منگل، 26 اپریل، 2016

استنجا کا بیان

استنجا کا بیان

۳۳۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی رکھ(اتار) دیتے۔(ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن حبان)
امام ترمذیؒ نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور امام حاکمؒ نے فرمایا: یہ شیخین یعنی بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسی طرح شیخ تقی الدینؒ نے اقتراح کے آخر میں فرمایا۔
اور امام ابو داودؒ نے اختلاف کیا ہے چنانچہ انہوں نے اس حدیث کو منکَر فرمایا ہے۔
نیز امام بیہقیؒ نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کو ترجمہ میں صحیح قرار دیا ہے
۳۴۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا جب ہم میں سے کوئی استنجا کا ارادہ کرتا تو وہ بائیں(پیر) پر زور دیکر بیٹھتا اور داہنا (پیر) کھڑا کرتا۔(رواہ البیہقی  اور ترجمہ میں اس کی تصحیح تعلیق کی ہے)
۳۵۔ واسع بن حبانؒ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں انہوں نے فرمایا: لوگ کہتے ہیں جب حاجت کے لئے بیٹھو تو قبلہ کی طرف رخ کر کے مت بیٹھو اور نہ ہی بیت المقدس کی طرف رخ کرو، اور یقیناً میں ہمارے ایک گھر پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو اینٹوں پر بیٹھے دیکھا بیت المقدس کی جانب رخ کئے ہوئے اپنی حاجت پوری کرتے ہوئے۔(متفق علیہ)
۳۶۔ ابو ایوب(خالد بن زید) انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء کو آئے تو وہ قبلہ کی طرف رخ نہ کرے اور نہ اس کی جانب پیٹھ کرے نہ یہ بول(پیشاب) کے لئے اور نہ ہی باپئخانہ کے لئے بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب رخ کرو۔(متفق علیہ)
۳۷۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں نبی  کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"ائے مغیرہ! پانی  کا برتن لے لو ،تو میں نے اس کو لے لیا پھر میں آپ ﷺ کے ساتھ نکلا تو رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے یہاں تک کے مجھ سے غائب ہوگئے پھر آپنے قضاءحاجت کی۔۔۔۔الحدیث۔۔(متفق علیہ)
۳۸۔ اور ایک روایت میں ہے: جب آپ ﷺ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو دور تشریف لے جاتے تھے۔(رواہ ابو داود،ترمذی،نسائی ،ابن ماجہ،ابن خزیمہ،حاکم)
اور اس کو امام ترمذیؒ، ابن خزیمہؒ اور امام حاکمؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام حاکمؒ نے فرمایا: یہ مسلم کی شرط پر ہے۔
۳۹۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:" جو بیت الخلاء کو آئے تو چاہئے کہ وہ ستر کرے، پس اگر وہ کچھ نہ پائے سوائے اس کے کہ وہ ریت کے ٹیلہ کو جمع کرے تو چاہئے کہ وہ اس کی جانب پشت کرے پس بے شک شیطان آدمی  کی شرمگاہ  سے کھیلتا ہے، جس نے ایسا کیا تو اس نے اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں۔(رواہ ابو داود،ابن ماجہ،ابن حبان)
ابن حبانؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
۴۰۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رکے/ٹہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا ہے۔(رواہ مسلم)
۴۱۔ عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا سوراخ میں بول کرنے سے۔ لوگوں نے قتادؒ سے کہا: سوراخ میں بول کرنا کیوں مکروہ ہے؟ (قتادہؒ نے) فرمایا: کہا جاتا ہے وہ جنات کا ٹھکانا(رہنے کی جگہ) ہے۔(رواہ اب داود،نسائی،حاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا: یہ شیخین یعنی بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ابن المدینی(امام بخاریؒ نے شیخ) نے فرمایا: قتادہؒ نے اسے عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے سنا۔
۴۲۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
لعنت کے دو کاموں سے بچو! صحابہؓ نے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ لعنت کے وہ دو کام کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:" وہ یہ ہیں کہ لوگوں کے راستے میں یا ان کے سائے کی جگہ میں (استنجا سے) فارغ ہو ۔"(رواہ مسلم)
اور ابن مندہؒ کی ایک روایت میں: مسلمانوں کے راستے میں اور ان کی بیتھنے کی جگہوں میں ہے۔ پھر فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔
۴۳۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے پھل دار درخت کے نیچے پیشاب(پاخانہ) کرنے سے منع فرمایا ہے۔(رواہ العقیلی)
اسکی سند میں فرات بن السائب ہے امام بخاری ؒ نے فرمایا:ترکوہ
۴۴۔جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
"جب دو آدمی بائخانہ کرے تو چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی سے پردہ کرے، اور پائخانہ کرتے وقت گفتگو نہ کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔
ابن السکن نے اسے اپنی کتاب السنن  الصحاح المأثورہ میں روایت کیا ہے اور اس کے علاوہ میں کہا: میں امید کرتا ہوں کہ یہ صحیح ہو اور اسی طرح ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور پہلی والی کو ابن القطان ن صحیح کہا ہے۔
اور دوسری روایت ابو داود،ابن ماجہ میں ہے اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور ان (ابن حبان ) کے الفاظ یہ ہیں:" نہ بیٹھے دو آدمی پائخانہ کے لئے گفتگو کرتے ہوئے اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس پر نارا ض ہوتےہیں۔"(رواہ ابو داؤد فی الطہارہ باب کراھیۃ الکلام عند الحاجہ،ابن ماجہ فی الطہارہ باب النھی عن الاجتماع علی الخلاء ، الحاکم 1/157 صححہ ووافقہ الذھبی،ابن حبان)
۴۵۔عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"تم میں سے کوئی ہرگز پیشاب نہ کرے اپنے حمام میں(غسل خانہ میں) پھر اس میں وضو کرے کیوں کہ عام طور پر وسوسہ اسی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
رواہ الاربعہ (ابو داود فی الطہارۃ باب المواضع التی نھی النبی ﷺ عن البول فیھا، الترمذی فی الطھارۃ باب ما جاء فی کراھیۃ البول فی المغتسل، النسائی فی الطھارۃ باب کراھیۃ البول فی المستحم،ابن ماجہ فی الطھارۃ باب کراھیۃ البول فی المغتسل،الحاکم 1/167 و صححہ علی شرطھما ووافقہ الذھبی، و ذکر لہ شاھدا عن ابی ھریرۃ۔۔۔۔)
 امام ترمذی نے کہا: غریب اور ابن سکنؒ نے صحیح قرار دیا۔
اور حاکمؒ نے بخاریؒ ومسلمؒ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے پھر اس کا شاہد ذکر کیا، اور عبد الحق نے اسے معلل قرار دیا جو ابن القطان ؒ کو اس میں وہم ہوا۔
میں کہتا ہوں: اس کی سند میں اشعت بن عبد اللہ الحدانی ہے اور نسائی وغیرہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
شمس الدین الذھبیؒ نے اپنی کتاب "تھذیب" میں فرمایا: میں نہیں جانتا ہوں کسی کو جس نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
میں کہتا ہوں: اس کو العقیلی نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے اور کہا اس کی حدیث میں وہم ہے پھر اس کی یہ حدیث ذکر کی۔
۴۶۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کا گذر دو قبروں کے پاس سے ہوا، اور فرمایا: بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے، اور ان دونوں کی کسی بڑی بات پر عذاب نہیں دیا جارہا ہے، (بلکہ) ان میں سے ایک پیشاب(کے چھینٹوں ) سے نہیں بچتا تھا اور رہی بات دوسرے کی تو وہ چغل خوری کرتا پھرتا تھا، پس آپ ﷺ نے ایک تازی (کھجور کی)ٹہنی لی پھر اس کو آدھا آدھا کیا  پھر ان میں سے ہر ایک کو ایک قبر میں لگایا(دھنسایا) تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے یہ کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید(تاکہ) کہ ان دونوں پر (عذاب) ہلکا کیا جائے جب تک یہ دونوں(ٹہنیاں) خشک نہ ہو۔
متفق علیہ، اور مسلم میں لفظ "لا یستنزہ عن البول او من البول "ہے
اور بخاری میں لفظ "لا یستبرئ من البول " ہے اور "کبیر" کےبعد "بلی "ہے
اور بخاری کے بعض روایتوں میں یہ ہے کہ آپ ﷺ مدینہ کے بعض باغات سے نکلے تو آپ ﷺ دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں انکی قبروں میں عذاب دیا جارہے تھا۔۔۔ الحدیث(بخاری فی الوضوء باب ما جاء فی غسل البول،باب من الکبائر ان لایستتر من بولہ،مسلم فی الطہارۃ)
۴۷۔علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"بنی آدم کی شرمگاہوں اور جنوں کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہے جب وہ  بیت الخلاء میں داخل ہو تو کہے "بسم اللہ"
یا
بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ کہنا انسان کی شرمگاہوں اور شیطان(جنات) کی آنکھوں کے درمیان پردہ کردیتا ہے۔
اسکو ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا اس کی سند قوی نہیں ہے۔(ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ما یقول الرجل اذا دخل الخلاء، ترمذی فی الصلاۃ باب ما ذکر من التسمیۃ عند دخول الخلاء،قال الشاکرحسن)
۴۸۔انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو فرماتے:
"اللہم انی اعوذبک من الخبث والخبائث" یعنی اے اللہ میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں خبیث مذکر و مؤنث جنات سے۔"
متفق علیہ
مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: "اعوذ باللہ"
اور بخاری کی ایک روایت میں تعلیقاً یہ ہے : "اذا اتی"
اور دوسری میں "اذا اراد ان یدخل "ہے۔
(بخاری فی الوضوء باب ما یقول عند دخول الخلاء، فی الدعوات باب الدعاء عند الخلاء، مسلم فی الحیض)
ابن السکن کی ایک روایت جو ان کی صحیح میں ہو اس کے شروع میں باسم اللہ ہے۔
۴۹۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انھوں نے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ جب بیت الخلاء سے نکلتے تو "غفرانک "فرماتے۔ اس کو الاربعہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن کہا ہے اور ابن خزیمہ،ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔(ابو داود فی الطہارۃ باب ما یقول الرجل اذا خرج من الخلاء،ترمذی فی الطہارۃ باب ما یقول اذا خرج من الخلاء،نسائی فی عمل الیوم واللیلہ، ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ما یقول اذا خرج من الخلاء،ابن خزیمہ 1/48،ابن حبان 2/510،مستدرک الحاکم 1/158۔۔۔۔)
۵۰۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء سے نکلتے تو فرماتے:
الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذی وعافانی۔
اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم المخزومی ہے اور وہ ضعیف ہے لیکن یہ فضائل اعمال میں ہے۔(ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ما یقول اذا خرج من الخلاء،ابن السنی فی عمل الیوم واللیلہ)
۵۱۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"بے شک میں تمہارے لئے تمہارے والد کے مثل  ہوں میں تم کو سکھلاتا ہوں تو جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء آئے تو وہ قبلہ کی جانب رخ نہ کرے اور نہ ہی پیٹھ کرے اور نہ ہی استنجا سیدھے(داہنے ہاتھ) سے کرے، اور آپ ﷺ تین پتھر(سے استنجا) کا حکم فرماتے اور لید اور ہڈی سے منع فرماتے۔ رواہ ابوداود،ابن ماجہ اور نسائی۔
اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا اور اس کے الفاظ یہ ہیں: اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا اور اس کے الفاظ یہ ہیں: اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا اور اس کے الفاظ یہ ہیں: اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا اور اس کے الفاظ یہ ہیں: اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا اور اس کے الفاظ یہ ہیں:  بے شک میں تمہارے لئے والد کے مثل ہوں میں تم کو سکھلاتا ہوں، جب تم میں سے کوئی استنجاء کے لئے آئے تو تم میں سے کوئی قبلہ کی جانب رخ نہ کرے اور نہ ہی پیٹھ کرے استنجاء کے وقت اور نہ ہی تین پتھر سے کم سے استنجاء کرے  جس میں لید اور ہڈی  نہ ہو۔ اور امام شافعی نے روایت کیا  اور فرمایا کہ یہ حدیث ثابت ہے اور الفاظ یہ ہیں: "اور چاہئے کہ تین پتھر سے استنجاء کرے۔"
۵۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عورتوں سے کہا:" اپنے شوہروں کو کہو کہ پانی سے استنجاء کرو کیوں کہ میں ان سے حیا کرتی ہوں، اور اللہ کے رسول ﷺ وہ(پانی سے استنجا) فرماتے تھے۔رواہ احمد 5/95،  والترمذی  باب ما جاء فی الاستنجاء والنسائی باب الاستنجاء بالماء  و ابن حبان ۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابن حبانؒ نے بھی اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے۔
۵۳۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا: "" یہ آیت قباء والوں کے متعلق نازل ہوئی ہے، تو ان سےنبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا، تو ان لوگوں نے کہا: ہم لوگ(استنجاء کے لئے) پتھر کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں۔ رواہ البزار، اور فرمایا: ہم نہیں جانتے کہ زہری سے اس روایت کو سوائے محمد بن عبد العزیز کے کوئی روایت کیا ہو اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ اس سے اس کے بیٹے کے علاوہ کسی نے روایت کیا ہو۔
میں(ابن ملقنؒ) کہتا ہوں کہ یہ محمد(یعنی محمد بن عبد العزیز) (محدثین نے)ضعیف (قرار دیا)ہے۔
اور ابو داود، ابن ماجہ اور ترمذی میں ابو ہریرہؓ کی روایت میں اہل قباء کا ایک قصہ ہے اس میں پتھروں کا ذکر نہیں۔
۵۴۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی  ڈھیلوں سے استنجاء کرے تو چاہئے کہ وہ طاق عدد (استعمال) کرے۔ متفق علیہ۔
۵۵۔ سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے استنجاء کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"أَوَلَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ حَجَرَانِ لِلصَّفْحَتَيْنِ وَحَجَرٌ لِلْمَسْرُبَةِ"
کیا تم میں سے کوئی تین پتھر نہیں پاتا، دو پتھر چوڑائی کے لئے اور ایک پتھر مسربۃ (پائخانہ نکلنے کی جگہ) کے لئے۔" دارقطنی،بیہقی نے روایت کیا۔ اور امام بیہقی نے فرمایا اس کی سند حسن ہے۔ امام عقیلیؒ نے اختلاف کیا پس انہوں نے اس کو معلول کہا۔

۵۶۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج (على ترتيب المنهاج للنووي)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں