شام، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے، سچے دل سے اس کے فرماں بردار ہیں اگرچہ کہ کافروں کو ناگوار گذرے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اور اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور اپنی جماعت کو عزت دی اور کافروں کے گروہوں کو تنہا شکست دی، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے۔
متفرق مسائل:۔
مسئلہ:عید کے دن آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور مصافحہ کرنا مباح ہے۔(جمل۲/۱۰۵)
مسئلہ: ممیز بچوں کو عید کی نماز کے لئے لانا مباح ہے۔(المجموع  ۵/۹)
مسئلہ: عید کے دن اپنے اہل و عیال پر خرچ میں وسعت کرنا، اپنی حیثیت کے مطابق کثرت سے صدقہ کرنا مسلمان بھائی کی ملاقات کے وقت خوشی کا اظہار کرنا اور خوشی کے اظہار کے لئے رشتہ داروں کی ملاقات کرنا مندوب ہے۔(الفقہ الاسلامی ۲/۱۴۱۵)
مسئلہ: عید الفطر کی مبارکباد کا وقت تکبیر کی طرح غروب سے اور عید الاضحیٰ کا عرفہ کے دن فجر سے ہے۔(بغیہ ص۸۹)
مسئلہ: عورتوں کو گھر میں باجماعت نماز عید ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں ایک عورت نماز کے بعد ان کو وعظ و نصیحت کرسکتی ہے۔
مسئلہ: جو عورتیں نماز کے لیے عیدگاہ وغیرہ نہ جائیں انہیں زیب و زینت مندوب ہے۔
مسئلہ: عید کی طرح دیگر عبادات میں بھی پیدل جانا اور آمد و رفت میں راستہ کی تبدیلی،نیز جاتے وقت طویل اور واپسی میں مختصر راساتہ اختیار کرنا مستحب ہے۔ البتہ حج اور غزوہ میں سوار ہونا مسنون ہے۔
مسئلہ: عید الفطر میں نماز سے قبل کھانے کی سنت راستہ یا مسجد میں بھی ادا کرے تو عذر کی وجہ سے یہ خلافِ مروّت نہیں ہے۔
مسئلہ: عید کی نماز میں زائد تکبیرات کا ترک اس میں کمی بیشی ان میں رفع یدین نہ کرنا، یا درمیانی ذکر کا ترک کرنا مکروہ ہے۔(بشری الکریم ۲/۱۸-۱۹)


(مأخوذ ملخصاً تحفة الباری فی الفقه الشافعی ازشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم بن علی خطیب حفظہ اللہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں