منگل، 14 جولائی، 2015

صدقۂ فطر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صدقۂ فطر
احادیث: (۱) "آپ ﷺ نے رمضان میں زکوٰۃ الفطر کو لوگوں پر فرض فرمایا، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ، ہر آزاد یا غلام، مذکر و مؤنث پر مسلمانوں میں سے۔"(متفق علیہ)
(۲)آپ ﷺ نے روزہدار کی لغو اور فضولیات سے پاکی اور مساکین کو کھلانے کی خاطر زکوٰۃ الفطر کو فرض فرمایا، جو نمازِ عید سے قبل ادا کرے تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے، اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو یہ ایک عام صدقہ ہے۔"(ابو داؤد،ابن ماجہ،دارقطنی،حاکم)
(۳) آپ ﷺ نے صدقۂ فطر کو فرض فرمایا اور لوگوں کے نماز کے لئے جانے سے قبل اسے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔"(متفق علیہ)(تلخیص الحبیر ۲/۱۹۴)
            صدقۂ فطر اس امت کی خصوصیت ہے اور مشہور یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی طرح ہجرت کے دوسرے سال عید سے دو روز قبل فرض ہوا۔
امام وکیعؒ فرماتے ہیں:"جس طرح سجدۂ  سہو نماز کے نقصان اور کمی کی تلافی کرتا ہے، صدقۂ فطر رمضان کے نقصان کی تلافی کرتا ہے۔"
ابنِ شاہیںؒ نے ترغیب میں اور ضیاء نے حضرت جریرؓ سے نقل فرمایا:" ماہِ رمضان آسمان و زمیں کے درمیان معلق رہتا ہے، صدقۂ فطر کی ادائیگی کے بغیر بارگاہِ الٰہی میں اٹھایا نہیں جاتا۔"
مطلب یہ ہے کہ اس ماہ عظیم ترین ثواب ایک قادر شخص کو صدقۂ فطر کی ادائیگی کے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔
            صدقۂ فطر بالاجماع فرض(واجب) ہے۔
مسئلہ:ماہِ رمضان کا آخری لمحہ اور ماہِ شوال کا اوّل لمحہ پانے سے صدقۂ فطر واجب ہوگا۔
مسئلہ: صدقۂ فطر ایک مسلمان کو اپنی جانب سے اور شرعاً اپنے زیر کفالت مسلم (جن کا نان نفقہ اور اخراجات اس کے ذمہ واجب ہیں) افراد کی جانب سے نکالنا واجب ہے۔
مسئلہ: فطرہ کے وجوب کے وقت جن کا نفقہ اس کے ذمہ ضروری ہے ان کی جانب سے نکالے، چاہے اس سے پہلے یا بعد میں نفقہ کا وجوب نہ پایا جائے۔
مسئلہ: رمضان کے آکری دن غروب کے بعد نکاح ہو تو اس بیوی کی جانب سے شوہر پر فطرہ واجب نہیں، اسی طرھ غروب کے بعد کوئی اسلام قبول کرے یا بچہ پیدا ہو تو ان کا فطرہ واجب نہیں ہے۔ اگر شک واقع ہو کہ غروب سے قبل یہ امور ہوئے ہیں یا بعد میں تب بھی واجب نہیں۔
مسئلہ: آخری دن غروب کے بعد کسی کے انتقال سے فطرہ ساقت نہ ہوگا۔

مسئلہ: اگر شوہر غروب کے بعد بیوی کو طلاق دے، چاہے بائنہ طلاق ہی کیوں نہ ہو، اسے اس بیوی کا  فطرہ ادا کرنا ہوگا۔(بشری الکریم ۲/۵۲)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں