جمعرات، 31 دسمبر، 2015

جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے


اعتراض:-امام شافعیؒ نے فرمایا :
" جب تم سنت کو میرے قول کے خلاف پاؤ تو سنت کو لے لو اور میرے قول کو چھوڑ دو۔۔۔۔۔"
محدث کبیر خطیب بغدادیؒ اس اعتراض کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ
"امام شافعیؒ نے فرمایا کے جب تم سنت کو میرے قول کے خلاف پاؤ تو سنت کو لے لو اور میرے قول کو چھوڑ دو۔۔۔۔
جواب میں محدث کبیر خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں:
اور کیسے واقعۃً یہ پایا جائے گا کہ حدیث آپ کے مسلک کے خلاف ہو!!!! حالانک آپ نے حدیثِ نبوی ﷺ پر ہی اپنے مسلک کی بنیاد رکھی اور اسی سے مسائل کو نکالا اور اسی سے مسئلہ اخذ کئ ہیں!!!
بے شک امام شافعیؒ نے یہ حدیث شریف کی تعظیم میں فرمایا اور تمسک بالسنۃ پر ابھارنے کے لئے فرمایا ہے۔(مسألۃ الاحتجاج بالشافعیؒ صفحہ 72-73)


اتوار، 29 نومبر، 2015

کتاب الصیام و الاعتکاف

کتاب الصیام
          صوم کے معنی رکنا ہے۔
اور اس کے واجب ہونے کے شرائط:
۱۔ اسلام،
۲۔ بلوغ،
۳۔عقل اور
۴۔طاقت۔
اور روزہ کی صحت:
۱۔اسلام،
۲۔عقل،
۳۔حیض اور نفاس سے ہر دن پاک ہونا، اور
۴۔جماع سے رکے رہنا، اور
۵۔منی کا نکلنا چھونے  کی وجہ سے اور اسی طرح استمناء کی وجہ سے۔
۶۔قصداً قئی سے کرنا اور
۷۔ پیٹ میں کسی چیز کا عمداً  اپنے اختیار سے  جانے سے رکنا

روزہ کی نیت:- اور   روزہ میں نیت واجب ہے اور فرض روزوں میں نیت رات میں کریں گے اور نفل روزوں میں زوال سے پہلے تک۔
اور افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا  اور فحش کلام چھوڑنا مستحب ہے ۔
حرام روزہ:- چھ دن روزہ رکھنا حرام ہے، عیدین، ایام تشریق اور بغیر سبب کے یوم شک (۳۰ شعبان جس میں معلوم نہ ہو کہ وہ ۳۰ شعبان ہے یا ا رمضان)
فصل روزہ کے کفارے کے بیان میں
جو رمضان المبارک کا ایک بھی روزہ جماع کر کے فاسد کرے وہ گناہ گار ہوگا اس کی وجہ سے اور اس کا کفارہ ایک غلام کا آزاد کرنا ہے ،پس اگر اس سے عاجز ہو تو وہ  دو مہینے لگاتار روزہ رکھے پس اگر اس سے بھی عاجز ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
فصل روزہ کے فدیہ کے بیان میں
اور جس کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ روزےتھے کافی ہے اس کی طرف سے  ہر روز کے بدلہ ایک مد کھانا کھلانا اور مختار یہ ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے اگر چاہے تو، اور شیخ  وہ( بوڑھے )جو روزہ رکھنے سے عاجز ہیں وہ افطار کریں گے اور فدیہ دیں گے ہر روزہ کے بدلہ ایک مُد۔ اور حاملہ عورت اور مُرضعہ یعنی دودھ پلانے والی عورت اگر دونوں کو ڈر ہو اپنے جانوں کا تو وہ روزوں کو قضا کرے گی بغیر فدیہ کہ، اور اگر وہ دونوں(حاملہ اور مرضعہ) بچے کے معاملہ میں ڈرے تو وہ فدیہ بھی دیں گے۔ اور مریض اور وہ مسافر جو قصر کی حالت میں ہو (یعنی جس میں نماز کے قصر کرنے کا حکم ہو) دونوں افطار کریں گے(یعنی روزہ نہیں رکھیں گے) اور دونوں (بعد میں روزہ کی) قضا کریں گے۔
فصل مسنون روزوں کے بیان میں
مسنون روزے یہ ہیں
٭پیر اور جمعرات کا روزہ
٭عرفہ کا روزہ غیر حاجی کے  لئے
٭یوم ترویہ(آٹھ ذی الحجہ) کا روزہ
٭عاشورہ اور تاسوعاء(یعنی ۹ اور ۱۰ محرم) کا روزہ
٭ایام بیض کا روزہ(یعنی ہر مہینہ کی ۱۳،۱۴،۱۵  کا )روزہ
٭اور ایام السود کے روزہ اور وہ مہینہ کے آخر کے روزہ ہیں
٭شوال کے چھ روزہ 
٭ صرف جمعہ اور صرف ہفتہ اور صرف اتوار کا روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔
فصل اعتکاف کے بیان میں
اعتکاف سنت ہے ، اعتکاف صحیح نہیں ہوتا مگر نیت کے ذریعے مسجد میں۔ اور اعتکاف باطل ہوتا ہے جماع سے اور مباشرت کی وجہ سے انزال ہونے سے۔
اعتکاف کی شرطیں
٭اسلام
٭عقل
٭حیض اور جنابت سے پاک ہونا
٭ بغیر عذر کے (مسجد سے نکلنے) سے اعتکاف کا تتابع(لگاتار،پے در پے ہونا) ختم ہوجاتا ہے۔

 (تذکرہ فی الفقہ الشافعی لابن ملقنؒ)

اتوار، 15 نومبر، 2015

عورت سجدہ کیسا کرے

امام المحدثین امام شافعیؒ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ ادب سکھلایا ہے کہ وہ پردہ کریں اور یہی ادب اللہ کے رسولﷺ نے بھی عورتوں کو سکھلایا ہے، لہذا عورتوں کے لئے سجدہ میں پسندیدہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو ملا کر رکھیں اور پیٹ کو ران سے چپکالیں اور اس طرح سجدہ کریں کہ ان کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے اسی طرح ان کے لئے پسندیدہ ہے رکوع میں بھی اور جلسہ میں بھی بلکہ تمام ہی وہ اس طرح نماز پڑھیں کہ جس سے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔(الام ص ۹۰)

منگل، 10 نومبر، 2015

تیمم کے دو ضرب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            تیمم کا مطلب عربی زبان میں قصد ہے اور شرعاً چہرہ اور ہاتھ پر مخصوس شرائط کے ساتھ وضو اور غسل یا کسی ایک عضو کے بدلہ میں مٹی پہنچان کو تیمم کہتے ہیں۔
            اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتے ہیں:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ
"اور اگر تم بیمار وہ یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجا سے آیا ہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کرلیا کرو یعنی چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔(سورۃ النساء آیت ۴۳)
            تیمم کے سات ارکان ہیں ان میں چہرہ کا مسح کرنا اور دونوں ہاتھ کا مسح کرنا ہے۔ ان دونوں کے لئے الگ الگ دو ضرب مٹی پر ماریں گے۔
اس کی اصل قرآن کریم کی آیتِ تیمم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تیمم وضو کا بدل ہےا ور وضو میں قرآن کریم میں چار اعضاء کو دھونے کا حکم دیا ہے اور تیمم جو کہ اس کا بدل ہے اللہ تعالیٰ نے ان چار میں سے صرف چہرہ اور ہاتھوں کا مسح باقی رکھا۔
            پھر اس بات پر بھی امت کا اجماع ہے کہ پورے چہرہ کا مسح کریں گے،  اسی لئے ہاتھوں کو بھی مرفقین یعنی کہنیوں تک کا مسح کریں گے کیوں کہ یہ عین قرآن کے حکم سے زیادہ مشابہ ہے نیز قیاس بھی یہی کہتا ہے اور جب نصوص متعارض ہوں گے تو جو مسئلہ قرآن کے زیادہ مشابہ ہوگا اس کو لیا جائے گا۔
            نیز احادیثِ شریفہ  بھی اس سلسلہ میں کافی موجود ہیں جن میں سے بعض بعض کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
            عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَضَرْبَةٌ لِلذِّرَاعَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا:
"تیمم کے لئے دو ضرب ہیں، ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک ضرب کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ کے لئے"۔(رواہ الدارقطنی و الحاکم والبیہقی)
            جہاں تک حضرت عمار بن یاسرؓ   کی کفّین یعنی ہتھیلیوں پر مسح کی روایت کا مسئلہ ہے اس کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
            "حضرت عمارؓ کی روایت سے ہم اس وجہ سے استدلال نہیں کرتے اس لئے کہ نبی کریمﷺ سے دوسری روایات میں چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک پر مسح کا ذکر موجود ہے جو  قرآن  اور قیاس سے زیادہ مشابہ  و قریب ہے۔"

تفصیل کے  لئے المجموع شرح مھذب(2/210)، تلخیص الحبیر(1/403) وغیرہ دیکھئے۔

پیر، 26 اکتوبر، 2015

نومولود کے شرعی احکام مکمل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نومولود کے متعلق شرعی احکام و مسائل
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ السلام علی سیدالانبیاء والمرسلین۔
اولاد  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے اور اولاد نسب کی نشر و اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے اور نکاح کے مقاصد میں سے اولاد حاصل کرنا ہے ۔ چونکہ اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے لہذا اس پر خوشی اور شکر کا اظہار کرنا چاہئے اس لئے اولاد کی ولادت پر عقیقہ کو مسنون کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
ترجمہ: "مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں"(سورہ کہف آیت  46)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ
ترجمہ: خوش نما بنا دی گئی ہے لوگوں کے لیے خواہشوں کی محبت یعنی عورتیں اور بیٹے۔۔۔۔۔(سورہ آل عمران آیت 14)
اور نعمت ملنے پر خوش ہونا اور اس کا اظہار کرنا اس میں اضافہ کا باعث ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ
ترجمہ:-اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کو تمہارے لیے پسند فرماتا ہے(سورہ الزمر آیت 7)
نیز ایک اور جگہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
ترجمہ: اگر تم شکر کرو گے تو تم کو اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب سخت ہے۔ (سورہ ابراہیم آیت 7)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرماتے ہیں۔
روز مرہ کے تمام احکام کی طرف جس طرح نبی کریمﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے اسی طرح جب کسی کو اولاد ہو تو اس کے متعلق بھی اللہ کے رسول ﷺ نے بہت سے احکام قولاً اور فعلاً امت کو تعلیم دئے ہیں۔ یہ بھی اسلام کے جامع اور کامل مذہب ہونے کی ایک علامت ہے کہ اسلام میں ماں کی گود سے قبر تک کے احکام شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے تعلیم دئے ہیں۔ والحمد للہ علیٰ ذالک۔
نومولود کے متعلق انہی احکام کو ہم یہاں ان شاء اللہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاء کی تصریحات کے ساتھ ذکر کریں گے کہ فقہاء امت ہی حدیث کے مفہوم کو بہتر انداز میں سمجھنے والے ہوتے ہیں۔
٭ نومولود کے کان میں اذان و اقامت دینا:
            بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے تاکہ اس کے کان سب سے پہلے توحید اور اللہ کی کبریائی اور  سے آشنا ہو، نیز اس وقت شیطان اسے پریشان کرنے اور بھڑکانے کے چکر میں رہتا ہے ، لہٰذا اذان و اقامت مشروع کی گئی، کیوں کہ یہ سن کر شیطان بھاگ جاتا ہے۔
حدیث:۔
عَن أبي رَافع رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ رَأَيْت رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أذن فِي أذن الْحسن بن عَلّي حِين وَلدته فَاطِمَة بِالصَّلَاةِ رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وَقَالَ حسن صَحِيح
ترجمہ:- ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی۔(ابو داود 5105، ترمذی 1514)۔
امام نوویؒ نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے حسن صحیح فرمایا ہے۔(المجموع 8/434)۔
٭ عورت کے لئے بھی نومولود کے کان میں اذان و اقامت کہنا درست ہے۔
تحنیک:- تحنیک یعنی کچھ چبا کر نرم کر کے بچہ کے تالوں میں لگا دینا تاکہ پیٹ میں چلا جائے۔ بچہ کی پیدائش پر کھجور کے ذریعہ اس کی تحنیک سنت ہے، کھجور نہ ہو تو کوئی دوسری میٹھی چیز جو آگ پر پکی نہ ہو۔ بہتر ہے کہ کسی نیک اور بزرگ شخص کے ذریعہ تحنیک کروائے، مرد نہ ہو تو کسی نیک عورت کے ذریعہ کروائے تاکہ اس کے لعاب کی برکت حاصل ہو۔
حدیث:۔
٭ عن أنس بن مالك، قال: ذهبت بعبد الله بن أبي طلحة الأنصاري إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ولد، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في عباءة يهنأ بعيرا له، فقال: «هل معك تمر؟» فقلت: نعم، فناولته تمرات، فألقاهن في فيه فلاكهن، ثم فغر فا الصبي فمجه في فيه، فجعل الصبي يتلمظه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب الأنصار التمر» وسماه عبد الله
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی طلحہ کو ان کی ولادت کے بعد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے اور حضور ﷺ ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے،اور اپنے اونٹ کے روغن مل رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں،پھر میں نے آپ کو چند کھجوریں دیں، آپ ﷺ نے انہیں اپنے منہ میں ڈال کر چبایا، اس کے بعد بچہ کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا،بچہ اسے چوسنے لگا، آپ ﷺ نے فرمایا :انصار کو کھجور سے محبت ہے اور اس بچہ کا نام عبد اللہ رکھا۔(صحیح مسلم 2144)۔
نام رکھنا
                بچہ کی ولادت کے بعد اس کا نام رکھنا مسنون ہے۔ مستحب ہے کہ ولادت کے ساتویں دن نومولود کا نام رکھے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ نام اچھا رکھا جائے اور  قبیح نام رکھنا مکروہ ہے۔
مستحب ہے کہ بیٹے کا نام عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھے، نیز انبیاء کے نام بھی رکھنا مستحب ہے۔
نوٹ: بعض روایات سے پیدائش کے دن نام رکھنا ثابت ہے اور بعض روایات میں ساتویں دن نام رکھنے کا حکم موجود ہے، لہٰذا علماء فرماتے ہیں کہ بچہ کا نام پیدائش سے ساتویں روز رکھنا مستحب ہے، اس سے قبل اور بعد بھی رکھ سکتے ہیں، امام بخاریؒ نے یوں تطبیق دی ہے کہ اگر عقیقہ کرنا ہو تو عقیقہ سے قبل ساتویں دن نام رکھے ورنہ اور دن ہی نام رکھے۔
احادیث-
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ»
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن تم کو تمہارے اور والدوں کے نام سے بلایا جائے گا پس اپنے بہتر نام رکھو۔(ابو داود4948،صحیح ابن حبان 5818، مسند احمد 21693)۔
اس حدیث کی سند کو امام نوویؒ نے جید فرمایا ہے۔ اور امام بیہقی نے مرسل۔(المجموع 8/436)۔
مستحب نام:-
٭اچھے نام رکھنا مستحب ہے اور افضل نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہے۔
٭انبیاء اور ملائکہ کے نام رکھنا بھی مستحب ہے
احادیث:-
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحب أسمائكم إلى الله عبد الله وعبد الرحمن»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:"بے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمھارے محبوب ترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں(مسلم )۔
عَنْ جَابِرٍ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ سَمِّ ابْنَك عَبْدَ الرَّحْمَنِ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بیٹے کا نام عبد الرحمن رکھو۔(بخاری 6189 و مسلم 2133 بحوالہ المجموع  8/436)۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّى ابْنَ أَبِي طَلْحَةَ عَبْدَ اللَّهِ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام عبد اللہ رکھا۔(بخاری و مسلم بحوالہ المجموع 8/436)۔
عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ الصَّحَابِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (تَسَمُّوا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيُّ وَغَيْرُهُمَا
حضرت ابو وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم انبیاء علیہم السلام کے نام پر نام رکھو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں، اور سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور سب سے برے نام حَرب اور مرہ ہیں۔(مسند احمد 19032،ابو داود 4950 ، نسائی بحوالہ المجموع 8/436)۔
حرام و مکروہ نام:۔
٭ملک الاملاک،شہنشاہ،قاضی القضاۃ،عبد الکعبہ،عبد الحسین وغیرہ نام رکھنا حرام ہے کیوں کہ شرک کا وہم ہوتا ہے۔
٭قبیح نام رکھنا مکروہ ہے۔
٭نافع،یسار،رِباح،نجیح،افلح اور برکت نام رکھنا بھی مکروہ ہے
احادیث:-
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن أخنع اسم عند الله رجل تسمى ملك الأملاك»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ترین نام جو تم رکھتے ہو وہ ملک الاملاک(شہنشاہ) ہے۔(صحیح مسلم2143،صحیح بخاری 6206)۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُسَمِّيَنَّ غُلَامَكَ يَسَارًا، وَلَا رَبَاحًا، وَلَا نَجِيحًا، وَلَا أَفْلَحَ»
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچے کا نام یسار،رباح،نجیح،افلح مت رکھو۔(مسلم 2137،ابو داود 4958)۔

نوٹ: اگر نام رکھنے سے پہلے ہی بچہ انتقال کر جائے تب بھی اس کا نام رکھنا مستحب ہے۔
نام رکھنے کا حق:- نام رکھنے کا حق اس حاصل ہے جسے بچہ پر ولایت ہو یعنی باپ ورنہ دادا۔
ختنہ: مردوں اور عورتوں کے حق میں ختنہ واجب ہے۔ ایک قول عورتوں کے لئے واجب نہیں کا ہے اور عام اسی پر عمل ہے۔ پیدائش کے ساتویں روز ختنہ کرنا مستحب ہے۔ اگر بچہ کمزور ہو اور برداشت نہ کرپائے تو مناسب وقت تک مؤخر کرے۔
احادیث:۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ "
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں:ختنہ کرانا،زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھ تراشنا، ناخن کاٹنا اوربغل کے بال اکھاڑنا۔(صحیح البخاری 5889،صحیح مسلم 257)۔
عقیقہ
بچہ کی پیدائش کے بعد اہم سنتوں میں سے ایک اہم سنت عقیقہ کرنا ہے،ا فسوس کے مسلمان رسم و رواج کا پابند ہوکر اس اہم سنت کو چھوڑ رہا ہے۔ بسم اللہ،چھلہ ،چھٹی میں مسلمان پیسے خرچ کرے گا لیکن اس اہم سنت کے ادا کرنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہوں گے، صحیح ہے کہ جس قوم میں ایک بدعت ایجاد ہوتی ہے اللہ پاک وہاں سے اس جیسی ایک سنت کو اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ میں رسموں اور بدعتوں نے جگہ لے لی اور یہ اہم سنت بالکل بھلا دی گئی ہے۔  استغفر اللہ!
عقیقہ عق سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے قطع کرنا،کاٹنا،جدا کرنا،پھاڑنا۔ اس کا اطلاق نوزائیدہ بچے کے پیدائشی بال پر ہوتا ہے کیوں کہ اسے مونڈ کر جدا کیا جاتا ہے۔ بچہ کی پیدائش کے تعلق سے ذبح کئے جانے والے جانور کو شرعاً عقیقہ کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے گلے کو کاٹا اور پھارا جاتا ہے۔ افضل طریقہ یہ ہے کہ بال مونڈنے اور جدا کرنے کے وقت اس انجام دیا جائے۔
عقیقہ کی حکمت: عقیقہ کی مشروعیت میں مختلف اسرار و مصالح اور فوائد ہیں مثلاً
٭ اولاد اللہ کی بڑی نعمت ہے لہٰذا اس پر خوشی اور شکر کا اظہار ،
٭ بچہ نسب کی نشر و اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے
٭ سخاوت و بخشش اور فیاضی کی خصلت کو پروان دینا اور اس کے برعکس بخل و حرص کی صفت کو مات دینا۔
٭ اہل و عیال و رشتہ دار،اور فقراء و احباب کو عقیقہ کی دعوت میں جمع کرکے ان کا دل خوش کرنا اور آپسی محبت و الفت اور اجتماعیت کی جڑوں کو مضبوط کرنا۔
عقیقہ کا وقت:- بچہ کی پیدائش سے بلوغ تک عقیقہ کا وقت ہے اور بچہ کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کرنا سنت ہے، ساتویں دن نہ کرے تو چودھویں دن ورنہ اکیسویں دن، آئندہ بھی کرے تو سات کا اعتبار کرنا بہتر ہے۔
حدیث:۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: عَقَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ يَوْمَ السَّابِعِ, وَسَمَّاهُمَا, وَأَمَرَ أَنْ يماط عن رأسه الأذى
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ساتویں دن دو بکریاں ذبح کیں اور ان کے سر سے گندگی(بال) دور کرنے کا حکم دیا۔(سنن کبریٰ للبیہقی 19272،مستدرک حاکم7588،صحیح ابن حبان5311)۔
امام نوویؒ اس حدیث کو حسن فرمایا ہے(المجموع 8/428)۔
٭  بچہ کے بلوغ کے بعد اصل(باپ وغیرہ) کی طرف سے عقیقہ ساقط ہوچکا اب اسے خود اپنا عقیقہ کرنا سنت ہے۔
عقیقہ کے احکام:
٭عقیقہ کے احکام قربانی کے احکام ہی کی طرح ہیں۔

٭لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کرنا مسنون ہے۔
حدیث:
عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ»

ام کرز الکعبیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکے کی جانب سے دو اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری اور اس میں نر و مادہ کا کوئی فرق نہیں۔(ترمذی1513،ابوداؤد2834،ابن ماجہ3162 )۔
٭ لڑکے کی طرف سے ایک بکرہ بھی کرے تو اصل سنت حاصل ہوگی۔
حدیث:۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ كَبْشًا كَبْشًا»
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا تھا۔(سنن ابو داود 2841،معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 19141)۔
امام نوویؒ نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے۔(المجموع 8/428)۔
٭ اونٹ یا بیل کا ساتواں حصہ بھی ایک بکری  کے حکم میں ہے جیسا قربانی میں ہوتا ہے۔
٭ عقیقہ کے گوشت کو پکانا سنت ہے
٭ اس کا ایک پچھلا پیر ران کی ابتدا تک دایہ کو کچا دینا سنت ہے۔ کئی بکرے ذبح ہوں تب بھی ایک پیر دینے سے سنت ادا ہوگی۔ ایک سے زائد دایہ ہوں تو تمام کو مل کر ایک پیر دینا کافی ہے۔
حدیث:۔
عَن عَلّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْه «أَن رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم - أَمر فَاطِمَة فَقَالَ: زني شعر الْحُسَيْن، وتصدقي بوزنه فضَّة، وَأعْطِي الْقَابِلَة رجل الْعَقِيقَة» . قَالَ الْحَاكِم: هَذَا حَدِيث صَحِيح الْإِسْنَاد
حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کے بالوں کا وزن کرو اوراس کے وزن کے بقدر چاندی صدقہ کرو اور اس کا پیر دایہ کو دیں۔(مستدرک حاکم4828،سن الکبریٰ بیہقی19298)۔
٭عقیقہ کا گوشت میٹھا پکانا سنت ہے
٭ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑیں بلکہ ہر ہڈی جوڑ سے جدا کرے۔ توڑنا خلافِ اولیٰ ہے۔
عَن عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «لَا بَلِ السُّنَّةُ أَفْضَلُ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ تُقْطَعُ جُدُولًا وَلَا يُكْسَرَ لَهَا عَظْمٌ فَيَأْكُلُ وَيُطْعِمُ وَيَتَصَدَّقُ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کرنا سنت ہے جس کی ہڈی نہیں توڑی جائے بلکہ ہر عضو کو پورا پورا پکا لیا جائے۔(بیہقی ،مستدرک حاکم)۔
عقیقہ کی دعا
ذبح کے وقت بسم اللہ واللہ اکبر کے بعد یہ کہنا مسنون ہے
اللَّهُمَّ لك واليك هَذِهِ عَقِيقَةُ فُلَانٍ
یا اللہ یہ تیری نعمت ہے اور فلاں کے عقیقہ کے طور پر تیری قدمت میں پیش ہے۔(بیہقی19294  بحوالہ المجموع 8/428)۔
نوٹ:فلاں کی جگہ بچہ کا نام لے۔
امام نوویؒ نے اسے حسن فرمایا ہے۔
٭ پیدائش کے ساتویں دن بچہ کے بال مونڈنا سنت ہے، عقیقہ ذبح کرنے کے بعد مونڈے، لڑکے اور لڑکی دونوں کے بال مونڈے جائیں گے۔ اگر سر پر بال نہ ہو تو استرا پھرانا مستحب ہے۔
٭عقیقہ کے خون سے سر کو آلودہ کرنا مکروہ ہے کیوں کہ جاہلیت کا عمل ہے۔
عَن [عبد الله] بن بُرَيْدَة، عَن أَبِيه قَالَ: «كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّة إِذا ولد لِأَحَدِنَا غُلَام ذبح شَاة ولطخ رَأسه بدمها، فَلَمَّا جَاءَ الله بِالْإِسْلَامِ كُنَّا نذبح شَاة ونحلق رَأسه ونلطخه بزعفران»
حدیث: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتیے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میںجب ہم کو لڑکا ہوتا تو ایک بکری ذبح کرتے اور اس کےخون کو  بچے کے سر پر ملا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام لایا ہم بکری ذبح کرتے اور اس (بچہ) کا سر منڈاتےاور ہم اس کے سر کو زعفران(خوشبو) سے ملتے ۔(سنن ابوداود 2843، سنن کبریٰ 19288 صحیح)۔
٭مونڈنے کے بعد بالوں کے وزن کے برابر سونا ورنہ چاندی صدقہ کرنا سنت ہے۔
حدیث:۔
عَن عَلّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْه «أَن رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم - أَمر فَاطِمَة فَقَالَ: زني شعر الْحُسَيْن، وتصدقي بوزنه فضَّة، وَأعْطِي الْقَابِلَة رجل الْعَقِيقَة» . قَالَ الْحَاكِم: هَذَا حَدِيث صَحِيح الْإِسْنَاد
حضرت  علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کے بالوں کا وزن کرو اوراس کے وزن کے بقدر چاندی صدقہ کرو اور اس کا پیر دایہ کو دیں۔(مستدرک حاکم4828،سن الکبریٰ بیہقی19298)۔
مبارک بادی:
اولاد یا بھائی وغیرہ کی پیدائش پر مناسب الفاظ سے مبارکباد دینا مستحب ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے منقول یہ الفاظ بہتر ہیں۔
بَارَكَ اللَّهُ لَك فِي الْمَوْهُوبِ لَك وَشَكَرْت الْوَاهِبَ وَبَلَغَ أَشُدَّهُ وَرُزِقْت بِرَّهُ
اللہ تمہیں اس عطیہ میں برکت عطا فرمائے اورا س پر شکر کی توفیق عطا کرے اور یہ اپنی جوانی تک پہنچے اور تمہیں اس کی اطاعت وحسن سلوک نصیب ہو۔
٭مبارک باد دینے والے کو جواب دینا مستحب ہے مثلاً:
بَارَكَ اللَّهُ لَك وَبَارَكَ عَلَيْك یا
 جَزَاك اللَّهُ خَيْرًا یا  
رَزَقَك اللَّهُ مِثْلَهُ (اللہ تمہیں بھی ایسی دولت عنایت فرمائے) یا
أَحْسَنَ اللَّهُ ثَوَابَك وَجَزَاءَك(اللہ تمہیں بہترین بدلہ اور جزا عطا فرمائے)۔(المجموع 8/443)۔
مصادر:-
تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی جلد 3
الفقہ المنھجی فی الفقہ الشافعی کتاب العقیقہ۔
ترتیب فرحان باجرائی الشافعی۔


