منگل، 26 اپریل، 2016

باب اسباب الحدث

باب اسباب الحدث

            ۲۰۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: وضوء نہیں ہے مگر آواز سے یا  بو  سے۔"(رواہ ابن ماجہ، ترمذی)
            امام ترمذیؒ نے حسن صحیح فرمایا۔
۲۱۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی پس میں  اس وجہ سے کہ آپ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں تھی رسول اللہ ﷺ سے(حکم ) دریافت کرنے سے شرمایا تو میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے پوچھ لیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"(مذی خارج ہونے پر)اپنے ذکر(پیشاب گاہ) کو دھولے اور وضو کرلے۔"(متفق علیہ)
۲۲۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سرین کا بند آنکھیں ہیں پس جو سو جائے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابو داود، ابن ماجہ)
اس کی سند میں کلام ہے، لیکن ابن سکنؒ نے اسے اپنی  سنن الصحاح الماثورہ میں نقل کیا ہے۔
۲۳۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب سو جاتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے اور وہ وضو نہیں کرتے تھے۔(رواہ مسلم،ابو داود)
ابو داود کی روایت میں مزید یہ ہے: یہاں تک کہ انکے سر (نیند کی وجہ سے)جھک جھک جاتے تھے اور یہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا۔
اس سند کے تمام رجال(راوی) ثقہ ہیں۔
۲۴۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا  تو میں آپ ﷺ کو تلاش کرنے لگی تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں قدم مبارک کے  اندرونی حصہ (تلوے) پر پڑا اس حال میں کہ آپ ﷺ سجدے میں تھے اور دونوں قدم مبارک کھڑے ہوئے تھے، اور آپ ﷺ یہ دعا کر رہے تھے:
اللَّهُمَّ أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عُقُوبَتك وَأَعُوذ بك مِنْك لَا أحصي ثَنَاء عَلَيْك أَنْت كَمَا أثنيت عَلَى نَفسك
"یا اللہ میں  پناہ مانگتا ہوں آپ کی رضا کے ذریعہ آپ کی ناراضی سے، آپکی معافی کے ذریعہ سے آپ کی سزا سے اور میں پناہ مانگتا ہوں اُ سے ذریعہ آپ سے، میں آپ کی تعریف پوری نہیں کرسکتا آپ اسی طرح ھے جیسے آپ نے خود اپنی تعریف کی ہے۔(رواہ مسلم)
۲۵۔ حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
            "جو اپنے ذکر(شرمگاہ) کو چھوؤئے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے"(رواہ ابو داؤد،ترمذی،ابن ماجہ،نسائی،ابن حبان،احمد،دارقطنی،حاکم)
اس کو اربعہ(ابو داؤد،نسائی،ترمذی اور ابن ماجہ) نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اور امام احمدؒ ،ترمذیؒ،ابن حبانؒ، دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے صحیح قرار دیا ہے، اور امام حاکمؒ نے فرمایا کہ یہ شیخیں(بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔ امام بخاریؒ نے فرمایا:" اس موضوع پر یہ صحیح تریں روایت ہے"۔
ابن حبان ؒ وغیرہ نے فرمایا: طلقؓ کی حدیث جس سے وضو ناقض نہیں ہوتا مروی ہے وہ اس حدیث کے ذریعے منسوخ ہے۔
۲۶۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو اپنی شرمگاہ تک پہنچائے اور ان دونوں کے درمیان کوئی  ستر(پردہ/حائل) نہ ہو تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابن حبان)
امام ابن حبان ؒنے  فرمایا: ہم نے اس میں نافع بن ابو نعیم (یہ ثقہ ہیں)سے احتجاج کیا ہے نہ کے یزید بن عبد الملک النوفلی (یہ ضعیف ہے)سے۔
اور انہوں نے اپنی کتاب وصف الصلاۃ بالسنۃ میں فرمایا: اس  حدیث کی سند صحیح ہے، اس کے نقل کرنے والے عدول ہیں۔
۲۷۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"نماز کی کنجی طہور(وضو ) ہے اور اس کی تحریم تکبیر(یعنی اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردینے سے تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں) ہے اور اس کی تحلیل سلام (یعنی سلام کے بعد نماز اور تحریم ختم ہوجاتی ہے )ہے۔"(رواہ ابوداود،ترمذی،ابن ماجہ ،الحاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا یہ حدیث مشہور ہے۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا:یہ حدیث اس باب میں صحیح ترین اور احسن ہے۔
۲۸۔ حاکم کی ایک روایت میں جس کی سند صحیح ہے مسلم کی شرط پر یہ ہے:
"نماز کی کنجی وضو ہے۔"
۲۹۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" خانہ کعبہ کا طواف  نماز ہے سوائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمارے لئے کلام(بات چیت) کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے تو وہ خیر کی ہی بات کرے۔(رواہ الحاکم)
مستدرک میں حاکم نے اس کو روایت کیا ہے سفیان ثوری عن عطاء ابن السائب عن طاووس عن ابن عباسؓ کے ذریعہ، اور سفیان الثوری نے عطاء سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جیسا کے امام احمدؒ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے، لا جرم امام حاکمؒ نے اس کے بعد فرمایا: یہ حدیث صحیح سند سے ہے اور اس پر جماعت (محدثین) متفق ہے۔
۳۰۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں کتاب التفسیر میں قاسم بن ابو ایوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"طواف نماز کی طرح ہے سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بات چیت کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے وہ صرف خیر کی ہی بات کرے۔"
پھر فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
قاسم جو اس سند میں ہے وہ ثقہ ہیں جیسا کے ابو داودؒ وغیرہ ان کے بارے میں فرمایا۔
۳۱۔ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے مروی ہے وہ اپنے والے سے اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اہل یمن کو خط لکھا اس میں فرائض،سنن اور دیات کے احکام تھے اور اس میں تھا:
"قرآن کو صرف طاہر شخص ہی چھوئے۔"(رواہ ابن حبان،حاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا: اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے۔ اس خط کی تفصیل ان شاء اللہ  دیات کے باب میں آئے گی۔
۳۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کچھ پائے اور اسے شک ہو کچھ اس سے نکلا یا نہیں تو وہ ہرگز مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کے وہ کوئی آواز سنے یا بو سونگھے۔(رواہ مسلم)
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج (على ترتيب المنهاج للنووي)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں