منگل، 26 اپریل، 2016

کھانے پینے کے اذکار و آداب

کتاب اذکار الاکل والشرب
جب کسی کے کھانا قریب کیا جائے تو کیا کہنا چاہئے اس کا بیان:
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ نبی کریم ﷺ روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سے کھانا قریب کیا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے تھے:
" اللَّهُمَّ بارِكْ لَنا فِيما رَزَقْتَنا، وَقِنا عَذَابَ النَّارِ، بسم الله ".(رواہ ابن السنی)
کھانا پیش کرنے کے وقت مستحب ہے میزبان کے لئے کے وہ اپنے مہمانوں سے کہا: کھائیے یا اسی طرح جو اس معنیٰ میں ہو۔
            جان لو کے مستحب ہے کھلانے والے کے لئے کہ وہ اپنے مہمانوں سے کہے کھانا پیش کرتے وقت: بسم اللہ یا کھائیے، یا الصلاۃ(اجازت ہے) یا اسی طرح واضح اجازت کی عبارت کہیں کھانا شروع کرنے میں، اور واجب نہیں ہے یہ کہنا بلکہ صرف ان کی طرف کھانا پیش کرنا کافی، اور ان کو چاہئے خالی اس میں سے کھائیں بغیر کسی شرطیہ الفاظ کے، اور ہمارے بعض اصحاب نے فرمایا: کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، پہلا قول صحیح ہے۔
651 احادیث صحیحہ میں جو اجازت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اس معاملہ میں ان کو استحباب پر محمول کریں گے۔
کھاتے اور پیتے وقت بسم اللہ پڑنے کا بیان
652۔ عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے فرمایا: اللہ کا نام لو(یعنی بسم اللہ کہو) اور سیدھے ہاتھ سے کھاؤ۔(بخاری و مسلم)
653۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو چاہئے کے اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ کا نام لے، پس اگر وہ شروع میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائے تو چاہئے کے وہ کہے: امام ترمذی نے فرمایا: بسم اللَّهِ أوَّلَهُ وآخِرَهُ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ابو داود و ترمذی)
654۔ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
جب تم میں سے کوئی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے پھر اللہ کا ذکر کرتا ہے اپنے داخل ہوتے وقت اور اپنے کھانے کے وقت، شیطان کہتا ہے: نہ تمہارے رات گذارنے کی جگہ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا ہے، اور جب داخل ہوتا ہے پھر اللہ کا ذکر نہیں کرتا اپنے داخل ہوتے وقت، شیطان کہتا ہے: تم میں رات گذارنے کی جگہ پالی ہے، اور جب اپنے کھانے کے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا ہے، شیطان کہتا ہے: تم نے رات گذارنے کی جگہ اور رات کا کھانا پالیا ہے۔(مسلم)

655۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت جو اللہ کے رسول ﷺ کے معجزاتِ میں سے ایک  واضح معجزہ ہے، جب آپ ﷺ کو ابو طلحہ اور ام سُلیم رضی اللہ عنہما نے کھانے کے لئے بلایا، فرمایا: آپ ﷺ نے فرمایا: دس لوگوں کی اجازت دو، تو ان کی اجازت دی تو وہ سب داخل ہوئے، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کھا‍ؤ اور اللہ تعالیٰ کا نام لو، تو ان سب نے کھایا یہاں تک کہ ایسا ۸۰ لوگوں نے کیا۔"(صحیح مسلم)
(کتاب الاذکار للنوویؒ)
جاری

تفسیر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم

الام: باب (التعوذ بعد الافتتاح)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اللہ تعالی نے فرمایا: "سو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔"
(سورہ النحل 98)
 ہمیں ربیع نے خبر دی ، انہیں امام شافعی نے وہ فرماتے ہیں ہمیں ابراھیم بن محمد نے خبر دی وہ سعد بن عثمان سے روایت کرتے ہیں وہ صالح بن ابو صالح سے، انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کو سنا وہ لوگوں کی امامت کر رہے تھے جھراَ  فرائض میں یہ دعا پڑھتے تھے (جب وہ سورہ فاتحہ سے فارغ ہوتے تھے)
ربنا إنا نعوذ بك من الشيطان الرجيم
ترجمہ:"اے ہمارے پروردگار ہم تیری پناہ  اور حفاظت میں آتے ہیں شیطان مردود سے بچنے کے لئے۔"
-(یعنی ضمّی سورہ سے پہلے پڑھتے تھے)

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہما تعوّذ اپنے دل میں پڑہتے تھے یعنی سراً۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: آدمی دونوں میں سے جو بھی کرے صحیح ہے، چاہے جھراً کہے یا سراً۔
اور ان میں سے بعض تعوّذ نماز کے شروع میں پڑھتے تھے یعنی سورہ فاتحہ سے پہلے، اور میں(امام شافعی)  بھی یہی کہتا ہوں۔ اور مجھے پسند ہے کے کہا جائے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
اور جب اللہ سے پناہ مانگے شیطان مردود سے تو جس کلام سے بھی پناہ لے وہ جائز ہے۔
اور وہ اسے کہے پہلی رکعت میں۔
اور کہا جاتا ہے: اگر اسے یعنی تعوّذ کو ہر رکعت کے شروع میں قراۃ سے پہلے پڑھا جائے  تو بہتر ہے، اور اس بارے میں نماز میں کسی بات کا حکم نہیں دیا جاتا، میں اسے پہلی رکعت میں پڑھنے کا حکم دیتا ہوں۔
اگر تعوّذ  پڑھنا چھوڑ دے بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے یا عمداً تو اس کے اعادے (لوٹانے) کی ضرورت نہیں اور نہ ہی سجدہ سہو کی ضرورت ہے۔ اور میں عمداً چھوڑنے کو نہ پسند کرتا ہوں۔ اور میں پسند کرتا ہوں کے اگر کوئی اسے یعنی تعوّذ کو پہلی رکعت میں چھوڑ دے تو اسے دوسری رکعات میں پڑھ لے، اور مجھے اس کے اعادہ کا حکم دینے سے یہ حدیث منع کر  رہی ہے: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کو نماز میں جو چیزیں  کافی ہے وہ سکھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تکبیر کہو پھر ام قرآن(سورہ فاتحہ) پڑھو۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث۔
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو تعوّذ کا اور نہ ہی افتتاح کا، تو یہ دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افتتاح اختیاری تھا، اور اگر تعوّذ کو چھوڑا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

مختصر مزنی:
باب صفۃ الصلاۃ
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: دعا استفتاح پڑھنے کے بعد – پھر تعوّذ پرھے تو کہے:
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
پھر ترتیل کے ساتھ امّ قرآن یعنی سورہ فاتحہ پڑھے۔
احکام القرآن:
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ تعالی نے فرمایا :
سو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو(سورہ النحل 98)
شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اور مجھے پسند ہے کے میں پڑھوں جب نماز شروع کروں امّ القرآن سے پہلے
 أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ۔۔۔
اور جو کوئی بھی کلام ہو جس سے پناہ لی جائے (شیطان مردود سے اللہ کی) تو وہ جائز ہے۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ان اسناد کو املاء کراتے  ہوئے: پھر شروع کرے پھر تعوّذ پڑھے اور کہے:
أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم
یا

أعوذ بالله أن يحضرون.
( تفسير الإمام الشافعي)

نماز جنرل معلومات(متن ابی شجاع)

فرائض کی  سترہ رکعتیں ہیں اس میں ۳۴سجدہ ہیں اور ۹۴ تکبیرات ہیں اور نو تشہدات ہیں اور دس سلام ہیں اور ۱۵۳ تسبیحات ہیں اور نماز کے جملہ ۱۲۶ ہیں اور رباعیات( چار رکعات والی نمازوں) میں ۵۴ ارکان ہیں۔

جو شخص فرض نماز میں قیام سے عاجز ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے اور جو بیٹھنے سے عاجز ہو وہ پہلو پر لیٹ کر نماز پڑھے۔

جن چیزوں سے نماز باطل ہو جاتی ہے (متن ابی شجاع)

جن چیزوں سے نماز باطل ہو جاتی ہے وہ گیارہ ہیں:
۱۔عمداً کلام کرنا
۲۔عملِ کثیر،
۳۔حدث (بے وضو ہونا)،
۴۔نجاست کا لگ جانا،(حدوث النجاسۃ)،
۵۔ ستر کا کھلنا،
۶۔نیت کا بدل جانا،
۷۔ قبلہ کو پیٹھ کرنا،
۸۔ کھانا
۹۔پینا
۱۰۔ قہقہہ لگانا اور

۱۱۔ مرتد ہونا

مرد و عورت کی نماز میں فرق (متن ابی شجاع)

عورت پانچ چیزوں میں مرد سے الگ کرے گی۔
۱۔ مرد اپنی کہنیوں کو اپنے پہلؤوں سے الگ رکھے گا
۲۔ اپنے پیٹ کو اپنی ران سے الگ رکھے گا رکوع اور سجدوں میں
۳۔ جہری نمازوں میں جہر کرے گا،
۴۔ اور جب نماز میں کسی چیز سے متنبہ کرنا ہو تو تسبیح کہنا ۔
۵۔ مرد کا ستر ناف اور گھٹنوں کے درمیان ہے۔
اور عورت اپنے بعض حصہ کو بعض سے ملائے گی اور اجنبی (نا محرم)مردوں کی موجودگی میں اپنی آواز کو پست رکھے گی، اور جب کسی کو متنبہ کرنا ہو تو تصفیق کرے گی(یعنی دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مارے گی)

اور پورا جسم آزاد عورت کا ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے اور باندی کے احکام مرد کی طرح۔

نماز کے ارکان، شرائط اور سنتیں (متن ابی شجاع)

نماز میں داخل ہونے سے پہلے اس کی شرطیں پانچ ہیں

۱۔ اعضاء کا پاک ہونا حدث اور نجاست سے،
۲۔ ستر کا چھپانا پاک لباس سے،
۳۔ پاک جگہ پر ٹھہرنا،
۴۔ وقت کے داخل ہونے کا علم ہونا اور
۵۔ قبلہ کی  طرف رخ کرنا۔
دو حالتوں میں قبلہ کی طرف رخ نہ کرنا جائز ہے،
۱۔ شدتِ خوف کے وقت اور
۲۔ سفر میں سواری پر نماز پڑھنے کے وقت۔
فصل:

نماز کے ارکان اٹھارہ ہیں:

۱۔نیت،
۲۔قیام پر قدرت ہونے پر قیام کرنا،
۳۔ تکبیرِ تحریمہ،
۴۔ سورہ فاتحہ کا پڑھنا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے،
۵۔رکوع کرنا  ،
۶۔رکوع میں اطمینان،
۷۔رکوع سے اٹھنا اور
۸۔قومہ میں اعتدال اور اطمینان
۹۔سجدےکرنا اور
۱۰۔سجدوں میں اطمینان،
۱۱۔ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور
۱۲۔ان میں اطمینان،
۱۳۔آخری رکعت  میں بیٹھنا ،
۱۴۔آخری قاعدے میں تشہد پڑھنا،
۱۵۔آخری قاعدے میں نبی ﷺ پر درود پڑھنا،
۱۶۔  پہلا سلام اور
۱۷۔(سلام کے وقت)نماز سے نکلنے کی نیت کرنا اور
۱۸۔ ارکان کی ترتیب جیسا کہ ہم نے ان کو ذکر کیا۔

نماز میں داخل ہونے سے پہلے کی دو سنتیں ہیں

۱۔ اذان اور
۲۔ اقامت۔

نماز میں داخل ہونے کے بعد دو سنتیں ہیں

۱۔ پہلا تشہد اور
۲۔ دعاء قنوت فجر کی نماز میں اور رمضان کے آخری نصف میں وتر میں۔

نماز کی ہیئت میں پندرہ چیزیں ہیں

۱۔دونوں ہاتھوں کا اٹھانا تکبیرِ تحریمہ کے وقت،
۲۔رکوع  جاتے وقت اور

۳۔رکوع سے اٹھتے وقت
۴۔دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا
۵۔توجہ(دعاء استفتاح پڑھنا)،
۶۔تعوذ پڑھنا،
۷۔ جہری نمازوں میں جہر اور سری نمازوں میں سراً پڑھنا
۸۔آمیں کہنا،
۹۔سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنا
۱۰۔ اٹھتے اور جھکتے وقت تکبیر کہنا،
۱۱۔ سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد کہنا
۱۲۔ رکوع اور سجدوں میں تسبیحات پڑھنا
۱۳۔ دونوں رانوں پر دونوں ہاتھ رکھنا قاعدوں میں بائیں ہاتھ کو کھلا رکھنا اور داہنے ہاتھ کو بند رکھنا سوائے مسبّحہ(شہادت کی انگلی کے) کیوں کہ اس سے  گواہی دیتے ہوئے اشارہ کریں گے۔
۱۴۔ تمام قاعدوں میں مفترش بیٹھنا اور آخری قاعدے میں متورک بیٹھنا اور
۱۵۔ دوسرا سلام۔



نماز کا بیان (متن ابی شجاع)

(کتاب الصلاۃ )نماز کا بیان
            پانچ نمازیں فرض ہیں:
۱۔ظہر
اور ظہر کا اول وقت سورج کا زوال ہے اور اس کا آخری وقت جب ہر چیز کا سایہ زوال کے وقت کے سایہ کے بعد اس کے برابر ہوجائے ۔
۲۔عصر
اور عصر کا اول وقت چیز  کے سایہ پر اضافہ ہونا ہے اور آخری وقت اختیار میں سایہ کا دگنا ہونا ہے، اور جواز میں سورج کے غروب ہونے تک ہے۔
۳۔ مغرب
اور مغرب کا  ایک ہی وقت ہے اور وہ سورج کا غروب ہونا ہے اور اذان دینا،وضو کرنا،ستر کا ڈھانکنا،نماز کا قائم کرنا اور پانچ رکعت کا ادا کرنا ہے۔
۴۔ عشاء اور
اور عشاء کا اول وقت جب شفق احمر غائب ہوجائے اور اس کاآخری اختیاری وقت ایک تہائی(۱/۳) رات تک ہوتا ہے اور جوازی وقت طلوعِ فجر ثانی تک رہتا ہے۔
۵۔ فجر
            اور فجر کا اول وقت طلوعِ فجرِ ثانی ہے اور اس کا آخری اختیاری وقت اسفار تک ہے اور جوازی وقت سورج طلوع ہونے تک ہے۔
فصل:
نماز کے واجب ہونے کی تین شرطیں ہیں
۱۔اسلام،
۲۔ بالغ ہونا اور
۳۔ عقل کا ہونا
اور یہ مکلف ہونے کی حد ہے۔
مسنون نمازیں پانچ ہیں:
۱،۲۔عیدین
۳،۴۔سورج و چاند گہن
۵۔ استسقاء
اور فرائض کے تابع مسنون نمازیں ۱۷  رکعتیں  ہیں
۱۔ دو رکعت فجر سے پہلے،
۲۔چار رکعت ظہر سے پہلے
۳۔دو رکعت ظہر کے بعد،
۴۔چار رکعت عصر سے پہلے،
۵۔دو رکعت مغرب کے بعد،
۶۔ تین رکعت عشاء کے بعد اور وتر ان میں ایک رکعت سے ادا کریں گے۔
اور تین نفل مؤکد ہیں
۱۔ تہجد کی نماز،
۲۔چاشت /اشراق کی نماز اور
۳۔ تراویح کی نماز۔


جنبی و محدث پر کیا حرام ہے(متن ابی شجاع)

جنبی شخص پر پانچ چیزیں حرام ہیں:
۱۔نماز،
۲۔قرآن کی تلاوت کرنا ،
۳۔اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا،
۴۔طواف کرنا اور
۵۔مسجد میں ٹھرنا
محدث (بے وضو) پر تین چیزیں حرام ہیں:
۱۔ نماز ،
۲۔ طواف اور

۳۔قرآن کو چھونا اور اٹھا لیجانا

حیض و نفاس کے مسائل (متن ابی شجاع)

فرج سے تین خون نکلتے ہیں:
۱۔ حیض کا خون،
۲۔ نفاس کا اور
۳۔ استحاضہ کا خون
پس حیض وہ عورت کے فرج سے نکلنے والا خون ہے، صحت کے راستہ سے بغیر سببِ ولادت،ولونه أسود محتدم لذاع  اور اس کا رنگ کالا سخت گرم ہوتا ہے،
اور نفاس وہ ولادت کے بعد نکلنے والا خون ہے۔
اور استحاضہ وہ ایامِ حیض و ایامِ نفاس کے علاوہ نکلنے والا خون ہے۔
حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور اس کی غالب(عام) مدت چھ یا سات دن ہے۔
اور نفاس کی کم سے کم مدت  ایک آن ہے۔ اور اس کی اکثر مدت ساٹھ دن ہے اور غالب مدت چالیس دن ہے۔
اور طہر کی کم سے کم مدت دو حیضوں کے درمیان کی مدت ہے اور وہ پندرہ دن ہے، اور اس کی اکثر مدت کی کوئی حد نہیں۔
اور کم سے کم  عمرجس میں عورت کو حیض آتا ہے وہ نو سال ہے۔
اور کم سے کم حمل کی مدت چھ مہینہ ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چار سال ہے، اور غالب مدت نو مہینہ ہے۔
حیض اور نفاس سے  آٹھ چیزیں حرام ہوتی ہیں:
۱۔نماز،
۲۔روزہ،
۳۔قرآن کریم کی تلاوت،
۴۔ قرآن کو چھونا اور اس (قرآن) کو اٹھانا /لے جانا
۵۔ مسجد میں داخل ہونا،
۶۔ طواف کرنا
۷۔وطی(جماع )کرنا اور
۸۔ ناف اور گھٹنے کے درمیان لطف اندوز ہونا۔



خفین پر مسح کے مسائل( متن ابی شجاع)

تین شرائط کے ساتھ خفین پر مسح کرنا جائز ہے :
۱۔ مکمل طہارت پر ان پر مسح شروع کیا ہو،
۲۔ دونوں پیروں کے (وضو کی )فرض جگہ کو وہ دونوں ڈھانپے ہو اور
۳۔ ان دونوں پر مستقل چلا جاسکتا ہو۔
مقیم ایک دن اور ایک رات مسح کرے گا اور مسافر تین دن اور تین راتیں مسح کرے گا۔
خفین کے پہننے کے بعد جب حدث (وضو ٹوٹے) ہو اس وقت سے مسح کی مدت کی شروعات ہوگی۔
پس اگر حضر میں مسح کرے پھر سفر کرے یا  سفر میں مسح کرے پھر مقیم ہوجائے تو مقیم کی مدت (یعنی ایک دن اور ایک رات) مکمل کرے گا۔
خفین پر مسح  تین چیزوں سے باطل ہوتا ہے:
۱۔ ان دونوں کو اتارنے سے،
۲۔ مدت مکمل ہونے پر اور

۳۔ اس چیز سے جو غسل واجب کرے۔

غسل کا طریقہ( متن ابی شجاع)

چھ چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے، تین چیزوں میں مرد اور عورتیں مشترک ہیں اور وہ یہ ہیں:
۱۔ ختان کا ملنا یعنی جماع کرنا،
۲۔ منی کا نکلنا، اور
۳۔ موت
اور تین چیزیں عورتوں کے ساتح خاص  ہیں
۱۔ حیض، ۲۔ نفاس اور ۳۔ ولادت
فصل:
غسل کے فرائض تین ہیں:
۱۔ نیت کرنا،
۲۔ اپنے بدن پر اگر کوئی نجاست ہو تو اس کا دور کرنا
۳۔ پورے جلد اور بالوں تک پانی کا پہنچانا۔
            اور غسل کی پانچ سنتیں ہیں:
۱۔ بسم  اللہ پڑھنا،
۲۔ غسل سے پہلے وضو کرنا ،
۳۔ ہاتھ کو جسم پر  بارہا پھرانا یعنی ملنا/رگڑنا،
۴۔ پے در پے کرنا
۵۔ دائیں کو بائیں سے پہلے دھونا
فصل:
مسنوں غسل سترہ ہیں:
۱۔ جمعہ کا غسل،
۲۔عیدین کا غسل،
۳۔استسقاء کا،
۴۔چاند گہن کا،
۵۔سورج گہن کا،
۶۔ میت کو غسل دینے والے کا غسل ،
۷۔ کافر جب اسلام قبول کرے،
۸،۹۔ مجنون اور بےہوش جب ان کو افاقہ ہوجائے
۱۰۔ احرام کے وقت غسل،
۱۱۔ دخول مکہ کے لئے،
۱۲۔ وقوفِ عرفہ کے لئے،
۱۳۔مزدلفہ میں رات گذارنے کے واسطے،
۱۴۔ تینوں رمی جمار کے لئے،
۱۵۔ طوافکے لئے،
۱۶۔ سعی کے لئے،

۱۷۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے

نواقضِ وضو(متن ابی شجاع)

چھ چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
۱۔ جو کچھ سبیلین(دونوں شرمگاہوں )سے نکلے،
۲۔ غیر متمکن ہیئت پر سونا،
۳۔ عقل کا زائل ہونا نشہ یا بیمار کی وجہ سے
۴۔ نا محرم عورت کو بغیر کسی حائل کپڑے کے چھونا
۵۔ ہتھیلی کے اندرونی حصہ سے آدمی کا شرمگاہ اور

۶۔ اپنے دبر(سرین)  کے دائرہ کو چھونا جدید قول کے مطابق

استنجاء (متن ابی شجاع)

پیشاب اور پائخانے سے استنجاء  کرنا (صفائی کرنا) واجب ہے۔
افضل یہ ہے کہ استنجاء پتھروں سے کرے پھر اس کے بعد پانی سے، اور استنجاء میں صرف پانی پر اکتفاء کرنا بھی جائز ہے، یا تین پتھروں پر جس سے طہارت کی جگہ کو صاف کرنے پر اکتفاء کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ جب دونوں میں سے ایک پر اکتفاء کرنا چاہے تو پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے۔
صحراء(کھلے  میدان) میں قبلہ کی جانب چہرہ اور پیٹھ کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اور رکے ہوئے پانی ، پھل دار درخت،راستہ میں ، سائے میں اور سوراخ میں پیشاب اور پائخانہ نہ کرے ۔
پیشاب اور پائخانہ کرتے وقت گفتگو نہ کرے۔

اور نہ ہی سورج و چاند کی طرف رخ کرے اور نہ پیٹھ۔

وضو(متن ابی شجاع)

مسواک ہر حال میں مستحب ہے  سوائے روزہ دار کے لئے زوال کے بعد۔
اور مسواک کرنا تین جگہوں میں بہت زیادہ مستحب ہے:
۱۔ بہت دیر خاموش رہنے  وغیرہ  سے منہ کا بدل جانا،
۲۔ نیند سے بیدار کے بعد اور
۳۔نماز کے لئے اٹھنے کے وقت۔
فصل: وضو کے چھ فرائض ہیں:
۱۔ چہرہ دھوتے وقت نیت کرنا،
۲۔ چہرہ دھونا
۳۔دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا،
۴۔ سر کے کچھ حصہ کا مسح کرنا،
۵۔ دونوں پیروں کا ٹخنوں سمیت  دھونا اور
۶۔  جیسا ہم نے (فرائض ) ذکر کئے ہیں اسی ترتیب سے کرنا۔
اور اس کی سنتیں دس چیزیں ہیں
۱۔ بسم اللہ پڑھنا،
۲۔ دونوں ہتھیلیوں کا برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھونا،
۳۔کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا،
۴۔ پورے سر کا مسح کرنا،
۵۔ دونوں کانوں کا  کے ظاہر اور اندرونی حصہ کا نئے پانی سے مسح کرنا،
۶۔ گھنی داڑھی کا خلال کرنا
۷۔ ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرنا،
۸۔ دائیں کو بائیں پر مقدم کرنا،
۹۔ وضو تین تین مرتبہ کرنا اور

۱۰۔ پے در پے کرنا

کتاب الطہارت (متن ابی شجاع)

کتاب الطہارت
وہ  پانی جس سے طہارت جائز ہے ساتھ ہے:
۱۔آسمان کا پانی
۲۔سمندر کا پانی،
۳۔نہر کا پانی،
۴۔کنویں کا پانی
۵۔چشمہ کا پانی،
۶۔برف کا پانی،
۷۔اولے کا پانی۔
پھر پانی کی چار قسمیں ہیں:
۱۔طاہر مطہر غیر مکروہ، اور یہ ماء مطلق ہے۔
۲۔طاہر مطہر مکروہ اور یہ ماء مشمس ہے۔
۳۔طاہر غیر مطہر اور یہ ماءِ مستعمل ہے اور پاک چیزوں سے مل کر متغیر ہونے والا پانی ہے اور
۴۔ نجس پانی ہے۔ اور یہ وہ پانی ہے جس میں نجاست مل گئی ہو اور وہ دو قلّہ پانی سے کم ہو یا دو قلہ ہو۔
نوٹ:- دو قلہ پانی تقریباً  پانچ سو بغدادی رطل ہیں ۔
فصل:
اور مردار کی جلدیں دباغت سے پاک ہوجاتی ہیں سوائے کتے اور خنزیر کی جلد، اور جو ان دونوں سے یا ان دونوں میں سے ایک سے پیدا ہوا ہو۔
مردار کی ہڈی اور اس کا بال نجس ہے سوائے آدمی کہ۔
فصل:-
 سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
اور ان دونوں کے علاوہ برتن استعمال کرنا جائز ہے۔



[1]

صفة الصلاۃ 2

۳۱۶۔ ابن عباس رضی ا للہ  عنہ سے مروی ہے فرمایا: نبی کریم ﷺ جب کھڑے ہوتے نماز کے لئے تو اپنے سجدوں کی جگہ ہی دیکھتے تھے۔
اس کو ابن عدی نے روایت کیا اور فرمایا اس میں علی بن ابی علی القرشی ہے اور وہ مجھول، منکر الحدیث ہے۔
۳۱۷۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک آدمی نماز پڑھتا ہے اور شاید اس کو نہیں ہوتا اس (نماز) سے مگر دسواں حصہ یا نواں حصہ یا آٹھواں حصہ یا ساتواں حصہ یا چھٹواں حصہ یہاں تک کے آپ ﷺ نے آخری عدد تک شمار فرمایا۔"
اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور فرمایا اس کی سند متصل ہے۔ اور ابن السکنؒ  نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
نوٹ:  تحفہ میں آخر میںحَتَّى أَتَى عَلَى الصَّلَاة ہے
۳۱۸۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ اس کی نماز ہے، پس اگر وہ مکمل ہے (تو ٹھیک ہے)ورنہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: دیکھو میرے بندے کی کوئی نفل نمازیں ہیں کیا پس اگر وہ اس کی (نفل) پائیں گے (تو اللہ تعالیٰ )فرمائیں گے: ان (نوافل)کے ذریعہ (اسکے) فرائض کو مکمل کرو ۔
اس کو نسائی نے روایت کیا ہے صحیح سند کے ساتھ۔ اور امام ترمذی نے دوسری سند سے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور فرمایا حسن۔
امام حاکمؒ نے فرمایا: سند صحیح ہے، فرمایا: اور اس حدیث کی شاہد ہے جو مسلم کی شرط پر ہے پس اس حدیث کو تمیم داری رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا۔
۳۱۹۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اس کو مرفوع بیان کرتے ہیں: جب تم میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہو تو وہ اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے۔
اس کو ابن عدی نے مصعب بن سعید المصیصی کے ترجمہ میں ذکر کیا، اور فرمایا: یہ ثقہ راویوں سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے، اور ان پر تصحیف کرتا ہے، اس  نے موسی بن اعین  سے روایت کیا وہ لیث  سے انہوں نے طاووس سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کیا ہے ،فرمایا: اس میں موسیٰ لیث سے روایت کرنے میں متفرد ہے۔
۳۲۰۔ ابو حازم سلمہ بن دینار سے مروی ہے وہ سہل بن سعد سے روایت کرتے ہیں فرمایا:  لوگوں کو حکم دیا جاتا کہ آدمی نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کی ذراع پر رکھیں۔ ابو حازم فرماتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں مگر یہ کہ اس کو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف مرفوع کیا جاتا ہے۔
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۳۲۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے جب نماز میں داخل ہوئے پھر اپنے کپڑے کو اوڑھا   پھر اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۲۲۔ انہی سے مروی ہے ، نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے پس آپ ﷺ نے قبلہ کی جانب رخ فرمایا پھر تکبیر فرمائی پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ وہ دونوں کانوں کے برابر ہوگئے پھر اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،گٹے اور کلائی کی پشت پر رکھا۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔
۳۲۳۔ اور انہی سے مروی ہے میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پس آپ ﷺ نے اپنے دایاں ہاتھ اپنے بائیں  ہاتھ پر  اپنے سینے رکھا۔
اس کو ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
۳۲۴۔ ھلب بن یزید بن قنافہ الطائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تھے پس اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حسن ہے۔ اور ابن السکنؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
۳۲۵۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جان لو! بے شک مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پرھنے سے منع کیا گیا ہے، پس جہاں تک رکوع کی بات ہے  اس میں رب کی بڑائی بیان کرو اور سجدے میں تو اس میں خوب دعاء  کرو قریب ہے کہ تمہاری دعاء قبول کی جائے۔ (اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔)
۳۲۶۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس اس میں کثرت سے دعاء کرو۔
ان دونوں روایتوں کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۲۷۔ ایوب سے مروی ہے وہ ابو قلابہ عبد اللہ بن زید سے روایت کرتے ہیں فرمایا:  ہمارے پاس مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ آئے تو ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، تو فرمایا: میں تمہیں نماز پڑھا رہا ہوں اور میں نماز پڑھانا نہیں چاہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمہیں دکھلاؤں کیسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ایوب کہتے ہیں تو میں نے ابو قلابہ سے کہا : ان کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ (ابو قلابہ نے)  کہا: ہمارے ان شیخ یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، ایوب نے کہا: اور شیخ(عمرو بن سلمہ) تکبیر مکمل کرتے اور جب دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے بیٹھتے اور زمین پر سہارا لیتے پھر کھڑے ہوتے۔
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۳۲۸۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے زیادہ لمبی فرماتے۔
متفق علیہ جیسا کہ باب کے شروع میں گذر چکا ہے۔
۳۲۹۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تین مرتبہ استغفار کہتے، اور فرماتے: اللَّهُمَّ أَنْت السَّلَام ومنك السَّلَام تَبَارَكت ذَا الْجلَال وَالْإِكْرَام
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور اس میں بہت سی حدیثیں ہیں۔
۳۳۰۔ سائب بن اخت نمر سے مروی ہے فرمایا: میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز مقصورہ میں پڑھی پھر جب امام نے سلام پھیرا ،میں  اپنی جگہ پر کھڑا ہوا پھر نماز(سنت) پڑھی، پس جب (معاویہؓ اپنے گھر میں) داخل ہوئے ، مجھے بلا بھیجا، پھر فرمایا: جو تم نے کیا ہے پھر نہیں کرنا، جب جمعہ کی نماز پڑھو تو اس کو نہ ملاؤ دوسری نماز سے یہاں تک کہ کچھ گفتگو کرلو یا  نکل جاؤ(ہٹ جاؤ اس جگہ سے) کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ اس کا ہمیں حکم فرمایا ہے کہ  کوئی نماز کسی نماز سے نہ ملائیں یہاں تک کہ ہم بات کرلیں یا اس جگہ سے ہٹ جائیں۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے، بہرحال حاکم نے تو انہوں نے اس کی تخریج کی اور فرمایا: یہ صحیح ہے شیخین کی شرط پر لیکن ان دونوں نےا سکی تخریج نہیں کی۔
۳۳۱۔ ابراہیم بن اسماعیل سے مروی ہے وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی عاجز ہے کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے ہٹے یا اپنے دائیں جانب جائے  یا بائیں جانب جائے نماز میں یعنی نفل میں۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور اس کو ضعیف نہیں کہا، اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔
اور ابراہیم جو اس سند میں ہے، ابو حاتم نے فرمایا: مجہول ہے، اور ان کے علاوہ دوسروں نے دین دار کی تعریف کی۔ اور بخاری نے کہا: یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔
اور اپنی صحیح میں کہا: ابو ہریرہ سے مرفوع روایت ذکر کی جاتی ہے: اپنی جگہ پر امام کی نفل نماز نہیں ہوتی اور وہ روایت صحیح نہیں ہے۔
۳۳۲۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: اپنی (نفل) نمازوں کو اپنے گھروں میں پڑھو اور  اپنے گھروں کو مردہ مت بنالو۔
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور مسلم کی روایت میں ہے:تم  پر لازم ہے نماز اپنے گھروں میں کیوں کہ آدمی کی فرض کے علاوہ نماز اپنے گھر میں زیادہ بہتر ہے۔
اور ابو داود کی ایک روایت میں ہے صحیح سند سے: مرد کا فرض کے علاوہ نماز اپنے گھر میں  پڑھنا میری اس مسجد میں پڑھنے سے افضل ہے۔
۳۳4۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا:اللہ کے رسول ﷺ جب سلام پھیرتے ، عورتیں کھڑی ہوجای جب آپ ﷺ اپنا سلام مکمل کرتے اور آپ ﷺ اٹھنے سے پہلے تھوڑا رکتے۔
ابن شہاب نے کہا: میں سمجھتا ہوں  کہ آپ ﷺ کا رکنا اس لئے تھا تاکہ عورتیں آگے نکل جائیں اس سے پہلے کہ مردوں میں سے کوئی ان کو پالے جو نماز سے فارغ ہوا ہے۔، واللہ اعلم۔
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
اور ایک بخاری کی روایت میں ہے: پس جب اللہ کے رسول ﷺ اٹھتے تو صحابہ کرامؓ اٹھتے۔
اور بخاری میں ایک معلق روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ کے نماز سے اٹھنے سے پہلے عورتیں اپنے گھروں میں داخل ہوجایا کرتی تھیں۔
۳۳۵۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے فرمایا: تم میں سے کوئی خود پر شیطان کا کوئی حصہ نہ بنا لے، وہ نہ دیکھے مگر اس پر حق ہے کہ  وہ نہ پلٹے مگر دائیں جانب، جو میں نے بہت زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کودیکھا ہے وہ (دائیں جانب پلٹتے تھے) بائیں جانب (کے مقابلہ میں) سے۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور بخاری کی روایت میں ہے: یقیناً میں نے نبی کریم ﷺ کو بائیں  سے زیادہ ہٹھتے ہوئے دیکھا  ہے
۳۳۶۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو زیادہ دائیں جانب پلٹتے ہوئے دیکھا۔

اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج (على ترتيب المنهاج للنووي)