جمعرات، 14 اپریل، 2016

حرام مشروبات اور منشیات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرام مشروبات اور منشیات

                کھانے پینے کی اشیاء میں اصل اباحت و حلت ہے (یعنی ان کا مباح ہونا اور حلال ہونا ہے)  اللہ تعالیٰ کے فرمان میں عموم کی وجہ سے
 هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا" اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے پیدا فرمایا جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب"(سورہ البقرہ :29)
تاہم جن اشیاء کی حرمت پر کوئی دلیل موجود ہو، وہ حرام ہوں گی۔
حرام مشروبات:-
1.جو مضر و مہلک ہو، جیسے زہر وغیرہ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ترجمہ:" اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو "( سورہ البقرہ :195)
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ترجمہ: "اور مت قتل کرو اپنی جانوں کو، بے شک اللہ تم پر بہت بڑا مہربان ہے"(سورہ النساء:29)

2.جو نجس ہو، جیسے خون ،پیشاب،حرام جانوروں کا دودھ، وہ سیال (بہنے والی چیز)جس میں نجاست گرنے کی وجہ سے وہ متنجس (نجس )ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا " ترجمہ:" یا بہتا ہوا خون ہو(حرام ہے)"
جیسا کہ مروی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی(دیہاتی) مسجد میں پیشاب کیا، تو بعض لوگ اس کی طرف کھڑے ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" اس کو چھوڑ دو اور مت توڑو، راوی نے کہا: جب وہ (اعرابی) فارغ ہوگیا تو نبی ﷺ نے ایک ڈول پانی کا منگایا پھر اس پر پانی ڈالا۔(صحیح مسلم حدیث 284)
اس حدیث میں پانی ڈالنے کا حکم دینا اس پیشاب کے نجس ہونے کی دلیل ہے۔
3.جو نشہ آور ہو، یعنی مستی لانے والی مدہوش کرنے والی ہو، خواہ انگور سے بنی شراب ہو یا کسی اور چیز سے۔
                نشہ آور چیزوں کی حرمت میں اصل دلیل اللہ عز و جل کا فرمان ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ:" اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر گندی چیزیں ہیں، شیطان کے کاموں میں سے ہیں لہٰذا تم ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔"( سورہ المائدہ:90)
تمام نشہ آور چیزیں حرام ہیں:
قرآنِ کریم کی آیت اگر چہ نص ہے صرف "خمر" پر اور وہ انگور سے بننے والی شراب ہے، مگر تمام نشہ آور چیزیں اس میں داخل ہیں، اور وہ ان دلائل کی بنیاد پر ہے:
1. آپ ﷺ نے فرمایا
"كلّ شراب أسكر فهو حرام"  " ہر نشہ آور مشروب حرام ہے۔"(صحیحین، بخاری کتاب الاشربہ، حدیث نمبر 5263، مسلم کتاب الاشربہ حدیث 2001)
2.اللہ کے رسول ﷺ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں "الخمر" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: كل مُسكِر خمر، وكل خمر حرام
"ہر نشہ آور چیز خمر ہے، اور ہر خمر حرام ہے۔"(صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، باب بیان ان کل مسکر خمر)

3.خمر(شراب) کے حرام ہونے کی وجہ یا علت اس کا وصف نشہ ہے امت کے اجماع  سے، تو اس سے لازم ہوا کہ ہر وہ مشروب جس میں نشہ ہے وہ حرام ہے چاہے کسی بھی نام سے ہو۔ عن أبي مالك الأشعري - رضي الله عنه -، أنه سمع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: " ليشربَنَّ ناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها".
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
" ضرور میری امت کے  بعض لوگ شراب کو نام بدل  کر پئیں گے۔"(ابو داود حدیث نمبر 3688، ابن ماجہ باب الفتن حدیث نمبر 4020)
لہٰذا ناموں کا الگ ہونا نشہ آور چیز کو شراب کے حکم سے نہیں نکالتا اور وہ حرام ہے۔
جس سے نشہ آتا ہو اس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے:                مُسکِر (نشہ آور) ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس جنس میں نشہ اور مستی لانے کی صفت موجود ہو پس اس کی قلیل مقدار اور ایک قطرہ بھی حرام ہوگا، گو اس سے نشہ نہ آئے، کیوں کہ سنن وغیرہ کی احادیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
"ما أسكر كثيره فقليله حرام"  یعنی"جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔"(سنن ابن ماجہ  3392، سنن ابو داود 3681، سنن الترمذی 1865، سنن النسائی 5607، مسند احمد 6558 وغیرہ)
نوٹ:تمام نشہ آور مشروب شافعی مسلم میں نجس ہیں۔ دلیل  سورہ مائدہ کی آیت  نمبر 90 ہے جو  اوپر گذری۔
حکمت: انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت عقل ہے۔ جس کی وجہ سے اسے دیگر حیوانات پر خاص توفق وبرتری اور شرافت حاصل ہے، اور اسی کی روشنی میں اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی صحیح اصول اور ضوابط کے مطابق گذرسکتی ہے۔
                اور یہ نشہ آور اشیاء اس عظیم نعمت سے محروم کر کے حیوانیت سے بھی ذلیل تر گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں، نتیجہ میں شہوات  و فواحش، سب و شتم، دشمنی و بغض اور لڑائی جھگڑے جیسے مسموم اثرات جنم لیتے ہیں، اور آپسی اخوت و محبت کا رشتہ تار تار ہوجاتا ہے۔ مزید برآں اللہ کے ذکر و عبادت سے روک کر اس کی رحمت اور فضل و احسان سے دور لے جاکر پھینک دیتی ہیں اور شیاطین کے صف میں کھڑی کردیتی ہیں۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ۔
شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں دشمنی اور بغض واقع کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے، سو کیا تم باز آنے والے ہو؟(سورہ المائدہ 91)

 آپ ﷺ کے اس فرمان نے تو اسے اور مؤکد فرمادیا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْتَنِبُوا الْخَمْرَ فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ»
"شراب سے بچو کیوں کہ وہ ہر شر کی کنجی  ہے۔"(مستدرک حاکم 7231)
ایک روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے  فرمایا
عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: " اجْتَنِبُوا الْخَمْرَ فَإِنَّهَا أُمُّ الْخَبَائِثِ
"شراب سے بچو کیوں کہ وہ ام الخبائث (سارے شر و فساد کی جڑ)  ہے۔"(سنن النسائی 5666)
نشہ آور چیز پینے والے پر کیا احکام مرتب ہوں گے؟
نشہ آور اشیاء کے حرام ہونے اور اس کی حرمت کی حکمت جان لینے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نشہ آور مشروبات پینے والے پر کیا احکام مرتب ہوں گے؟
نشہ آور اشیاء پینے والے پر دو قسم کے احکام مرتب ہوں گے:
۱۔قضائی، اس کا اثر دنیا میں متحقق ہوگا۔
۲۔اخروی، اس کا اثر آخرت میں قیامت کے دن ظاہر ہوگا۔
                بہرحال جہاں تک پہلے حکم کی بات ہے تو وہ دنیا میں شراب پینے والے پر حد جاری ہوگی جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
جہاں تک  دوسرے حکم کی بات ہے، تو جیسا کہ آپ نے جان لیا کے نشہ آور مشروبات حرام ہیں تو یہ گناہ ہے اور اس کا عذاب ملے گا، اس بارے میں کتبِ حدیث میں بہت سی تفصیلات ہیں ، ہم صرف ایک حدیثِ شریف پر اکتفاء کریں گے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا"
"بے شک اللہ تعالیٰ پر ایک عہد ہے کہ جو کوئی نشہ آور چیز پئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے طینۃ الخبال پلائیں گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ﷺ طینة الخبال کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہنمیوں کے پسینہ اور ان کا رس ہے(یعنی پیپ، خون وغیرہ)۔(صحیح مسلم کتاب الاشربة باب بیان ان کل مسکر خمر۔۔ حدیث نمبر 2002)
شراب کی حد: شراب نوشی کی حد چالیس کوڑے ہیں، تاہم حاکم مناسب سمجھے تو اسے بڑھا کر اسّی (80)  تک لے جاسکتا ہے، اور یہ زائد مقدار تعزیری ہوگی۔ آپ ﷺ اور صدیقِ اکبر سے چالیس، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اسّی (80) اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے چالیس کوڑے مروی ہیں۔(مسلم) پس فقہائے کرام نے چالیس کو اصل حد اور مزید کو تعزیر قرار دیا ہے۔
                عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  انہوں نے ولید بن عقبہ بن مُعیط کو کوڑے مارنے کا حکم دیا تو حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے ولید کو کوڑے مارے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گِن رہے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو انہوں نے کہا: رک جاؤ، پھر فرمایا: نبی کریم ﷺ نے چالیس کوڑے مارے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے مارے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی کوڑے مارے، اور یہ تمام سنت ہے اور یہ یعنی چالیس کوڑے مجھے زیادہ پسند ہے۔(صحیح مسلم کتاب الاشربہ باب حد الخمر حدیث نمبر 1707)
حد کب جاری کی جائے:-شربی کو نشہ کی حالت میں سزاد نہ دی جائے۔، کہ اس سے صحیح عبرت اور تنبیہ حاصل نہ ہوگی، بلکہ نشہ ختم ہونے کے بعد سزا دی جائے۔
٭حد کے شرائط: حد کے نفاذ کے لئے درجِ ذیل کسی ایک طریقہ سے شراب نوشی کا ثبوت ہونا چاہئے۔
1.دو عادل مرد کی گواہی، صرف ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی یا حاکم کے علم کی بنیاد پر حد نافذ نہیں ہوگی۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ پر حد جاری کی تو انہوں نے ان پر دو گواہ بنائے۔(صحیح مسلم کتاب الاشربہ، باب حد الخمر، حدیث نمبر 1707)
2.اقرار: شرابی خود اقرار کرے کہ میں نے شراب پی ہے۔
٭ درجِ ذیل صورتوں میں حد کا نفاذ نہ ہوگا۔
جبراً کوئی پلائے، اسے پتہ ہی نہ ہو کہ یہ شراب ہے، شراب کی قئی کرنا، منہ سے شراب کی بو محسوس ہونا، کیوں کہ غلطی یا اکراہ کا بھی احتمال بھی موجود ہے۔
نفاذ کا مستحق ہے: اس حد کو نافذ کرنے کا اصل حق دیگر حدود کی طرح حاکمِ وقت کو ہے۔ عوام الناس کو حد جاری کرنے کی اجازت نہیں۔
تنبیہ: شراب یا کسی دوسرے گناہ کی حد کے مستحق شخص پر یہ لازم نہیں ہے کہ اپنے آپ کو سزا کے لئے عدالت میں قاضی کے سامنے پیش کرے، بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے پکی اور سچی توبہ کر کے اسے معاف کرالے، جیسا کہ صحیحین وغیرہ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
                حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ مجھ پر حد جاری کیجئے ،، بیان کیا کہ آپ ﷺ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا ، پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آپﷺ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا: کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا یا فرمایا کہ تیری حد(معاف کردی۔)(صحیح بخاری 6823)
پس اس سے معلوم ہوا کہ یہ شریعت میں مطلوب ہے کہ انسان خود کے گناہ کی ستر پوشی کرے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلے۔
(تحفۃ الباری جلد ۳، الفقہ المنہجی فی فقہ الشافعی باب الاطعمة والاشربة جلد ۳)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں