جمعہ، 17 جولائی، 2015

عیدین کا خطبہ

عید کے خطبہ کا وقت اور اس کا طریقہ
مسئلہ: عید کا خطبہ نماز کے بعد ہے۔
حدیث:  (۱)حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے آپ ﷺ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ خطبہ سے پہلے نماز عید ادا کرتے تھے۔(رواہ البخاری و مسلم)
حدیث : (۲) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، میں آپ ﷺ کے ساتھ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن نکلا تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا۔(رواہ البخاری)
لہٰذا امام نماز سے فراغت کے بعد منبر پر چڑھ کر سلام کر کے (جمعہ کی طرح بقدر اذان) بیٹھ جائے، پھر دوبارہ کھڑے ہو کر دو خطبے دے، اور ان دونوں خطبوں کے ارکان جمعہ کے خطبہ کے مانند ہیں۔ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا مستحب ہے۔
مسئلہ : ان خطبوں کو قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر دینا جائز ہے۔
مسئلہ: اگر صرف نماز پڑھے اور خطبہ نہ دے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مسئلہ: کوئی منفرد(اکیلا) عید کی نماز  ادا کرے تو اسے خطبہ دینے کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ: عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام اور عید الاضحیٰ میں قربانی کے احکام بتلانا مستحب ہے۔
مسئلہ: پہلے خطبہ کے ابتداء میں پے در پے (اور جدا جدا) نو (۹) تکبیرات اور دوسرے خطبہ کے ابتداء میں سات تکبیرات پڑھنا مستحب ہے۔
مسئلہ: ان تکبیرات کے درمیان اللہ تعالیٰ کی حمد و تہلیل اور ثنا کے کلمات پڑھنا جائز ہے۔
مسئلہ: مذکورہ نو اور سات تکبیرات نفس خطبہ میں سے نہیں ہیں، بلکہ یہ خطبہ کے لئے بطور مقدمہ کے ہیں۔
مسئلہ: خطبہ کہ دھیان و توجہ سے سننا مستحب ہے اور نہ سننا مکروہ ہے۔
عید کی نماز شروع ہونے کے بعد یا خطبہ کے دوران  آنے والے کے متعلق احکام
مسئلہ: عید کی نماز اگر عید گاہ میں پڑھی گئی اور نماز کے بعد دوران خطبہ کوئی آئے تو وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے بلکہ بیٹھ کر خطبہ سنے اور خطبہ ہونے کے بعد عید کی نماز چاہے عید اہ میں ادا کرے یا اپنے گھر جاکر۔
مسئلہ: اگر عید کی نماز مسجد میں پڑھی گئی اور نماز کے بعد دورانِ خطبہ  کوئی آئے تو سب سےپہلے عید کی نماز ادا کرے پھر خطبہ سنے اور تحیۃ المسجد الگ سے پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تحیۃ المسجد کا ثواب عید کی نماز کے ضمن میں مل جائے گا۔
مسئلہ: امام نماز سے پہلے ہی خطبہ دے تو خطبہ شمار نہ ہوگا جیسا کہ فرض کی نماز پچھلی سنت فرض سے پہلے پڑھے تو شمار نہیں ہوتی۔
عید کی نماز کی قضاء
مسئلہ: عید کی نماز اگر فوت (چھوٹ) ہو جائے تو اس کی قضاء کرنا مستحب ہے۔
مسئلہ: رمضان کی تیس تاریخ کو زوال سے اتنی دیر پہلے، جس میں لوگوں کا جمع ہو کر عید کی نماز ادا کرنا ممکن ہو ، اور دو عادل شخص گذشتہ رات (یعنی تیسویں رات) چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو روزہ توڑ کر نماز پڑھیں اور یہ نماز ادا شمار ہوگی۔ قضاء نہ ہوگی۔
مسئلہ: اگر غروبِ شمس کے بعد گواہی دیں تو نماز کے  سلسلہ میں گواہی قبون نہ کریں کیوں کہ گواہی قبول کرنے کی صورت میں سوائے نماز چھوڑنے کے کچھ فائدہ نہیں۔ لہٰذا دوسرے دن نماز اداءً پڑھے قضاء نہ ہوگی۔
مسئلہ: اگر زوال کے بعد غروب سے پہلے یا زوال سے اتنی دیر پہلے جس میں نماز پڑھنا ممکن نہ ہو گواہی دیں تو روزہ توڑ دیں البتہ نماز فوت ہو جائے گی، اب اس کی قضاء کرے خواہ اسی دن قضاء کرے یا دوسرے دن۔ لیکن اگر شہر کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اُسی دن جمع ہونا ممکن ہو تو اسی دن پڑھنا افضل ہے، ورنہ دوسرے دن پڑھنا افضل ہے۔
حدیث: ایک قافلہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں آکر گذشتہ رات چاند دیکھنے کی گواہی دینے لگا تو آپ ﷺ نے انہیں روزہ افطار کرنے اور (دوسرے دن) صبح کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔( احمد،نسائی، بیہقی، صححہ الخطابی)
مسئلہ: دو آدمیوں نے زوال سے پہلے یا مغرب سے پہلے گواہی دی اور زوال کے بعد یا مغرب کے بعد عادل قرار دئے گئے تو جس وقت عادل قرار دئے گئے اس وقت کا اعتبار ہوگا، لہٰذا پہلی صورت میں نماز قضاء پڑھے اور دوسری صورت میں اداء پڑھے۔
نوٹ:- یہ مذکورہ ساری تفصیل اس صورت میں ہوگی جب کہ تمام لوگوں کو اشتباہ ہوجائے اور سب کی نماز فوت ہوجائے۔ لیکن اگر چند افراد کو اشتباہ ہونے کی وجہ سے نماز فوت ہوجائے( تو ادا کی گنجائش نہیں) بلکہ قضاء کرے ۔

جمعہ کے دن عید کا مسئلہ

            جمعہ کے دن عید آجائے اور عید کی نماز کے لئے ایسی بستیوں کے لوگ آجائیں جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے تو ایسے لوگوں کو جمعہ چھوڑ کر واپس اپنی بستی میں جانے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر ان لوگوں کے جانے سے پہلے جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں جمعہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(فتح الوھاب)
(مأخوذ ملخصاً تحفة الباری فی الفقه الشافعی ازشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم بن علی خطیب حفظہ اللہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں