ہفتہ، 21 جنوری، 2017

جنبی شخص اور قرآن کریم کی تلاوت

جنبی شخص اور قرآن کریم کی تلاوت

قرآن  کریم کی تلاوت:
جنبی پر قرآن میں سے کچھ بھی تلاوت کرنا اگرچہ آیت کا ایک تکڑا ہوحرام ہے ، اور اگر وہ کوئی ایسی کتاب میں ہو جس میں قرآن سے دلیل لی گئی ہو تو اس آیت کا پڑھنا یہاں بھی حرام ہے اس لئے کہ دلیل کے لئے قرآن ہی مقصد ہوتا ہے(ذکر نہیں) جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جنبی شخص اور حائضہ قرآن میں سے کچھ نہ پڑھے۔[1]"

            اور جنبی کے لئے جائز ہے کہ قرآن میں موجود اذکار کو ذکر کی نیت سے پڑھے نہ کہ قرآن کی نیت سے جیسے مصیبت کے وقت  إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرۃ: 156) پڑھنا، سواری پر سوار ہوتے  وقت : سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13) وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ( الزخرف: 13،14) پڑھنا وغیرہ اسی طرح کھاتے  ، پیتے قبل بسم اللہ اور الحمد للہ کہنا ذکر کے ارادہ سے نہ کے قرآن کی نیت سے۔ اسی طرح جو زبان پر بلا قصد جاری ہوجاتا ہے وہ بھی جائز ہے۔

            اور جنبی کے لئے جائز ہے کہ وہ قرآن کو دیکھے اور اس کو دل سے پڑھے زبان کو حرکت دئے بغیر اس لئے کہ دل سے پڑھنے کو قراءت نہیں کہتے۔

            جنبی کے لئے مسنون ہے کہ وہ جلد از جلد غسل کرے، اور تاخیر کرنا جائز ہے، لیکن مکروہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے سوئے جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اے  اللہ کے رسول ﷺ، کیا جنابت کی حالت میں ہم میں سے کوئی سو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جب تم وضو کرلو تو سو سکتے ہو۔[2]" جنبی کے لئے مستحب ہے کہ وہ وطی کرنے سے پہلے یا کھانے یا پینے سے پہلے بھی وضو کرے نیز اس کے لئے اپنی شرمگاہ کو دھونا بھی مستحب ہے۔

            اور جنبی کے لئے تسبیح ، تہلیل،تکبیر ،تمحید اور رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا اور اسی طرح دیگر اذکار بھی جائز ہے ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن کی تلاوت تسبیح،تہلیل اور تمام اذکار سے افضل ہے سوائے ان جگہوں کہ جن میں شرعیت میں ذکر کرنا وارد ہوا ہے۔[3]




[1]  ترمذی: 1/408، ابن ماجہ: 1/195
[2]  یہ حدیث صحیح ہے ، بخاری: 1/110 حدیث نمبر 283؛ مسلم 3/216 حدیث نمبر 306
[3] المنھاج ومغنی المحتاج: 1/71؛ المھذب: 1/120؛ المجموع : 2/176 ومابعدھا؛ الانوار: 1/51۔ بحوالہ المعتمد فی الفقہ الشافعی 133-135.

بچوں کی دینی تعلیم والدین پر واجب ہے

بچوں کی دینی تعلیم والدین پر واجب ہے

امام نوویؒ نے فرمایا:

امام شافعیؒ اور ان کے اصحاب رحمھم اللہ نے والدین پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو ان باتوں کی تعلیم دے جو ان پر متعین ہوں گی بالغ ہونے کے بعد، تو ولی پر لازم ہے کہ وہ طہارت، نماز اور روزہ اور اسی طرح کے مسائل سکھائے اور اسے بتائے زنا ، لواطت ،چوری ،شراب نوشی، چھوٹ اور غیبت اور ان جیسی چیزوں کی حرمت ۔ اور اسے بتلائے کہ بالغ ہونے سے وہ شرعی احکام کا مکلف ہوجاتا ہے اور اس کو تعارف کرائے ان باتوں کا جس سے وہ بالغ ہوتا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم مستحب ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ تعلیم واجب ہے اور یہی امام شافعیؒ کی ظاہری نص ہے اور جیسا کہ اس پر اس (بچے) کے مال پر نظر رکھنا واجب ہے اور یہ بات (یعنی علم) تو  بدرجہ اولیٰ واجب ہوگا۔ اور اس سے زیادہ  جیسے قرآن، فقہ اور ادب کی تعلیم  تو یہ تعلیم مستحب ہے۔ اور اسے بتلائے کہ کیسے اس کا معاش صحیح ہوسکتا ہے۔
دلائل:  اور چھوٹے بچے کی اور مملوک کی تعلیم کے واجب ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نارا "  حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، مجاھد اور قتادہ رحمہااللہ نے فرمایا :اس کا معنی ان کو سکھلاؤ جس سے وہ آگ سے نجات پاسکیں اور یہ بات واضح ہے۔

اور صحیحین میں صحیح حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی تم میں سے ہر ایک محافظ ہے اور اس سے قیامت کے دن اپنی رعایہ یعنی ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

تعلیم کی اجرت: پھر  تعلیم کی اجرت نوع اول کے لئے یعنی واجب علوم کے لئے وہ بچے کے مال سے دی جائے گی اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب ہوگی جس پر ان کا نفقہ واجب ہے۔
رہی بات دوسری تعلیم کی تو امام ابو محمد حسین بن مسعود بغویؒ صاحب التھذیب نے اس سلسلے میں دو صورتیں ذکر کی ہیں اور ان کے علاوہ نے بھی ان کو ذکر کیا ہے ، ان دونوں میں سے صحیح  ترین یہ ہے کہ بچے کے مال سے تعلیم دی جائے اس لئے کہ وہ اس کی مصلحت اور درستگی کے لئے۔ اور جو دوسری صورت ہے وہ یہ ہے کہ ولی(سرپرست) کے مال سے دی جائے اس کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے۔


نوٹ:- جان لینا چاہئے کہ امام شافعیؒ اور ان کے اصحاب نے  ماں کو بھی بچے کی تعلیم کے وجوب میں داخل کیا ہے اس لئے کہ تعلیم بچے کی تربیت میں سے اور بچے کی تربیت کرنا ماں پر واجب ہے جیسے کہ نفقہ واللہ اعلم۔(مختصراً المجموع للنووی 1/26)

اتوار، 1 جنوری، 2017

فقہ شافعی تاریخ و تعارف

فقہ شافعی

تاریخ و تعارف


امام شافعی﷫ کے فقہی مسلک کو مذہب شافعی کہتے ہیں۔ آپ کا نام محمد بن ادریس الشافعی ہے۔ امام ابوحنیفہ ﷫ کا سال وفات اور امام شافعی﷫کا سال ولادت ایک ہی ہے آپ 150ھ میں فلسطین کے ایک گاؤں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زمانہ بڑی تنگدستی میں گزرا، آپ کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 7 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، 15 برس کی عمر میں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی تھی۔ آپ امام مالک کی شاگردی میں رہے اور ان کی وفات تک ان سے علم حاصل کیا۔ آپ نے اصولِ فقہ پر سب سے پہلی کتاب ’’الرسالہ‘‘ لکھی ’’الام‘‘ آپ کی دوسری اہم کتاب ہے۔ آپ نے مختلف مکاتیب کے افکار و مسائل کو اچھی طرح سمجھا اور پرکھا پھر ان میں سے جو چیز قرآن و سنت کے مطابق پائی اسے قبول کر لیا۔ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا تھا اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل بحث کرتے۔ آپ صحیح احادیث کے مل جانے سے قیاس و اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔ فقہ شافعی کے ماننے والوں کی تعداد فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریت ملائشیا، انڈونیشیا، حجاز، مصر و شام اور مشرقی افریقہ میں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔ فقہ شافعی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بڑے بڑے محدثین پید ا ہوئے انہوں نے اپنی تحریر سے اس دبستان فقہ کی خوب خوب خدمت کی اور فقہی تالیفات کے ڈھیر لگا دیئے۔امام شافعی نے 204ھ میں مصر میں وفات پائی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’فقہ شافعی تاریخ وتعارف‘‘ فقہ اکیڈمی انڈیا کی طرف سے 2013ء میں امام شافعی اور فقہ شافعی کے تعارف کے سلسلے میں منعقد کیے گئے ایک سیمینار کی روداد ہے اس سیمینار میں اچھی خاصی تعداد میں اہل علم نے اپنے مقالات پیش کیے ۔یہ مجموعہ انہی مقالات پر مشتمل ہے۔ جس میں امام شافعی کے حالات وخصوصیات ،فقہ شافعی کی تاریخ، اس کے امتیازات اور فقہ شافعی کی توضیح کرنے والی تالیفات نیز اس سلسلے میں علما ہند کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔اردو زبان پر اپنے موضوع پر اولین منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کو مفتی سراج الدین قاسمی نے مرتب کیا ہے اور فقہ اکیڈمی ہند نے حسنِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔

کتاب التوحید

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

کتاب التوحید


اور سب سے پہلا واجب  رب عز و جل کی معرفت ہے، اور اس کے وجود کے وجوب کا اعتقاد ہے، اور اس کی یکتائی اور اس کے قدیم ہونے اور اس کے مشابہ و مثل کوئی نہیں اور یہ کہ وہ ہمیشہ سے اپنے اسماء و صفات ذات اور امر کے کلی و جزئی علم کے ساتھ ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تاکہ حجت پوری ہوجائے اور حجت واضح ہوجائے، اور ایمان لانا تقدیر کے خیر و شر پر، تلخ و شیریں پر، اور غیب پر ایمان لانا، اور  غیب ہر وہ بات ہے جو ہم سے غائب ہے صادق (ﷺ) نے اس کی ہمیں خبر دی جیسے احوالِ برزخ،حشر،جزاء،عقاب،جنت،جھنم۔ اور (ایمان لانا اس پر کہ) ہم کسی گناہ کی وجہ سے اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے۔ اور ہم  مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں اور بہتر تاویل کرتے ہیں جو کچھ صحیح وارد ہوا ہے ان کے بارے میں۔ ہمیں اور آپ کو جنتوں میں ٹھکانہ دے۔(التذکرۃ لابن الملقنؒ)