منگل، 6 اکتوبر، 2015

باب اسباب الحدث یعنی نواقض وضو احادیث کی روشنی میں

باب اسباب الحدث(وضو کے ختم ہونے کا بیان)
سبیلین سے کچھ بھی  نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا:-
          ۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: وضوء نہیں ہے مگر آواز سے یا  بو  سے۔"(رواہ ابن ماجہ، ترمذی)
          امام ترمذیؒ نے حسن صحیح فرمایا۔
۲۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی پس میں  اس وجہ سے کہ آپ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں تھی رسول اللہ ﷺ سے(حکم ) دریافت کرنے سے شرمایا تو میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے پوچھ لیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"(مذی خارج ہونے پر)اپنے ذکر(پیشاب گاہ) کو دھولے اور وضو کرلے۔"(متفق علیہ)
۳۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سرین کا بند آنکھیں ہیں پس جو سو جائے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابو داود، ابن ماجہ)
اس کی سند میں کلام ہے، لیکن ابن سکنؒ نے اسے اپنی  سنن الصحاح الماثورہ میں نقل کیا ہے۔
۴۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب سو جاتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے اور وہ وضو نہیں کرتے تھے۔(رواہ مسلم،ابو داود)
ابو داود کی روایت میں مزید یہ ہے: یہاں تک کہ انکے سر (نیند کی وجہ سے)جھک جھک جاتے تھے اور یہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا۔
اس سند کے تمام رجال(راوی) ثقہ ہیں۔
شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:-
۵۔ حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
          "جو اپنے ذکر(شرمگاہ) کو چھوؤئے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے"(رواہ ابو داؤد،ترمذی،ابن ماجہ،نسائی،ابن حبان،احمد،دارقطنی،حاکم)
اس کو اربعہ(ابو داؤد،نسائی،ترمذی اور ابن ماجہ) نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اور امام احمدؒ ،ترمذیؒ،ابن حبانؒ، دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے صحیح قرار دیا ہے، اور امام حاکمؒ نے فرمایا کہ یہ شیخیں(بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔ امام بخاریؒ نے فرمایا:" اس موضوع پر یہ صحیح تریں روایت ہے"۔
ابن حبان ؒ وغیرہ نے فرمایا: طلقؓ کی حدیث جس سے وضو ناقض نہیں ہوتا مروی ہے وہ اس حدیث کے ذریعے منسوخ ہے۔
۶۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو اپنی شرمگاہ تک پہنچائے اور ان دونوں کے درمیان کوئی  ستر(پردہ/حائل) نہ ہو تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابن حبان)
امام ابن حبان ؒنے  فرمایا: ہم نے اس میں نافع بن ابو نعیم (یہ ثقہ ہیں)سے احتجاج کیا ہے نہ کے یزید بن عبد الملک النوفلی (یہ ضعیف ہے)سے۔
وضو نماز کی کنجی ہے:-
۷۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"نماز کی کنجی طہور(وضو ) ہے اور اس کی تحریم تکبیر(یعنی اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردینے سے تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں) ہے اور اس کی تحلیل سلام (یعنی سلام کے بعد نماز اور تحریم ختم ہوجاتی ہے )ہے۔"(رواہ ابوداود،ترمذی،ابن ماجہ ،الحاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا یہ حدیث مشہور ہے۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا:یہ حدیث اس باب میں صحیح ترین اور احسن ہے۔
۸۔ حاکم کی ایک روایت میں جس کی سند صحیح ہے مسلم کی شرط پر یہ ہے:
"نماز کی کنجی وضو ہے۔"
طواف نماز ہی ہے:-
۹۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" خانہ کعبہ کا طواف  نماز ہے سوائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمارے لئے کلام(بات چیت) کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے تو وہ خیر کی ہی بات کرے۔(رواہ الحاکم)
مستدرک میں حاکم نے اس کو روایت کیا ہے سفیان ثوری عن عطاء ابن السائب عن طاووس عن ابن عباسؓ کے ذریعہ، اور سفیان الثوری نے عطاء سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جیسا کے امام احمدؒ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے،
امام حاکمؒ نے اس کے بعد فرمایا: یہ حدیث صحیح سند سے ہے اور اس پر جماعت (محدثین) متفق ہے۔
۱۰۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں کتاب التفسیر میں قاسم بن ابو ایوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"طواف نماز کی طرح ہے سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بات چیت کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے وہ صرف خیر کی ہی بات کرے۔"
پھر فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
قاسم جو اس سند میں ہے وہ ثقہ ہیں جیسا کے ابو داودؒ وغیرہ ان کے بارے میں فرمایا۔
بے وضو شخص قرآن کو نہ چھوئے:-
۱۱۔ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے مروی ہے وہ اپنے والے سے اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اہل یمن کو خط لکھا اس میں فرائض،سنن اور دیات کے احکام تھے اور اس میں تھا:
"قرآن کو صرف طاہر شخص ہی چھوئے۔"(رواہ ابن حبان،حاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا: اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے۔
شک سے وضو نہیں ٹوٹتا:-
۱۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کچھ پائے اور اسے شک ہو کچھ اس سے نکلا یا نہیں تو وہ ہرگز مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کے وہ کوئی آواز سنے یا بو سونگھے۔(رواہ مسلم)
نامحرم کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
۱۳۔حضرت ابن  عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  انہوں نے فرمایا:
"جو شخص عورت کا بوسہ لے یا اسے ہاتھ سے چھوئے، اس پر وضو لازم ہے۔"(رواہ مالک،الشافعی)
۱۴۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا:
"بوسہ لینا بھی لمس میں داخل ہے اور اس سے وضو لازم ہے، لمس سے مراد جماع سے کمتر امور ہیں۔(رواہ البیہقی)
نوٹ: اس سلسلے میں قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر  6 اصل  ہے اس میں أَو لامستم النِّسَاء  یعنی عورتوں سے ملامسہ ہے۔ لمس کے حقیقی معنی چھونا ہے جیسا کہ بعض احادیث میں بھی یہ لفب اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

مرتب: فرحان باجرائی شافعی