منگل، 7 جولائی، 2015

اعتکاف کا بیان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اعتکاف کا بیان
ترجمہ: اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی (شہوت کے ساتھ) مت ملنے دو جس زمانہ میں تم لوگ اعتکاف والے وہ (جوکہ) مسجدوں میں (ہوا کرتا ہے)۔(سورہ البقرہ  ۱۸۷ )
حدیث: آپ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں وصال تک اعتکاف فرمایا کرتے۔"(متفق علیہ)
            عربی زبان میں اعتکاف کا مطلب ہے ٹھہرنا، روکے رکھنا، ہمیشہ لازم رہنا۔ شرعاً مخصوص شخص کا نیت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے۔ اس کی مشروعیت پر اجماع ہے۔
مسئلہ: اعتکاف ہر وقت سنت ہے چاہے بغیر روزے کے یا صرف رات میں اعتکاف کرے کیوں کہ کسی وقت کی قید اور تعیین مروی نہیں ہے، رمضان کے آخری عشرہ میں دیگر ایام کے مقابلہ میں زیادہ افضل ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے اس کی پابندی فرمائی ہے۔(شیخین) اور اس کی اصل حکمت لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کے حصول کی کوشش ہے، جو قرآن کی رو سے ہزار ماہ سے بہتر ہے یعنی اس ایک رات کی عبادت ایسے ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے جس میں لیلۃ القدر نہ ہو۔
حدیث: (۱)جو لیلۃ القدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے (اللہ کی عبادت کرتا رہے) اس کے سابقہ گناہ معاف ہوں گے۔(متفق علیہ)
نوٹ: مراد اس سے حقوق اللہ سے متعلق صغیرہ گناہ ہیں۔
(۲)شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔(متفق علیہ)
            امام شافعیؒ کے نزدیک آخری عشرہ کے ہر شب میں لیلۃ القدر کا امکان ہے لیکن زیادہ احتمال طاق راتوں میں اور اس میں بھی ۲۱، یا ۲۳ کی رات میں ہے۔ ۲۱ویں شب پر شیخین کی روایت اور ۲۳ویں شب پر مسلم کی روایت دلالت کرتی ہے۔ امام مزنیؒ اور ابن خزیمہؒ وغیرہ نے فرمایا کہ شبِ قدر منتقل ہوتے رہتی ہے۔(ہر سال ایک ہی متعین رات نہیں ہوتی) امام نوویؒ نے روضہ،مجموع اور فتاوی میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ جمع بین الاحادیث میں امام شافعیؒ کے کلام کابھی یہی تقاضا ہے۔
            شبِ قدر کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی صبح جب سورج طلوع ہوگا تو بالکل سفید ہوگا اسمیں شعاع نہ ہوگی۔
            شبِ قدر اس امت کی خصوصیت ہے۔ یہ سال کی سب سے افضل رات اور تاقیامت باقی ہے۔ یہ درحقیقت نظر آتی ہے اور جسے نظر آئے اسے یہ چھپانا  سنت ہے، کیوں کہ یہ نظر آنا ایک کرامت ہے اور کرامت کا پوشیدہ رکھنا سنت ہے۔ شبِ قدر میں ساری رات نماز،تلاوت دعا وغیرہ میں مصروف رہے۔
شبِ قدر میں یہ دعا بکثرت پڑھے
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
ترجمہ:" اے اللہ! بے شک آپ ہی معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں پس ہمیں معاف فرمائے۔" (ترمذی،نسائی، ابن ماجہ)

شبِ قدر کا علم نہ ہو سکے تب بھی اس رات کی عبادت کرنے سے اس کی فضیلت فی الجملہ حاصل ہوگی( کامل فضیلت بغیر علم کے حاصل نہ ہوگی) اس کی ایک علامت اس میں گرمی و سردی کا نہ ہونا ہے (یعنی رات معتدل ہوگی) شبِ قدر کے بعد دن میں بھی کثرتِ عبادت مستحب ہے۔(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں