ہفتہ، 4 اپریل، 2020

وہ آیات اور احادیث جن میں مصیبت کے دور کرنے کیلئے اور مدد مانگنے کیلئے صرف اللہ کو پکارنے کا حکم ہے


 وہ آیات اور احادیث جن میں مصیبت کے دور کرنے کیلئے اور مدد مانگنے کیلئے صرف اللہ کو پکارنے کا حکم ہے

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ        (سورہ الفاتحہ)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مددمانگتے میں۔

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (پارہ ۸ رکوع نمبر ۱۴ )
ترجمہ : تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو یقیناً وہ حدسے گزرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (پارہ ۲۴ رکوع نمبر ۱۱)
ترجمہ :تمہارا رب کہتاہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار سنوں گا ، جو لوگ میری بندگی سے اکڑتے ہیں اورتکبر کرتے ہیں، آئندہ جھکے ہوئے ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (پارہ ۷ رکوع نمبر ۸ )
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو خوداس کے سوا اسے دورکرنے والا کوئی نہیں، اور اگر وہ تمہیں بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہی ہے ۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (پارہ ۱۱ رکوع نمبر ۱۶ )
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی  تکلیف پہنچادےتو اس کےسواکوئی نہیں ہے جو اسے دور کردے اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانے  کا ارادہ کرے تو کوئی نہیں جو اسکے فضل کا رخ پھیردے وہ اپنافضل اپنے بندوں میں سے جسں کو چاہتاہے ، پہنچادیتا ہے اور وہ بہت بخشنےوالا بڑا مہربان ہے ۔


اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا (پارہ ۹ رکوع نمبر ۵ )
ترجمہ:اللہ سے مدد مانگو اور صبرسے کام لو

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَ                        (پارہ۲۰ رکوع ۱۰ )
ترجمہ: (ائے پیغمبر ان سے) کہو، ذرایہ بتلاؤ کہ اگر اللہ تم پررات کو ہمیشہ کیلئے قیامت تک مسلط رکھے تو اللہ کےسوا کونسا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لے کر آئے ؟بھلا کیا تم سنتے ہو؟

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ (پارہ ۲۹ رکوع ۲ )
ترجمہ:اور ان سے پو چھئے کہ اگر تمہارا پانی (کنؤں یا چشموں کا) نیچے اتر جائے، تو کون ہے جو تمہارے لئے چشمے جاری کرے گا؟

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ( پارہ ۲۰ رکوع نمبر۱)
ترجمہ: بھلاوہ کون ہے کہ جب کوئی بے قراراسے پکارتا ہے تو وہ اس دعاکو قبول کرتاہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہےکیا (پھر بھی تم کہتے ہوکہ ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔






عن ابن عباسؓ ،کنت خلف النبیؐ، یوما فقال: یاغلام انی اعلمک کلمٰت: احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک، اذا سألت فاسأل اللہ  واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم: ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیء ، لم ینفعوک الا بشیء  قدکتبہ اللہ لک (رواہ الترمذی و قال : حدیث حسن صحیح)
ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺکے پیچھے سوار تھا آپﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:ائے لڑکے!تو اللہ کے حقوق کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت کر گا، توُ  اللہ کے حقوق کی حفاظت کرتواس کو اپنے سامنے پائے گا۔ اور جب کچھ  مانگنا ہو تو اللہ تعا لیٰ سے مانگ، اور جب مدد کی ضرورت ہوتو اللہ تعالیٰ سےمددطلب کر، اور یقین رکھ کہ ساری جماعت اگر تجھے کوئی نفع پہنچانے پر جمع ہو جائے تو تجھے کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیاہے۔)ترمذی)
’’اللہ سے مانگ‘‘   یعنی صرف اللہ تعالیٰ سے مانگ اس لیے کہ عطیّات کے خزانے اسی کے پاس ہیں۔ اور عطاء و بخشش کی کنجیاں اسی کےہاتھ میں ہیں ۔ ہر نعمت یا نقمت، خواہ دُنیا کی ہو یا آخرت کی، جو بندے کو پہنچتی ہے یا اس سے دفع ہوتی ہے وہ صرف اسی کی رحمت سے ملتی ہے ، کیونکہ وہ جوادِ مطلق ہے۔ اور وہ ایساغنی ہے کہ کسی کامحتاج نہیں ۔ اس لیے امید صرف اسی کی رحمت سے ہونی چاہیے۔ بڑی بڑی مہمات میں التجااسی کی بارگاہ میں ہونی چاہیے اور تمام امور میں اعتماد اسی کی ذات پر ہونا چاہیے۔ اس کے سواکسی سے نہ مانگے کیونکہ اس کے سواکوئی دوسرانہ دینے پر قادرہے نہ روکنے پر، مصیبت ٹالنے پر، نہ نفع پہنچانے پر۔ کیونکہ اس کے ماسواخوداپنی ذات کے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، اور نہ وہ موت و حیات کی قدرت رکھتے ہیں۔
قبیلۂ بنو الہجیم سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی فرماتے ہیں:
’’قلت یا رسول اللہ إِلَامَ تَدْعُو؟ قَالَ: " أَدْعُو إِلَى اللہ وَحْدہ، الَّذِي إِنْ مَسَّكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتہ، كَشَفَ عَنْكَ، وَالَّذِي إِنْ ضَلَلْتَ بِأَرْضٍ قَفْرٍ دَعَوْتہُ، رَدَّ عَلیْكَ، وَالَّذِي إِنْ أَصَابَتْكَ سَنۃٌ فَدَعَوْتہُ، أَنْبَتَ عَلیْكَ ‘‘
میں نے عرض کیا ائے اللہ کے رسول ﷺ  آپ کس کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں؟ فرمایا: میں اس اللہ وحدہ لاشریک کی طرف لوگوں کو بلاتا ہوں کہ جب تم کو کوئی مصیبت پیش آئے تو تم اس کو پکارتے ہو ، اور وہ تمہاری مصیبت دور کرتا ہے ، جب تم کسی چٹیل میدان ،صحراء میں ہو  اور تمہاری سواری گم ہو جائے ، تو تم اس کو پکارتے ہو ، وہ تمہاری سواری لوٹاتا ہے ، اور اگر تم پر قحط سالی آتی ہو ، اور تم اس کو پکارتے ہو تو وہ تمہارے لئے (بارش برسا کر زمین سے) غلہ اگاتا ہے۔
             حضرت پیرانِ پیر شاہ عبدالقادرجیلانیؒ الفتح الربانی کی مجلس ۶۱ میں فرماتے میں:
ان الخلق عجز عدم، لا ھلک باید یھم ولا ملک، لا غنیٰ بایدیھم ولا فقر، ولاضر بایدیھم ولا نفع، ولا ملک عندھم الا للہ عزوجل لا قاد ر غیرہ ، ولا معطی ولا ما نع ولا ضار ولا نافع غیرہ، ولا ممیت غیرہ
ترجمہ: بےشک مخلوق عاجز اور عد م محض ہے، نہ ہلا کت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ ملک، نہ مالداری ان کے قبضہ میں ہے نہ فقر، نہ نقصان ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ نفع،نہ اللہ تعالیٰ کے سواان کے پاس کوئی ملک ہے اور نہ اس کے سواکوئی قادر ہے، نہ اس کے سوا کوئی دینے والا ہے۔نہ روکنے والا، نہ کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے، نہ نفع دے سکتا ہے، نہ اس کے سوا کوئی زندگی دینے والا ہے نہ موت۔
          یہی عقیدہ تمام اولیاء اللہ کا اور تمام اکابراہل سنّت کا ہے۔( تحفہ ٔ توحید: 40-43)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں