منگل، 21 جولائی، 2015

تصویر و ویڈیو کے احکام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تصویر و ویڈیو کے احکام

احادیث:
حدیث ۱: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو۔"(مؤطا مالکؒ،بخاری و مسلم)۔
حدیث ۲:  "قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں مصوروں (تصویر بنانے والوں) کو یقیناً شدید ترین عذاب ہوگا۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۳: "بے شک جو تصویر بناتے ہیں، قیامت کے دن ان کو عذاب ہوگا۔" ان سے کہا جائے گا: تم نے جو پیدا کیا اس میں روح پھونکو(زندہ کرو)۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۴: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: آپ ﷺ ایک مرتبہ سفر سے تشریف لائے اور میں نے ایک تصویر والا پردہ  لٹکا رکھا تھا، پس جب آپ ﷺ نے یہ دیکھا تو اسے ہٹانے کا حکم دیا اور فرمایا:" جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن سخت ترین عذاب ہوگا۔"(متفق علیہ)۔
حدیث ۵: آپ ﷺ نے مصوروں سمیت کئی گناہ گاروں پر ایک حدیث میں لعنت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری)۔
          امام نوویؒ نے فرمایا: علماء فرماتے ہیں کہ کسی حیوان کی تصویر بنانا سخت حرام ہے، یہ کبائر میں داخل ہے کیوں کہ اس پر مذکورہ بالا شدید ترین وعید وارد ہے، چاہے تحقیر و تذلیل کے طور پر استعمال کے لئے بنائے یا کسی اور مقصد سے، بنانا ہر حال میں حرام ہے خواہ کپڑے میں بنائے یا بچھونے میں، درہم و دینار( نوٹ وغیرہ) یا برتن و دیوار پر۔
غیر جاندار کی تصویر بنانا حرام نہیں۔ مسلم وغیرہ میں ابن عباسؓ سے اس کی اجازت منقول ہے۔
          امام خطابیؒ فرماتے ہیں کہ مصوروں کو اتنی سخت وعید اس لئے ہے کہ تصویریں اللہ کے علاوہ پوجی جاتی تھیں، نیز اس کو دیکھنا فتنہ کا طاعث ہے اور بعض نفوس اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اگر تصویر سائے دار نہ ہو (یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ) پر ہو اور اسے روندا جاتا ہو،(چلنے پھرنے کی جگہ ہو) یا استعمال کے ذریعے اس کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہو تو اس چیز کا استعمال جائز ہے(گر چہ اس تصویر کا بنانا حرام ہے) اگر دیوا رپر آویزاں یا پوشاک اور عمامہ وغیرہ پر ہو جس میں تحقیر کا پہلو نہ ہو تو اس کا استعمال بھی حرام ہے۔
          امام رافعیؒ نے جمہور سے نقل فرمایا کہ تصویر کا سر کاٹ دیا جائے تو ممانعت ختم ہوجائے گی، لیکن امام متولی اس سے متفق نہیں۔
          نہایة، فتح الوھاب اور تحفة وغیرہ کتب میں بچیوں کے لئے گڑیا کو جائز قرار دیا ہے کیوں کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ اس سے کھیلا کرتی تھیں اس میں حکمت یہ کہ اولاد کی تربیت کی مشق حاصل ہوجائے۔ بعض علماء نے ممانعت کی روایت کے پیش نظر اس اجازت کو منسوخ قرار دیا ہے۔
          سکوں پر مکمل تصویر ہو تب بھی اسے استعمال کرنے اور ساتھ رکھنے میں حرج نہیں، اسلاف اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔
        ویڈیو سے متعلق تنبیہ: دورِ حاضر میں تصویر ہی کی ایک ترقی یافتہ اور بسہولت دستیاب لعنت و مصیبت ویڈیو ہے جس کا نشہ باوجود کئی مفاسد کے لوگوں کے دماغ پر چھا چکا ہے اور اس زہریلے سانپ کو حسین ہار سمجھ کر گلے میں لٹکالیا ہے، حالانکہ متحرک تصاویر کے مفاسد واضح ہیں، اس کے ذریعہ شادی کی عام مجلسوں کی تصویر کشی تو ایک عام سی بات بن ہی چکی ہے، مزید آگے بڑھ کر عورتوں کھانے پینے وغیرہ کی اداؤں کو بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ بلکہ شیطان نے تو ایسا مخمور کردیا ہے کہ حجلۂ عروسی اور فراشِ عروسی کے مناظر تک اس کیمرہ اور کیمرہ مین کو رسائی حاصل ہورہی ہے، کیا یہی نکاح کے سنت کی ادائیگی کا طریقہ ہے، کہ حیاء کو بالکل بالائے طاق رکھ کر فحاشی اور بے پردگی کا یوں مظاہرہ کیا جائے۔
          یہ مقدس مذہبِ اسلام کی عفت مآب بیٹیاں ہیں، یا نعوذ باللہ کسی قحبہ خانی کی عصمت فروش اور بے حیا عورتیں ؟ ذرا تو ہوش کے ناخن لیجئے، مردوں اور عورتوں کی غیرت اور حیا کہاں مرگئی؟ اللہ تعالیٰ امت کو تمام فتنوں سے بچ کر سنت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(تحفۃ الباری ۳/۶۵)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں