جمعہ، 13 فروری، 2015

وضو کے لغوی و شرعی معنی اور اس کے فرائض

وضو:  


لفض وضوء، وَضَاءَۃ سے مشتق ہے، جس کا مطلب لغت میں پاکیزہ اور خوبصورت ہونا ہے، شرعاً نیت سے شروع کرتے ہوئے بعض مخصوص اعضاء میں پانی کے استعمال کو وضو کہتے ہیں، جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ چونکہ اس کی برکت سے گناہوں کی تاریکی چھٹ کر نورانیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے وضو سے تعبیر کیا گیا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سابقہ شریعتوں میں بھی وضو مشروع تھا۔ اس لئے معراج کے واقعہ سے قبل بھی مسلمان باوضو ہی نماز ادا کیا کرتے تھے، لیکن معراج میں نماز کے ساتھ ساتھ وضو بھی فرض کیا گیا۔ مخصوص کیفیات کے ساتھ، یا اعضاء وضو کا قیامت کے دن پرنور ہونا امت محمدیہ(علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کی خصوصیت میں داخل ہے۔
اعضاء اربعہ کی حکمت:

وضو میں صرف چار اعضاء کے پاکی کی حکمت  سارے بدن کو دھونے کا حکم باعث مشقت ہوتا اس لئے شریعت نے تخفیفاً وضو میں صرف چار اعضاء کو مشروع کیا، اور اس لئے بھی کہ خیر و شر کا صدور انہیں اعضاء سے ہوتا ہے۔
وضو کے فرائض
وضو کے چھ فرائض ہیں:
1.نیت کرنا
2.چہرہ دھونا
3. دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا
4. سر کا مسح کرنا
5. دونوں قدم ٹخنوں سمیت دھونا
6. ترتیب سے وضو کرنا۔

وضو کی مشروعیت اور وضو کے ارکان میں اصل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 
" يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وأمسحوا برؤوسكم وأرجلكم إلى الكعبين"
(سورہ المائدہ آیت ۶)
ترجمہ: ائے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو دھؤو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک(کے ساتھ) دھؤو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک( کے ساتھ) دھؤو۔(سورہ المائدہ آیت ۶)

1 تبصرہ: