منگل، 26 اپریل، 2016

صفۃ الصلاۃ

باب صفۃ الصلاۃ
۲۳۴۔حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
۲۳۵۔حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
نماز کی کنجی وضو ہے اور اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل تسلیم(سلام پھیرنا) ہے۔ اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا: اس کی سند صحیح اور مسلم کی شرط پر ہے اور اس کے بہت سے شواہد عن ابی سفیان عن ابی نضرۃ  ہیں۔
۲۳۶۔ ابو حمید عبد الرحمن الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ جب نماز شروع کرتے قبلہ کی جانب رخ فرماتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور فرماتے : اللہ اکبر۔
اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے اپنی کتاب وصف الصلاۃ بالسنۃ میں صحیح قرار دیا  ہے۔
۲۳۷۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا:
اللہ کے رسول ﷺ جب نماز شروع کرتے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ وہ دونوں کندھوں کے برابر ہوجاتے پھر تکبیر کہتے، پس جب رکوع کا اراد کرتے اسی طرح کرتے اور جب اپنے سر مبارک کو رکوع سے اُٹھاتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے سے سر اُٹھاتے وقت ایسا نہیں کرتے۔" متفق علیہ
بخاری میں یہ اضافہ ہے: اور وہ نہیں کرتے جب سجدہ فرماتے اور جب دو رکعتوں کے بعد قیام فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے۔
۲۳۸۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھ نماز میں داخل ہوتے وقت، تکبیر کہے ہمام نے بیان کیا اپنے کانوں کے برابر ۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۳۹۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: مجھے بواسیر ہوگئی تھی تو میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہوکر نماز پڑھو پس اگر تمہیں استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو پس اگر تمہیں استطاعت نہ ہوتو پہلو پر پڑھو۔" اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
امام حاکمؒ نے فرمایا: اور یہ مسلم کی شرط پر بھی ہے۔
امام نسائی نے اضافہ کیا: پس اگر استطاعت نہ تہ تو چت لیٹ کر اللہ تعالیٰ کسی نفس کو مکلف نہیں بناتے مگر اس کی وسعت کے اعتبار سے۔
۲۴۰۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو متربع (چہار ذانو بیٹھ کر) ماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس کو نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا اور حاکم نے  کہا: شیخین کی شرط پر ہے۔
بہرحال امام نسائی نے فرمایا: ہم نہیں جانتے اس حدیث کو کسی نے روایت کیا ہے سوائے ابو داود حفری نے حفص سے۔
میں(ابن ملقن) کہتا ہوں: محمد بن سعید اصبہانی نے اس کو حفص بن غیاث سے روایت کیا ہے جیسا کہ ان سے حفری نے روایت کیا ہے، امام بیہقیؒ نے اس کواپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔
۲۴۱۔ حسن ؒ سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے نماز میں اقعاء کی کیفیت میں بیٹھنے سے منع فرمایا۔
اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا: بخاری کی شرط پر صحیح ہے، یعنی کہ حسنؒ نے مطلق سمرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے جیسا کہ ابن عبد البرؒ نے اپنی "استذکار" میں  ترمذیؒ ے وہ بخاریؒ سے نقل کیا ہے۔
(اقعاء: پنڈلی اور ران ملاکر کھڑی کرنا اور کولہوں پربیٹھنا۔)
۲۴۲۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ سے آدمی کی بیٹھ کر نماز  پرھنے کے بارے میں سوال کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"جو کھڑے ہوکر نماز پڑھے تو وہ افضل ہے اور جو بیٹھ کرنماز پڑھے تو اس کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کا آدھا اجر/ثواب ملے گا، اور کو سو کر (اشارہ سے)  نماز پڑھے تو اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا آدھا ثواب ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۴۳۔ علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے فرماتے:
"وجهت وَجْهي للَّذي فطر السَّمَوَات وَالْأَرْض حَنِيفا وَمَا أَنا من الْمُشْركين إِن صَلَاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لَا شريك لَهُ وَبِذَلِك أمرت وَأَنا أول الْمُسلمين اللَّهُمَّ أَنْت الْملك لَا إِلَه إِلَّا أَنْت أَنْت رَبِّي وَأَنا عَبدك ظلمت نَفسِي وَاعْتَرَفت بذنبي فَاغْفِر لي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّه لَا يغْفر الذُّنُوب إِلَّا أَنْت واهدني لأحسن الْأَخْلَاق لَا يهدي لأحسنها إِلَّا أَنْت واصرف عني سيئها لَا يصرف عني سيئها إِلَّا أَنْت لبيْك وَسَعْديك وَالْخَيْر كُله فِي يَديك وَالشَّر لَيْسَ إِلَيْك أَنا بك وَإِلَيْك تَبَارَكت وَتَعَالَيْت استغفرك وَأَتُوب إِلَيْك
اور ایک روایت میں  ہے: جب آپ ﷺ نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے پھر فرماتے:" وجهت وَجْهي الخ"
 ان دونوں کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور ابن حبان کی ایک روایت میں: "حنیفاً "کے بعد "مسلماً "ہے۔ اور اس کے شروع میں ہے:" جب آپﷺ فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتے۔
۲۴۴۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے دعاء استفتاح میں:
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ
"اے میرے پروردگار! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرمادے جیسے آپ مشرق اور مغرب کے درمیان دوری فرمائی ہے، اے میرے پروردگار! مجھے خطاؤں سے ایسا پاک و صاف فرمادے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک و صاف کیا جاتا ہے، اے میرے پروردگار! میری خطاؤں کو دھودے برف اور ٹھنڈک کے پانی سے۔"
طہارت کے شروع میں گذر گیا۔
۲۴۵۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو تین مرتبہ یہ کہتے: " الله أكبر كَبِيرا وَالْحَمْد لله كثيرا وَسُبْحَان الله بكرَة وَأَصِيلا"، " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ"
ترجمہ:-
اس کو ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور حاکم نے کہا اس کی سند صحیح ہے اور اس کے لفظ ہیں۔
۲۴۶۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:" جو سورہ فاتحہ نہ پرھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔" متفق علیہ۔
اور ایک روایت میں ہے: نماز کافی نہیں ہوتی جس میں آدمی فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے۔
اس کو دار قطنی نے روایت کیا اور فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
اور ایک روایت میں ہے: ام القرآن اس کے علاوہ کا بدل ہے اور کوئی اور اس کا بدل نہیں ہے۔
اسکو حاکم  نے روایت کیا ہے اور کہا: بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
۲۴۷۔ رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: ایک آدمی آئے اس حال میں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، تو وہ نبی کریم ﷺ کے قریب نماز پڑھے پھر آپ ﷺ کے پاس آئے پس آپ ﷺ کو سلام کیا، تو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: اپنی نماز لوٹاؤ کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی، پس وہ گئے پھر اسی طرح نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھے تھے، پھر نبی کریمﷺ کی طرف آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنی نماز لوٹاؤ کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی، تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! میں کیسے پڑھوں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم قبلہ کی طرف رخ کرو تو تکبیر کہو پھر ام القرآن(سورہ فاتحہ) پڑھو پھر جو چاہو وہ پڑھو، پس جب تم رکوع کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھو اور اپنی پیٹھ کو لمبا کرو، پھر جب تم (رکوع سے) سر اٹھاؤ تو اپنی کمر کو سیدھی کرو یہاں تک کہ ہڈیاں اپنے جوضوں تک لوٹ جائے پھر جب سجدہ کرو تو اچھے سے سجدہ کرو پس جب تم اپنا سر اٹھاؤ تو اپنی داہنی ران پر بیٹھو پھر اسی طرح ہر رکعت میں کرو۔
            اس کو احمد،ابن حبان نے روایت کیا، او ر اس کا سیاق ہے ان کے پاس اور اپنی صحیح میں اس کا باب باندھا ہے "نمازی پر اپنی نماز میں  ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا فرض ہے، نہ کہ اس کی قرأت ایک رکعت میں کافی ہوگی اس کی باقی نماز سے اس کا بیان"
اور اپنی کتاب "وصف الصلاۃ بالسنۃ " میں (ابن حبانؒ نے) فرمایا: "یہ واضح بیان ہے کہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے نمازی پر ہر رکعت میں فرض ہے"
۲۴۸۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم الحمد (سورہ فاتحہ ) پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو، بے شک وہ ام القرآن ، ام الکتاب اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی ایک آیت ہے۔
اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے ایسی سند سے جس کے تمام رجال ثقہ ہیں، بے شک ابن السکن نے اس روایت کو اپنی سنن الصحاح میں ذکر کیا ہے۔
۲۴۹۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور ان کا نام ھند ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز میں پڑھے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر اس کو ایک آیت شمار فرمایا، الحمد للہ رب العالمین کو دوسری آیت ، الرحمن الرحیم کو تیسری آیت، ملک یوم الدین کو چوتھی آیت اسی طرح ایاک نعبد وایاک نستعین کو پانچویں آیت۔
اس کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے عمر بن ھارون عن ابن جریج عن ابن ابی ملیکہ عنہا(عن ام سلمہ) سے۔
اور اسی طرح حاکم نے اس کو روایت کیا اور کہا: عمر بن ھارون سنت میں اصل ہے لیکن ان دونوں نے ان سے روایت نہیں لی۔
۲۵۰۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
" اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے تم نے دیکھا ہے۔" اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۵۱۔ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کو غلط پڑھنے والے کو فرمایا:" جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو وضو کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے پھر تم حاضر ہو اور کھڑے ہو پس اگر تمھارے ساتھ قرآن ہو تو پڑھو ورنہ اللہ کی تعریف بیان کرو اور لا الہ اللہ پڑھو اور تکبیر کہو۔۔۔۔ الحدیث ۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا اور کہا: یہ حدیث حسن ہے۔
۲۵۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم  آمین کہو، پس جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل جائے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔"
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۵۲۔ اور انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ام القرآن (سورہ فاتحہ) کی قر أت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند فرماتے اور آمین کہتے۔
اس کو دار قطنی نے روایت کیا اور کہا اس کی سند حسن ہے۔ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور حاکم نے مزید کہا: یہ شیخین کی شرط پر ہے۔
۲۵۴۔ بخاری میں عطاءؒ کا قول ہے : ابن الزبیر رضی اللہ عنہ نے آمین کہی اور ان کے پیچھے جو تھے انہوں نے آمین کہی یہاں تک کہ مسجد میں شور ہوجاتا۔
۲۵۵۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر  کی شروع کی دو رکعتوں میں ام الکتاب (سورہ فاتحہ) اور دو (ضمی) سورہ پڑھتے، اور آخری دو رکعتوں میں ام الکتاب پڑھتے،  اور آیت ہمیں کبھی آپ ﷺ سنا دیتے، اور پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے زیادہ لمبی کرتے ، اور اسی طرح عصر میں۔
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم میں یہ اضافہ ہے "اور اسی طرح صبح (فجر)کی نماز میں"
۲۵۶۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا ہم ظہر اور عصر میں اللہ کے رسول ﷺ کے قیام کا اندازہ لگاتے تو ہم آپ ﷺ کی ظہر کی پہلی دو رکعتوں کا اندازہ "الم تنزیل السجدہ" سورت کی قرأت کے بقدر لگاتے، اور ہم آخری دو رکعتوں میں آپ ﷺ کے قیام  کا اندازہ لگاتے تو اس کا آدھا ہوتا، اور عصر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ لگایا تو اس کو ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے بقدر پایا، اور عصر کی آخری دو رکعتوں میں اس سے آدھا پایا۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: آپ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں تیس ۳۰ آیتوں کے بقدر تلاوت فرماتے، اور آخری دو رکعتوں میں ۱۵ آیتوں  کے بقدر تلاوت فرماتے یا کہا:  اس کا آدھا۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے بقدر تلاوت فرماتے اور آخری دو رکعتوں میں اس کے آدھے کے بقدر پڑھتے۔
۲۵۷۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا: فجر کی نماز میں ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے تلاوت کی تو آپ ﷺ پر قرأت بھاری ہوگئی، پس جب آپ ﷺ فارغ ہوئے(نماز سے) فرمایا: شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھ رہے ہو۔ ہم نے کہا ہاں جلدی پڑھ رہے تھے اے اللہ کے رسول ﷺ، آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کرو سوائے سورہ فاتحہ کہ کیوں کہ  نماز ہی نہیں جس نے اس کو نہ پڑھا ہو۔
اس کو ابو داود،ترمذی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے، اور دارقطنی نے فرمایا: اس کی سند حسن ہے اس کے راوی ثقہ ہیں، اور حاکم نے کہا اس کی سند مستقیم ہے۔ اور ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
والهذ بِالذَّالِ الْمُعْجَمَة السرعة وَشدَّة الاستعجال فِي الْقِرَاءَة
۲۵۸۔ سلیمان بن یسار ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: میں نے فلاں شخص  جو مدینہ میں امام ہے اس سے زیادہ کسی کی نماز رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مشابہ نہیں دیکھا۔ سلیمانؒ نے فرمایا: تو میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا کرتے تھے۔ اور عصر کی نماز کو مختصر کرتے تھے اور مغرب کی شروع کی دو رکعتوں میں قصارِ مفصل پڑھتے اور عشاء کی شروع کی دو رکعتوں میں اوساظِ مفصل پڑھتے اور صبح(فجر) میں طوال مفصل پڑھتے۔
            اس کو احمد،نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔
۲۵۹۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں "الم تنزیل" پہلی رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں " هَل أَتَى عَلَى الْإِنْسَان حِين من الدَّهْر لم يكن شَيْئا مَذْكُورا "۔ متفق علیہ ، اور مسلم میں یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
۲۶۰۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی  مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے پس ایک شخص بھی داخل ہوئے، پھر نماز پڑھی پھر وہ آئے پھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: لوٹو پھر نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی تو صحابی لوٹے پھر نماز پڑھے جیسا پہلے پڑھے تھے پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے پھر آپ ﷺ کو سلام کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وعلیک السلام، پھر فرمایا: لوٹو پھر نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک ایسا تین مرتبہ کیا، پھر ان صحابی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مَا أحسن غير هَذَا  اس سے بہتر کیا ہے پس آپ مجھے سکھلا دیجئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہ پھر قرآن میں سے تمہیں جو میسر ہو اس کو پڑھو پھر اطمینان سے رکوع کرو، پھر (رکوع سے) اٹھو یہاں تک کے مطمئن ہو جاؤ اعتدال میں، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر (سجدہ سے) اٹھو یہاں تک کہ  اطمینان سے  بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو۔ متفق علیہ۔
اور بخاری کی ایک روایت میں ہے: یہاں تک کہ برابر کھڑے ہوجاؤ تعتدل کے  بدل، اور فرمایا " پھر (سجدہ سے) اٹھو یہاں تک کہ  اطمینان سے  بیٹھ جاؤ " کے بعد  " پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر (سجدہ سے) اٹھو یہاں تک کہ  اطمینان سے  بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو۔
            اور  بخاری کی ایک روایت  میں ہے: پھر اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ برابر ہوجاؤ اور اطمینان سے  بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ برابر ہوجاؤ اور اطمینان سے  بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو۔
۲۶۱۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب رکوع فرماتے تو اپنے سر کو نہیں اٹھاتے اور نہ اس کو جھکاتے لیکن ان دونوں کے درمیان رکھتے۔
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۶۲۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: نبی کریم ﷺ جب رکوع فرماتے تو اپنی انگلیوں کو کھول دیتے اور جب سجدہ کرتے تو ملالیتے۔
اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے روایت کیا اس حدیث کا پہلا حصہ پھر فرمایا یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
۲۶۳۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نماز میں جب کبھی اٹھتے اور رکھتے تکبیر کہتے، تو ہم نے کہا اے ابوہریرہؓ یہ تکبیر کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: بے شک یہ اللہ کے رسول ﷺ کی نماز ہے۔ متفق علیہ۔
۲۶۴۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھا تو آپ ﷺ سورہ بقرہ شروع فرمائی، پھر حدیث کو ذکر کیا یہاں تک کہ فرمایا: پھر رکوع کیا تو سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيم  کہنے لگے، پھر سمع الله لمن حمده کہا پھر سجدہ کیا  سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلَى  کہنے لگے۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۶۵۔ عون بن عبد اللہ،  ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو تین مرتبہ  سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ  کہے، اور یہ اس کے لئے  (رکوع مکمل کرنے کے ) قریب تر ہے اور جب سجدہ کرے تو چاہئے کہ وہ تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى  کہے  اور یہ اس کے لئے  (سجدہ مکمل کرنے کے ) قریب تر ہے۔"
اس کو ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
ابو داود نے فرمایا: مرسل ہے، عون نے عبد اللہؓ کو نہیں پایا۔
اور اس کو امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ کبیر میں ذکر کیا اور فرمایا مرسل ہے۔
اور امام ترمذیؒ نے فرمایا اس کی اسناد متصل نہیں ہے، عون نے ابن مسعودؓ سے ملاقات نہیں کی۔
۲۶۶۔ علی کرم اللہ وجہہ سے  مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رکوع فرماتے تو یہ پڑھتے:
اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان نے   وَمَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ قَدَمِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  کا اضافہ کیا ہے۔
۲۶۷۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ جب رکوع سے اپنا سر مبارت اٹھاتے تو فرماتے:
«رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ»
 اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور نسائی کی ایک روایت میں ہے:  حق مَا قَالَ العَبْد كلنا لَك عبد یعنی  " احق " بغیر 'الف 'کے ہے یعنی "حق "ہے۔ اور کلنا کی جگہ وکلنا ہے۔
۲۶۸۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاتے وقت سمع الله لمن حمده فرماتے، پھر کھڑے ہونے کی حالت میں رَبنَا وَلَك الْحَمد فرماتے ۔
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۶۹۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ فجر میں دعائے قنوت ہمیشہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔
            اس کو احمد،دار قطنی، بیہقی اور حاکم نے اپنی اربعین میں روایت کیا ہے۔
اور حاکم نے کہا: حدیث صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور اس کا اقرار بیہقیؒ نے  اپنی کتب میں اس قول کو تسلیم کیا ہے۔
امام حازمیؒ نے فرمایا: حدیث صحیح ہے، (ابو جعفر  جو اس سند میں ہے ثقہ ہے اور صاحبِ امام نے اس حدیث کی تضریج کے بعد فرمایا: اس کی سند میں ابو جعفر رازی ہے اور انہیں بہت سے محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔)
اور امام نسائیؒ نے فرمایا : وہ قوی نہیں ہے۔
امام ابن الصلاحؒ نے فرمایا: اس حدیث کو بہت سے حفاظ حدیث نے صحیح کا حکم لگایا ہے ، ان میں سے ائمہ حدیث میں سے ابو عبد اللہ محمد بن علی بلخی، ابو عبد اللہ حاکم اور ابو بکر بیہقی ہیں۔
۲۷۰۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایال: اللہ کے رسول ﷺ ہمیں دعا سکھلاتے تھے جو ہم صبح کی نماز میں  قنوت میں مانگتے تھے:
اللَّهُمَّ اهدنا فِيمَن هديت وَعَافنَا فِيمَن عافيت وتولنا فِيمَن توليت وَبَارك لنا فِيمَا أَعْطَيْت وقنا شَرّ مَا قضيت إِنَّك تقضي وَلَا يُقْضَى عَلَيْك إِنَّه لَا يذل من واليت تَبَارَكت رَبنَا وتعليت
اس کو بیہقی نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے پھر اس کو اس کے علاوہ طریقہ سے روایت کیا اور فرمایا :پس اس سے صحیح ثابت ہوا تمام کہ اس دعا کی تعلیم فجر کی نماز کے قنوت اور وتر کے قنوت میں ہوئی۔
۲۷۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رکوع کے بعد اپنی نماز میں ایک مہینہ قنوت پڑھا۔۔۔۔ الحدیث۔
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا۔
۲۷۲۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کوئی شخص قوم کی امامت نہ کرے پھر وہ خود کو ان کے علاوہ دعا کے ساتھ خاص کرلے پس اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے خیانت کی۔
اس کو ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے حسن کہا۔
۲۷۳۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبریلؑ میرے پاس آئے پھر کہا: بے شک میرے اور آپ کے رب آپ سے فرماتے ہیں: آپ کا ذکر کیسے بلند کیا؟ فرمایا: اللہ اعلم، (اللہ تعالیٰ نے )فرمایا: جب  میرا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ کا ذکر میرے ساتھ کیا جاتا ہے۔
اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے دارج عن ابی الہیثم عن ابی سعید بہ کے طریق سے، اور یہ دراج  محدثین نے انہیں ضعیف کہا ہے، اور ابن معینؒ اور ابن حبانؒ نے ثقہ کہا ہے۔ امام ترمذیؒ نے انہیں حسن کہا ہے اور صحیح بھی کہا ہے، اور امام حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں ان کی سچائی پر اتفاق نقل کیا ہے۔
۲۷۴۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان قراء کے واقعہ میں جنہیں قتل کیا گیا تھا، فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا ہے جب بھی صبح(فجر) کی نماز پڑھتے اپنے ہاتھوں کو بلند فرماتے اور جنہوں نے ان کو قتل کیا ان کے لئے بد دعا فرماتے۔
اس کو بیہقی نے عمدہ سند سے نقل کیا ہے۔
۲۷۵۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ  جب کسی کے لئے بد دعا فرمانے کا ارادہ فرماتے  یا دعا کرنے کا ارادہ کرتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، اور کبھی کبی فرماتے: سمع الله لمن حَمده اللَّهُمَّ رَبنَا لَك الْحَمد اللَّهُمَّ أَنْج الْوَلِيد بن الْوَلِيد الحَدِيث
اور اس کے آخر میں ہے اس کو بلند آواز سے پڑھتے۔
اس کو بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التفسیر میں روایت کیا ہے۔
۲۷۶۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مہینہ لگاتار قنوت پڑھا ظہر، مغرب، عشاء اور فجر کی نماز میں، ہر نماز کے آخر ی میں جب سمع اللہ لمن حمدہ فرماتے بد دعا فرماتے بنو سُلیم کے زندوں پر، رِعل،ذکوان،عُصَیّہ(یہ بنو سلیم کے قبائل ہیں) اور آپ ﷺ کے پیچھے والے(مقتدی) آمین کہتے۔
اس کو ابو داود اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا: یہ حدیث بخاری کی شرط پر صحیح ہے۔
میں (ابن ملقنؒ)  کہتا ہوں: اس کی سند میں ھلال بن خباب ہے اور ابن معینؒ  وغیرہ نے  ثقہ قرار دیا ہے اور عقیلیؒ نے کہا: اس (ھلال) کی حدیث میں وہم ہے اور یہ آخری عمر میں (حافظہ) بدل گیا(کمزور ہوگیا)
۲۷۷۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: شَكَوْنَا رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ حر الرمضاء فِي جباهنا وأكفنا فَلم يشكنا
 ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے تپتی ہوئی ریت کی گرمی کی ہماری پیشانیوں اور ہتھیلیوں میں شکایت کی  تو آپ ﷺ نے  رخست نہیں دی،
اس کو بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ، اور مسلم نے ان الفاظ  جباهنا وأكفنا  کے بغیر روایت کیا  ہے۔
۲۷۸۔ مجاہدؒ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے ثقفی سے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنی پیشانی کو زمین سے اچھے سے لگادو ،  (پرندے کی طرح) ٹھونگ مت مارو۔
اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
۲۷۹۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ۷ ہڈیوں پر سجدہ کروں: پیشانی اور اپنے ہاتھ مبارک سے اپنی ناک کی طرف اشارہ فرمایا، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پیروں کی انگلیوں (کے پور)، اور میں کپڑوں اور بالوں کو جمع (ملاتا)نہیں کرتا ہوں۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۸۰۔ ابو اسحاق عمر بن عبد اللہ سبیعی  نے فرمایا: ہمیں براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کی نماز کا طریقہ بتایا پس اپنے دونوں ہاتھوں کو رکھا اور گھٹنوں پر  سہارا لیا اور اپنی پیٹھ کو اٹھایا اور کہا اس طرح رسول اللہ ﷺ سجدہ فرمایا کرتے تھے۔
اس کو ابو داود ، نسائی اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
۲۸۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا جب سجدہ فرماتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنے رکھتے تھے اور جب (سجدہ سے) اٹھتے تھے تو اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے۔
اس کو  ابو داود،نسائی،ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ، امام ترمذیؒ نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اور ہم نہیں جانتے شریک کے علاوہ کسی نے اسے روایت کیا ہو۔
میں(ابن ملقن ) کہتا ہوں: اس کو ہمام نے بھی متصلاً روایت کیا ہے۔
فرمایا: اور یزید بن ہارونؒ نے فرمایا:  شریک نے عاصم بن کلیب سے صرف یہی حدیث روایت کی ہے۔
میں(ابن ملقن) کہتا ہوں:  اس (شریک) کی اس(عاصم) سے بہت سی روایتیں ہیں جس کو میں (ابن ملقن) نے اپنی تخریج احادیثِ رافعی (یعنی بدر المنیر میں) میں ذکر کیا ہے، اور اس حدیث کو  ابن حبانؒ اور ان کے شیخ ابن خزیمہؒ نے صحیح قرار دیا ہے اور حاکمؒ نے اشارہ کیا کہ یہ مسلم کی شرط پر ہے شریک قاضی میں۔
۲۸۲۔ سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم دونوں گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھوں کو رکھتے تھے تو ہم کو حکم دیا گیا دونوں ہاتھوں سے پہلے دونوں گھٹنوں کو رکھنے کا۔
اس کو ابن خزیمہؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ ناسخ ہے دونوں ہاتھوں کو رکھنے والے کی اور اسی طرح ابن حبانؒ نے اور  وَفِي ذَلِك وَقفه اس میں  وقف ہے ، کیوں کہ اس کی سند میں یحیی بن کھیل ہے ، امام نسائیؒ وغیرہ نے اسے متروک کہا ہے۔
۲۸۳۔ علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ سجدہ میں فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۸۴۔ عباس بن سہل ؒ سے مروی ہے فرمایا: ابو حمید،ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ جمع ہوئے پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا ذکر کیا، تو ابو حمیدؓ نے فرمایا: میں تمہیں رسول اللہﷺ کی نماز سکھلاتا ہوں پھر حدیث ذکر کی یہاں تک کہ فرمایا: پھر سجدہ کیا تو اپنی پیشانی،ناک کو اچھے سے لگا دیا، اور اپنے دونو ں ہاتھوں کو اپنے پہلوؤں سے جدا کیا اور اپنے دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں کاندھوں کے برابر رکھا۔۔۔۔ الحدیث۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا۔
۲۸۵۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  جب رکوع فرماتے تو اپنی انگلیوں کو کھولتے اور جب سجدہ فرماتے تو اپنی انگلیوں کو ملا لیتے۔ اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے جیسا کہ اسکا ذکر باب میں گذر چکا ہے۔
۲۸۶۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ جب رکوع فرماتے تو اپنی پیٹھ کو پھیلا دیتے اور جب سجدہ فرماتے تو  وضع أَصَابِعه قبل الْقبْلَة فتفاج اپنی انگلیوں کو قبلہ جانب رکھتے پھر دونوں پیروں کے درمیان فاصلہ  رکھتے۔
اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور ابن السکن نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ جوھریؒ نے فرمایا: فججت ما بین رجلی کے معنیٰ دونوں پیروں کو کھولنا ہے۔
۲۸۷۔ محمد بن عمر سے روایت ہے وہ عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ وہ  اصحابِ رسو ل ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو ہم نے نبی کریم ﷺ کی نماز کا ذکر کیا تو ابو حمید الساعدیؓ نے فرمایا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی نماز کو تم سے زیادہ جاننے والا ہوں، میں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب تکبیر کہتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کندھوں تک اُٹھاتے، اور جب رکوع کرتے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اچھے سے رکھتے پھر اپنی پیٹھ کو جُھکاتے پس جب سر اُٹھاتے سیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ پیٹھ کی ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی، پس جب سجدہ کرتے اپنے دونوں ہاتھوں کہ بغیر پھیلائے ہوئے اور بغیر ملائے ہوئے رکھتے، اور اپنے پیروں کی انگلیوں کے پوروں سے قبلہ کا استقبال کرتے پس جب دونوں رکعتوں میں بیٹھتے تو بائیں پیر پر بیٹھتے اور سیدھے پیر کو کھڑا کرتے، اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو  بائیں پیر کو آگے نکالتے اور دوسرے کو پیر کو کھڑا  کرتے اور اپنے مقعد پر بیٹھتے۔
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۸۸۔ ابو حمیدؓ نے آپ ﷺ کی نماز کی کیفیت میں بیان فرمایا: اور جب آپﷺ سجدہ کرتے دونوں رانوں کو جدا کرتے اس طور پر کے آپ ﷺ کے پیٹ  کا کوئی حصہ ران کو نہیں لگا ہوا ہوتا۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔
۲۸۹۔ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سجدہ فرماتے اگر بکری کا بچہ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان سے جانا چاہتا تو چلاجاتا۔
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: كَانَ إِذا سجد خوى بيدَيْهِ يَعْنِي جنح حَتَّى يرَى وضح إبطَيْهِ جب آپ ﷺ سجدہ فرماتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ آپ ﷺ کے بغل مبارک واضح ہوجاتے۔
ان دونوں کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۹۰۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سجدہ فرماتے تو اپنے پیٹ اوپر کرتے اور دونوں بازو‍ں کو کشادہ فرماتے۔
اس کو نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور ابن خزیمہ اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا نیز حاکمؒ نے کہا یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
۲۹۱۔ احمر بن جزء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: بے شک ہم اللہ کے رسول ﷺ کے لئے رحم کھاتے تھے  جیسا کہ آپ ﷺ اپنی کہنیوں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے تھے جب سجدہ کرتے تھے۔
اس کو ابو داود،ابن  ماجہ، نے روایت کیا ہے اور ابن السکنؒ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ تقی الدینؒ اقتراح کے آخر میں فرمایا : یہ بخاری کی شرط پر ہے۔
۲۹۲۔ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رکوع فرمایا
ركع فَوضع يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابض عَلَيْهِمَا ووتر يَدَيْهِ فنحاهما عَن جَنْبَيْهِ
تو اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا گویا کہ آپ ﷺ نے ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اپنے ہاتھوں کو(کامن کے) چلے کی طرح رکھا اور کہنیوں  کو اپنے دونوں پہلوؤن سے دور رکھا۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا یہ حسن صحیح ہے۔
اور انہی کی ایک روایت میں ہے: پھر سجدہ کیا پھر فرمایا اللہ اکبر پھراپنے پیر کو موڑا اور بیٹھا اور  یکساں رہے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے جگہ پر لوٹ آئی۔
پھر فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۹۳۔ یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جب تم دونوں سجدہ کرو بعض گوشت کو زمین سے ملالو کیوں کہ عورت اس میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
اس کو ابو داود نے اپنی مراسیل میں روایت کیا ہے۔
امام بیہقیؒ نے فرمایا: اور وہ موصول احادیث میں احسن ہے۔
۲۹۴۔ ابن عباس رضی اللہ  عنہما سے مروی ہے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے۔
اللَّهُمَّ اغْفِر لي وارحمني وَعَافنِي واهدني وارزقني
اس کو ابو داود نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اسی طرح ترمذی نے بھی سوائے اس کے کہ فرمایا عافنی  کے بجائے واجبرنی ہے۔
اور ابن ماجہ نے بھی اس لفظ سے: رات کی نماز میں آپ ﷺ دو سجدوں کے درمیان یہ پڑھتے تھے
رب اغْفِر لي وارحمني واجبرني وارزقني وارفعني
اور حاکم نے ابو داود کے الفاظ سے روایت کیا پھر ابن ماجہ کے الفاظ سے "اھدنی" کے اضافہ کے ساتھ پھر ان دونوں میں فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، فرمایا: بعض نے اس حدیث کو کامل ابو العلاء سے روایت کیا ہے یعنی اس کا ایک راوی مرسلاً۔
امام حاکمؒ نے فرمایا: یہ ابوالعلاء  وہ ہے جو کوفیوں کے احادیث کو جمع کرتے ہیں۔
میں (ابن ملقنؒ) کہتا ہوں:  (ابو العلاء) کو یحییٰ بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے اور نسائی نے ایک مرتبہ فرمایا: لیس بالقوی اور ایک مرتبہ فرمایا لیس بہ بأس۔ اور ابن عدیؒ نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ ان میں کوئی حرج نہیں(لا بأس بہ) اور ابن حبانؒ نے ان پر جرح کی۔
۲۹۵۔ مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا پس جب آپ ﷺ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے ، نہیں اٹھتے یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاتے۔
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۹۶۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا ہم پر تشہد فرض ہونے سے پہلے ہم یہ کہا کرتے تھے: السَّلَام عَلَى الله قبل عباده السَّلَام عَلَى جِبْرِيل وَمِيكَائِيل السَّلَام عَلَى فلَان  تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مت کہو السلام علی اللہ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی السلام ہیں، لیکن تم لوگ کہو: التَّحِيَّات لله والصلوات والطيبات السَّلَام عَلَيْك أَيهَا النَّبِي وَرَحْمَة الله وَبَرَكَاته السَّلَام علينا وَعَلَى عباد الله الصَّالِحين أشهد أَن لَا إِلَه إِلَّا الله وَأشْهد أَن مُحَمَّدًا عَبده وَرَسُوله
اسکو دارقطنی،بیہقی نے روایت کیا ہے، اور دونوں نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے، اور اس کو ابن السکنؒ نے بھی صحیح قرار دیا اور اس کی اصل صحیحین(بخاری و مسلم) میں ہے۔ اور مسلم میں  ثمَّ يتَخَيَّر من الْمَسْأَلَة مَا شَاءَ  کا اضافہ ہے۔
۲۹۷۔ عبد اللہ بن بجینۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ظہر کی نماز میں کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ پر بیٹھنا تھا(یعنی قعدہ چھوٹ گیا تھا) پس جب آپ ﷺ نے اپنی نماز مکمل کی تو دو سجدہ کئے، اور ایک روایت میں یہ لفظ ہے: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی بعض نمازوں میں پھر آپ ﷺ کھڑے ہوگئے بیٹھے نہیں۔۔۔۔ الحدیثَ
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا۔
اور اس پر امام بخاریؒ نے باب باندھا جو پہلے تشہد کو واجب نہیں سمجھتے اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو رکعت سے کھڑے ہوئے اور نہیں لوٹے۔
۲۹۸۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب نماز میں بیٹھتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کی وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے (شہادت کی انگلی) اس کو اٹھاتے پھر اس کے ذریعہ دعا کرتے اور آپ ﷺ کا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوا ہوتا ۔
اور ایک روایت میں ہے: جب آپ ﷺ تشہد میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اوردایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے اور اس سے ۵۳ کا گرہ بناتے اور سبابہ( شہادت کی انگلی) سے اشارہ فرماتے۔
ان دونوں کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۲۹۹۔  وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے تشہد کے بیٹھنے میں اپنی خنصر(چھوٹی انگلی) اور بنصر(کن انگلی) سے گرہ بناتے پھر  وسطی(درمیانی انگلی) اور انگوٹھے سے حلقہ بناتے اور سبابہ(شہادت کی انگلی) سے اشارہ فرماتے۔
اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔
اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے: اور بند کرتے خنصر اور جو اس کے قریب انگلی ہے اس کو ، اور اپنے انگوٹھے اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور جو ان دونوں کے درمیان انگلی(سبابہ) ہے اس کو اٹھاتے اور اس کے ذریعہ دعا فرماتے۔
۳۰۰۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پیر بناتے(رکھتے) اپنے ران اور پنڈلی کے درمیان اور سیدھے پیر کو بچھاتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کو داہنی ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے۔ اور ایک روایت میں الفاظ ہیں: اور اپنی سبابہ سے اشارہ فرماتے اور اپنے انگوٹھے کو اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے  اور کبھی اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے گھٹنے کو پکڑ لیتے۔
ان دونوں کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۰۱۔ اور انہی سے روایت ہے کہ انہوں ذکر کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے جب دعا کرتے اور اس کو حرکت نہیں دیتے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ دعا کر رہے تھے اسی طرح اور نبی ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا۔
اور ایک روایت میں آپ ﷺ کی نظر اپنے اشارہ سے نہیں ہٹاتے تھے۔
ان دونوں کو ابو داود روایت کیا ہے۔
۳۰۲۔ اور صحیح ابن حبان میں ان ہی سے روایت ہے، کہ آپ ﷺجب تشہد میں بیٹھتے اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ران پر رکھتےا ور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور اپنے سبابہ انگلی سے اشارہ فرماتے، اپنی نگاہ کو اپنے اشارہ سے تجاوز نہیں فرماتے۔
۳۰۳۔ مالک بن نمیر الخزاعی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ اپنے دائیں ہاتھ کی ذراع کو اپنی داہنی ران پر رکھتے اپنی سبابہ والی انگلی کو اٹھاتے ہوئے اس طور پر کہ اس کو کچھ موڑ دیا(کمان دار بنایا)
اس کو ابو داود،نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اور ابن حبان اور ابن السکن نے صحیح قرار دیا ہے۔
حناھا: یعنی مائل کرنا۔
۳۰۴۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: انگلی سے اشارہ کرنا شیطان پر لوہے سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔
اور انہی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ(انگلی سے اشارہ کرنا) شیطان کو خوفزدہ کرنے والا ہے۔
ان دونوں کو ابن السکن نے اپنی صحیح میں اس باب میں ذکر کیا ہے۔
۳۰۵۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو اپنی نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا، نہ اس نےا للہ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا و نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ جلدی ہے، پھر اس کو بلایا تو اس سے اور دوسرے سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو چاہئے کہ اپنے رب کی بزرگی اور اس کی تعریف سے شروعات کرے پھر نبی ﷺ پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا یہ حسن صحیح ہے۔ اور حاکم نے کہا: یہ شیخین کی شرط پر ہے اور میں اس کی کوئی علت نہیں جانتا ہوں۔
۳۰۶۔ ابو مسعود عقبہ بن عامر انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  فرمایا: ایک شخص  آیا یہاں تک رسول اللہﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اس حال میں کہ ہم آپ ﷺ کے پاس تھے پس فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ بہرحال آپ پر سلام بھیجنا تو ہم جانتے ہیں پس کیسے ہم آپ پر صلوٰۃ بھیجیں جب ہم آپ پر اپنی نماز میں  صلاۃ بھیجناہے؟ فرمایا: پس اللہ کےرسول ﷺ سکوت فرمائے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ وہ شخص آپ ﷺ سے سوال نہ کرتا، پھر فرمایا: جب تم مجھ پر صلاۃ بھیجو تو کہو:
اللَّهُمَّ صل عَلَى مُحَمَّد النَّبِي الْأُمِّي وَعَلَى آل مُحَمَّد، كَمَا صليت عَلَى إِبْرَاهِيم وَعَلَى آل إِبْرَاهِيم، وَبَارك عَلَى مُحَمَّد النَّبِي الْأُمِّي وَعَلَى آل مُحَمَّد، كَمَا باركت عَلَى إِبْرَاهِيم وَعَلَى آل إِبْرَاهِيم إِنَّك حميد مجيد
اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور فرمایا اس کی سند حسن اور متصل ہے، اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی نماز میں نبی کریم ﷺ پر صلاۃ کے ذکر میں ۔
۳۰۷۔ ابن عباس رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ  انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ ہمیں تشہد سکھلاتے تھے جیسا کہ ہمیں قرآن کریم کا سورہ سکھاتے پس آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
التَّحِيَّات المباركات الصَّلَوَات الطَّيِّبَات لله، السَّلَام عَلَيْك أَيهَا النَّبِي وَرَحْمَة الله وَبَرَكَاته، السَّلَام علينا وَعَلَى عباد الله الصَّالِحين، أشهد أَن لَا إِلَه إِلَّا الله، وَأشْهد أَن مُحَمَّدًا رَسُول الله
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور میں نے  تشہدات کو الرافعی کی احادیث کی تخریج( البدر المنیر) میں ذکر کیا ہے، تو ان کی تعداد تیرا (۱۳) تک پہنچ گئی تو اس کی طرف رجوع کریں کیوں کہ وہ اہم  ہے۔
اور ان میں سے
۳۰۸۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: چاہئے کہ تم میں سے کسی کا قول ہو:
التَّحِيَّات الطَّيِّبَات الصَّلَوَات لله السَّلَام عَلَيْك أَيهَا النَّبِي وَرَحْمَة الله وَبَرَكَاته السَّلَام علينا وَعَلَى عباد الله الصَّالِحين أشهد أَن لَا إِلَه إِلَّا الله وَأَن مُحَمَّدًا عَبده وَرَسُوله
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۰۹۔ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا: نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے کہا: ہم جانتے ہیں کہ آپ ﷺ کیسے سلام بھیجا جائے پس ہم کیسے آپ پر صلاۃ بھیجیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:تم کہو:
اللَّهُمَّ صلي عَلَى مُحَمَّد وَعَلَى آل مُحَمَّد كَمَا صليت عَلَى إِبْرَاهِيم إِنَّك حميد مجيد اللَّهُمَّ بَارك عَلَى مُحَمَّد وَعَلَى آل مُحَمَّد كَمَا باركت عَلَى إِبْرَاهِيم وَعَلَى آل إِبْرَاهِيم إِنَّك حميد مجيد
اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۱۰۔ علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ تشہد اور سلام کے درمیان فرمایا کرتے تھے:
للَّهمَّ اغفِر لي مَا قَدَّمتُ، وَمَا أَخَّرتُ، وَمَا أسررْتُ، وما أعلنتُ، وما أسْرَفتُ، وما أَنت أعلم بِهِ مني، أنتَ المُقَدِّمُ، وأنت المؤخِّرُ، لا إله إلا أنتَ
اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۱۱۔ ابو ہریرہ رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں  کوئی تشہدِ آخر سے فارغ ہوجائے تو چاہئے کہ وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے: ۱۔ عذاب جہنم سے، ۲۔عذاب قبر سے، ۳۔ زندگی اور موت کے فتنوں سے، اور ۴۔ مسیح دجال کے فتنہ سے۔
اس کو بھی مسلم نے روایت کیا ہے۔
۳۱۲۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کو دیکھتا تھا وہ اپنے دائیں جانب اور بائیں جانب سلاف پھیرا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک کی سفیدی دیکھی جاتی تھی۔
اس کو بھی مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور دار قطنی کی ایک روایت میں ہے: آپ ﷺ دائیں جانب سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک کی سفیدی دیکھی جاتی اور بائیں جانب پھیرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک کی سفیدی دیکھی جاتی۔
پھر فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔
۳۱۳۔ ابن مسعود رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نہیں بھولا چیزوں کو پس میں نہیں بھولا اللہ کے رسول ﷺ کے نماز میں  سلام پھیرنے کو دائیں جانب اور بائیں جانب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ پھر فرمایا: گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں آپ ﷺ کے رخسار مبارک کی سفیدی کو۔
اس کو دار قطنی نے روایت کیا اور ابن حبان  نے اس کی تصحیح فرمائی۔
۳۱۴۔ حسنؒ سے مروی ہے وہ سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہم امام کا جواب دیں ، اور ہم ایک دوسرے سے محبت کریں اور ہم ایک دوسرے کو سلام کریں۔
اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے اور یہ انہی کے الفا ظ ہیں، اور ابن ماجہ میں ان الفاظ سے ہے: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم اپنے ائمہ کو سلام کریں اور ہم میں سے بعض بعض کو سلام کریں۔
اور اس کو حاکم نے روایت کیا ابو داود کے الفاظ میں پھر فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ فرمایا: اور سعید بن بشیر جو ابو داود کی سند میں ہے اہل شام کے اپنے زمانہ کے امام تھے سوائے ا س کے شیخین نے ان کی روایت نہیں لی جب ابو مسھر نے ان کو سوء حفظ سے متصف فرمایا۔ فرمایا: اور اس کی طرح نہیں اترتے اس قدر۔
۳۱۵۔ عاصم بن ضمرۃ سے مروی ہے وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، فرمایا نبی کریم ﷺ عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ان کے درمیان مقرب فرشتوں اور جو مسلانوں اور مومنوں میں سے ان کی اتباع کریں ان پر سلام کے ذریعہ فصل فرماتے تھے۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: حسن۔

شیخ تقی الدینؒ الالمام مین فرمائے: ان میں سے بعض اس عاصم کی روایت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح فرماتے ہیں۔
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج (على ترتيب المنهاج للنووي)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں