پیر، 20 جولائی، 2015

مصافحہ و معانقہ کرنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مصافحہ و معانقہ کرنا

احادیث
(۱)حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے قتادہؓ نے پوچھا کہ کیا صحابۂ کرامؓ میں مصافحہ کا معمول تھا؟ انہوں نے فرمایا: "جی ہاں"(صحیح بخاری)۔
(۲) آپ ﷺ سے پوچھا گیا، ملاقات پر اپنے بھائی کے لئے جھک جائیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:"نہیں"۔ پوچھا گیا: تو کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرلیں؟ فرمایا:"ہاں"۔(ترمذی وحسنہ)۔
(۳)ارشادِ نبویﷺ ہے:"جو بھی دو مسلمان بوقت ملاقات مصافحہ کرلیں، بچھڑنے سے پہلے ضرور ان کی مغفرت ہوگی۔"(مسند احمد،ابوداود،ترمذی)
          ابو داود کی ایک روایت میں ہے:"اور دونوں اللہ کی حمد اور استغفار کریں"۔(فتح الباری۔۱۱/۵۵)۔
          دو مردوں اور دو عورتوں کو بوقت ملاقات مصافحہ مسنون ہے۔ اگر ایک مرد و عورت آپس میں محرم یا میاں بیوی ہوں یا ایک حدِ شہوت سے کمسن ہو، تو مصافحہ جائز ہے۔ حسین امرد سے مصافحہ  حرام ہے۔ جسے جذام یا برص جیسی بیماری ہو اس سے مصافحہ مکروہ ہے۔
        معانقہ  (گلے ملنا۔ بغلگیر ہونا) اور سر میں بوسہ لینا مکروہ ہے البتہ کوئی سفر سے آیا ہو یا عرفاً کافی مدت کے بعد ملاقات ہو تو حدیث کی روشنی میں سنت ہے، جبکہ جنس متحد ہو (یعنی مرد کو مرد سے اور عورت کو عورت سے گلے ملنا اس صورت میں سنت ہوگا) لیکن امرد مستثنیٰ ہے۔
          کسی زندہ آدمی کے ہاتھ کو بوسہ دینا سنت ہے، جب کہ کسی دینی فضیلت و بزرگی کی وجہ سے ہو، کسی دنیوی امر مثلاً مالداری،وزارت وغیرہ کی وجہ سے مکروہ ہے، کسی مجبوری کی وجہ سے حرج نہیں۔
          اہل فضل کے لئے اکراماً کھڑے ہونا مستحب ہے، ریا اور تفخیم کے طور پر منع ہے۔
تنبیہ: بعض علاقوں میں عید،شادی، اور جنازہ کے موقع پر معانقہ کا معمول و اہتمام ہے لیکن حدیث و فقہ کی کسی کتاب میں ان اوقات میں معانقہ کی مشروعیت احقر کی نظر سے نہیں گذری۔ شرعی ثبوت کے بغیر کسی چیز کا اہتمام کرنا اور رسم بنا لینا کہ وہ کوئی مطلوب اور شرعی عمل محسوس ہونے لگے، قطعاً مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(تحفۃ الباری ۳/۱۷)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں