بدھ، 18 فروری، 2015

وضو کی سنتیں

وضو کی چند سنتیں

وضو کی بہت سی سنتیں ہیں ہم ان میں سے اہم کو ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں
۱.مسواک کرنا        
۲. بسم اللہ پڑھنا
۳. ہتھیلی دھونا
۴.کلی کرنا اور ناک میں پانی لینا      
۵. کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے میں مبالغہ کرنا
۶. ہر عمل تین تین مرتبہ کرنا          
۷. داڑھی کا خلال کرنا
۸. دائیں کو بائیں پر مقدم رکھنا        
 ۹.فرض سے زائد مقدار کا دھونا
۱۰.پورے سر کا مسح کرنا      
۱۱.کان کا مسح کرنا
۱۲. ہاتھ اور پیر کی انگلیوں کا خلال کرنا  
۱۳.وضو کرنے میں کسی کی مدد نا لینا
۱۴.اگر کوئی عذر نہ ہو تو  وضو کے پانی کو نہ پونچھنا
۱۵.وضو کے پانی کو نہ جھاڑے واغیرہ۔
(تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی  ۸۳-۸۸  ملخصاً)

منگل، 17 فروری، 2015

وضو کے فرائض : ۶ ترتیب سے وضو کرنا

۶۔ ترتیب:
جیسا بتایا گیا اسی ترتیب سے وضو کرنا ضروری ہے یعنی پہلے نیت کرنا، پھر چہرہ دھونا پھر ہاتھ ، پھر سرکا مسح اور آخر میں پیر دھونا۔
ترتیب مستفاد ہوئی ہے اس آیت سے جس میں وضو  کے فرائض کا ذکر ہے یعنی سورہ المائدہ آیت ۶، اور رسول اللہ ﷺ کے فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے وضو نہیں کیا مگر اسی ترتیب سے جس طرح آیت میں آیا ہے۔ یہ بات صحیح صریح احادیث سے ثابت  ہے جیسا کہ ہم نے ہاتھ دھونے کے مسئلہ میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ والی حدیث ذکر فرمائی۔
امام نووی شافعیؒ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے
علماء شوافع نے قرآن کریم کی آیت سے دو دلیل لی ہیں ترتیب پر۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے دھونے کے اعضاء کے درمیان مسح کرنے کا ذکر کیا ہے یعنی جس اعضاء کو دھونا ہے وضو میں ان کے درمیان سر کے مسح کو ذکر کیا ہے اور عرب کی عادت ہے کہ جب وہ دو الگ الگ جنس کی چیزوں کا ذکر کرتے تو پہلے ایک جنس کی تمام چیزوں کا ذکر کرتے پھر دوسری جنس کی چیزوں کا ذکر کرتے ۔ وہ لوگ اس کے خلاف نہیں کرتے مگر جب ہی تب کے کچھ فائدہ ہو چنانچہ اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو کیوں نظیر کو توڑا جاتا۔ لہٰذا  مغسول اعضاء کے درمیان مسح کرنے کا ذکر اس بات کی دلالت ہے کہ وضو میں ترتیب شرط ہے۔
۲۔ دوسری دلیل اس آیت پاک میں یہ ہے کہ عرب کے لوگ جب چیزوں کا ذکر کرتے  اور بعض کو بعض پر اگر عطف کرتے تو  قریب والے سے شروع کرتے پھر اس سے قریب والے کا ذکر کرتے اور وہ لوگ اس کی مخالفت نہیں کرتے مگر جب کوئی مقصد ہو ۔ چنانچہ جب اللہ سبحانہ تعالیٰ  نے چہرے سے شروع فرمایا پھر ہاتھوں کا ذکر کیا پھر سر کا ذکر فرمایا اور پھر دونوں پیروں کا ذکر فرمایا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ترتیب پر۔ ورنہ اس طرح کہا جاتا اپنے چہروں کو دھو پھر سر کا مسح کرو  پھر دونوں ہاتھوں کو دھو پھر دونوں پیروں کو دھو۔
چنانچہ آیتِ کریمہ سے صاف واضح ہورہا ہے کہ وضو میں ترتیب فرض ہے۔
اور ساتھ میں احادیثِ صحیحہ جو وضو کی صفت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان تمام میں اسی ترتیب پر وضو کا ذکر ہے  کثرت سے روات کے اختلا ف کے ساتھ اور کثرت  سے وضو کی صفت میں اختلاف کے باوجود جیسا کہ ایک مرتبہ ،دو دو مرتبہ تین تین مرتبہ اعضاء وضو کو دھونا روایات میں ہیں اس کے باوجود تمام صحیح روایات میں  یہی ترتیب موجود ہے، اور ثابت نہیں ہے ترتیب کے علاوہ وضو کرنا صفات میں اتنا اختلاف ہونے کے باوجود۔
لہٰذا قرآن کریم کی آیت اور صحیح صریح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وضو میں ترتیب  فرض ہے ۔(المجموع شرح المھذب ۱/۴۴۵)
مسئلہ: بھول کر یا عمداً ترتیب کی خلاف ورزی ہو تو وضو صحیح نہیں ہوگا۔ البتو چہرہ کا دھونا معتبر ہوگا اور اس کے بعد ترتیب سے جو ادا کرے وہ بھی معتبر ہوگا۔
مسئلہ: چار اشخاص نے کسی کے چاروں اعضاء وضو کو اس کی اجازت سے بیک وقت دھویا تو صرف چہرہ کا دھونا شمار ہوگا۔
مسئلہ: کسی نے پانی میں غوطہ لگا کر وضو کی نیت کرلی تو کافی ہے۔
مسئلہ: ترتیب کے تحقق کے لئے تھوڑی دیر پانی میں ٹھہرنا ضروری نہیں ہے۔
(ملخصاً تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۳)
(الفقہ المنھجی علی مذھب الامام الشافعیؒ)
مرتب : فرحان باجري الشافعی۔

تخریج حدیث من مس ذكره فَليَتَوَضَّأ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
عَن بسرة بنت صَفْوَان رَضي اللهُ عَنها قَالَت: قَالَ رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم -: «من مس ذكره فَليَتَوَضَّأ»
حضرت بسرہ بن  صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جو اپنی شرمگاہ کو چھوئے چاہئے کہ وہ وضو کرے۔"
یہ حدیث صحیح ہے۔
اس کو اہل حل و العقد ائمہ نے روایت کیا ہے جیسے
۱.امام مالک(المتوفی ۱۷۹ھ) نے اپنی موطا میں(الوضوء من مس الفرج)
۲۔امام شافعی(المتوفی ۲۰۴ھ) نے "الام "میں(باب الوضوء من مس الذکر)
۳۔امام احمد (متوفی ۲۴۱ھ )نے مسند میں (حدیث ۲۷۲۹۳ حدیث بسرۃ بنت صفوان)
۴.اسی طرح امام دارمی(متوفی ۲۵۵ھ) نے (سنن دارمی حدیث نمبر۷۵۱)
اور اصحاب سنن نے یعنی 
۵.امام ابو داود(متوفی ۲۷۵ھ) نے(سنن ابوداود  حدیث نمبر ۱۸۱)
۶.امام ترمذی (متوفی ۲۷۹ھ) نے (سنن الترمذی  حدیث نمبر ۸۲)
۷.امام نسائی (متوفی ۳۰۳ھ) نے (سنن النسائی  حدیث نمبر ۱۵۹) اور
۸.امام ابن ماجہ (متوفی  ۲۷۳ھ) نے سنن ابن ماجہ  حدیث نمبر ۴۷۹ میں
۹. ابن الجارود (متوفی ۳۰۷ھ)نے اسے(المنتقی حدیث نمبر ۱۶) میں روایت کیا ہے اور ۱۰.امام بیھقی(متوفی ۴۵۸ھ)نے (السنن الكبرى حدیث نمبر  ۶۱۶)،معرفہ(الوضو من مس الذکر ۱۰۰۵)  اور الخلافیات میں ، امام الائمہ ابن خزیمہ(متوفی ۳۱۱ھ) نے صحیح ابن خزیمہ(باب استحباب الوضوء من مس الذكر) میں، اور ان کے شاگرد امام ابوحاتم بن حبان (متوفی ۳۵۴ھ)نے صحیح ابن حبان  (باب نواقض الوضو حدیث نمبر ۱۱۱۲)میں اور امام حاکم ابو عبد اللہ (متوفی ۴۰۵ھ)نے مستدرک علی الصحیحین(حدیث نمبر ۴۷۲) میں (ان تمام نے)صحیح متصل سندوں سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذیؒ (متوفی ۲۷۹ھ )نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
امام بخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ)نے فرمایا: کہ یہ اس باب میں سب سے اصح یعنی صحیح ترین چیز ہے۔(سنن الترمذی باب  الوضوء من مس الذکر )
اور امام حاکمؒ (متوفی ۴۰۵ھ )نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ثابت ہے بخاری و مسلم کی شرط پر۔( المستدرك على الصحيحين حدیث نمبر ۴۷۲)
ابو داودؒ (متوفی  ۲۷۵ھ)نے فرمایا میں نے امام احمدؒ (متوفی ۲۴۱ھ )سے کہا: حدیث بسرہ  مس ذکر کے باب میں صحیح نہیں ہے ؟
 انہوں نے کہا: بلکہ وہ صحیح ہے۔(العلل الواردة في الأحاديث النبوية لدارقطني 15/356)
امام الدار القطنیؒ(متوفی ۳۸۵ھ ) نے فرمایا: (حدیث) صحیح ہے ثابت ہے اور اس کو یحیٰ بن معین نے بھی صحیح کہا ہے جس کو ابن عبد البر،ابوحامد بن شرقی،بیھقی اور حازمی نے بیان کیا ہے۔(تلخیص الحبیر لالحافظ ابن حجر عسقلانی  ۱۶۵)
امام بیھقیؒ(متوفی  ۴۵۸ھ) نے فرمایا: یہ حدیث اگرچہ امام بخاریؒ و امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں اس کی تخریج نہیں کی ہے عروہ بن زبیرؒ کے سماع میں اختلاف ہونے کی وجہ سے یا مروان کی وجہ سے مگر ان دونوں نے اس کے تمام روات(راویوں) سے روایت نقل کی ہے اور امام بخاریؒ نے مروان بن حکم سے بھی بہت سی جگہ احادیث نقل کی ہیں تو وہ امام بخاریؒ کی شرط پر ہے ہر حال میں۔(ملخصاً من معرفة السنن الوضوء من مس الذکر ۱۱۳۶)
حافظ ابو بکر الحازمیؒ (متوفی  ۵۸۴ھ)نے کہا:: اسمیں نہیں ہے مگر  عادل،صدوق اور ایسے راوی ہیں جن کی عدالت متفق علیہ ہے۔(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار 1/10)
عبد الحق ؒ(متوفی  ۵۸۱ھ)نے  کہا: یہ صحیح حدیث ہے۔(الأحكام الشرعية الكبرى 1/430)
ابن جوزیؒ(متوفی۵۹۷ھ ) نے اپنی کتاب تحقیق میں کہا: اس کی سند میں کوئی مطعن راوی نہیں ہے۔( التحقيق في أحاديث الخلاف 1/176)
ابن الصلاحؒ(متوفی ۶۴۳ھ ) نے کہا: یہ حسن اور ثابت حدیث ہے اس کو اصحابِ سنن نے کئی اسناد سے روایت کیا ہے۔( شَرحُ مشكِل الوَسِيطِ 1/90)

ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مس ذکر یعنی شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے۔
کئی جلیل القدر محدثین و اسماء و رجال کے ائمہ نے حدیث بسرہ بن صفوانؓ کو صحیح قرار دیا ہے۔
ان تمام  دلائل سے الحمد للہ یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے۔
مزید تفصیلات کے لئے ان کتب کا مطالع کریں
البدر المنیر لابن الملقن ۴/۳۵۵
تلخیص الحبیر لابن حجر عسقلانی  ۱/۲۱۳


مرتب : فرحان باجرَی الشافعی

جمعہ، 13 فروری، 2015

وضو کے لغوی و شرعی معنی اور اس کے فرائض

وضو:  


لفض وضوء، وَضَاءَۃ سے مشتق ہے، جس کا مطلب لغت میں پاکیزہ اور خوبصورت ہونا ہے، شرعاً نیت سے شروع کرتے ہوئے بعض مخصوص اعضاء میں پانی کے استعمال کو وضو کہتے ہیں، جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ چونکہ اس کی برکت سے گناہوں کی تاریکی چھٹ کر نورانیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے وضو سے تعبیر کیا گیا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سابقہ شریعتوں میں بھی وضو مشروع تھا۔ اس لئے معراج کے واقعہ سے قبل بھی مسلمان باوضو ہی نماز ادا کیا کرتے تھے، لیکن معراج میں نماز کے ساتھ ساتھ وضو بھی فرض کیا گیا۔ مخصوص کیفیات کے ساتھ، یا اعضاء وضو کا قیامت کے دن پرنور ہونا امت محمدیہ(علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کی خصوصیت میں داخل ہے۔
اعضاء اربعہ کی حکمت:

وضو میں صرف چار اعضاء کے پاکی کی حکمت  سارے بدن کو دھونے کا حکم باعث مشقت ہوتا اس لئے شریعت نے تخفیفاً وضو میں صرف چار اعضاء کو مشروع کیا، اور اس لئے بھی کہ خیر و شر کا صدور انہیں اعضاء سے ہوتا ہے۔
وضو کے فرائض
وضو کے چھ فرائض ہیں:
1.نیت کرنا
2.چہرہ دھونا
3. دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا
4. سر کا مسح کرنا
5. دونوں قدم ٹخنوں سمیت دھونا
6. ترتیب سے وضو کرنا۔

وضو کی مشروعیت اور وضو کے ارکان میں اصل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 
" يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وأمسحوا برؤوسكم وأرجلكم إلى الكعبين"
(سورہ المائدہ آیت ۶)
ترجمہ: ائے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو دھؤو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک(کے ساتھ) دھؤو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک( کے ساتھ) دھؤو۔(سورہ المائدہ آیت ۶)

وضو کے فرائض ۵

۵۔ دونون قدم ٹخنوں سمیت دھونا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان
(وأرجلكم إلى الكعبين)
اور اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ۔(سورہ المائدہ ۶)
یہاں پر بھی الی مع کے معنی میں ہے جیسا کہ دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھونے میں تفصیل گذری ہے۔
اور واجب ہے دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھونا اس طور پر کہ ناخن کے برابر بھی جگہ ان دونوں میں باقی نہ رہے اور نہ ہی بال سے کم جگہ سوکھی رہے جیسا کے ہاتھوں کے دھونے میں بیان کیا گیا ہے۔
مسئلہ: جس پر حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں ہوں (یعنی وضو اور غسل دونوں ضروری ہوں) تو صرف غسل کی نیت سے سارا بدن دھونا کافی ہے ترتیب کا لحاظ ضروری نہیں۔

نوٹ: غسل کے ضمن  میں وضو بھی حاصل ہوجائےگا جدا وضو کرنا ضروری نہیں۔
(ملخصاً  تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۳)
(الفقہ المنھجی فی فقہ الشافعی )
مرتب : فرحان باجري الشافعی۔

وضو کے فرائض ۴۔ سر کا مسح کرنا

۴۔ سر کا مسح کرنا:
صرف اتنا مسح کرنا جسکو مسح کہا جاسکے کافی ہے، اگر چہ ایک بال کے کچھ حصہ کا یا اس کے بقدر سر کی کھال کا مسح ہی ہو، اللہ تعالی کے فرمان کی وجہ سے
 (وامسحوا برؤوسكم)
اور اپنے سروں کا مسح کرو۔(المائدہ ۶)
وروى المغيرة بن شعبة - رضي الله عنه -: أن النبي صلى الله عليه وسلم: «توضأ فمسح بناصيته، وعلى العمامة وعلى الخفين»(صحیح مسلم باب المسح على الناصية والعمامۃ)

اور  مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے وضو فرمایا  پھر اپنی پیشانی اورعمامہ  پر مسح کیا ۔(صحیح مسلم باب المسح على الناصية والعمامۃ)

اور اگر اپنے سر  کو یا اس کے بعض حصہ کو دھوئے تو بھی جائز ہے۔
الناصیة سر کے سامنے کے حصہ کو یعنی پیشانی کو کہتے ہیں، اور وہ سر کا ایک جز ہے، اور اس پر اکتفا ء کرنا مسح میں دلیل ہے کہ سر کے جزء کا مسح کرنا فرض ہے اور وہ حاصل ہوجائے گا کون سے بھی جزء کے مسح کرنے سے۔
مسئلہ: سر پر مکمل بال ہوں اور صرف کھال کا مسح کرے تب بھی کافی ہے۔
مسئلہ: صرف انھیں بالوں پر مسح معتبر ہوگا جو کھینچے جانے کی صورت میں سر کے حد سے باہر نہ نکل جائیں۔
مسئلہ: مسح کرنے کے بجائے کسی نے سر دھویا؛ یا پانی کا ایک قطرہ ٹپکا دیا یا تر ہاتھ سر پر صرف رکھا پھیرا نہیں تو بھی کافی ہوگا۔
مسئلہ: مسح کے بجائے سر دھونا نہ تو مستحب ہے اور نہ مکروہ۔
مسئلہ: مسح ہاتھ سے ہی ہونا ضروری نہیں، بلکہ صرف انگلی،لکڑی یا کپڑے کے ٹکڑے وغیرہ سے مسح کرنا بھی جائز ہے ، کسی اور نے مسح کیا تو یہ بھی کافی ہے۔

مسئلہ: مسح میں عورت کا حکم بھی مرد ہی کی طرح ہے۔

جمعرات، 12 فروری، 2015

وضو کے فرائض ۳ دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا

۳۔ دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا:
دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا فرض ہے۔ ۔  اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وجہ سے
"وأيديكم إلى المرافق"
ترجمہ:"اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو۔"
مرافق مرفق کی جمع ہے مرفق کہنی کو کہتے ہیں۔
آیت کریمہ میں " إلى " " مع " کے معنی میں ہے(یعنی   إلى کے معنی "تک" کے آتے ہیں لیکن یہاں پر  إلى مع کے معنی میں ہے،  مع ساتھ کے معنی میں آتا ہے)
اس کی دلیل کے وضو میں کہنیوں کا دھونا بھی شامل ہے مسلم شریف کی حدیث ہے ۔
عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُجْمِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَتَوَضَّأُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ يَدَهُ الْيُسْرَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي السَّاقِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي السَّاقِ "، ثُمَّ قَالَ: " هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ»

ترجمہ:  (نعیم بن عبداللہ مجمر بیان کرتے  ہیں  کہ میں نے )حضرت ابو ہریرہؓ  کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اولاً چہرہ کو کامل طور پر دھویا پھر اپنے دائیں بائیں ہاتھ کو بھی بازو تک دھویا، پھر سر کا مسح کیا اس کے بعد دائیں پیر کو پنڈلی کے ایک حصہ تک دھویا اس کے بعد فرمایا کہ میں نے اسی طرح رسول اللہﷺ کو وضو فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے وضو کامل کرنے کی وجہ سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں قیامت کے دن منور ہوں گے، لہٰذا اپنے چہرہ اور ہاتھ پاؤں کی نورانیت کو جو بڑھا سکے سو بڑھائے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۶ بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِيلِ فِي الْوُضُوءِ)
مسئلہ:  واجب ہے بالوں اور چمڑی(جلد)  کا مکمل  دھونا، پس اگر اس کے ناخنوں کے نیچے میل ہو جو پانی کے اندر پہنچنے سے روکتا ہو یا  انگوٹھی ہے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکتی ہے تو وضو صحیح نہیں ہوگا۔
حدیث:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ، فَتَوَضَّئُوا وَهُمْ عِجَالٌ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا الْمَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ»
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۱، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ بِكَمَالِهِمَا)
ترجمہ:
"عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ واپس ہوئے۔ راستہ میں ایک جگہ پانی پر پہنچے تو عصر کی نماز کے لئے لوگوں نے جلدی کی اور جلدی جلدی وضو کیا جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ان کی ایڑیاں (خشکی سے) چمک رہی تھیں ان پر پانی نہیں لگا تھا تو اس پر رسولﷺ نے فرمایا ہلاکت ہے(خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے)  آگ سے، وضو کامل طور پر کرو۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۱، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ بِكَمَالِهِمَا)
اور مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے
عَنْ جَابِرٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ فَأَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ» فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۳،  كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ اسْتِيعَابِ جَمِيعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ)

ترجمہ:"جابرؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بینا کیا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اپنے پیر میں ناخن بھر جگہ خشک چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھ لیا تو فرمایا جاؤ اور اچھی طرح وضو کر کے آؤ، وہ لوٹ آگئے اور پھر آکر نماز پڑھی۔"
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۳،  كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ اسْتِيعَابِ جَمِيعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ)
ان دونوں حدیثوں سے ثابت کے وضو کافی  نہیں ہوتا  جب تھوڑی جکہ بھی سوکھی رہ جائے دھوئے جانے والے اعضاء میں۔
مسئلہ: کہنی کے اوپر سے ہاتھ کٹا ہو ا ہو تو دھونا فرض نہیں ہے، لیکن باقی بازو کا دھونا مستحب ہے، تاکہ وہ عضو طہارت سے خالی نہ رہے۔

مسئلہ: اگر کہنیوں سے نیچے کٹا ہو تو بقیہ حصہ کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: اگر کہنیوں کے جوڑ سے کٹا ہو تو بقیہ ہڈی کے کنارے کا
 دھونا واجب ہے
مسئلہ:  ناخن کافی لمبے ہوکر انگلیوں کے سروں سے آگے نکل جائیں تو ان کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: بازو یا پیر پر گھنے بال ہوں تب بھی اس کے ظاہر و باطن اور کھال کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: وضو کے بعد ہاتھ یا پیر کٹے یا سر مونڈے تو کھلے ہوئے حصے کو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے، دوبارہ وضو کرتے وقت ان حصوں کا دھونا ضروری ہے۔
مسئلہ: اگر کسی کے ہاتھ میں سوراخ یا چھید ہو تو اس کے اندر بھی دھونا ضروری ہے،
 اس لئے کہ وہ بھی ظاہر ہو چکا۔
مسئلہ: ہاتھ کٹا یا مریض خود وضو کرنے پار قادر نہ ہو، تو کسی ایسے شخص کا سہارا حاصل کرنا ضروری ہے ، جو اسے وضو کرائے جب کہ ایسا سہارا مفت مل رہا ہو یا مناسب اجرت(مزدوری) پر اور مذکورہ شخص اجرت بھی دے  سکتا ہو۔
مسئلہ: اگر وضو کرانے والا کوئی سہارا ہی نہیں، یا وہ اجرت مانگ رہا ہو اور یہ دے نہیں سکتا یا دے تو سکتا ہے لیکن وہ زیادہ اجرت مانگ رہا ہے تو تیمّم کرکے نماز پڑھ لے۔ لیکن چونکہ اس طرح کا عذر نادر ہے(کبھی کبھار ہی پیش آتا ہے) اس لئے بعد میں اس کا اعادہ(لوٹانا) ضروری ہے۔
مسئلہ: اگر تیمم بھی نہیں کرسکتا تو اسی حال پر نماز پڑھ لے اور آئیندہ اس نماز کو دوھرائے۔
(تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۲)
(الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي رحمه الله تعالى)

بدھ، 11 فروری، 2015

طہارت کا بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین سیدنا محمد النبی الامی و علی اٰل محمد وصحبہ اجمعین اما بعد
کتاب الطہارۃ (پاکی و صفائی کا بیان)
باب: پاک پانی
          ارشاد خداوندی ہے "وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا"( الْفُرْقَانَ  ۴۸).
ترجمہ:- اور ہم نے آسمان سے پاکی حاصل کرنے کا پانی اتارا"(سورہ فرقان :۴۸)
حدیث: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلَاةُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ(مسند احمد14662، مسند ابی داود الطیالسی 1899 بسند آخر، سنن الترمذی 4، المعجم الاوسط للطبرانی 596،شعب الإيمان للبيهقي 2456)"
ترجمہ:"آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ "جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہارت ہے۔"
(رواہ احمد 14662)
نوٹ:  اس حدیث (مسند احمد کی روایت میں)کے راوی "ابو یحیٰ قتات "مختلف فیہ  اسی طرح "سلیمان بن قرم" بھی مختلاف فیہ ہے اور ان کو امام احمد نے ثقہ کہا ہے، ابن عدی نے ان کی احادیث کو حسن کہا ہے، امام حاکم نے کہا کہ امام مسلم نے ان کی روایت شاہد کے طور پر لی ہے، ساتھ  لغو اور سوء حفظ کا عیب بھی ان کو لگا ہے۔
یحی بن معین نے : لیس بشیء کہا، ابن حبان نع غالی رافضی قرار دیا ہے۔(تفسیل کے لئے البدر المنیر از ابن الملقن دیکھئے 3/450)
یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے اور بعض میں سلیمان بن قرم نہیں ہے جیسے کہ سنن ترمذی  وغیرہ میں ۔ سنن الترمذی کے محقق علامہ شاکر نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے "قال البانی صحیح لغیرہ"
یعنی البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے۔
اس حدیث کہ دوسرے جز  (وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ )کے شواہد بھی بکثرت موجود ہیں۔(مسند احمد 1006،سنن الدارمی 714،سنن ابن ماجہ 275،276، سنن ابی داود 61،618،سنن الترمذی3،238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

          اسی طرح صحیح مسلم شریف کی ایک طویل روایت میں آپ ﷺ نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ الخ(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث ۲۲۳)
طہارت کے لغوی معنیٰ:        لفظ  "طہارت" عربی لغت میں نظافت کے لئے اور حسی میل اور معنوی عیب سے صاف ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً نجاست، تھوک ، بلغم،حسد،کبر، بغض وغیرہ سے پاک و صاف ہونا
طہارت کے اصطلاحی معنیٰ :شرعاً   وضو، غسل، تیمم اور نجاست کے ازالہ کے لئے اس لفظ  " طہارت  " کو استعمال کرتے ہیں۔(بشریٰ ۱/14)
کس پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟
وضو، غسل اور نجاست کے لئے مطلق پانی (ماء مطلق) کا ہونا ضروری ہے وہ پانی جس میں کوئی لازمی قید نہ ہو اسے مطلق پانی کہیں گے۔
          اگر لازمی قید آجائے، مثلاً  گلاب کا پانی، شکر کا پانی وغیرہ تو یہ مطلق نہ ہونے کی وجہ سے طہارت میں استعمال نہیں ہوسکتا، گلاب کے پانی کو آپ صرف پانی نہیں کہہ سکتے ، لہٰذا اس قید کو قید لازم کہیں گے البتہ کنویں یا ندی یا بارش کے پانی کو آپ بغیر قید کے صرف پانی بھی کہہ دیں گے، معلوم ہوا یہ قید لازمی نہیں اور اسی کو مطلق پانی کہا جائے گا۔

(ماخوذ تحفۃ الباری مع تخریج احادیث فرحان باجرائی الشافعی)

وضو کے فرائض ۲.چہرہ دھونا

۲.چہرہ دھونا
مکمل چہرہ دھونا ضروری ہے۔  اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وجہ سے " فاغسلوا وجوهكم" 
ترجمہ:پس  اپنے چہروں کو دھؤو(سورہ المائدہ ۶)
چہرہ کے حدود: لمبائی میں پیشانی کے آکری سرے پر عموماً بال اگنے کے مقام سے لے کر تھوڑی کے نیچے تک اور عرض(چوڑائی) میں ایک کان سے دوسرے کان تک،۔
نوٹ: کان چہرے میں داخل نہیں ہے
مسئلہ:پیشانی کے دونوں طرف اوپری حصے میں سر کا کچھ حصہ عموماً بالوں سے خالی ہوتا ہے، وہ چہرے میں داخل نہیں ہے۔
مسئلہ:اسی طرح سر کے آگے کے بال جھڑ جائیں تو وہ چہرہ کے حدود میں نہیں سمجھا جائے گا۔لیکن ان دونوں کا دھونا مستحب ہے۔
مسئلہ: کنپٹی کا حصہ بھی چہرہ میں داخل نہیں ہے۔
مسئلہ: اگر پیشانی پر بال اگ آئیں تب بھی وہ چہرہ کے میں داخل ہے، اور اس کا دھونا فرض ہے۔
مسئلہ: چہرہ کے حد میں اگنے والے وہ بال جو عموماً ہلکے ہوتے ہیں، زیادہ گھنے اور گنجان نہیں ہوتے جیسے ابرو،پلک،مونجھ اور رخسار پر کان کے مقابل بال، ان کا ظاہر و باطن اندرونی کھال کے ساتھ دھونا ضروری ہے گرچہ یہ بال کسی کے گنجان ہوں۔
مسئلہ: داڑھی اور رخسار کے بال اگر خفیف اور ہلکے ہیں تو اندرونی کھال سمیت ظاہر و باطن کا دھونا ضروری ہے اور اگر کثیف(گھنے) اور گنجان ہوں تو صرف ان بالوں کے ظاہر کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: اگر کچھ حصہ خفیف اور کچھ کثیف ہو تو دونوں کا اپنا حکم ہوگا یعنی کثیف کے صرف ظاہر کو دھونا اور خفیف کو کھال سمیت مکمل دھونا ضروری ہے۔
خفیف اور کثیف کا فرق:
 گفتگو کے وقت اندرونی کھال نظر آئے تو بال خفیف اور نظر نہ آئے تو کثیف۔
مسئلہ:چہرہ دھوتے وقت سر، گردن اور تھوڑی کے نیچے کا کچھ حصہ بھی دھونا ضروری ہے تاکہ بالقین مکمل چہرہ دھل جائے۔

مسئلہ: چہرہ دھونے کے لئے دونوں ہاتھ سے پانی لینا مستحب ہے۔
(ملخصاً مع اضافہ من تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۲)

وضو کے فرائض- نیت

وضو کے فرائض
وضو کے چھ فرائض ہیں:
۱. نیت
حدیث:" إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"(صحیح البخاری ن حدیث 1و سنن ابن ماجہ 4227، سنن ابی داود 2201 وغیرھما )
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔"
شرعاً کسی فعل کے ابتداء میں متصلاً اس فعل کے قصد و ارادہ کو نیت کہتے ہیں۔
نیت کا اصل مقام دل ہے
لہٰذا جہاں بھی نیت کو فرض کہا جائے گا، تو اس سے قلبی اور دلی نیت مراد ہے، زباں سے ادائیگی مراد نہیں ہے۔
نیت وضو و غسل میں ضروری ہے۔
نیت کا وقت:
چہرہ دھوتے وقت نیت کرنا فرض ہے۔
وضو کے ابتداء سے نیت ہو اور چہرہ دھوتنا شروع کرنے تک وہ نیت موجود ہے تو صحیح ہے
اور سنتوں کا بھی ثواب ملے گا۔
نوٹ: اگر چہرہ دھوتے وقت دل میں نیت موجود نہ ہو تو وضو صحیح نہیں ہوگا۔

نیت کی کیفیت:
حدث دور ہونے کی یا حدث سے پاکی کی یا اداء وضع یا فرض وضو کی نیت کافی ہے جیسے
نویت فرض الوضوء
۔(تفصیل کے لئے تحفۃ الباری 1/80 پڑھیں)