اتوار، 22 مئی، 2016

کیا عمداً نماز چھوڑنے والا نماز قضاء کرے گا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قضاء نماز
نماز ہر مسلمان پر وقتِ مقررہ پر فرض ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں   إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ( سورة النساء آیت 103)، نیز نمازوں کو وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کی تاکید بہت سی احادیث میں آئی ہے، ایک حدیث میں آپ ﷺ نے سب سے افضل عمل نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا فرمایا ہے۔(سنن الترمذی حدیث 173)، نیز نمازوں کو چھوڑنے پر اللہ کے رسول ﷺ نے بہت سی وعیدیں بیان فرمائی ہیں ، ایک حدیثِ پاک میں ہےکہ بندے  اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے(مسند احمد 14979)، نیز ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو متعمداً(جان بوجھ کر) نماز چھوڑتا ہے  اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوجاتا ہے(مسند احمد 22075)۔ اس لئے ایک مسلمان کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ نماز کو اپنے اوقات پر ادا کرے، اور ان سے غافل نہ رہے۔ لیکن بھول کر یا نیند کی وجہ سے یا لا علمی میں جو نمازیں چھوٹ جاتی ہیں ان کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟ کیا ہم صرف توبہ و استغفار کریں گے یا ان کو قضاءبھی کریں گے؟ اس کی تفصیل ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: "مَنْ نَسِىَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلاَّ ذَلِكَ". {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِى} (صحیح البخاری حدیث 597)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو نماز کو بھول جائے تو چاہئے کہ وہ اس کو پڑھے جب اسے یاد آجائے، اس کا کفارہ صرف یہی ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتےہیں) قائم کرو نماز کو میرے ذکر کے لئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 597)
          علامہ ابن الملقن ؒ(متوفیٰ 804ھ) نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثم الحديث دال عَلَى وجوب القضاء عَلَى النائم والناسي، كثرت الصلاة أو قلت، وهذا مذهب العلماء كافة .......
یہ حدیث سونے والے اور بھولنے والے  پر  نماز کی قضاء  کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے ، اور یہی تمام علماء کا مذھب ہے۔
 پھر آگے چل کر ابن ملقن  ؒ فرماتے ہیں:
فإن تركها عامدًا فالجمهور عَلَى وجوب القضاء أيضًا إلا ما حكي عن داود وجمع يسير ........
 اگر جان بوجھ کر چھوڑے تو جمہور علماء بھی اس پر قضاء کے واجب ہونے کے قائل ہیں سوائے چند کہ جو داود اور تھوڑے لوگوں کے بارے میں مروی ہے۔
آگے چل کر فرماتے ہیں:
احتج الجمهور بالقياس عَلَى الناسي، وهو من باب التنبيه بالأدنى عَلَى الأعلى، ومن نفي القياس فغير معتد بخلافه، وقد قَالَ - صلى الله عليه وسلم -: "فليصلها إذا ذكرها" والعامد ذاكر لها، ثم المراد بالنسيان: الترك، سواء كان مع ذهول أو لم يكن، قَالَ تعالى: {نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ} [التوبة: 67] أي: تركوا معرفته وأمره فتركهم في العذاب، ثم الكفارة إنما تكون عن ذنب غالبًا، والنائم والناسي ليس بآثم، فتعين العامد.

 جمہور علماء نے بھولنے والے پر قیاس کر کے اس حدیث سے دلیل لی ہے اور یہ ادنیٰ سے اعلیٰ پر تنبیہ کے قاعدے سے ہے (یعنی جس چیز پر ادنیٰ امر پر تنبیہ کی جائے تو اعلیٰ پر بدرجہ اولیٰ تنبیہ ہوگی ، جیسے بھولنا ادنیٰ عمل ہے اور جان بوجھ کر چھوڑنا اعلیٰ ہے جب بھولنے سے نماز قضاء لازم ہے تو جان بوجھ کر چھوڑنے سے بدرجہ اولیٰ لازم ہوگی) پھر آگے فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: " فليصلها إذا ذكرها " یعنی چاہئے کہ وہ پڑھ لے جب اسے یاد آجائے، پھر نسیان سے مراد چھوڑنا ہے، چاہے بھول و غفلت سے ہو یا عمداً ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ "(سورہ توبہ:67) یعنی ان لوگوں نے اس کی معرفت کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب میں چھوڑا۔ پھر کفارہ اکثر گناہ ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، اور سونے والا اور بھولنے والا، تو متعین ہوگیا کہ عمداً نماز چھوڑنے والا ۔(التوضیح جلد 6 صفحہ286،287)
          اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (متوفیٰ 852 ھ)   عمداً نماز چھوڑنے پر جو اقوال ہیں جیسا کہ ابن الملقنؒ نے بھی ذکر کیا ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وَوُجُوبُ الْقَضَاءِ عَلَى الْعَامِدِ بِالْخِطَابِ الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ قَدْ خُوطِبَ بِالصَّلَاةِ وَتَرَتَّبَتْ فِي ذِمَّتِهِ فَصَارَتْ دَيْنًا عَلَيْهِ وَالدَّيْنُ لَا يَسْقُطُ إِلَّا بِأَدَائِهِ فَيَأْثَمُ بِإِخْرَاجِهِ لَهَا عَنِ الْوَقْتِ الْمَحْدُودِ لَهَا وَيَسْقُطُ عَنْهُ الطَّلَبُ بِأَدَائِهَا فَمَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ عَامِدًا فَإِنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَقْضِيَهُ مَعَ بَقَاءِ إِثْمِ الْإِفْطَارِ عَلَيْهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
          "عمداً نماز چھوڑنے والے پر قضاء کا واجب ہونا وہ خطاب اول کے ذریعہ ہے اس لئے کہ اس کو نماز کا حکم تھا اور وہ اس کے ذمہ مرتب تھی تو وہ دَین(قرض) ہوگیا اس کے ذمہ اور قرض بغیر اس کے ادا کئے ہوئے ساقط نہیں ہوتا تو وہ نماز کو اپنے وقت سے نکالنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا اور اس سے نماز کا سوال ساقط ہوجائے گا اس کو قضاء کرنے سے(یعنی کیوں کہ اس نے عمداً نماز چھوڑی اور اس کے وقت سے الگ پڑھی تو اس کو اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھنے کا گناہ ہوگا  مگر جو قرض ذمہ تھا قضاء کرنے سے وہ ساقط ہوجائے گا۔) پس جیسا کہ جو رمضان میں عمداً روزہ نہ رکھے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس کو قضاء کرے ساتھ میں اس پر رمضان میں روزہ نہ رکھنے کا گناہ باقی رہے گا واللہ اعلم۔(فتح الباری ج 2 ص 71-72)
امام نوویؒ (متوفیٰ 676 ھ) نے قضاء نمازوں کے بارے میں شرح مھذب میں رقمطراز ہیں:
أَمَّا حُكْمُ الْفَصْلِ فَفِيهِ مَسْأَلَتَانِ إحْدَاهُمَا مَنْ لَزِمَهُ صَلَاةٌ فَفَاتَتْهُ لَزِمَهُ قَضَاؤُهَا سَوَاءٌ فَاتَتْ بِعُذْرٍ أَوْ بِغَيْرِهِ فَإِنْ كَانَ فَوَاتُهَا بِعُذْرٍ كَانَ قَضَاؤُهَا عَلَى التَّرَاخِي وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَقْضِيَهَا عَلَى الْفَوْرِ قَالَ صَاحِبُ التَّهْذِيبِ وَقِيلَ يَجِبُ قَضَاؤُهَا حين ذكر للحديث وَاَلَّذِي قَطَعَ بِهِ الْأَصْحَابُ أَنَّهُ يَجُوزُ تَأْخِيرُهَا لحديث عمران ابن حُصَيْنٍ وَهَذَا هُوَ الْمَذْهَبُ وَإِنْ فَوَّتَهَا بِلَا عُذْرٍ فَوَجْهَانِ كَمَا ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ أَصَحُّهُمَا عِنْدَ الْعِرَاقِيِّينَ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ الْقَضَاءُ عَلَى الْفَوْرِ وَيَجُوزُ التَّأْخِيرُ كَمَا لَوْ فَاتَتْ بِعُذْرٍ وَأَصَحُّهُمَا عِنْدَ الْخُرَاسَانِيِّينَ أَنَّهُ يَجِبُ الْقَضَاءُ عَلَى الْفَوْرِ وَبِهِ قَطَعَ جَمَاعَاتٌ مِنْهُمْ أَوْ أَكْثَرُهُمْ وَنَقَلَ إمَامُ الْحَرَمَيْنِ اتِّفَاقَ الْأَصْحَابِ عَلَيْهِ وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّهُ مُفَرِّطٌ بِتَرْكِهَا وَلِأَنَّهُ يُقْتَلُ بِتَرْكِ الصَّلَاةِ الَّتِي فَاتَتْ وَلَوْ كَانَ الْقَضَاءُ عَلَى التَّرَاخِي لَمْ يُقْتَلْ

"بہرحال فصل(قضاء نماز کی) کے حکم میں دو مسئلے  ہیں ان میں سے ایک جس پر نماز لازم تھی تو اس سے وہ چھوٹ گئی تو وہ اس کو قضاء کرے گا چاہے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹے یا بغیر کسی عذر کے، پس اگر اس کی چھوٹی ہوئی نماز عذر کی وجہ سے ہے تو اس کے قضاء کرنے میں وسعت و گنجائش ہےاور مستحب ہے کہ وہ اس کو فوراً قضاء کرلے۔ تھذیب کتاب کے مصنف نے کہا اور کہا جاتا ہے اس کی قضاء کرنا واجب ہے حدیث کے ذکر کے موقعہ پر، اور جمہور اصحاب فقہاء کہتے ہیں کہ نماز قضاء کرنے میں تاخیر کرنا جائز ہے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ والی حدیث کی بنیاد پر اور یہی مذھب ہے۔
اگر بغیر کسی عذر کے نماز چھوڑے یعنی عمداً نماز نہ پڑھے تو اس میں صحیح بات عراقی فقہاء کے نزدیک  یہی ہے کہ  اس کی فوری قضاء کرنا مستحب ہے اور تاخیر جائز ہے جیسا کہ اگر عذر کی وجہ سے چھوٹی ہو ، اور خراسان کے فقہاء کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ فوراً اس کا قضاء کرنا واجب ہے اور یہی بات خراسان کی ایک جماعت کہتی ہے یا ان میں سے اکثر کی رائے یہی ہے اور امام الحرمیںؒ نے فقہاء شوافع کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس لئے کہ وہ اس کو چھوڑ کر ضائع کرنے والا ہے نیز نماز عمداً چھوڑنے کی بناء پر قتل کیا جائے گا اور اگر قضاء کرنے میں رخصت و مہلت ہوتی  تو قتل نہیں کیا جاتا۔(فقہاء شوافع کے نزدیک عمداً نماز چھوڑنے والے کو قتل کیا جائے گا )( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 69 )
آگے امام نوویؒ  علماء امت کے مسالک قضاء نمازوں کے سلسلہ  مین ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فرع فِي مَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ فِي قَضَاءِ الْفَوَائِتِ قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا أَنَّهُ لَا يَجِبُ ترتيبها ولكن يستحب وبه قال طاووس وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو ثَوْرٍ وَدَاوُد وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ يَجِبُ مَا لَمْ تَزِدْ الْفَوَائِتُ عَلَى صَلَوَاتِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قالا فان كان فِي حَاضِرَةٍ فَذَكَرَ فِي أَثْنَائِهَا أَنَّ عَلَيْهِ فَائِتَةً بَطَلَتْ الْحَاضِرَةُ وَيَجِبُ تَقْدِيمُ الْفَائِتَةِ ثُمَّ يُصَلِّي الْحَاضِرَةَ وَقَالَ زُفَرُ وَأَحْمَدُ التَّرْتِيبُ وَاجِبٌ قَلَّتْ الْفَوَائِتُ أَمْ كَثُرَتْ قَالَ أَحْمَدُ وَلَوْ نسى الفوائت صحت الصلوات التى يصلي بَعْدَهَا قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَلَوْ ذَكَرَ فَائِتَةً وَهُوَ فِي حَاضِرَةٍ تَمَّمَ الَّتِي هُوَ فِيهَا ثُمَّ قَضَى الْفَائِتَةَ ثُمَّ يَجِبُ إعَادَةُ الْحَاضِرَةِ
ہم نے ذکر کیا ہے کہ ہمارا مسلک(امام نوویؒ شافعی المسلک ہیں) چھوٹی ہوئی نمازوں کو ترتیب سے ادا کرنا واجب نہیں لیکن مستحب ہے اور یہی بات طاووسؒ،حسن بصریؒ،محمد بن حسنؒ، ابو ثورؒ اور داود رحمہم اللہ کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ و مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں: قضاء نمازوں میں ترتیب اس وقت واجب ہے جب اس کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی تعداد ایک دن و رات سے زیادہ نہ ہو، وہ دونوں فرماتے ہیں پس اگر وہ وقت کی نماز ادا کررہا ہو پھر اسی دوران چھوٹی ہوئی نماز یاد آگئی تو وقت کی نماز باطل ہوجائے گی اور اس پر واجب ہے کہ پہلے چھوٹی ہوئی نماز ادا کرے پھر وقت کی نماز پڑھے۔
زفر اور احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں: ترتیب واجب ہے چاہے چھوٹی ہوئی نمازیں کم ہوں یا زیادہ، امام احمدؒ فرماتے ہیں اگر چھوٹی ہوئی نماز بھول جائے تو اس کی اس کے بعد والی نمازیں صحیح ہوجائے گی۔ امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ فرماتے ہیں اگر چھوٹی ہوئی نماز وقت کی نماز ادا کرتے وقت یاد آئے تو وقت کی نماز کو مکمل کرے گا پھر چھوٹی ہوئی نماز ادا کرے  پھر وقت کی نماز کو لوٹائے گا۔( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 70)
آگے امام نوویؒ نے ان کے دلائل ذکر کئے ہیں پھر فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ الَّذِينَ يُعْتَدُّ بِهِمْ عَلَى أَنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً عَمْدًا لَزِمَهُ قضاؤها وخالفهم أبو محمد على ابن حزم فقالا لَا يَقْدِرُ عَلَى قَضَائِهَا أَبَدًا وَلَا يَصِحُّ فِعْلُهَا أَبَدًا قَالَ بَلْ يُكْثِرُ مِنْ فِعْلِ الْخَيْرِ وَصَلَاةِ التَّطَوُّعِ لِيَثْقُلَ مِيزَانُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى وَيَتُوبُ وَهَذَا الَّذِي قَالَهُ مَعَ أَنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ مِنْ جِهَةِ الدَّلِيلِ وَبَسَطَ هُوَ الْكَلَامَ فِي الِاسْتِدْلَالِ لَهُ وَلَيْسَ فِيمَا ذَكَرَ دَلَالَةٌ أَصْلًا وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِ الْقَضَاءِ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ (أَمَرَ الْمُجَامِعَ فِي نَهَارِ رَمَضَانَ أَنْ يَصُومَ يَوْمًا مَعَ الْكَفَّارَةِ أَيْ بَدَلَ الْيَوْمِ الَّذِي أَفْسَدَهُ بِالْجِمَاعِ عَمْدًا) رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ وَرَوَى أَبُو دَاوُد نَحْوَهُ وَلِأَنَّهُ إذَا وَجَبَ الْقَضَاءُ عَلَى التَّارِكِ نَاسِيًا فَالْعَامِدُ أَوْلَى
علماء کا اجماع  اس بات پر ہے کہ جو نماز کو عمداً(جان بوجھ کر) چھوڑے اس پر اس کا قضاء کرنا لازم ہے اور ان کے خلاف ابو محمد علی ابن حزم نے کہا ہے پس وہ فرماتے ہیں وہ اس کی قضاء پر کبھی بھی قادر نہیں ہوسکتا اور اس کا کرنا ہمیشہ صحیح نہیں ،انہوں نے کہا : بلکہ وہ خیر کے کام کثرت سے کرے اور نفل نماز زیادہ ادا کرے تاکہ قیامت کے دن اس کا میزان وزنی ہو اور اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے۔ اور یہ بات جو انہوں نے کہی ہے وہ اجماع کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ باطل ہے دلیل کے اعتبار سے بھی اور استدلال میں طویل کلام کیا لیکن اس میں انہوں نے اصل دلیل ذکر ہی نہیں کی (کہ جس کی بنیاد پر وہ یہ کلام کر رہے ہیں)
اور وہ حدیث جو قضاء کے واجب  ہونے پر دلالت کرتی ہے ، وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کے دن میں جماع کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ ایک دن کا روزہ رکھے اور ساتھ میں کفارہ  بھی دے یعنی اس دن کے بدلے جو اس نے عمداً جماع کے ذریعہ فاسد کیا ہے۔ اس کو بیہقی نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابو داود نے بھی اسی طرح نقل کیا اور  جب قضاء بھول کر نماز چھوڑنے والے پر واجب ہوگی تو عمداً نماز چھوڑنے والے پر تو ضرور واجب ہوگی۔( المجموع شرح المھذب جلد 3 ص 71)
قارئین! ان محدثین و فقہاء کے اقوال کو نماز کی قضاء کرنے کے سلسلہ میں جو وارد ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز کا اپنے وقت پر ادا  نہ کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے، حدیث میں بھول کر نماز چھوڑنے والے کو یاد آتے ہی ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جب بھولنے والے، سونے والے کا یہ حکم ہے تو بدرجہ اولیٰ عمداً ادا نہ کرنے والے کو تو گناہ بھی ہوگا اور قضاء بھی کرنا پڑے گا، صرف توبہ و استغفار کرنے سے گناہ معاف ہوگا نہ کہ نماز کا چھوڑنا جو اس کے ذمہ شرعاً قرض ہے وہ ادا نہیں ہوگا۔ لہذا اپنی تمام عمداً یا سہواً(جان بوجھ کر یا بھول کر) چھوٹی ہوئی نمازوں کا اندازہ کیجئے اور ان کو فوراً قضاء کرنے کی فکر کریں اور آگے سے ہر نماز کو  اپنے وقت پر ادا کریں کیوں کہ یہ ہم پر فرض ہے۔
آج کل بعض حضرات جو نماز یں عمداً چھوٹ گئی ہیں(جیسا کہ دین سے دوری کی بنیاد پر آج کل اکثر کا حال ہے ) ان کے بارے میں فتویٰ دے رہے ہیں کہ بس توبہ و استغفار کرلیں اور آگے سے قضاء نہ کریں۔ اور اس سلسلہ میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جیسا کہ امام نوویؒ نے فرمایا جو اوپر گذر چکا ہے نیز یہ اجماعِ امت کے خلاف ہے اور باطل ہے۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہم اہلِ علم سے ہی مسئلہ پوچھیں اور سلف صالحین فقہاء و محدثین کے بیان کردہ باتوں کے تحت قرآن و حدیث کو سمجھیں نہ کہ خود سے سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ ہی ان سے مسائل کا سوال کریں جو اس لائن کے نہیں ہیں کیوں کہ ہر لائن کا ماہر الگ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کا پابند بنائے اور دین کی صحیح فکر عطا فرمائے۔ آمین

فرحان باجري الشافعی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں