پیر، 12 ستمبر، 2016

عيدين کے متفرق مسائل


بسم اللہ الرحمن الرحیم
عيدين کے متفرق مسائل

مسئلہ: عید کے دن آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اور مصافحہ کرنا مباح ہے(جمل 2/105 (
مسئلہ: میز بچوں کو عید کی نماز کے لئے لانا مباح ہے۔(المجموع 5/9(
مسئلہ: عید کے دن اپنے اہل و عیال پر خرچ میں وسعت کرنا۔ اپنی حیثیت کے مطابق کثرت سے صدقہ کرنا، مسلمان بھائی کی ملاقات کے وقت خوشی کا اظہار کرنا اور خوشی کے اظہار کے لئے رشتہ داروں کی ملاقات کرنا مندوب ہے۔(الفقہ الاسلامی 2/1415(
مسئلہ: عید الفطر کی مبارکبادی کا وقت تکبیر کی طرح غروب سے اور عید الاضحی کا عرفہ کے دن فجر سے ہے۔(بغیہ ص 89(
مسئلہ: عورتوں کو گھر میں باجماعت  نماز عید ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں ایک عورت (نماز کے بعد) ان کو وعظ و نصیحت کرسکتی ہے۔
مسئلہ: جو عورتیں نماز کے لئے (عید گاہ وغیرہ) نہ جائیں ان کے لئے زینت مندوب ہے۔
مسئلہ: عید کی طرح دیگر عبادات میں بھی پیدل جانا اور عامد و رفت میں راستہ کی تبدیلی، نیز جاتے وقت طویل اور واپسی میں مختصر راستہ اختیار کرنا مستحب ہے۔ البتہ حج اور غزوہ میں سوار ہونا مسنون ہے۔
مسئلہ: عید الفطر میں نماز سے قبل کھانے کی سنت راستہ میں یا مسجد میں بھی ادا کرے تو عذر کی وجہ سے یہ خلاف مروت نہیں ہے۔
مسئلہ: عید کی نماز میں زائد تکبیرات کا ترک ، اس میں کمی بیشی، ان میں رفع یدین نہ کرنا، یا درمیانی ذکر کا ترک کرنا مکروہ ہے۔(بشری الکریم 2/ 18،19(
)مأخوذ تحفة الباري جلد اول ص 268(


بدھ، 7 ستمبر، 2016

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل (فقہ القرآن و الحدیث)

از:مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

 

Download

قربانی کے احکام ومسائل (فقہ القرآن و الحدیث )



قربانی کے احکام ومسائل (فقہ القرآن و  الحدیث )

از:مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

قربانی کا حکم:حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ثلاث ھن علی فرائض ولکم تطوع ، النحر والوترورکعتی الفجر‘‘کہ تین چیزیں ایسی ہیں جومجھ پر فرض کی گئی ہیں اور تم پر فرض نہیں ہیں ، ایک قربانی، اور وتر کی نمازاور فجر کی دورکعت سنت( سنن بیہقی: ۹/۱۷۶)محمد بن سرینؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ واجب ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے قربانی کی اور اس کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی اور یہ سنت چلی آرہی ہے ( ابن ماجہ : ۳۱۲۴)جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے قربانی کے بارے میں ابن عمرؓ سے سوال کیا کہ کیا یہ واجب ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے قربانی کی اور س کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی تو اس آدمی نے دوبارہ سوال کیا تو حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کیا تم سمجھتے نہیں ہو !آپ ﷺ نے قربانی کی اور س کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی( سنن ترمذی :۱۵۰۶)امام ترمذی ؒاس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بل کہ آپ ﷺ کے سنتوں میں سے ایک سنت ہے (سنن ترمذی)ان احادیث کی بنیاد پر فقہاء نے قربانی کے سنت ہونے پر استدلا ل کیا ہے چنانچہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں ’’ الضحایا سنۃ لااحب ترکھا ‘‘ کہ قربانی سنت ہے البتہ اس کے چھوڑنے کو میں پسند نہیں کرتا ( کتاب الام:۳/۵۷۷)
قربانی کے جانور:اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ ولکل امۃ جعلنامنسکا لیذکرواسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام ‘‘ا ور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائیں جانوروں پر اللہ کانام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھیں ہیں (الحج : ۳۴)علامہ ابن کثیر ؒ نے مذکورہ آیت میں لفظ ’’ بھیمۃ الانعام ‘‘ سے اونٹ ، گائے بیل ، اور بکری بکرااور مینڈھامینڈھی ان جانوروں کو مراد لیا ہے( تفسیر ابن کثیر: ۳/۴۲۹) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سات لوگوں کی طرف سے اونٹ پر قربانی کی اور گائے پر بھی سات لوگوں کی طرف سے قربانی کی ( ابن ماجہ : ۳۱۳۲)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے دو سفید سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی(مسلم : ۵۰۸۸)حضرت عطاء بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے سوال کیا کہ تم آپ ﷺ کے زمانہ میں کس طرح قربانی کیا کرتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی بکری ذبح کرکے اپنی طرف سے قربانی کرتا تھا(ترمذی :۱۵۰۵)مذکورہ آیت اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے گائے بیل، بھینس بھینسا، بکرا بکری، مینڈھا مینڈھی اور اونٹ پر قربانی کومشروع لکھا ہے چنانچہ علامہ رملیؒ فرماتے ہیں ’’ ولا تصح أی التضحیۃ الا من ابل وبقر أو جوامیس وغنم ضأن أو معز‘‘ قربانی اونٹ ، گائے بیل ، بھینس ، مینڈھا اور بکری کے علاوہ جانوروں پر صحیح نہیں ہوتی(نھایۃ المحتاج : ۸/۱۱۲)
قربانی کے جانوروں کی عمر:حضرت جابرؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ لا تذبحوا الا المسنۃ الا أن تعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن ‘‘ کہ تم صرف مسنہ ہی کی قربانی کرومگر کہ تم کو کوئی دشواری لاحق ہوتو تم مینڈھے کا ایک سالہ بچہ ذبح کرو(مسلم:۱۹۶۳)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ مسنہ جانور کا مطلب یہ ہے کہ گائے بیل ، بکرا بکری اور بھینس دوسال ،مینڈھا ایک سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،چنانچہ علامہ عمرانی ؒ فرماتے ہیں ’’فلا یجزیء الا الثنی من الابل والبقر والمعز والجزع من الضأن ، الثنی من الابل مااستکمل خمس سنین ، والثنی من البقر والمعز مااستکمل سنتین والجزع من الضأن مااستکمل سنۃ ‘‘ کہ قربانی میں اونٹ ، گائے بیل ،بکرا بکری ، مینڈھا مینڈھی کا ’’ ثنی ہونا ضروری ہے، یعنی اونٹ پانچ سال ، گائے بیل ، بکرا بکری اور بھینس دوسال ،مینڈھا ایک سال کا ہونا لازم ہے( البیان : ۴/۴۱۳)
قربانی میں ناکافی جانور:نبی کریم ﷺ نے فرمایا"لا یضحی بالعرجاء بین طلعھاولا بالعوراء بین عورھاولا بالمریضۃ بین مرضھا ولا بالعجفاء التی لا تنقی" کہ بہت زیادہ لنگڑے ، بہت زیادہ کانے(جس کی ایک آنکھ کام نہ کرے یا دونوں آنکھیں بیکار ہو)، بہت زیادہ بیمار، اور انتہائی کمزور جانورکی قربانی نہیں کی جائے گی(سنن ترمذی:۱۴۹۷)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام نووی ؒ نے فرمایا ’’ ولا تجزی ء ما فیہ عیب ینقص الحم کالعوراء والعمیاء والعرجاء التی تعجز عن المشاء فی المرعیٰ‘‘ کہ قربانی میں ہر وہ جانور ناکافی ہے جس میں کوئی ایسا عیب ہو جس سے اس کے گوشت کے اندر کمی واقع ہوجائے جیسے کانا، نابینا، ایسالنگڑاجو چراگاہ میں جانے سے عاجز ہو(المجموع: ۸/۲۹۲)ان کے علاوہ خارش زدہ ، مجنونہ ، مکمل دانت ٹوٹاہوا ، اور لاغر اور کمزور جانور قربانی میں نہیں چلے گے نیزکان کٹاجانور بھی قربانی میں نہیں چلے گا اس لئے کہ حدیث میں ’’ مصفرہ ‘‘ جانور کی قربانی سے منع کیا گیا ہے (سنن ابوداؤد:۲۸۰۳)اور مصفرہ کہتے ہیں اس جانور کو جس کا کان اس طرح کٹ گیا ہو کہ سوراخ نظر آئے چنانچہ امام یحی بن ابی الخیر عمرانیؒ فرماتے ہیں ’’ فلا تجزیء للخبر ولأن الأذن عضو مستظاب ‘‘ کہ مذکورہ جانور کافی نہیں ہوگا حدیث کی بناء پر اور اس لئے بھی کہ کان پسندیدہ عضو ہے ( البیان : ۴/۴۱۸) 
قربانی میں ناپسندیدہ جانور:حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا ’’أن نستشرف العین والاذن ولا نضحی ...ولا مقابلۃ ولا مدابرۃ ولا خرقاء ولا شرقاء ‘‘کہ ہم جانوروں کے کان اور آنکھ کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ہم ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کاکان آ گے یا پیچھے سے چرا ہوا ہو اور لٹکا ہو ا ہو اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کے کان میں داغنے کی وجہ سے سوراخ ہو،(سنن ابی داؤد :۲۸۰۴) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام یحی بن ابی الخیر عمرانیؒ فرماتے  ہیں "وأماالعیوب التی لا تمنع الاجزاء وتکرہ "وہ عیوب جوقربانی کے لئے تو مانع نہیں ہیں البتہ ان عیوب والے جانوروں کی قربانی مکروہ ہے، وہ عیوب مندرجہ ذیل ہیں 
(۱)المستأصلۃ ۔ جس کا سینگ جڑ سے نکل گیا ہو (لیکن اس کی وجہ سے گوشت میں کوئی نقص پیدا نہ ہوا ہو)
(۲) العصماء ۔ ایسا جانور جس کے سینگ کا غلاف (کور) نکل چکا ہو اورباطن باقی ہو۔
(۳)المدابرۃ والمقابلۃ۔ ایسا جانور جس کا کان چرا ہو اہو لیکن کان کا کوئی حصہ الگ نہ ہوا ہو۔
(۴) الخرقاؤالشرقاء ۔ ایسا جانور جس کے کان میں کسی قسم کا سوراخ کیا ہوا۔اس لئے کہ یہ عیوب ایسے ہیں جن سے گوشت میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا ہے( البیان : ۴/۱۹۔۴۲۰)اسی طرح اگر کسی جانور کے بعض دانت گرگئے ہو جس سے اس کو چرنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو یہ جانور بھی قربانی کے لئے کافی ہے( نھایۃ المحتاج :۸/۱۳۸) 
قربانی کے گوشت کی تقسیم:اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’ والبدن جعلنٰھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکروااسم اللہ علیھا صواف فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا وأطعمواالقانع والمعتر‘‘قربانی کے اونٹ کو ہم نے اللہ تعالی کی نشانیاں مقرر کی ہیں ان میں تمہارے لئے نفع ہے پس انھیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو پھر جب ان کے پہلو زمین  سے لگ جائیں ( یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بے روح ہوکر زمیں پرگرجائے تو اسے کانٹنا شروع کردو) اسے خود بھی کھاؤاور سوال کرنے والے اور بغیر سوال کے سامنے آنے والے کو کھلاؤ(الحج: ۳۶)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، کھلاؤ،ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو(مسلم ؛باب ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی، ۵۱۰۳۔۵۱۰۸) اس آیت اور حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک اپنے لئے ، دوسرا ملاقاتیوں اور رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا سائلین اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کے لئے ،چنانچہ امام بغوی ؒ فرماتے ہیں "ولہ أن یأکل من أضحیۃالتطوع وکم یأکل ؟ فیہ قولان ... والثانی وھو الأصح : الثلث لقولہ تعالی فکلوا منھا وأطعموالقانع والمعتر"  کہ سنت قربانی کرنے والے کے لئے جائز ہے کہ وہ قربانی میں سے کھائے، لیکن کتنا کھائے؟ تو اصح قول کے مطابق وہ ایک تہائی حصہ کھائے مذکورہ آیت کی بناء پر(التھذیب:۸/۴۴)اور ایک تہائی صدقہ کر ے اور ایک تہائی ہدیہ کرے ، امام شیرازی فرماتے ہیں "یأکل الثلث ویھدی الثلث ویتصدق بالثلث‘‘ کہ قربانی کے گوشت کے تین حصہ کرکے ایک حصہ کھائے ایک حصہ ہدیہ کرے اور ایک حصہ صدقہ کرے(المھذب مع لمجموع :۸/۳۰۶) گوشت کی تقسیم کا مذکورہ طریقہ معروف ومشہور ہے ، البتہ افضل یہ ہے کہ کچھ گوشت اپنے لئے رکھ کر مکمل گوشت صدقہ کرے ( مغنی المحتاج : ۶/۱۷۶)اور کچھ گوشت صدقہ کئے بغیر مکمل گوشت کو خود کھانا درست نہیں ہے بل کہ کچھ نہ کچھ گوشت صدقہ کرنا واجب اور ضروری ہے۔
قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی:حضرت ابو سعید خذریؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے مدینہ والوں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد مت کھاؤتو ہم لوگوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ ہمارے اہل وعیال اور حشم وخدم ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا قربانی کا گوشت کھاؤ ، کھلاؤ اور بچا کر رکھو(مسلم : ۵۱۰۳) اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہوئے امام نووی ؒ فرماتے ہیں ’یجوز أن یدخر من لحم الأضحیۃ وکان ادخارھا فوق ثلاثۃ أیام منھیا نہ ثم أذن رسول اللہ ﷺ ‘‘ کہ قربانی کے گوشت کو بچاکر رکھنا اور ایام تشریق کے بعد تک کھاتے رہنا جائز ہے ، شروع میں آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا بعد میں آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی(المجموع : ۸/۳۱۰)اس اعتبار سے ایام تشریق کے بعد نہ کھانے کی ممانعت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
بطوراجرت جانور کی کھال وگوشت اور اس کی بیع:حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے اونٹوں کی قربانی پر مامور فرماکر فرمایا کہ گوشت اور کھال خیرات کردینا اور قصاب کو اس میں سے کچھ نہ دینا ہم اپنے پاس سے اس کی اجرت دیں گے(مسلم : ۱۳۱۷) اس حدیث کی تشریح میں امام نووی ؒ فرماتے ہیں قربانی کے جانور میں سے قصاب کو کچھ بھی نہیں دیا جائے گا اس لئے کہ اس کواس کے کام کے عوض میں کسی چیز کا دینا جانور کے کسی حصہ کی بیع کی طرح ہے ( شرح مسلم : ۹/۴۳۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے" فکلوا منھا وأطعمواالقانع والمعتر" اسے خود بھی کھاؤاور سوال کرنے والے اور بغیر سوال کے سامنے آنے والے کو کھلاؤ(الحج: ۳۶)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، کھلاؤ،ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو(مسلم ؛باب ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی، ۵۱۰۳۔۵۱۰۸) آیت اور حدیث میں قربانی کے مصرف میں بیع داخل نہیں ہے ،ان دلائل سے استدلال کرتے ہوئے علامہ خطیب شربینی ؒ فرماتے ہیں ’’ أنہ یمتنع علیہ اجارتہ لانھا بیع المنافع وبیعہ‘‘ کہ قربانی کرنے والے کے لئے جانور کے کسی حصہ کو اجرت کے طور پر دینا منع ہے کیوں کہ یہ منافع کی بیع ہے اسی طرح اس کے کسی حصہ کی بیع بھی منع ہے ( مغنی المحتاج : ۴/۳۳۷)
قربانی کے ایام:اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ واذکرواللہ فی أیام معدودات ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر مکی ؒنے حضرت ابن عباس ؓکے قول کو اس طرح نقل کیا ہے ’’ الایام معدودات ایام التشریق أربعۃ أیام یوم النحر وثلاثۃ ایام ‘‘ کہ ایام معدودات سے عید کا دن اور ایام تشریق کے تین دن مراد ہیں (تفسیر ابن کثیر:۱/۲۲۰)اور یہی قربانی کے ایام ہیں ،جیسے کہ علامہ عمرانی ؒ نے وضاحت کی ہے ’’ مذھب ....جمھور الصحابۃ والتابعین والفقہاء أنھا اربعۃ ایام من یوم النحر الی آخر ایام التشریق الثلاثۃ حتی تغیب شمسہ ‘‘ کہ جمہور صحابہ ، تابعین اور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ قربانی کے ایام چاردن ہیں یعنی عید کا دن اور ایام تشریق کے تین دن یہاں تک کہ ۱۳ ذیالحجہ کا سروج غروب ہوجائے( البیان :۴/۳۲۹)

منگل، 6 ستمبر، 2016

اگردوسال کابکرانہ ملے


اگردوسال کابکرانہ ملے

بقلم  مفتی فیاض احمدمحمودبرمارے حسینی(جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور)

قربانی کے لئے جن جانوروں کوشریعت نے مشروع کیاہے ان میں سے ایک بکرااوربکری بھی ہے،اوربکراوبکری کی عمرکے سلسلہ میں ناصرالحدیث امام شافعیؒ  کانقطہ نظراحادیث کی روشنی میں یہ ہے کہ بکرے کی عمردوسال یااس سے زیادہ ہوناچاہیے،اس لئے کہ حضرت جابرؓ نے فرمایا "لاتذبحواالاالمسنۃ الاان تعسرعلیکم فتذبحواجذعۃ من الضان" کہ تم صرف مسنہ ہی کی قربانی کرواگرتم کوکوکوئی دشواری لاحق ہوتوتم مینڈھے کاایک سالہ بچہ ذبح کرو(مسلم :1963) حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابو بردہؓ نے عید کی نماز سے قبل قربانی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم نے گوشت کیلئے  بکری ذبح کی(قربانی نہیں ہوئی)۔حضرت ابو بردہؓ نے فرمایا میرے پاس ایک سالہ بکری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی قربانی کرو،یہ تیری طرف سے کافی ہے تیرے بعد کسی کیلئے کافی نہ ہوگا  (ابوداود 2801) امام عمرانیؒ ان دلائل  کی روشنی میں فرماتے ہیں  کہ "فلایجزی ء الاالثنی من الابل والبقروالمعزوالجزع من الضان ..الثنی من الابل مااستکمل خمس سنین ،والثنی من البقروالمعزمااستکمل سنتین والجزع من الضان مااستکمل سنۃ" کہ قربانی کے لیے اونٹ گاے بیل، بکرابکری، مینڈھا مینڈی ثنی ہوناضروری ہے.یعنی اونٹ پانچ سال کا،گاے بیل بکرابکری دوسال کااورمینڈھاایک سال کاہوناضروری ہے،اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو بردہؓ  کو ایک سالہ  بکری ذبح کرنے کی رخصت  دی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ تمھارے بعد کسی کیلئے جائز نہ ہوگی.لہذا کسی نے ایک سالہ بکری پر قربانی کی تو اصح  قول کے مطابق قربانی درست نہیں ہوگی-(البیان :4/415)
لیکن موجودہ زمانہ میں دوسالہ بکرے کابکثرت دستیاب نہ ہونے کی بناء پرلوگ پریشان نظرآتے ہیں،اوربسااوقات بکروں کے تجارحضرات بھی عمرکے بتلانے میں جھوٹ اورفریب سے کام لیتے ہیں،ایسی صورت حال میں ہمیں قرآن وحدیث اورقرآن وحدیث سے ماخوذفقہ اسلامی سے روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے.سب سے پہلے توہمیں اس بات پرغورکرناہے کہ کیاجس بکرے کی عمرکولے کرہم پریشان ہیں،وہ صرف اس وجہ سے کہ اس پرقربانی کرناافضل ہے۔ یااس  کے مقابلہ میں  کوئی اورجانورافضل ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ "میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا ہی بہتر ہے ایک سالہ مینڈھے کے ذریعہ قربانی  .پس لوگ  مینڈھوں پر ٹوٹ پڑے.(ترمذی: 1499) اس حدیث کےذریعہ فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ بکرے کے مقابلے میں مینڈھا افضل ہے.نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مینڈھوں کے ذریعہ قربانی کی(بخاری:5554)
مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مینڈے کوآپﷺ نے افضل قراردیاہے،چنانچہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں "والضئان احب الی من المعز" (الام 3/583) کہ مینڈھابکرے کے مقابلہ میں افضل ہے، امام ماوردیؒ فرماتے ہیں "افضل الضحایا من الابل ثم الجزع من الضئان ثم الثنی من المعز." (الحاوی الکبیر 15/77) کہ افضل تواونٹ ہے اوربکرے بکری کے مقابلہ میں مینڈھاافضل ہے،جب مینڈھاافضل ہے، اورشریعت کی مقررکردہ عمرکے مطابق مینڈے دستیاب بھی ہیں توپھرافضلیت کوچھوڑکرصرف عمدہ گوشت کومقصدبناکرغیرافضلیت کواختیارکرنے اوراس کی عمرکے تعلق سے بھی شک وشبہ میں مبتلارہ کرقربانی کی چنداں ضرورت نہیں،البتہ اگرمارکیٹ میں مینڈے دستیاب نہیں ہیں،اوران کاحصول بھی ممکن نہ ہواورکسی اورجانورپرقربانی ممکن نہ ہوتوبدرجہ مجبوری دوسال سے کم عمربکرے وبکری پرقربانی کی گنجائش ہے.۔