بدھ، 22 جولائی، 2015

سلام کے آداب و احکام ۱

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلام کے آداب و احکام ۱
سلام کا جواب: کوئی عاقل مسلمان (گو ممیز بچہ ہو) مکلف مسلمانوں کی جماعت کو (یعنی ایک سے زائد افراد کو) سلام کرے (اور سلام کرنا اورع جواب دینا مطلوب و مشروع ہو) تو اس صورت میں جواب دینا فرضِ کفایہ ہے،مجمع میں سے کسی ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے۔ اگر کسی ایک شخص کو سلام کرے تو اس پر جواب دینا فرضِ عن ہے۔ کسی مسلمان کو جو فاسق و بدعتی نہ ہو سلام کرنا مسنون ہے، ابو داود کی حدیث میں سلام کی ابتداء کرنے والے کو اللہ (کی رحمت) سے زیادہ قریب بتلایا ہے۔
آیتِ قرآن:
وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا
ترجمہ:" اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔"(سورہ النساء : ۸۶)۔
          ایک حدیث میں ہے کہ غذرنے والے مجمع میں سے ایک شخص کا سلامکرنا اور بیٹھے ہوئے حضرات میں سے ایک کا جواب دینا کافی ہے۔(ابو داود)۔
          ایک شخص جواب دے تو ثواب صرف اسے ملے گا اور دوسروں سے گناہ و حرج ساقط ہوگا۔ صرف ممیز بچہ کے جواب دینے سے فرض ساقط نہ ہوگا۔
سلام کرنے کے الفاظ(ابتداء کے الفاظ):۔
السَّلَام عَلَيْكُمْ سَلَامُ اللَّهِ عَلَيْكَ سَلَامِي عَلَيْكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ سَلَامٌ
آخری دو نوں الفاظ (یعنی عَلَيْكُمُ السَّلَامُ، عَلَيْكُمُ سَلَامٌ) مکروہ ہیں تاہم جواب دینا فرض ہے۔
          اگر تنہا شخص سلام کرے یا جواب دے تو علیکم کی جگہ صرف عَلَیکَ (تجھ پر) کہنا کافی ہے، لیکن ساتھ موجود فرشتوں کی وجہ سے جمع کا صیغہ یعنی علیکم (تم پر) کہنا مستحب ہے، مجمع کے سلام یا جواب میں صرف علیک کہنا کافی نہیں، بلکہ علیکم کہنا ضروری ہے۔
سلام کے جواب  کے الفاظ:۔
وَعَلَيْكُمْ السَّلَامُ ، عَلَيْكُمْ السَّلَامُ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، وَعَلَيْكُمْ سَلَام،عَلَيْكُمْ سَلَام، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
جواب   میں  وعلیکم السلام کہنا (یعنی ابتداء واو کے ساتھ) افضل ہے، ابتداءً  وعلیکم السلام کہنا صحیح نہیں اور اس سلام کا جواب فرض نہیں ہے۔ سلام یا جواب میں صرف  السلام یا صرف علیکم کہنا کافی نہیں ہے، خواہ دوسرے لفط کی دل میں نیت ہو۔ اگر کوئی  السلام علی سیدنا یا  مولانا یا   السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى یا السَّلَامُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ تو جواب دینا فرض نہیں ہے کیوں کہ یہ سلام کا شرعی صیغہ نہیں ہے۔
          اگر ملاقات پر دونوں بہ یک وقت علیکم السلام کہیں، تو جو ان میں سے جواب کی نیت سے یہ نہ کہے، اسے دوسرے کا جواب دینا فرض ہے۔
          کوئی شخص آتے وقت سلام کرے یا جدا ہوتے وقت دونوں صورتوں میں جواب فرض  ہے جیسا کہ سلام کرنا سنت ہے۔
سلام اور جواب کے الفاظ میں  وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ  کا اضافہ مسنون ہے، اگر سلام کرنے والا یہ اضافہ کرے جب بھی جواب میں یہ اضافہ واجب نہیں ہے۔
بہرہ کا سلام کرنا یا بہرہ کو سلام کرنا: کسی بہرہ کو سلام کرے تو الفاظ کے ساتھ اشارہ بھی کرے، تاکہ وہ سمجھے اور جواب دے۔ بہرہ کسی کو سلام کرے تو جواب میں الفاظ اور اشارہ دونوں واجب ہیں، اگر اس کے منہ پر دیکھنے کی وجہ سے مثلاً اسے اس کے جواب کا اندازہ ہوجائے تو اشارہ واجب نہیں ہے۔
گونگے کا سلام: گونگے کا اشارہ میں اسلام کرنا اور جواب دینا معتبر ہوگا۔
اتصال: سلام اور جواب میں عقد (خرید و فروخت وغیرہ) کے ایجاب و قبول کی طرح اتصال شرط ہے (یعنی زیادہ فاصلہ نہ ہو) اگر فاصلہ ہوا تو (جواب فوت ہوگیا اب) اس کی قضا نہیں۔
          کسی کو مختلف گروہ (بہ یک وقت) سلام کریں اور یہ سب کے جواب کی نیت سے ایک مرتبہ وعلیکم السلام کہے تو کافی ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے سلام کریں، اور زیادہ افراد ہوں تو ایک جواب سب کے لئے کافی نہیں ہوگا، کیوں کہ مشروط اتصال موجود نہیں۔
پاگل،فاسق و بدعتی کو سلام کا جواب دینا: پاگل اور نشہ میں مست شخص کو جواب دینا واجب نہیں ہے، اسی طرح فاسق اور بدعتی کے سلام کا جواب بھی واجب نہیں تاکہ اس سے ان کو یا دوسروں کو زجر و تنبیہ حاصل ہو۔
غیر مسلم کے سلام کا جواب: اگر کوئی ذمی کسی مسلم کو سلام کرے تو اسے  وعلیک یا  علیک کہنا واجب ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ کی حدیث میں اس کا حکم موجود ہے لیکن امام بلقینیؒ، اذرعیؒ اور زرکشیؒ نے اسے مسنون قرار دیا ہے۔
اشارہ سے سلام کرنا:صرف ہاتھ وغیرہ کے اشارہ سے سلام کرنا  خلافِ اولیٰ ہے اور اس کا جواب فرض نہیں ہے کیوں کہ اس طرح سلام سے ترمذی و نسائی کی حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ لفظ اور اشارہ کو جمع کرنا افضل ہے۔ جو نماز میں یا دور ہونے یا گونگا ہونے کی وجہ سے لفظاً جواب نہیں دے سکتا اسے اشارہ میں جواب دینا مشروع ہے۔

مسئلہ: اگر دو آدمی ایک دوسرے کو بہ یک وقت سلام کریں تو دونوں پر جواب لازم ہے اگر آگے پیچھے کریں تو دوسرے کا سلام بطورِ جواب کافی ہے البتہ وہ اس سے ابتدا کا، یا ابتدا و جواب دونوں کا قصد کرے تو جس نے پہلے سلام کیا اس پر جواب لازم ہے۔(جاری)

(ملخصاً تحفۃ الباری ۳/۱۸۹-۱۹۰)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں