منگل، 26 اپریل، 2016

باب الوضوء

باب الوضوء

۵۷۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ متفق علیہ جیسا کہ گذر چکا۔
۵۸۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا کہ آپ  ﷺ کہنیوں پر پانی بہاتے تھے۔ اس کو دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اسے ضعیف نہیں بتایا۔
۵۹۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسو ل ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب میں  تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس سے بچو(اجتناب کرو)، اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی استطاعت ہو اس میں سے اتنا کرو۔ متفق علیہ۔
۶۰۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا تو اپنی پیشانی کا مسح  فرمایا اور اپنے عمامے پر اور خفین پر مسح فرمایا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا۔
۶۱۔ جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ  کے حج کے متعلق ان کی طویل حدیث میں  ہے: شروع کرو جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع فرمایا ہے۔ اس کو نسائی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے اور مسلم میں ابدأ خبر کے صیغہ کے ساتھ ہے نہ کے امر کے صیغہ کے ساتھ۔
۶۲۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:" اگر میر امت پر مشقت نہ ہوتی تو ہر نماز کے وقت میں ان کو مسواک کرنے کا ضرور حکم دیتا۔ متفق علیہ۔
امام بخاریؒ نے "ہر نماز کے ساتھ "الفاظ نقل کئے ہیں۔
اور نسائی کی روایت میں "ہر وضو کے وقت "کا ذکر ہے۔
ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔
۶۳۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسواک کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھنا بغیر مسواک کے ستّر نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اس کو ابو نعیم نے حمیدی از سفیان از منصور از زھری از عروہ از عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس سند کے تمام رجال(راوی) ثقہ ہیں۔
۶۴۔ عطاء بن ابی رباح ؒسے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم مسواک کرو تو عرض (چوڑائ )میں  کرو۔
اس کو ابو داود نے اپنی  مراسیل میں روایت کیا ہے اور اس میں اس کے ساتھ جہالت(مجہول راوی )بھی ہے۔ اور شاید  اسی لئے دوسرے موصولہ طرق سے یہ جڑ جاتی ہے۔
۶۵۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا:  میں اللہ کے رسول ﷺ کے لئے اراک(پیلو )کے جھاڑ کی مسواک توڑا کرتا تھا۔
اس کو ابن حبان نے روایت کیا ہے اپنی صحیح میں۔
۶۶۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: کافی ہے سواک کے لئے انگلیاں۔
اس کو ضیاء المقدسی نے اپنی کتاب احکام میں  اپنی سند سے روایت کیا ہے اور فرمایا: اس سند میں میں کوئی حرج نہیں پاتا، پھر فرمایا اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔
میں نے (ابن ملقن) کہا: قد قال ھو اثرہ: اس میں عیسی بن شعیب نے تفرد کیا ہے۔
۶۷۔ عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: لوگ آپ ﷺ کے پاس داخل ہوا کرتے تھے اس حال میں کہ وہ لوگ مسواک نہیں کرتے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس پیلے دانت لے کر آتے ہو، تم لوگ مسواک کرو ، پس مجھے میر امت کی مشقت کا  ڈر نہ ہوتا تو ہر نماز کے وقت میں ان پر مسواک کو فرض کردیتا جیسا میں نے ان پر وضو فرض کیا ہے۔ اس کو بغوی،بزار نے روایت کیا ہے اور فرمایا: اسی طریقہ سے یہ مروی ہے۔ اور ابن الصلاحؒ نے فرمایا: اس کی سندیں مختلف ہیں، فرمایا: الا یہ کہ یہ حدیث حسن ہے اللہ اعلم۔
۶۸۔ ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: روزہدار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن مشک کی بو سے زیادہ پسند ہوگی متفق علیہ سوائے لفظ"یوم القیامۃ "کے۔
۶۹۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: بعض نبی کریم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے وضو کا پانی مانگا پس انہوں نے نہیں پایا تو اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے پس برتن میں آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں رکھیں اور فرمایا: وضو کرو اللہ کے نام سے! پس میں نے پانی کو دیکھا کہ وہ آپ ﷺ کے انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا ہے یہاں تک کہ ان میں سے آخر نے بھی وضو کرلیا۔ (راوی نے )کہا: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا: کتنے لوگوں کو آپ نے دیکھا؟ انسؓ نے فرمایا: تقریباً ستّر کو۔ اس کو نسائی، ابن خزیمہ،بیہقی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: بے شک تسمیہ(بسم اللہ) پڑھنے کے باب میں یہ صحیح ترین روایت ہے۔
۷۰۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے وضو کا طریقہ بیان کیا پس انہوں نے پانی منگوایا پھر اس سے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا پھر ان دونوں(ہاتھوں) کو تین مرتبہ دھویا، پھر اس میں (برتن) ہاتھ ڈالا پھر اس کو نکالا پھر کلّی کی اور ناک میں پانی چڑھایا(ناک صاف کی) ایک ہاتھ سے اس کو تین مرتبہ کیا پھر اپنا ہاتھ (برتن میں) ڈالا پھر اس کو نکالا پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا پھر اپنے ہاتھ کو برتن میں ڈالا پھر نکالا پھر اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک(کے ساتھ) دھویا دو مرتبہ، پھر اپنے ہاتھ کو ڈالا پھر نکالا پھر اپنے سر کا مسح کیا تو اس کو اپنے ہاتھوں سے سامنے کیا اور پیچھے کیا ایک مرتبہ، پھر اپنے دونوں پیروں کو دھویا۔ متفق علیہ
۷1۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کے اس کو تین مرتبہ دھو لے پس بے شک وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گذاری۔ متفق علیہ سوائے لفظ "تین مرتبہ "کہ پس وہ مسلم کے ساتھ خاص ہے۔
۷۲۔ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تم میں سے کسی کی نماز مکمل نہیں ہوتی یہاں تک کہ وضو کو مکمل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے  اس کا حکم دیا ہے پس اپنے چہرے کو دھوئے ۔۔۔۔۔۔۔"
اس کو ابو داود،ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے اور حاکم نے فرمایا کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اس کو ابن حزم نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا: ثم یغسل وجھہ۔
۷۳۔ طلحہ بن مصرف اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اس حال میں کہ وہ وضو فرما رہے تھے اور پانی آپ ﷺ کے چھرے انور اور داڑھی مبار پر سے سینے پر بہہ رہا تھا پس میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کُلّی اور ناک میں پانی لینے کو جدا جدا کررہے تھے۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا پس یہ ان کے  نزدیک حجت ہے اور اس میں لیث بن ابی سلیم ہے اور ان کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
۷۴۔ شقیق بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا:میں حاضر ہوا علی بن ابی طالب اور عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس، انہوں نے وضو کیا تین تین مرتبہ اور ان دونوں نے استنشاق (ناک میں پانی لینا) کو مضمضہ (کُلّی کرنا) سے الگ کیا پھر ان دونوں  نے فرمایا: اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کا وضو فرمایا۔
اس کو ابن السکن نے صحیح مأثورہ میں نقل کیا پھر فرمایا: ان دونوں سے بہت سے طرق سے روایت کیا گیا ہے۔
۷۵۔ لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: وضو کو مکمل کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور استنشاق (ناک میں پانی لینے ) میں مبالغہ کرو  مگر یہ کہ تم روزہ دار ہو(یعنی روزہ دار مبالغہ نہ کرے)۔
اسکو ابو داود،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی،ابن خزیمہ،ابن حبان،حاکم اور ابن السکن نے صحیح قرار دیا ہے، اور حافظ ابو بشر الدولابی کی ایک روایت میں انکی جمع میں ثوریؒ کی حدیث میں ہے: جب تم وضو کرو تو کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے میں مبالغہ کرو جب تک تم روزے سے نہ ہو۔
ابن القطان ؒ نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
۷۶۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین تین مرتبہ وضو فرمایا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۷۷۔ انہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے وضو فرمایا تو اپنے سر کا تین مرتبہ مسح فرمایا۔
اس کو ابو داود نے عامر بن شقیق بن سلمہ کے طرق سے  روایت کیا ہے۔
امام بیہقی نے خلافیات میں فرمایا: اس کی سند کے تمام راویوں سے احتجاج کیا گیا ہے سوائے عامر کے۔ امام  حاکمؒ نے فرمایا: عامر کے بارے میں کسی وجہ سے میں طعن نہیں جانتا ہوں۔
۷۸۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا پس آپ ﷺ نے اپنے دونوں کانوں کے لئے اپنے سر کے لئے استعمال کئے ہوئے پانی سے الگ پانی استعمال فرمایا۔
اس کو حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اور فرمایا اس کی سند صحیح ہے ۔ حاکم نے امام مسلم کی شرط پر صحیح ہونے کا اضافہ فرمایا۔
۷۹۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی داڑھی کا خلال کیا کرتے تھے۔ اس کو ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ اور ابن حبانؒ،حاکمؒ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز امام بخاریؒ نے فرمایا: بے شک اس باب میں یہ صحیح ترین روایت ہے۔
ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک شرفھا اللہ گھنی تھی۔
۸۰۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرو۔
اس کو ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس کو حسن غریب قرار دیا ہے۔ اپنی علل میں فرمایا: میں نے امام بخاریؒ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے حسن کہا۔
۸۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو اپنی داہنی جانب سے شروع کرو۔
اس کو ابو داود،ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
۸۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت قیامت کے دن بلائی جائے گی اس حال میں کے وضو کے آثار سے اس کے وضو کے اعضاء(چہرہ،ہاتھ،پیر وغیرہ) چمک رہے ہوں گے، تو جو تم میں سے اپنے غرہ(نور) کو لمبا کرسکتا ہے تو چاہئے کہ وہ اسے لمبا کرے۔ متفق علیہ۔
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: تمہارے وضو کے اعضاء قیامت کے دن منور ہوں گے وضو کو مکمل کرنے کی وجہ سے پس تم میں سے جو اپنے نور کو لمبا کرسکتا ہے تو چاہئے کہ وہ لمبا کرے۔
۸۳۔ معاویہ بن قرہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پانی منگایا پھر ایک ایک مرتبہ وضو فرمایا پھر فرمایا: یہ وضو کا وظیفہ ہے جس کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی، پھر پانی منگوایا پس وضو دو دو مرتبہ کیا پھر کچھ دیر سکوت فرمایا پھر فرمایا یہ وضو ہے جو اس طرح وضو کرے اس کا اجر دو مرتبہ  ہے پھر پانی منگوایا  پس تین تین مرتبہ وضو فرمایا پھر فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے والے انبیاء کا وضو ہے۔
اس کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اس میں ضعف اور انقطاع ہے۔ اور حاکم نے اس سے استدلال کیا ہے۔
۸۴۔ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے اپنے وضو کے لئے پانی منگایا(یستسقی) تو میں نے چاہا کہ آپ ﷺ کی اس پر مدد کردوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں پسند نہیں کرتا ہوں کہ میرے وضو میں میری کوئی مدد کرے۔ اسکو بزار نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور فرمایا: میں نہیں جانتا کہ اس کو اس سند اور اس طرق کے علاوہ طریقہ سے نقل کیا گیا ہے۔
۸۵۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: جب تم وضو کرو (أشربوا أعينكُم من المَاء)تو اپنی آنکھوں کو پانی سے سیراب کرو اور اپنے ہاتھوں سے پانی کو مت جھٹکو کیوں کہ وہ شیطان کے پنکھے ہیں۔ اس کو ابن ابی حاتم نے اپنی علل میں روایت کیا اور ابن حبان نے اپنی تاریخ میں اور اس کو واہ قرار دیا۔
۸۶۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کوپانی ڈالا پس آپ ﷺ نے نماز کے لئے ؤضو فرمایا۔ متفق علیہ۔
۸۷۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اچھا مکمل وضو کرتا ہے  پھر یہ کہتا ہے أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں وہ جس میں سے چاہے داخل ہو۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جو وضو کرے پھر کہے  أشْهد أَن لَا إِلَه إِلَّا الله وَحده لَا شريك لَهُ، وَأشْهد أَن مُحَمَّدًا عَبده وَرَسُوله
اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے  وَرَسُوله کے بعد اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَہے۔
ابن حبان کی ایک روایت میں وضو سے فارغ ہونے کے بعد کہے ہے۔
۸۸۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو وضو کرے پھر کہے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ تو باریک سفید کاغذ میں لکھا جاتا ہے پھر تو نہیں ٹوٹتا ثمَّ طبع بِطَابع فَلم يكسر إِلَى يَوْم الْقِيَامَةقیامت کے دن تک۔
اس کو حاکم نے اپنی مستدرک میں فضائل قرآن میں روایت کیا پھر فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔
۸۹۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نبی کریم ﷺ کے پاس داخل ہوا اور آپ ﷺ کے سامنے پانی کا برتن تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے انس: مجھ سے قریب ہو میں وضو کے مقادیر تم کو سکھاتا ہوں تو میں اللہ کے رسول ﷺ کے قریب ہوا تو جب آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ دھونے والے تھے فرمایا: باسم الله وَالْحَمْد لله وَلَا حول وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاللَّه پھر جب آپ نے  استنجی پاکی حاصل کی تو فرمایا: اللَّهُمَّ حصن فَرجي وَيسر لي أَمْرِي  پھر جب آپ ﷺ نے مضمضہ اور استنشاق کیا تو فرمایا:  اللَّهُمَّ لقني حجتي وَلَا تحرمني رَائِحَة الْجنَّة  پھر جب آپ ﷺ اپنا چہرہ انور دھوئے تو فرمایا: اللَّهُمَّ بيض وَجْهي يَوْم تبيبض الْوُجُوه  پھر جب آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ دھوئے تو فرمایا: اللَّهُمَّ اعطني كتابي بيميني پھر جب آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے سر کا مسح کیا تو فرمایا: اللَّهُمَّ غَشنَا بِرَحْمَتك وجنبنا عذابك پھر جب آپ ﷺ نے اپنے دونوں پیر دھوئے تو فرمایا: اللَّهُمَّ ثَبت قدمي يَوْم تَزُول الْأَقْدَام ۔پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے کوئی بندہ اپنے وضو کے وقت یہ نہیں کہتا ہے، اس کے انگلیوں کے خلال سے ایک قطرہ بھی نہیں گرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس سے ایک فرشتہ کو پیدا فرماتے ہیں وہ اللہ  تعالیٰ کی ستر زبانوں میں تسبیح بیان کرتا ہے اس تسبیح کا ثواب اس کو قیامت تک ہوتے رہتا ہے۔

اس کو ابن حبان نے اپنی تاریخ میں عباد بن صھیب کے ترجمہ میں روایت کیا ہے لیکن ابو داود نے فرمایا وہ صدوق اور قدری ہے۔ اور امام احمدؒ نے فرمایا: وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اور اس کے دوسرے طرق بھی ہیں جس کو میں نے رافعیؒ کی شرح کبیر کے احادیث کی تخریج (یعنی البدر المنیر )میں مفصل ذکر کیا ہے۔
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج (على ترتيب المنهاج للنووي)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں