اتوار، 12 جولائی، 2015

صدقۂ فطر مکمل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صدقۂ فطر
احادیث: (۱) "آپ ﷺ نے رمضان میں زکوٰۃ الفطر کو لوگوں پر فرض فرمایا، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ، ہر آزاد یا غلام، مذکر و مؤنث پر مسلمانوں میں سے۔"(متفق علیہ)
(۲)آپ ﷺ نے روزہدار کی لغو اور فضولیات سے پاکی اور مساکین کو کھلانے کی خاطر زکوٰۃ الفطر کو فرض فرمایا، جو نمازِ عید سے قبل ادا کرے تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے، اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو یہ ایک عام صدقہ ہے۔"(ابو داؤد،ابن ماجہ،دارقطنی،حاکم)
(۳) آپ ﷺ نے صدقۂ فطر کو فرض فرمایا اور لوگوں کے نماز کے لئے جانے سے قبل اسے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔"(متفق علیہ)(تلخیص الحبیر ۲/۱۹۴)
            صدقۂ فطر اس امت کی خصوصیت ہے اور مشہور یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی طرح ہجرت کے دوسرے سال عید سے دو روز قبل فرض ہوا۔
امام وکیعؒ فرماتے ہیں:"جس طرح سجدۂ  سہو نماز کے نقصان اور کمی کی تلافی کرتا ہے، صدقۂ فطر رمضان کے نقصان کی تلافی کرتا ہے۔"
ابنِ شاہیںؒ نے ترغیب میں اور ضیاء نے حضرت جریرؓ سے نقل فرمایا:" ماہِ رمضان آسمان و زمیں کے درمیان معلق رہتا ہے، صدقۂ فطر کی ادائیگی کے بغیر بارگاہِ الٰہی میں اٹھایا نہیں جاتا۔"
مطلب یہ ہے کہ اس ماہ عظیم ترین ثواب ایک قادر شخص کو صدقۂ فطر کی ادائیگی کے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔
            صدقۂ فطر بالاجماع فرض(واجب) ہے۔
مسئلہ:ماہِ رمضان کا آخری لمحہ اور ماہِ شوال کا اوّل لمحہ پانے سے صدقۂ فطر واجب ہوگا۔
مسئلہ: صدقۂ فطر ایک مسلمان کو اپنی جانب سے اور شرعاً اپنے زیر کفالت مسلم (جن کا نان نفقہ اور اخراجات اس کے ذمہ واجب ہیں) افراد کی جانب سے نکالنا واجب ہے۔
مسئلہ: فطرہ کے وجوب کے وقت جن کا نفقہ اس کے ذمہ ضروری ہے ان کی جانب سے نکالے، چاہے اس سے پہلے یا بعد میں نفقہ کا وجوب نہ پایا جائے۔
مسئلہ: رمضان کے آخری دن غروب کے بعد نکاح ہو تو اس بیوی کی جانب سے شوہر پر فطرہ واجب نہیں، اسی طرھ غروب کے بعد کوئی اسلام قبول کرے یا بچہ پیدا ہو تو ان کا فطرہ واجب نہیں ہے۔ اگر شک واقع ہو کہ غروب سے قبل یہ امور ہوئے ہیں یا بعد میں تب بھی واجب نہیں۔
مسئلہ: آخری دن غروب کے بعد کسی کے انتقال سے فطرہ ساقت نہ ہوگا۔
مسئلہ: اگر شوہر غروب کے بعد بیوی کو طلاق دے، چاہے بائنہ طلاق ہی کیوں نہ ہو، اسے اس بیوی کا  فطرہ ادا کرنا ہوگا۔(بشری الکریم ۲/۵۲)
          فطرہ کے اوقات:
(۱)واجب وقت: رمضان کے آخری دن کے غروب سے واجب ہوگا۔
(۲) جواز کا وقت: رمضان کا پورا مہینہ۔
(۳)فضیلت کا وقت: عید کی نماز سے پہلے۔
(۴)کراہت کا وقت: عید کی نماز کے بعد۔
(۵) حرمت کا وقت: عید کا دن گزر جانے کے بعد
            عید کے دن عید کی نماز سے قبل ہی فطرہ ادا کرنا سنت ہے۔ کیوں کہ حدیث میں اس کا حکم گزرچکا۔ اگر نماز خلافِ معمول تاخیر سے ادا ہو تو دن کے ابتدائی حصہ میں ہی ادا کردینا سنت ہے،تاکہ مستحقین کو کشادگی حاصل ہوجائے۔ بغیر عذر کے عید کا دن گذرنے تک تاخیر کرنا حرام ہے، کیوں کہ اصل مقصود عید کے مبارک دن مستحقین کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز کرنا ہے۔ فی الحال مال پاس نہ ہونا، یا مستحقین کا ہی موجود نہ ہونا عذر شمار ہوگا۔ بلا عذر تاخیر کی وجہ سے گنہگار ہوگا، اور فوراً اس کی قضاء لازم ہے۔
مسئلہ: واجب وقت میں تنگدست اور غریب آدمی پر فطرہ واجب نہیں ہے، چاہے بعد میں دولت آجائے۔ لیکن عید کا دن گذرنے سے پہلے ادائیگی کی قدرت ہوجائے تو ادا کرنا سنت ہے۔
مسئلہ: فطرہ کے مسئلہ میں غریب آدمی سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد کے لئے عید کے دن اور اس کے بعد والی رات کے کھانے پینے کے اخراجات ، مناسب کپڑے،مکان،خادم(بصور ضرورت و احتیاج)، قرض(چاہے موخر ہو اور صاحبِ قرض تاخیر سے متفق ہو) سے زائد مال نہ ہو، جو فطرہ میں ادا کرسکے۔
مسئلہ: جس کے پاس مذکورہ اخراجات سے زائد مال ہو اس پر فطرہ واجب ہے۔
نوٹ: فطرہ کے لئے زکوٰۃ کی طرح بقدر نصاب مال کی شرط نہیں ہے۔
وضاحت: مناسب کپڑے، مکان وغیرہ کہنے سے برعکس صورت نکل گئی، لہٰذا اگر کسی کا مکان اعلیٰ درجہ کا ہو جسے فروخت کر کے اپنے مناسب مکان حاصل کرنے کے بعد فطرہ کے کئے رقم بچ سکتی ہے تو یہ لازم ہے اگر کسی کے ذمہ سابقاً (پہلے ہی )فطرہ  واجب ہوچکا ہے تو اب ادائیگی کے لئے مکان فروخت کرے  نہ کہ لباس، کیوں کہ اس صورت میں یہ قرض کے حکم میں ہے۔ خادم کے احتیاج کا مطلاب اپنے یا زیر کفالت افراد کی خدمت کے لئے احتیاج ہے نہ کہ کھیتی باڑی میں کام کرنے یا جانوروں کی دیکھ ریکھ کا احتیاج۔
مسئلہ: کسی عورت کا شوہر غریب ہو تو شوہر پر اس کا فطرہ واجب نہیں ہے۔ اگر عورت کے پاس مال ہو تو اسے اپنا فطرہ ادا کرنا سنت ہے۔
مسئلہ: اگر عورت شوہر کی نافرمانی کرے اور نفقہ ساقط ہوجائے تو پھر عورت کو خود اپنا فطرہ ادا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: جو شخس فطرہ کی کچھ مقدار ادا کرسکتا ہو اسے وہ ادا کرنا لازم ہے تاکہ بقدر امکان واجب کی ادائیگی ہوسکے۔
مسئلہ: جو شخص چند صاع دے سکتا ہو تو پہلے اپنا فطرہ مقدم کرے، کیوں کہ مسلم شریف کی حدیث میں اپنی ذات سے ابتداء کا حکم موجود ہے کہ " پہلے اس پر(خود پر) صدقہ کرو پھر کچھ بچے تو اپنے اہل پر، مزید ہو تو دیگر رشتہ داروں پر" پھر بیوی کا فطرہ ادا کرے کیوں کہ اس کے اخراجات زیادہ تاکیدی ہیں ۔ پھر اپنے نابالغ بچہ کا فطرہ ادا کرے کہ اس کا نان نفقہ نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ پھر باپ،دادا ،نانا وغیرہ پھر ماں،دادی،نانی وغیرہ کا فطرہ پھر بالغ اولاد کا جبکہ اپہج یا پاگل ہوں۔
نوٹ:نفقہ میں ماں کو باپ پر مقدم کیا جاتا ہے، کیوں کہ نفقہ احتیاج کے پیش نظر ہے، اور ماں نسبتاً زیادہ محتاک ہے، اور فطرہ تطہیر (پاکی) اور شرف کے لئے ہے جس کا باپ زیادہ مستحق ہے، کیوں کہ بیٹا اسی کی طرف منسوب ہوتا ہے اور اس کے شرف کی وجہ سے مشرف ہوتا ہے۔






فطرہ کی مقدار
            ایک شخص کی طرف سے ایک صاع اناج ادا کرے جیسا کہ حدیث میں گذرا، حالیہ اوزان کے اعتبار سے ایک صاع تین لیٹر (تقریباً ۲ کلو ۴۰۰ گرام) کے برابر ہے۔(الفقہ المنھجی ۱/۲۳۰)
فطرہ کی جنس
مسئلہ: ایسا اناج جس میں عشر واجب ہوتا ہے جو صحیح  اور بے عیب ہو اور پنیر یا دودھ جن سے مکھن نکالا نہ گیا ہو۔
مسئلہ: ایسا عیب دار اناج جس میں خوراک بننے کی صلاحیت نہ ہو، اور جسے زیادہ دن رکھا نہ جاسکے اور گھن لگا ہوا اناج ، یا تر اناج فطرہ میں ناکافی ہے۔
مسئلہ: خشک ہو کر دوبارہ خوراک اور ذخیرہ کی صفت پر آچکا ہو تو کافی ہے۔
مسئلہ: اتنا قدیم اناج کہ اس کا مزہ یا رنگ یا بو بدل چکا ہو ناکافی ہے۔ قدیم سستا ہو لیکن تغیر نہ ہو تو کافی ہے۔
مسئلہ: جس کا فطرہ ادا کیا جارہا ہو اس کی بستی میں جو اناج سال بھر غالباً استعمال ہوتا ہو اس سے ادا کرنا واجب ہے۔
جیسا کہ اشیاء کی قیمت علاقہ کے سکّوں میں ادا کی جاتی ہے اورا سی اناج کی طرف لوگوں کا زیادہ میلان بھی ہوگا۔ لہٰذا علاقوں کے اعتبار سے واجب جنس مختلف ہوگی۔
مسئلہ: ادا کرنے والا اور جس کی جانب سے ادا کر رہا ہے دونوں الگ الگ مقام پر ہوں تو جس کا فطرہ ادا کیا جارہا ہے اس کی بستی کا اعتبار ہوگا اور وہیں کے فقراء کو دیا جائے گا۔(ادا کرنے والے کی بستی کا اعتبار نہ ہوگا)
مسئلہ: کسی جگہ مختلف اناج مستعمل ہوں اور کسی کو غلبہ نہ ہو تو اختیار ان میں سے جو چاہے ادا کرے ۔ البتو خوراک کی صلاحیت کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کا دینا افضل ہے، ان مختلف اناج میں کوئی غالب ہو تو وہی ادا کرے (اس سے کم درجہ جا جائز نہیں)
مسئلہ: ادنیٰ اناج واجب ہو تو اس کی جگہ اعلیٰ دینا جائز ہے، کیوں کہ اس میں خیر کی زیادتی ہے اس کے برعکس جائز نہیں ہے، کہ یہ حق سے کم ہے۔
مسئلہ: اعلیٰ اور ادنیٰ کی تعیین میں قیمت کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ اناج کے خوراک اور غذائیت کی صلاحیت کا اعتبار ہوگا۔ لہٰذا اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف اناج کی ترتیب اس طرح ہے
گیہوں،جَو،مکئی،چاول،چنا،اڑد،مسور،لوبیہ،کھجور،خشک انگور،پنیر،دودھ
تو گویا سب سے اعلیٰ گیہوں اور آخر میں دودھ کا درجہ ہے۔
مسئلہ: ایک کی جانب سے واجب اناج اور دوسرے کی طرف سے اعلیٰ نکالنا جائز ہے۔
مسئلہ: ایک ہی صاع جدا جنس سے نہیں ادا کرسکتا یعنی نصف صاع گیہوں اور نصف صاع چاول ادا کرے تو صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ: اگر کہیں گیہوں اور جَو ملاکر کھانے کا معمول ہو اور دونوں کی مقدار برابر ہو تو کسی کا بھی ایک صاع ادا کرے ایک زیادہ ہو تو وہ ادا کرے۔ مخلوط دینا کافی نہیں ہے۔
مسئلہ: سرپرست (ولی) اپنے مالدار ماتحت(زیر سرپرستی) کی جانب سے اپنے مال میں سے فطرہ ادا کرسکتا ہے کیوں کہ اسے اس پر ولایت حاصل ہے اور یہ براہِ راست اسے مالک بنانے پر قادر ہے۔ وہ مال دار ہے تو اصل وجوب اس کے مال میں ہے لہٰذا اس میں سے ادا کرنا بھی صحیح ہے۔
مسئلہ: اولاد رشید ہوں ( یعنی بالغ ہوں اور مالی تصرفات کی صحیح سدھ بدھ رکھتے ہوں) تو اس کی اجازت کے بغیر اس کی طرف سے فطرہ ادا کرنا جائز نہیں، اسی طرح کسی اجنبی کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ ادا کرنا جائز نہیں۔
مسئلہ: کوئی شخص کسی کے اخراجات مروتاً برداشت کر رہا ہو(شرعاً واجب نہ ہو) تو اس کا فطرہ اس شخص پر واجب نہیں ہے، اور اس کی اجازت کے بغیر ادا کرے تو ادا نہ ہوگا۔
مسئلہ: فطرہ میں قیمت،روٹی، ستو یا آٹا وغیرہ دینا کافی نہیں ہے۔(نہایۃ المحتاج ۳/۱۲۳)
            "الفقہ المنھجی" میں فرمایا: "امام شافعیؒ" کے مسلک کی رو سے قیمت ادا کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ بستی کے غالب اناج کا ہی ادا کرنا لازم ہے، البتہ دورِ حاضر میں امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کی اتباع کرتے ہوئے قیمت ادا کرنے میں حرج نہیں، کیوں کہ آج کل اناج کے مقابلہ میں قیمت فقیر کے لئے زیادہ نفع بخش اور اصل مقصود کے حصول میں بہتر ہے۔"(الفقہ المنھجی ۱/۲۳۰)

نوٹ:لیکن حتی الامکان حدیث کے مطابق اناج ہی دینے کی کوشش کریں اگر کسی جگہ اس پر عمل تقریباً ناممکن ہو تو بدرجہ مجبوری قیمت ادا کریں۔
یوٹیوب پر صدقۂ فطر کے متعلق مختصر مگر جامع بیان از مفتی محمد حسین قمر الدین ماہمکر فلاحی حفظہ اللہ



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں