ہفتہ، 30 جولائی، 2016

امام کے لئے واجب صفات



بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام کے لئے واجب صفات
          نماز با جماعت ادا کرنے کے فضائل احادیث میں بہت آئے ہیں اور تنہا نماز پڑھنے پر وعیدیں بھی احادیث میں کثرت سے وارد ہیں، اس لئے ایک مسلمان کو چاہئے کہ فرض نماز مسجد میں با جماعت ادا کر کے اس کے فضائل حاصل کریں، نیز یہ بھی ایک اہم امر ہے کہ جو امام ہو اس میں وہ واجب صفات ہوں جس سے اس کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہو۔ بہت سی جگہ مسئلہ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسے شخص کے پیچھ نماز ادا ہوجاتی ہے جس کی اقتداء درست ہی نہیں ہوتی۔ اور علماء کی موجودگی کے باوجود مسئلہ کا علم نہ ہونا یعنی دریافت نہ کرنا یہ بھی ایک گناہ ہی ہے۔ امام کے لئے وہ امور جو واجب ہیں ان کو یہاں پر ذکر کیا جارہا ہے، ان امور میں سے کوئی بھی امر پایا نہ جائے تو ایسے امام کی اقتداء درست نہیں۔ تفصیل کے لئے علماء کرام سے ربط پیدا کریں۔   

مسئلہ: مقتدی کو معلوم ہو کہ امام بے وضو یا جنبی ہے یا اس کے کپڑے پر نجاست ہے تو اس کی اقتداء جائزنہیں ہے۔

مسئلہ:  کافر صرف نماز پڑھنے سے مسلمان نہ ہوگا اور اس کی اقتدا ءجائز نہیں ہوگی۔

مسئلہ:  اگر امام کسی اور مسلک کا ہو اور مقتدی کے مسلک کے مطابق جو واجبات ہیں، ان کی پابندی کرتا ہو، یا پابندی میں صرف شک ہو، تو اس کے پیچھے نماز صحیح ہوگی ورنہ صحیح نہیں ہوگی۔
مثلاً: اگر امام حنفی ہو اور مقتدی شافعی ہو اور امام نے نا محرم کو چھووا ہو اور وضو نہیں بنایا تو کیوں کہ شوافع کے نزدیک لمس ناقض وضو ہے تو اس وقت امام کی اقتداء صحیح نہیں ہوگی۔

مسئلہ:  کسی کی نماز ایسی ہو کہ اس کی قضاء لازم ہو جیسے پانی اور مٹی نہ ہونے کی وجہ سے بلا وضو اور بلا تیمم نماز، تو ایسے نمازی کی اقتداء جائز نہیں۔

مسئلہ: جو دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہو اس کو امام بنانا صحیح نہیں ہے۔

مسئلہ: دو آدمی باجماعت نماز ادا کر رہے ہوں، لیکن ان میں امام سمجھ میں نہ آئے تو ان میں سے کسی کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔

مسئلہ: جو اُمّی ہو یعنی سورہ فاتحہ صحیح نہیں پڑھ سکتا تو اس کے پیچھے قاری ( یعنی سورہ فاتحہ صحیح پڑھنے والا) کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
اُمّی سے کون مراد ہے؟
مسئلہ:  بے موقع ادغام کرنے والا، راء کو تاء سے بدلنے والا، ایک حرف کی جگہ دوسرا پڑھنے والا اورجو تشدید کو ادا نہ کرسکے یہ سب امی ہیں۔

مسئلہ: امام اور مقتدی ایک ہی طرح کے امی ہوں تو اقتداء صحیح ہوگی۔

مسئلہ:  اگر ایک شخص سورہ فاتحہ نصف اول صحیح پڑھتا ہو اور دوسرا نصف ثانی تو ان دونوں کو ایک دوسرے کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔

مسئلہ:  تمتام(تاء میں ہکلانے والا) اور فافاء (فاء کو بار بار ادا کرنے والا) کی امامت مکروہ ہے اور اس کی اقتداء صحیح ہے۔

مسئلہ: تلاوت میں ایسی غلطی جس سے مطلب بدلتا نہ ہو جیسے الحمد للهُ( لفظ اللہ کے ہ پر پیش) پڑھنا تو اس کی اور اقتداء کرنے والوں کی نماز صحیح ہوگی۔

مسئلہ: اوراگر  مفہوم بدل جائے جیسے انعمتَُیا انعمتِ ( انعمت کے تاء پر پیش ـــُــیا زیر ـــِـــ ) تو نماز باطل ہوگی۔
مسئلہ:  اگر   زبان پلٹتی ہو اور سیکھنا ممکن ہو تو سیکھنا لازم ہے، اگر کوتاہی کرے اور وقت تنگ ہو توو ایسے ہی نماز پڑھ لے اور بعد میں اعادہ کرے، اس کی اقتداء صحیح نہیں ہوگی۔
مسئلہ:  اور اگر زبان پلٹتی نہ ہو یا اتنا وقت نہیں ملا کہ سیکھ سکتا، اور سورہ فاتحہ میں یہ مسئلہ ہو تو اس کی نماز اور اس جیسے آدمی کی نماز درست ہے۔  لیکن قاری کی اقتداء صحیح نہیں ہوگی۔
مسئلہ:   فاتحہ کے علاوہ میں یہ مسئلہ ہو تو اس کی اور پیچھے والوں کی نماز درست ہے۔
مسئلہ:  مرد کے پیچھے مرد اور عورتیں اقتداء کرسکتی ہیں۔
مسئلہ:  عورت کے پیچھے صرف عورت اقتداء کرستی ہے۔
مسئلہ:  مرد اور خنثیٰ کی اقتداء عورت کے پیچھے صحیح نہیں ہوگی۔
مسئلہ:  خنثیٰ کے پیچھے صرف عورت نماز پڑھ سکتی ہے، مرد یا دوسرا خنثیٰ نہیں پڑھ سکتے۔
مسئلہ:  امام تیمم یا مسحِ موزہ کرے اور مقتدی وضو کرے اور پیر دھوئے تو اقتداء صحیح ہے۔
مسئلہ:  سلس البول کی اقتداء تندرست کو ( جس کو یہ بیماری نہ ہو) اور مستحاضہ غیر متحیرہ کی اقتداء طاہرہ عورت کے لئے صحیح ہے۔
مسئلہ:  ڈھیلوں سے استنجاء کرنے والے اور جس کے بدن یا کپڑے پر معاف نجاست ہو اس کی اقتداء صحیح ہے۔
مسئلہ:  کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی اور کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے لیٹ کر نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرسکتے ہیں۔
مسئلہ:  امام کو باوضو اور پاک سمجھ کر اقتداء کی اور نماز کے بعد اس کا بے وضو یا جنبی ہونا معلوم ہوا تو مقتدی کو قضا کی ضرورت نہیں ہے۔
مسئلہ:  امام کے بے وضو ہونا مقتدی کو معلوم تھا، پھر بھول کر اس کی اقتدا کی تو نماز کا اعادہ ضروری ہے۔
مسئلہ:   امام کو قاری سمجھ کر اقتداء کی، لیکن وہ امی نکلا تو اعادہ لازم ہے۔
مسئلہ:  نماز کے دوران امام کا بے وضو یا جنبی ہونا معلوم ہوا تو فوراً جدائی کی نیت کر کے بقیہ نماز تنہا مکمل کرے، قضاء کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ:  امام کو مرد سمجھ کر کسی مرد نے اقتداء کی، پھر معلوم ہوا کہ عورت ہے، تو اعادہ واجب ہے۔
مسئلہ:  مسلمان سمجھ کر اقتداء کرے اور وہ کافر نکلے تو اعادہ لازم ہے۔
مسئلہ:  نماز کے بعد امام کے بدن یا کپڑے میں نجاست کا علم ہو اور وہ  خفیہ (ظاہر نہ ہو) تو اعادہ کی ضرورت نہیں اور نجاست ظاہر ہ ہو کہ نظر آسکتی تھی تو اعادہ لازم ہے۔
مسئلہ:  ممیز بچہ (با شعور) کی اقتداء میں فرض اور نفل پڑھ سکتا ہے۔ لیکن بالغ امام  افضل ہے۔
مسئلہ:  غلام اور نابینا کی امامت صحیح ہے۔
احادیث: 
1.حضرت عمرہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے دورِ مسعود میں اپنی قوم کی امامت فرمایا کرتے اور اس وقت ان کی عمر سات سال تھی( بعض روایات میں 6 یا 7، 7 یا 8 اور 8 بھی ہے)۔(بخاری، ابو داود، نسائی، طبرانی)
2. مرض الوصال میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر امامت فرمائی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہو کر پڑھی۔"(متفق علیہ)
3.  بعض غزوات میں آپ ﷺ نے مدینہ میں امامت کی ذمہ داری حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ( نابینا صحابی ہیں) کو سونپی۔(ابو داود، احمد، ابن حبان، ابو یعلیٰ، طبرانی، اسنادہ حسن)(تلخیص الحبیر)
(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی  1/220)

پیر، 25 جولائی، 2016

نماز جنازہ کے ارکان و شرائط

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز جنازہ
نماز جنازہ کے ارکان :-
نماز جنازہ کے سات ارکان ہیں۔
نیت کرنا:  نیت کا وقت وہی ہے جو دیگر نمازوں کا ہے یعنی تکبیر تحریمہ کے ساتھ ساتھ نیت کرے۔ فرضیت کی نیت کرنا  بھی ضروری ہے اور مطلق فرض کی نیت کافی ہے، فرض کفایہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔
مسئلہ: اگر ایک میت ہو تو ایک پر اور ایک سے زائد ہوں تو تمام پر نماز کی  نیت کرے۔
قیام:  قدرت کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔
چار تکبیریں۔
حدیث:  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: آپ ﷺ نے میت پر چار تکبیریں کہیں اور پہلی تکبیر کے بعد ام القرآن (یعنی سورہ فاتحہ) پڑھی۔(رواہ الشافعی و الحاکم ، تلخیص الحبیر)
مسئلہ: اگر کسی نے بھول سے یا عمداً پانچ تکبیریں کہیں تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔
مسئلہ: اگر امام بانچ تکبیریں کہے تو پانچویں تکبیر میں اس کی اتباع نہ کرے، بلکہ امام سے مفارقت ( الگ ہونے)  کی نیت کر کے سلام پھیرے، یا اس کا انتظار کرتا رہے اور اس کے ساتھ ہی سلام پھیرے اور یہی صورت افضل ہے۔
سلام:
مسئلہ: سلام کے ساتھ نماز سے نکلنے کی نیت کرنا سنت ہے واجب نہیں اور صرف "السلام علیک" کہنا کافی نہیں۔
5. پہلی تکبیر کے بعد سور فاتحہ پڑھنا۔
حدیث:
1۔ آپ ﷺ نے پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی۔(الشافعی ، الحاکم)
2۔ نماز جنازہ کا سنت طریقہ یہ ہے کہ تکبیر کہنے کے بعد آہستہ سورہ فاتحہ پڑھے، پھر درود پڑھے۔(الشافعی و نحوہ البیھقی)
6. دوسری تکبیر کے بعد آپ ﷺ پر درود پڑھنا۔
حدیث: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نماز جنازہ میں آپ ﷺ پر درود پڑھنا آپ ﷺ کی سنت ہے۔(رواہ الحاکم، صحہ علی شرط الشیخین، فتح الوھاب)
تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا:
مسئلہ: میت کے لئے بالخصوص اخروی دعا کرنا ضروری ہے، نیز دعا کسی اور تکبیر کے بعد ہو تو یہ کافی نہیں ہے۔(حاشیة الجمل 2/172)
حدیث: جب تم میت پر نماز پڑھو تو اس کے لئے دعا کرو۔(رواہ ابوداود، ابن ماجہ و البیھقی)
مسئلہ: کم سے کم اتنی دعا کا ہونا ضروری ہے جس پر دعا کا اطلاق ہوسکے۔ اور افضل دعا ان شاء اللہ  نماز جنازہ کے مکمل طریقہ میں آئے گی۔

نماز جنازہ کے شرائط: دیگر نمازوں میں جو شرائط ضروری ہیں، اس نماز میں بھی ضروری ہیں جیسے طہارت، ستر عورت، قبلہ کی جانب رخ کرنا وغیرہ البتہ مزید شرط یہ ہے کہ نماز سے پہلے میت کا غسل ہوچکا ہو۔
مسئلہ:  کوئی کنویں میں مرجائے یا کان میں دب کر مرجائے اور اسے باہر نکال کر غسل دینا دشوار ہو تو اس پر نماز نہیں پڑھ سکتے۔
مسئلہ: کفن پہنانے سے پہلے نماز پڑھنا کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
مسئلہ:  نماز جنازہ کے لئے جماعت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے۔
مسئلہ: صرف ایک مرد کے نماز ادا کرنے سے بھی فرض ذمہ ساقط ہوجائے گا، چاہے وہ ممیّز (باشعور) بچہ ہی کیوں نہ ہو،۔
مسئلہ: مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت یا خنثی مشکل ادا کرے تو فرض ساقط نہ ہوگا۔ ہاں اگر ایک بھی مرد موجود نہ ہو تو عورتیں تنہا نماز ادا کریں۔ باجماعت ادا کرنا ان کے لئے مستحب نہیں چاہے مرد کا جنازہ ہو یا عورت کا۔ (لیکن باجماعت ادا کریں تو کوئی حرج نہیں۔ المجموع 5/213) اور ان کے  ذریعے فرض بھی ذمہ ساقط ہوجائے گا۔
مسئلہ: صرف عورتیں موجود ہوں، تو فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری عورتوں پر ہوگی، اور اگر مردوں کے ساتھ عورتیں بھی ہوں تو فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری عورتوں پر نہ ہوگی بلکہ مردوں پر ہوگی، چاہے ایک ہی مرد کیوں نہ ہو۔(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی)

منگل، 5 جولائی، 2016

روزہ کا فدیہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
روزہ کا فدیہ
کسی کا رمضان، نذر یا کفارہ کا واجب روزہ عذر کی وجہ سے فوت ہو اور اس کی قضا کے امکان اور قدرت سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوجائے، تو اس کے تدارک اور تلافی کی ضرورت نہیں اور نہ وہ گنہگار ہوگا۔ مثلا ًکوئی بیمار ہوجائے اور روزہ فوت ہو اور موت تک بیمار ہی رہے یا سفر میں روزہ فوت ہو اور موت تک سفر جاری رہا یا حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ فوت ہو اور اسی حال میں انتقال ہو، ان تمام صورتوں میں نہ تلافی کی ضرورت ہے اور نہ گنہگار ہوگا۔
اگر بلا عذر روزہ فوت ہو تو گناہ بھی ہوگا اور تدارک بھی لازم ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

اگر بلا عذر یا عذر کی وجہ سے روزہ فوت ہو اور قضا کے امکان کے بعد انتقال ہو، تو اس کے ترکہ میں سے ہر دن کے روزہ کے بدلے اپنے شہر کی غالب غذا سے ایک ایک مد(ایک مد =600 گرام) فطرہ کی جنس سے فدیہ ادا کرے یا اس کا کوئی رشتہ دار اس کی جانب سے روزہ رکھے یا کوئی اجنبی رشتہ دار کی اجازت یا میت کی وصیت سے روزہ رکھے۔

نوٹ:- امکان کے بعد انتقال ہوا تو دونوں صورتوں میں گناہ ہوگا، اس لئے موقع ملتے ہی فورا قضا کرنا بہتر ہے۔
احادیث:
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جسکا انتقال ہو اور اس کے ذمہ روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔"(صحیح بخاری 1952، صحیح مسلم)
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے پھر کہا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزہ تھے، کیا میں ان کو قضاکروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہان! اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کی قضا کی جائے۔"( صحیح بخاری 1953، صحیح مسلم)


3۔ کسی کا انتقال ہو اور ذمہ روزہ ہو تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو طعام دیا جائے۔(سنن الترمذی و صحیح وقفہ علی ابن عمر)
4۔ ایک عورت کی والدہ کا انتقال ہوا۔ اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے تو اس کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اپنی امی کی جانب سے تم روزہ رکھو۔"(صحیح مسلم)

جو شخص ایسے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑے جس کے ختم ہونے کی کوئی توقع و امید نہ ہو جیسے بوڑھا یا ایسا مرض جس سے شفا یابی کی امید نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلہ ایک مد (600 گرام) اناج دے، آئیندہ روزہ قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔
 فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورہ البقرہ 184)
ترجمہ: "جو شخص تم میں سے (ایسا) ہو جو بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو دوسے ایام کا شمار (کر کے ان میں روزہ ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اور ( دوسی آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں ان کے ذمہ فدیہ ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا کھلا دینا یا دے دینا ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دے) تو اس شخص کے لئے اور بھی بہتر ہے اور تمہارا روزہ رکھنا ( اس حال میں ) زیادہ بہتر ہے اگر (روزہ کی فضیلت سے )خبر رکھتے ہو۔"

امام بغوی ؒفرماتے ہیں :
"یعنی جو نوجوانی میں میں روزہ پر قادر تھے اور اب بڑھاپے میں عاجز ہیں، ان کے ذمہ ایک فقیر کا کھانا فدیہ ہے۔(تفسیر بغوی)

 اگر مشقت اٹھا کر روزہ رکھے تو یہ کافی ہے۔ فدیہ ادا کرنے سے پہلے (اتفاقا ًاور خلاف توقع) عذر زائل ہو جائے تب بھی فدیہ ادا کرسکتا ہے۔ روزہ رکھنا واجب نہیں۔ دن سے قبل رات ہی میں اس دن کا فدیہ ادا کرسکتا ہے۔  رات سے قبل آئندہ کا فدیہ جائز نہیں۔

درج ذیل افراد کو روزہ کی قضا اور فدیہ ( 600 گرام) دونوں لازم ہیں۔

1۔ کسی آدمی یا حیوان محترم کی زندگی بچانے یا کسی عضو کو یا منفعت کو تلف ہونے سے بچانے کے لئے روزہ توڑنا پڑے۔
مثلا ًکوئی ڈوب رہا تھا اور اس کے بچانے میں پانی اندر چلا گیا اور روزہ ٹوٹ گیا۔

2۔ حاملہ عورت صرف اپنے حمل (جنین) کو نقصان اور خطرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھے۔

3۔ مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) شیر خوار بچہ کو نقصان اور خطرہ ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے۔

جنین اور بچہ کو روزہ سے نقصان ہو تو روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔ مرضعہ کا بچہ اپنا ہو یا دوسرے کا یہی حکم ہے۔

مذکورہ( اوپر بیان کی ہوئی) تینوں صورتوں میں افطار ( روزہ نہ رکھنے سے) دو افراد کو فائدہ پہنچا اس لئے فدیہ سمیت قضا لازم ہوا۔
آخری دو صوروں کے لئے آیت سابقہ  وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ( سورہ بقرہ 184)  سے بھی استدلال کیا گیا کیوں کہ بقول ابن عباس رضی الہ عنہما ان دونوں کے حق میں یہ آیت منسوخ نہیں۔ ( رواہ البیہقی) 

مسئلہ:-جس شخص کو رمضان کے روزوں کے قضا کا موقع ملے ( یعنی بلا عذر روزہ رکھنے کے ایام میسر ہوں) اور وہ روزہ نہ رکھے، یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا، تو اسے قضا کے ساتھ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد ( 600 گرام) فدیہ دینا واجب ہے۔ کیوں کہ 6 صحابہ کرام نے یہی فتوی دیا ہے اور ان کے مخالف کسی صحابی سے مروی نہیں۔

جتنے سال تاخیر ہوگی اتنے ہی فدیہ واجب ہوں گے، جب کہ ہر سال روزہ رکھنے کی گنجائش کے باوجود مؤخر کرے۔  کیوں کہ مالی حقوق میں تداخل نہیں ہے۔

مثلاً کسی نے باوجود گنجائش کے 5 روزے 3 سال مؤخر کئے تو 5 روزوں کی قضا کے ساتھ ہر روزہ کے بدلہ تین تین مد( 600 گرام * 3 = 1800 گرام) اناج لازم ہے۔

بھول کی وجہ سے یا تاخیر کی حرمت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے قضا میں تاخیر ہوئی تو فدیہ کی مقدار میں اضافہ نہ ہوگا۔
مذکورہ صورت میں ایک سال تاخیر کے بعد روزہ کی قضا سے پہلے انتقال کر جائے تو اسکے ترکہ میں سے ہر روزہ کے بدلہ دو مد (2 *600 گرام) نکالے، ایک روزہ کا اور ایک تاخیر کا۔ اور ولی اس کی جانب سے روزہ رکھے تو،  صرف ایک مد ( 600 گرام ) تاخیر کا نکالے۔

مسئلہ:- مذکورہ فدیہ کا مصرف فقیر اور مسکین ہیں۔ کیوں کہ مسکین کا ذکر آیت و حدیث میں ہے اور فقیر اس سے بھی زیادہ تنگ دستی میں ہوتا ہے۔

مسئلہ:- سارے مد ایک فقیر یا مسکین کو بھی دے سکتا ہے، کیوں کہ ہر دن مستقل عبادت ہے لہذا سارے مد مختلف کفاروں کی طرح ہیں۔ 

مسئلہ: ایک ہی مد دو میں تقسیم نہ کرے، بلکہ ایک مد مکمل ایک شخص کو دے۔  

(ماخوذ تحفہ الباری فی الفقہ الشافعی 361 – 363، الفقہ المنھجی)