پیر، 27 فروری، 2017

نائلون کے موزوں پر مسح کا حکم

نائلون کے موزوں پر مسح کا حکم

سوال  : آج کل جوتے میں نائلون کے موزے پہنے جاتے ہیں، طہارت کے وقت ایسے موزوں پر مسح کرنا کافی ہے یا نہیں۔ اسی طرح جوتوں کے اوپر مسح کر سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق:-

                نائلون کے موزوں اور جوتوں پر مسح کرنا اس وقت درست ہوگا جب کہ ان میں فقہاء کرام کی بتلائی ہوئی شرطیں پائی جائیں ورنہ ان پر مسح کرنا جائز نہ ہوگا۔ جیسا کہ صاحب عمدۃ السالک نے اس کی وضاحت فرمائی :
1 - أن يلبسه على وضوء كامل.
2 - وأن يكون طاهراً.
3 - وساتراً لجميع محل الفرض.
4 - ومانعاً لنفوذ الماء.
5 - ويمكن متابعة المشي عليهما لتردُّد مسافر لحاجاته، سواء كان من جلد، أو لِبْدٍ، أو خِرَقٍ مطبَّقة، أو خشب، أو غير ذلك، أو مشقوقاً شد بشَرَج. 1ه(عمدة السالك ص 18)
اور ان شرطوں میں سے چوتھی اور پانچویں شرط نائلون کے موزوں میں نہیں  پائی جاتی، اس لئے مسح درست نہیں۔
                بعض حضرات نے ایک اور شرط کا اضافہ فرمایا کہ وہ حلال ہو، جس کو امام ابن صباغ و غزالیؒ نے راجح قرار دیا۔
قِيلَ: وَحَلاَلاً وهو قول ابن القاص. وأشار ابن الصباغ والغزالي إلى ترجيحه؛ لأن المسح رخصه وهي لا تناط بالمعاصي. (النجم الوهاج 1/367)
نیز صاحب نجم الوھاج نے صریح عبارت نقل فرمائی 
وَلاَ يُجْزِئُ مَنْسُوجٌ لاَ يَمْنَعُ مَاءً فِي الأَصَحِّ[1] (النجم الوهاج 1/368)

کتبہ: مفتی عمر بن ابو بکر الملاحی الحسینی الحضرمی الشافعی


[1] نیز دیکھئے:- عجالۃ المحتاج 1/120؛ حاشیۃ البجیرمی علی شرح المنھج الطلاب 1/110؛ العباب ص 135؛ روضۃ 1/124۔

اتوار، 26 فروری، 2017

بے وضو شخص کا قرآنی آیات ٹائپ کرنا

بے وضو شخص کا قرآنی آیات ٹائپ کرنا


سوال:- اگر کوئی شخص کمپیوٹر پر بغیر وضوء قرآنی آیات ٹائپ کرے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:-
                اگر کوئی شخص کمپیوٹر پر قرآنی آیات اس طور پر ٹائپ کر رہا ہے کہ وہ اس کو چھو نہیں رہا ہے تو ایسے شخص کے لئے اس طرح کرنا جائز ہے درانحالیکہ وہ محدث ہو۔ جیسا کہ امام نوویؒ نے اس کی وضاحت فرمائی۔
".. وهل للبالغ كتابة القرآن وهو محدث أوجنب، وكذلك المرأة؟. الجواب:.. وأما البالغ من الرجال أو النساء، فلا يجوز له كتابةُ القرآن إِلا أن يكتبه بحيث لا يمسّ المكتوبَ فيه. ولا يحمله بأن يضعه بين يديه ويرفع يده في حالل الكتابة[1] "(فتاویٰ للامام النووی ص 33)

"یہ حکم جس طرح کتابت کے لئے اسی طرح ٹائپ اور کمپوزنگ کے لئے بھی ہے۔1ھ"(جدید فقہی مسائل 1/103)



[1]  نیز دیکھئے:- التھذیب 1/278؛ مغنی المحتاج 1/150؛ عجالۃ المحتاج 1/80؛ حاشیۃ البجیرمی علی شرح منھج الطلاب 1/68؛ العباب المحیط 89؛ اسنی المطالب 1/119۔

بدھ، 22 فروری، 2017

نا محرم کو چھونے سے وضوء ٹوٹنے کے دلائل مع عدم نقض والی روایات کے جوابات

نا محرم کو چھونے سے وضوء ٹوٹنے کے دلائل مع عدم نقض والی روایات کے جوابات

سوال : کونسی عورت کو چھونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کیا دلیل ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:-
                بلا حائل اجنبی مرد و عورت کی چمڑی کا آپس میں چھوجانا ایسی صورت میں دونوں کا وضوء ٹوٹ جائے گا  (اور دونوں کی عمر اتنی ہو کہ عرفاً ایک سلیم الفطرت کو انہیں دیکھ کر غالباً شہوت آسکتی ہے اس کے جذبات اُبھر سکتے ہیں۔)
                جیسا کہ امام نوویؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے
"قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا أَنَّ الْتِقَاءَ بَشَرَتَيْ الْأَجْنَبِيِّ وَالْأَجْنَبِيَّةِ ينتقض سواء كان بشهوة وبقصد أم لا ولا ينتقص مَعَ وُجُودِ حَائِلٍ وَإِنْ كَانَ رَقِيقًا[1]" (المجموع 1/37)
دلائل:-
ہمارے مسلک پر بہت ساری احادیث دلالت کرتی ہیں
1) اللہ تعالیٰ کا فرمان "أو لمستم النساء"(سورہ مائدہ آیت 6) لمس کا اطلاق ہاتھ سے چھونے پر ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان " فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ"(سورہ انعام آیۃ 7) ؛ آپ ﷺ کا حضرت ماعز رضی اللہ عنہ  سے ارشاد فرمایا "لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ أَوْ لَمَسْتَ" رواہ البخاری فی الحدود 6824 بلفظ  "«لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ، أَوْ غَمَزْتَ، أَوْ نَظَرْتَ»"؛ نهى عن بيع الملامسة أخرجه البخاري 2146 واليد زناها اللمس في حديث ابي هريرة عند المسلم 2657 بلفظ واليد زناها البطش ؛  نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث  قَلَّ يَوْمٌ إلَّا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ عَلَيْنَا فَيُقَبِّلُ وَيَلْمِسُ" أخرجه البيهقي باب الوضوء من الملامسة 1/123 زاد ما دون الوقاع
قال اهل اللغة : اللمس يكون باليد وبغيرها وقد يكون بالجماع المعجم الوسيط ص 838
امامنا الشافعیؒ نے ایک شعر کہا:
وَأَلْمَسْتُ كَفِّي كَفَّهُ طَلَبَ الْغِنَى                وَلَمْ أَدْرِ أَنَّ الْجُودَ مِنْ كَفِّهِ يُعْدِي
                اسی طرح مالك عن ابن شهاب عن سالم بن عبد الله بن عمر عن  أبيه قال قُبْلَةُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَجَسُّهَا بِيَدِهِ مِنْ الْمُلَامَسَةِ فَمَنْ قَبَّلَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَسَّهَا بِيَدِهِ فَعَلَيْهِ الْوُضُوءُ أخرجه مالك في الموطأ باب : الوضوء من قبلة الرجل إمرأته، وأخرجه الشافعي في الأم باب : الوضوء من الملامسة والغائط۔
                مزید براں امام شافعیؒ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال فرمایا:
وَإِذَا أَفْضَى الرَّجُلُ بِيَدِهِ إلَى امْرَأَتِهِ أَوْ بِبَعْضِ جَسَدِهِ إلَى بَعْضِ جَسَدِهَا لَا حَائِلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا بِشَهْوَةٍ أَوْ بِغَيْرِ شَهْوَةٍ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ وَوَجَبَ عَلَيْهَا أخرجه البيهقي 1/124، وعبد الرزاق 497.

عدم نقض والی روایات کے جوابات

بہر حال وہ احادیث جس میں عدم نقض کا حکم ثابت ہوتا ہے ان کی تفصیل مع الجوابات یہ ہے۔
1) عن حبيب ابن أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ ثُمَّ خَرَجَ إلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أخرجه الترمذي في الطهارة 1/86
الجواب: دو وجہ سے
1) احسن و اشهر جواب یہ ہے:
باتفاقِ حفاظ یہ حدیث ضعیف ہے۔ ان میں سفیان ثوری ، یحیی بن سعید القطان، احمد بن حنبل، ابو داود، ابو بکر نیسابوری، ابو الحسن دار قطنی، ابو بکر بیہقی اور متأخرین و متقدمین ہیں بلکہ امام احمد بن حنبل و ابو بکر نیسابوری اور ان کے علاوہ حضرات رقمطراز ہیں:
غلط حبيب من قبلة الصائم الى القبلة في الوضوء 
امام ابو داود رحمہ اللہ نے فرمایا: " رُوِيَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ مَا حَدَّثَنَا حَبِيبٌ إلَّا عَنْ عُرْوَةَ الْمُزَنِيِّ يَعْنِي لَا عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعُرْوَةُ الْمُزَنِيّ مَجْهُولٌ وَإِنَّمَا صَحَّ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صائمبخاری 1928، مسلم 1107
2) والجواب الثانی : اگر اس حدیث کو بالفرض صحیح بھی مان لے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ بوسہ لینا حائل کے ساتھ ہو جیسا کہ دیگر ادلہ کے درمیان جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے۔
2) عَنْ أَبِي رَوْقٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ بَعْدَ الْوُضُوءِ ثُمَّ لَا يُعِيدُ الْوُضُوءَ أخرجہ الترمذی باب: ماجاء فی ترک الوضوء من القبلۃ
الجواب: ائمۃ محدثین نےا س حدیث کو ضعیف قرار دیا دو (2) اعتبار سے
                1)یحیٰ بن معینؒ نے ابوروق کو ضعیف کہا
                2) ابراھیم تیمیؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا
قال الترمذي باب ما جاء في ترك الوضوء من القبلة
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»، وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، وَلَا نَعْرِفُ لِإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا البَابِ شَيْءٌ
امام بیہقیؒ نے فرمایا:
وَقَدْ رَوَيْنَا سَائِرَ مَا رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ فِي الْخِلَافِيَّاتِ وَبَيَّنَّا ضَعْفَهَا فَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ عَنْ عَائِشَةَ فِي قُبْلَةِ الصَّائِمِ فَحَمَلَهُ الضُّعَفَاءُ مِنْ الرُّوَاةِ عَلَى تَرْكِ الْوُضُوءِ (المجموع 2/32)
3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث سے استدلال کرتے ہیں
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى وَهُوَ حامل أمامة بنت زينب رضي الله عنهما فَكَانَ إذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ رَفَعَهَا رواه البخاري 516، 5996 ومسلم543 فی المساجد
الجواب:- اس حدیث کے مختلف جوابات دئے گئے
1)اظهر: رفع و وضع کی وجہ سے التقاء بشرتین لازم نہیں آتا۔
2) وہ چھوٹی تھیں اور چھوٹی بچی کو چھونے سے خود شوافع کے یہاں وضوء نہیں ٹوٹتا
3) وہ تو آپ کی نواسی محترمہ تھیں، جس بناء پر وہ محرم ٹہریں اور محرم کو چھونے سے عندنا نقضِ وضو نہیں ہوتا۔
4) صحیحین کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی دوسری حدیث
أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهي معترضة بينه وبين القبلة فإذا أراد أن يسجد غمز رجلها فقبضتها أخرجه البخاري في الصلاة باب الصلاة في الفراش 382،383،384،508،511،512،513،514،519،997،1209
ومسلم في باب الاعتراض بين يدي المصلي 512
الجواب: اس حدیث کو حائل پر محمول کریں گے

5) نسائی کے صحیح الاسناد حدیث کے ذریعہ  " فإذا أراد أن يوثر مسني برجله أخرجه النسائي 1/101،102
الجواب: آپ ﷺ نے حائل کے ساتھ چھویا اور یہ بات بستر پر سونے والے شخص کے حق میں ظاہر ہے اور یہ دونوں جوابات ملموس کے طھر کو ماننے کی صورت میں ہے ورنہ اس کی کوئی ضرورت نہیں

6) قیاس کیا محارم اور بالوں پر اور کہا  کہ لمس ناقض وضوء ہے تو لمس الرجل الرجل بھی ناقض وضوء ہونا چاہئے جیسا کہ جماع الرجل الرجل جماع المرأۃ کی طرح ہے۔
الجواب: بالوں کو چھونے پر تلذذ حاصل نہیں اور محرم و رجل مظنۂ شہوت نہیں اس باب میں امام الحرمین نے قیاس کو باطل کیا۔ (انظر ھذا التفصیل : المجموع 2/38 تا 43) 




[1]  نیز دیکھئے :- تحفۃ الطلاب 1/18؛ نھایۃ المحتاج 1/116؛ تحفۃ المحتاج 1/53؛ العزیز 1/161؛ عجالۃ المحتاج 1/78۔

پیر، 13 فروری، 2017

انسان و حیوان کے باطن سے نکلنے والی اشیاء کا حکم

انسان و حیوان کے باطن سے نکلنے والی اشیاء کا حکم
1۔لعاب (تھوک)، آنسو، پسینہ اور بلغم کا وہی حکم ہوگا جو اس حیوان کا ہے۔ اگر حیوان نجس  ہو تو مذکورہ اشیاء بھی نجس، ورنہ طاہر (کتے اور سور کا تھوک وغیرہ بھی نجس ہے، مویشیوں وغیرہ کا تھوک، پسینہ سب پاک ہے۔)
2۔ خون، پیشاب، پاخانہ، بیٹ اور قئی جیسی چیزیں تمام حیوانات کی نجس ہیں۔ آپ ﷺ کے بدن اطہر سے نکلے ہوئے ان فضلات کو بھی جمہور نے نجس کہا ہے۔ لیکن امام بغوی قاضی، سبکی، بارزی، زرکشی، ابن الرفعہ، بلقینی، حافظ ابن حجر اور رملی رحمہم اللہ وغیرہ حضرات نے اس کے برعکس طہارت کے قول کو ترجیح دی ہے۔ (حاشیۃ الجمل 1/174)
3۔ مچھلی اور ٹڈی کا خون اور بیٹ، ایسے جانداروں کا پاخانہ جن میں بہنے والا خون نہ ہو، اور تلی اور جگر سے ٹپکنے والا خون نجس ہے۔
4۔ مأکول اللحم یعنی ایسے جانور  جن کا گوشت کھانا جائز ہے کا دودھ پاک ہے، اور غیر مأکول اللحم یعنی وہ جانور جن کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے ، ان کا دودھ نجس ہے۔
5۔ کتے اور سوّر اور ان کے فرع کی منی ناپاک ہے۔ انسانوں سمیت بقیہ سارے جانداروں کی منی پاک ہے۔
6۔ انڈے پاک ہیں، چاہے غیر مأکول اللحم پرندے کے ہوں۔
7۔ مشک پاک ہے، مشک کا نافہ اگر ہرنی کی زندگی میں جدا ہوا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے۔
8۔ جو کھیتی اور پودے نجاست پر اُگے ہیں نجس العین نہیں، لیکن نجاست کے لگنے سے نجس ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دھونے سے پاک ہوجائیں گے۔ ان پودوں کی بالیوں میں تیار ہونے والے دانے پاک ہیں۔
9۔ پیپ نجس ہے، اسی طرح زخموں کا پانی اگر متغیر ہو تو نجس ہے، ورنہ نہیں۔
10۔ نجاست کا دھواں بھی نجس ہے
11۔ عورت کے فرج (اگلی شرمگاہ) کی رطوبت (تری) علقہ (جما ہوا خون) اور مضغہ پاک ہیں۔
12۔  صفراء اور جگالی نجس ہیں،
13۔ نیند کی حالت میں منہ سے بہنے والی رال حلق کے کوے سے نکلے تو پاک ہے اور معدے سے نکلے تو نجس ہے۔ طویل نیند کی صورت میں بہنا بند ہو تو وہ کوے سے نکلنے والا سمجھا جائے گا، اگر شک ہو تو نجس نہیں سمجھیں گے، البتہ احتیاطاً دھو دینا بہتر ہے۔
14۔ جس شخص کو نیند کی حالت میں کثرت سے رال کی شکایت ہو، باجود نجس ہونے کے اس کے حق میں اسے معاف رکھا جائے گا۔

15۔ دانہ کسی جانور کے کھانے کے بعد پاخانہ میں صحیح سالم نکل آئے اور اس کی سختی اس حد تک باقی ہو کہ بونے کی صورت میں اُگ سکتا ہے تو وہ دانہ پاک ہے۔ صرف اوپری حصہ دھو دینا ضروری ہے۔ لیکن اگر دوبارہ اُگنے کے قابل نہیں رہا تو نجس العین ہوچکا۔(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/71)

نجاستوں اور نجس پانی کا بیان

نجاستوں اور نجس پانی کا بیان

تعریف: نجاست لغت میں ہر گندگی کو کہا جائے گا، شریعت میں نجاست سے ایسی گندگی مراد ہے جس کی موجودگی میں عام حالات میں نماز صحیح نہیں ہوتی۔
نجاست کی قسمیں: نجاست کی دو (2) قسمیں ہیں
1)نجاستِ حکمیہ
2) نجاستِ  عینیہ
1) نجاست حکمیہ: نجاست حکمی ایسی نجاست جو اپنے محل سے آگے بڑھ جائے جیسے جنابت۔
2)نجاست عینیہ: ایسی نجاست جو اپنے محل سے تجاوز نہ کرے جیسے پیشاب وغیرہ۔
نوٹ:- جس نجاست عینیہ کا کائی اثر باقی نہ ہو جیسے پیشاب کپڑے پر لگ جائے جس میں نہ بدبو ہے نہ مزہ نہ رنگ اس کو بھی نجاستِ حکمیہ کہتے ہیں۔ (جمل 1/168)
اشیاء کی اقسام: ساری اشیاء کی دو قسم کر سکتے ہیں۔
1) جَماد
2) حیوان۔
1)جَماد: جماد کا مطلب جو نہ حیوان ہو نہ حیوان تھا نہ کسی حیوان کا جزء ہے نہ ہی کسی حیوان سے نکلا ہے۔
شراب اور نشہ والی نبیذ کے علاوہ سارے جَمادات پاک ہیں۔ حیوانات میں کتا، خنزیر (سُوَّر) اور ان دونوں سے کسی ایک کے بھی دوسرے جانور سے ملاپ کی وجہ سے جو پیدا ہو نجس ہیں۔ اس کے علاوہ سارے جاندار اپنی زندگی میں پاک ہیں۔
نوٹ:مردار میں پیدا ہونے والے کیڑے بھی پاک ہیں۔
مردار کی تعریف:- جن حیوانات کو شرعی طریقے سے (ذبح ، شکار وغیرہ کے ذریعہ) حلال نہ کیا گیا ہو اور روح نکل چکی ہو تو اس کو مردہ  کہا جائے گا۔ (جمل 1/173)
پاک مردار: مردار میں صرف مچھلی، ٹڈی اور انسان پاک ہیں۔ کسی جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے مردہ جنین برآمد ہو ، تو وہ بھی پاک ہے۔
نوٹ:- خلقت مکمل ہونے کے بعد برآمد ہونے والے جنین کو اپنے ماں کے تابع سمجھتے ہوئے کھانا جائز ہے لیکن علقہ او مضغہ کا کھانا  نا جائز ہے۔(جمل 1/173)
شرعی طریقہ سے ذبح کئے ہوئے جانور کا حکم:- شرعی طریقے سے شکار کئے ہوئے جاندار کو ذبح کرنے کا موقع نہ ملے اور مر جائے، تب بھی وہ پاک ہے اور اس کا کھانا حلال ہے۔
مردار کے اجزاء: اس کے علاوہ سارے مردار نجس ہیں۔ مردار کے تمام اجزاء (ہڈی، بال، اون وغیرہ) نجس ہیں۔ کیوں کہ ان سب میں زندگی ہوتی ہے۔ (مغنی المحتاج 1/78)
مکھی وغیرہ: وہ جاندار جن کو اگر زندگی میں کاٹا جائے تو ان کے بدن سے خون نہ بہے ( یا تو خون نہ ہونے کی وجہ سے یا اس لئے کہ معمولی سا ہے، بہنے جیسا نہیں ) جیسے مکھی وغیرہ، ان کا مردہ بھی نجس ہی ہے، لیکن یہ پانی یا دوسر سیال(بہنے والی) چیز میں گر جائے (اور اس میں کوئی تغیر اس مردار کی وجہ سے پیدا نہ ہو) تو وہ سیال چیز نجس نہیں ہوگی۔ البتہ کسی نے اس طرح کے مردہ کو پانی وغیرہ میں ڈال دیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔ اگر اس طرح کے مردوں کی کثرت کی وجہ سے تغیر پیدا ہو تو پھر وہ پانی یا مائع نجس ہوجائے گا۔ (مغنی المحتاج 1/78)
حدیث: آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر کسی کے برتن میں مکھی گرے تو اسے مکمل ڈبو کر پھر نکال دو، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔"(بخاری) بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے:"وہ اپنے بچاؤ کے لئے بیماری والا پر آگے کرتی ہے۔"(ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان، تلخیص الحبیر 1/37)
پھلوں میں موجود کیڑے: سرکہ یا سیب وغیرہ پھل میں جو کیڑے پڑتے ہیں ان کا مردار بھی نجس ہے۔ البتہ اس کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے بچنا مشکل ہے، نیز ان اشیاء کو ان کیڑوں سمیت کھانا جائز ہے کیوں کہ اسے جدا کرنا کافی دشوار ہے۔
نوٹ: جن جانوروں کو کھانا حرام ہے انہیں ذبح کیا جائے تب بھی وہ نجس ہیں۔(مغنی المحتاج 1/78)
حیوان کے اجزاء کا حکم
اصول: ایک عام اصول یہ ہے کہ کسی بھی زندہ حیوان سے جو حصہ جدا ہو وہ نجس ہے۔
حدیث: "زندہ  (جانوروں کے بدن) سے جو (حصہ) جدہ کیا جائے وہ مردہ ( کے حکم میں ) ہے۔(مسند احمد، ترمذی، حاکم وغیرہ۔ تلخیص 1/39)
البتہ مندرجہ ذیل اشیاء اس اصول سے مستثنیٰ ہیں۔
1) مأکول اللحم (جن جانوروں کا گوشت کھانا جائز ہے) حیوانات کے بال، اون اور پَر جو زندگی میں کاٹ لئے گئے ہوں یا خود بخود جھڑے ہوں (پاک ہیں)
2) انسان کے بال
3) انسان، مچھلی اور ٹڈی کے بدن کا کوئی حصہ اور
4) انسان کا مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ ہوتا ہے۔)

(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/69،70)

شیخ علامہ عبد الرحمٰن بن یحیی المعلمی الیمانی الشافعیؒ

2۔ شیخ علامہ عبد الرحمٰن بن یحیی المعلمی الیمانی الشافعیؒ( المتوفی 1386 ھ م 1966ء):
از مفتی عمر بن ابو بکر بن عبد الرحمن الملاحی حفظہ اللہ
             شیخ علامہ عبد الرحمٰن المعلمیؒ نادرِ زمان، نابغۂ روزگار، استاذ الاساتذہ، ناقد، باحث، محقق و تحریر کی شگفتگی اور فنی لیاقت کے اعتبار سے اپنے موضوع پر مستند عالمِ دین سمجھے جاتے ہیں۔
شیخ علامہ عبد الرحمٰن المعلمیؒ کا تعلق ملک یمن سے ہے، 1313 ھ کو آپ نے اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں اور وہیں علوم و فنون حاصل کئے پھر آپ نے حیدرآباد کی طرف ہجرت کی، اور وفات تک یہیں رہے، نکاح بھی یہیں کیا۔
علمی مہارت: آپ کو علمِ انساب ورجال اور دیگر علوم و فنون میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ آپ شافعی تھے اور فقہ شافعی سے خصوصی دلچسپی و تعلق تھا، آپ بڑے عالی مقام محقق بھی تھے چنانچہ آپ کے علمی تحقیقی سرمایہ منظر عام پر آچکے ہیں جن میں بعض کا تذکرہ  علامہ حبیب عبد اللہ المدیحج کے ساتھ آچکا، اس لئے ان کے علاوہ کتب پر تبصرہ کرنا چاہوں گا جس میں علامہ حبیب عبد اللہ المدیحجؒ بھی شریکِ تحقیق و تعلیق رہ چکے ہیں۔
کتاب اعراب ثلاثین سورۃ من القرآن الکریم، لابن خالویۃ، علامہ موصوف عبد الرحمٰن المعلمیؒ نے اس کتاب کی کمی کو پورا کیا، کہیں نقص یا تحریف ہوچکی تھی اس کو دور کیا۔
کتاب الاعتبار، لابن بکر محمد بن موسی بن حازم الھمدانی (م 574ھ) علامہ موصوفؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ 274 صفحات پر اس کتاب کی تصحیح فرمائی۔

(فقہ شافعی تاریخ و تعارف 327-328)

اتوار، 12 فروری، 2017

الشیخ حبیب عبد اللہ بن احمد المدیحج الحضرمیؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الشیخ حبیب عبد اللہ بن احمد المدیحج الحضرمیؒ

از: مفتی عمر بن ابو بکر بن عبد الرحمن الملاحی
الشیخ حبیب عبد اللہ بن احمد المدیحج الحضرمیؒ (1311ھ – 1408 ھ):
            الشیخ حبیب عبد اللہ المدیحج ان محقق علماء کرام کے روحِ رواں ہیں جو برصغیر ہند و پاک کے علاوہ عرب ممالک کے علمی حلقوں میں بھی ممتا مقام رکھتے ہیں۔ علم فقہ و حدیث اور اصولِ فقہ و حدیث آپ کا خاص موضوع رہا ہے، جس سے متعلق متعدد وقیع کتابیں اب تک منظرِ عام پر آکر خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔
تعلیمی سفر: آپ رحمۃا للہ علیہ نے حضرموت کے مقام "زیدۃ العلیب" سے جو مسقط کے باڈر پر واقع ہے حیدرآباد کا اپنی عنفوانِ شباب کے دور میں سفر کیا اور یہاں پہنچ کر شہر حیدرآباد کی عالمی شہرت یافتہ درسگاہ جامعہ نظامیہ میں عباقیر علماءء کرام و اساتذہ فن سے فیض یاد ہونے اور علم و فن کے گل بوٹوں سے دامن مراد بھرنے کا موقع ملا، چنانچہ آپ نے اس دانش گاہ سے پورا پورا استفادہ کیا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق علم و فن کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر عالمیت و فضیلت اور خصوصاً  تخصص فی الفقہ الشافعی کی سند حاصل کی۔ اس طرح آپنے اپنے علمی ذوق کی تسکین کے لئے ملک و بیرون ملکک کی دانش گاہوں سے اکتسابِ فیض کیا اور ہر جگہ ممتاز رہے۔
            علمی و تحقیق خدمات: تکمیلِ تعلیم کے بعد یہیں حیدرآباد میں مقیم ہوکر آپ نے اپنی تبحر علمی سے بہت سارے ان مخطوطوں پر تحقیق، تعلیق، ضبط اور تصحیح کے کارنامے اس وقت بطورِ خاص انجام دئے جب آپ دائرۃ المعارف میں بحیثیت مصحح مقرر کئے گئے۔
            تحقیق خدمات: آپ کی تصحیح و تعلیق شدہ کتب کی فہرست درجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں:
            1۔ شرح تراجم ابوابِ صحیح البخاری، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ۔
            تیسری طباعت کی نشر و اشاعت 1368 ھ 1949 ء میں ہوئی جس پر علامہ حبیب عبد اللہ المدیحج الحضرمی اور محمد طہٰ ندوی نے تصحیح کی ۔ آپ کی یہ خدمت ہی آپ کے متبحر عالمِ دین ہونے پر دلیل ہے، کیوں کہ امام بخاریؒ کے ابواب کی تصحیح ہر کس و ناکس کی بات نہیں۔
            2۔الآمالی، للامام محمد بن حسن شیبانی صاحب امام ابو حنیفہؒ اس کی تصحیح آپؒ کے ساتھ سید ہاشم ندوی اور شیخ عبد الرحمن بن یحیی الیمانی الشافعیؒ (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) نے مل کر کی۔
3۔ الأربعین فی اصول الدین، اس کی تصحیح کے امور بھی آپ نے دیگر علماء کی وساطت سے طے کئے۔
4۔ انباء الغمر بابناء العمر، لابن حجر العسقلانی الشافعی (803ھ م 1449ء) یہ کتاب پانچ ضخیم مجلدات پر محیط ہے جس کی تصحیح آپ موصوفؒ نے اپنے دائرۃ المعارف کے رفقاء کے ساتھ مل کر کی۔
5۔ جوامع اصلاح المنطق ، لابی یوسف یعقوب بن السکت، اس کتاب کی تصحیح آپؒ نے علامہ عبد الرحمٰن بن یحیی المعلمیؒ کے ساتھ مل کر انجام دی اور یہ تحقیق خود آپ دونوں بزرگان کے علم منطق میں ید طولی اور کثرتِ اطلاع رکھنے پر دلالت کرتی ہے۔
6۔  الاشباہ والنظائر للامام جلال الدین سیوطی الشافعی، یہ عظیم الشان کتاب علم قواعد فقہ میں چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
7۔ المعتبر فی الحکمة الھبة اللہ ملکا، لأرسطو یہ جلیل القدر و عالی مقام کتاب فلسفہ میں ہے، جس کے مختلف مخطوطات کا تقابلی مطالعہ بھی ایک قابلِ قدر دشوار کن مرحلہ تھا جس کی بناء پر چند ایک علماء نے مل کر اس کی تصحیح کی، اور مراجعت علامہ مناظر احسن گیلانیؒ سے جو اس وقت جامعہ عثمانیہ میں علوم شرعیہ کے رئیس تھے اور یہ کتاب منطق، طبیعیات اور الالٰھیات پر 1112(م)، 393 (ط)، 463(ء)، 256 صفحات پر مشتمل ہے۔
8۔ رسالۃ فی الابعاد والاجرام للامام ابی الحسن کوشیارؒ، اس رسالہ میں زمینی کشادگی، چاند سے اس کی دوری وغیرہ جیسے باریک و دقیق امور پر بحث کی گئی۔
9۔ تنقیح المناظر ( فی علم المناظر) یہ کتاب علم ضوء و مناظر یعنی وہ آلات جن سے کسی بھی چیز کے چھوٹے بڑے ہونے کو جانا جاتا ہے سے متعلق ہے، اس کتاب کا شمار نوادرِ زمان میں ہوتا ہے، علامہ موصوفؒ نےا س کتاب میں بوض اختلافی مقامات پر اشکال و رسوم کی زیادتی کی۔
10۔ کتاب میزان الحکمۃ لسید عبد الرحمٰن الخازمی (م 501ھ) یہ کتاب اصولِ طبیعیات جیسے "جاذبیتِ ارض اور اس کے ثقل و وزن کا مرکز" جیسے امور دقیقہ پر مشتمل ہے۔
ان مذکورہ بالا چند تصحیح، تحقیق و تعلیق شدہ کتب کے تذکرہ پر اکتفاء کیا گیا جس کی نشر و اشاعت اور طباعت نے علامہ موصوفؒ کی جانسب سے تصحیح، تحقیق اور تعلیق کے باب میں ایک نمایاں رول ادا کیا (جزاہ اللہ احسن الجزاء) نیز آپ کو انہی علمی و تحقیقی کارناموں کی بدولت "شھادۃ الشرف فی اللغۃ العربیۃ" (Certificate of Honor in Arabic) کے جائزہ و  انعام کی شکل میں 1946 ء میں نوازہ گیا۔

وفات: 4/ نومبر /1986 ء میں اس دنیاء  فانی سے دارِ باقی کی جانب رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(فقہ شافعی، تاریخ و تعارف 325-327)

ہفتہ، 4 فروری، 2017

ماء مشمس کے مسائل

ماء مشمس کے مسائل

ماء مشمس: سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی کو ماء مشمس کہیں گے۔
حوض اور تالاب کا پانی سورج کی تپش سے گرم ہو تو بالاتفاق اس کا استعمال مکروہ نہیں ہے۔ البتہ کسی برتن کا پانی سورج کی تپش اور دھوپ سے گرم ہو تو ان شرائط کے ساتھ مکروہ تنزیہی ہے۔
شرائط:
1)علاقہ گرم ہو،
2)برتن کا مادہ ایسا ہو جسے ڈھال کر بنایا جاسکتا ہو جیسے تانبا (ہوتھوڑے وغیرہ سے کوٹ کر جس کو پھیلا سکتے ہو عموماً دھات اس میں آجائے گی) لیکن سونا چاندی اس سے مستثنیٰ ہے۔
3) بدن میں استعمال کیا جائے (کپڑا وغیرہ دھونے میں استعمال کرنا مکورہ نہیں ہے)
نوٹ:- یہی پانی ٹھنڈا ہونے کے بعد اس کی کراہت ختم ہوجائے گی۔
نوٹ:- دلیل کے اعتبار سے امام نوویؒ نے عدم کراہت کو ترجیح دی ہے، مگر شافعی مسلک کے اعتبار سے کراہت کا قول راجح ہے، کیوں کہ امام شافعیؒ اور دارقطنیؒ نے بسندِ صحیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس پانی سے غسل کی کراہت کو روایت کیا ہے۔
ماء مشمس کی کراہت کا سبب:-  مذکورہ بالا صورت میں دھوپ کی شدت کی وجہ سے برتن سے ذرات جدا ہو کر پانی میں شامل ہوتے ہیں، جو گرمی کی حالت میں بدن سے چھو جائے تو چمٹ کر برص (سفید داغ) کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے اور یہی سبب کراہت ہے۔ اگر کسی کو عادل طبیب (ڈاکٹر) کے کہنے سے مشمس پانی کے استعمال کی وجہ سے برص ہونے کا غالب گمان ہو تو پھر اُسے اس پانی کا استعمال حرام ہے۔
ماء مشمس ان صورتوں میں مکروہ  نہیں: مٹی کے پکے ہوئے برتن، سرد یا معتدل علاقہ میں، بدن کے علاوہ کپڑے زمین یا کھانے وغیرہ میں اور اسی طرح ٹھنڈا ہونے کے بعد ماء مشمس کا استعمال مکروہ نہیں ہے۔ (فتح الواب مع الجمل 1/36)
(ملخصاً تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/68)

پانی میں کسی دوسری چیز کے گرنے کے مسائل

پانی میں کسی دوسری چیز کا گرنا اور شامل ہونا

اصول:- اس سلسلے میں ایک عام ضابطہ یہ ہے کہ جن چیزوں کے شامل ہونے کے بعد پانی کو صرف پانی (یعنی ماء مطلق) نہیں کہہ سکتے، ایسے پانی سے طہارت ممنوع ہے، ورنہ صحیح ہے۔
            جن چیزوں سے پانی کو بچانا آسان ہو (اور عام حالات میں ان چیزوں کے خود بخود پانی میں شامل ہونے کی نوبت نہ آتی ہو) ایسی چیزوں کے پانی میں گرنے کی وجہ سے پانی میں ہلکا سا تغیر(تبدیلی) آجائے، تو وہ پانی طہور ہی ہے۔ (جب کہ وہ چیز پاک ہو)۔
مجاوِر:- جو چیز پانی میں شکر، نمک وغیرہ کی طرح گھلتی نہ ہو، بلکہ اپنی حالت پر باقی رہتی ہو اس کو "مُجاوِر"(یعنی پڑوس میں رہنے والا)  کہیں گے جیسے لکڑی ، پتھر وغیرہ۔
            کسی مُجاوِر کی وجہ سے زیادہ تغیر آجائے تب بھی وہ طہور ہی رہے گا جیسے لکڑی، تیل، موم وغیرہ کی وجہ سے۔ کافور کی دو قسم ہیں
1)ایک پانی میں گھلتا ہے،
2)دوسرا نہیں گھلتا ہے۔
پہلی قسم کے کافور کی وجہ سے زیادہ تغیر آجائے تو وہ طہارت کے قابل نہیں رہے گا، لیکن دوسری قسم کا کافور لکڑی وغیرہ کے حکم میں ہے۔
جن اشیاء سے پانی کو محفوظ رکھنا عام مدت میں ممکن نہ ہو ، جیسے  پانی کے بہنے یا رکنے کی جگہ میں موجود مٹی، کائی، گھندگ، نورہ ، (چونے کا پتھر) ھڑتال وغیرہ، ان اشیاء کی وجہ سے زیادہ تغیر بھی آجائے تو حرج نہیں ، پانی طہور ہے۔
نوٹ:- پانی میں پیدا ہونے والی مٹی کی وجہ سے تغیر بھی طہارت سے مانع نہیں ہے۔
اسی طرح مدت دراز تک ایک ہی جگہ رکے رہنے سے پانی میں جو تغیر پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں، گرم کیا ہوا پانی بھی طہور ہے۔
مذکورہ متغیر پانی، سمندری پانی، زم زم کا پانی اور گرم پانی اگرچہ کسی نجس چیز کو جلا کر گرم کیا گیا ہو، کو استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔

نوٹ:- زیادہ گرم زیادہ سرد پانی استعمال کرنا مکروہ ہے۔
زعفران کا پانی: جن اشیاء کے پانی میں شامل ہونے کی نوبت عموماً نہیں آتی مثلاً زعفران ایسے اشیاء کی وجہ سے پانی میں اتنا تغیر آجائے کہ اب وہ ماء مطلق نہیں کہلائے گا، تو وہ طہور نہیں ہے۔
اگر کسی نے پانی نہ پینے کی قسم کھالی ہو تو اس حد تک متغیر پانی کے پینے سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔
متغیر پانی کسے کہیں گے؟
            پانی کے مزہ، رنگ، یا بو میں سے کسی ایک وصف کا بدل جانا کافی ہے۔ قصداً مٹی پانی میں پھینکنے سے تغیر آیا ہو تب بھی وہ طہور ہے۔
نمک، پتے وغیرہ:- پانی سے بننے والے نمک کی وجہ سے اگر تغیر پیدا ہو تو حرج نہیں، دیگر نمک مضر ہوں گے۔ درختوں کے پتے پانی میں گر کر تغیر پیدا کریں، چاہے ریزہ ریزہ ہوں یا نہ ہوں تو وہ طہور ہے۔ اور قصداً پتے پانی میں پھینکے گئے اور اس کی وجہ سے تغیر پیدا ہوتو یہ مضر ہے۔
تقدیری تغیر: قلیل یا کثیر پانی میں ایسا پاک مائع( بہنے والی چیز، سیال) شامل ہوجائے، جو صفات میں پانی کے موافق ہو، (پای سے الگ اس میں کوئی رنگ یا مزہ یا بو نہ ہو) جیسے گلاب کا پانی جس کی خوشبو ختم ہو چکی ہو، درخت کا پانی، مستعمل پانی وغیرہ تو مذکورہ مائع کی مقدار اتنی ہو کہ اگر اس کا مزہ یا رنگ یا بو پانی کے مخالف ہوتا، تو پانی میں مؤثر تغیر پیدا کرتا تو اس پانی کی طہوریت ختم ہو جائے گی۔ اس تغیر کو تغیر تقدیری کہیں گے۔
            اور پانی کے مقابلہ میں اس مائع کی مقدار اتنی ہو کہ اوصاف میں مخالف تصور کرنے کے باوجود تغیر مؤثر پیدا نہیں کرے گا ، تو پانی طہور ہے اور اس صورت میں مکمل پانی طہارت میں استعمال کرسکتے ہیں، مائع کی مقدار کو آخر میں باقی رکھنے کی  ضرورت نہیں۔
ناکافی پانی: کسی کے پاس اتنا پانی ہو کہ طہارت کے لئے ناکافی ہو اور تھوڑا سا مائع ملانے کی صورت میں کافی ہوجاتا ہو تو ملالینا لازم ہے، لیکن اگر مائع کی قیمت طہارت کے لئے درکار پانی کی قیمت سے زیادہ ہو تو ملانا ضرورت نہیں۔
نوٹ: اس فصل میں مذکورہ مسائل میں پانی کے قلتین سے کم زیادہ ہونے کی کوئی قید نہیں ہے (سارے ہی صورتوں کا یہی حکم ہے۔)۔

بھاپ:- پانی کو جوش دینے کی وجہ سے بخارات (بھاپ) بلند ہو اور پھر وہ پانی میں تبدیل ہو تو وہ پانی بھی طہور ہے۔ لیکن اگر کسی دوسرے مائع کے بخارات سے ٹپکا ہوا پانی ہو تو طہور نہیں ہے جیسا کہ پسینہ طہور نہیں ہے۔
(ملخصاً تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/68،69)