منگل، 26 اپریل، 2016

تفسیر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم

الام: باب (التعوذ بعد الافتتاح)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اللہ تعالی نے فرمایا: "سو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔"
(سورہ النحل 98)
 ہمیں ربیع نے خبر دی ، انہیں امام شافعی نے وہ فرماتے ہیں ہمیں ابراھیم بن محمد نے خبر دی وہ سعد بن عثمان سے روایت کرتے ہیں وہ صالح بن ابو صالح سے، انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کو سنا وہ لوگوں کی امامت کر رہے تھے جھراَ  فرائض میں یہ دعا پڑھتے تھے (جب وہ سورہ فاتحہ سے فارغ ہوتے تھے)
ربنا إنا نعوذ بك من الشيطان الرجيم
ترجمہ:"اے ہمارے پروردگار ہم تیری پناہ  اور حفاظت میں آتے ہیں شیطان مردود سے بچنے کے لئے۔"
-(یعنی ضمّی سورہ سے پہلے پڑھتے تھے)

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہما تعوّذ اپنے دل میں پڑہتے تھے یعنی سراً۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: آدمی دونوں میں سے جو بھی کرے صحیح ہے، چاہے جھراً کہے یا سراً۔
اور ان میں سے بعض تعوّذ نماز کے شروع میں پڑھتے تھے یعنی سورہ فاتحہ سے پہلے، اور میں(امام شافعی)  بھی یہی کہتا ہوں۔ اور مجھے پسند ہے کے کہا جائے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
اور جب اللہ سے پناہ مانگے شیطان مردود سے تو جس کلام سے بھی پناہ لے وہ جائز ہے۔
اور وہ اسے کہے پہلی رکعت میں۔
اور کہا جاتا ہے: اگر اسے یعنی تعوّذ کو ہر رکعت کے شروع میں قراۃ سے پہلے پڑھا جائے  تو بہتر ہے، اور اس بارے میں نماز میں کسی بات کا حکم نہیں دیا جاتا، میں اسے پہلی رکعت میں پڑھنے کا حکم دیتا ہوں۔
اگر تعوّذ  پڑھنا چھوڑ دے بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے یا عمداً تو اس کے اعادے (لوٹانے) کی ضرورت نہیں اور نہ ہی سجدہ سہو کی ضرورت ہے۔ اور میں عمداً چھوڑنے کو نہ پسند کرتا ہوں۔ اور میں پسند کرتا ہوں کے اگر کوئی اسے یعنی تعوّذ کو پہلی رکعت میں چھوڑ دے تو اسے دوسری رکعات میں پڑھ لے، اور مجھے اس کے اعادہ کا حکم دینے سے یہ حدیث منع کر  رہی ہے: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کو نماز میں جو چیزیں  کافی ہے وہ سکھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تکبیر کہو پھر ام قرآن(سورہ فاتحہ) پڑھو۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث۔
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو تعوّذ کا اور نہ ہی افتتاح کا، تو یہ دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افتتاح اختیاری تھا، اور اگر تعوّذ کو چھوڑا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

مختصر مزنی:
باب صفۃ الصلاۃ
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: دعا استفتاح پڑھنے کے بعد – پھر تعوّذ پرھے تو کہے:
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
پھر ترتیل کے ساتھ امّ قرآن یعنی سورہ فاتحہ پڑھے۔
احکام القرآن:
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ تعالی نے فرمایا :
سو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو(سورہ النحل 98)
شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اور مجھے پسند ہے کے میں پڑھوں جب نماز شروع کروں امّ القرآن سے پہلے
 أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ۔۔۔
اور جو کوئی بھی کلام ہو جس سے پناہ لی جائے (شیطان مردود سے اللہ کی) تو وہ جائز ہے۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ان اسناد کو املاء کراتے  ہوئے: پھر شروع کرے پھر تعوّذ پڑھے اور کہے:
أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم
یا

أعوذ بالله أن يحضرون.
( تفسير الإمام الشافعي)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں