ہفتہ، 4 اپریل، 2020

کفاربھی شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے تھے


کفاربھی شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے تھے


یہ بات بھی صحیح ہے، کہ اگرچہ مشرکینِ عرب بعض جزوی امور اور معاملات  (اور تکوینی امور)میں خدا تعالیٰ کے بندوں کو عطائی اور غیرمستقل طورپر متصّرف اور سفارشی مانتے تھے۔ لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مصیبتوں میں صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے سب ان کے دل اور دماغ سے ایسے وقت بالکل نِکل جاتے تھے۔
قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (40) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ﴿۴۱﴾ (پ:۷، سورہ انعام)
تو کہہ، دیکھوتو اگر آوے تم پراللہ کا عذاب یا آوے تم پر قیامت،کیا اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کو پکاروگے۔ بتاؤ اگر تم سچےّ ہو، بلکہ اسی کو پکاروگے،پھروہ    دُور کردے گا اس کو پکاروگے۔ اگر اس کی مرضی ہوئی اور تم بھُول جاؤگے جن کو تم شریک کرتے ہو۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں بھی بیان فرمایا ہے کے کفار جب سمندر کی موجوں میں گھر جاتے ہیں ۔تواس وقت اصل خداہی یاد آتا ہے۔ اب وہ  یوں کہتے ہیں۔
لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے نجات   دی تو ضرور ہم شکرگزار  لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔
 یہی مضمون سورہ بنی اسرئیل میں اس طرح بیان کیاگیا ہے۔
وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ
یعنی جب سمندر  میں تمھیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو جن (دیوتاؤں) کو تم پکار تے ہووہ سب غائب ہوجاتے  ہیں ۔بس صرف اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے۔



فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (پ ۲۰ ،عنکبوت ، ۷ع )
پھر جب سوار ہوئے کشتی میں، پکارنے  لگے اللہ تعالیٰ کو، خالص اسی پر رکھ کر اعتقاد، پھر جب بچالایا ان کو زمین کی طرف، اسی وقت لگے شرک کرنے۔
حضرت عکرمہ ؓ  بن ابی جہل فتح مکہّ کے موقع پر اس خوف کے مارے کہ کہیں میں اپنی اسلام دشمنی کی پاداش میں قتل نہ کردیا جاؤں،بھاگ کر سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوگئے۔ جب کشتی بھنور میں موجوں کے تھپیڑوں سے دوچار  ہوئی تو ملاّحوں نے کہا :
اخلصوا فان الھتکم لا تغنی  عنکم  شیئاً ھٰھنا
خالص اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کرتے ہوئے اسی کو پکارو، کیونکہ تمہارے دوسرے اِلہٰ اس موقع پر کسی کا م نہیں آسکتے۔
حضرت عکرمہؓ نے کہا: اگرسمندر میں وہ کام نہیں آسکتے تو خشکی پر اللہ تعالیٰ کے سواکون کام آسکتاہے؟ پھر عہد کیا کہ اے اللہ میں اقرار کرتاہوں کہ اگر تونے مجھے اس مشکل سے نجات دی تو میں حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ  پر بیعت کرلوں گا، کیونکہ یہی سبق تو ہمیں وہ بتلاتے ہیں۔ جس سے ہم بھاگے بھاگے پھرتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دی اور انہوں نے اپنا وعدہ پوراکیا اور مسلمان ہوگئے۔
(نسائی:۲/ ۱۵۲ ،البدایہ والنھایہ:۴/۲۹۸، والصارم المسلول:ص۱۰۹)
حضرات ! یہ مشرکین کا وہی  گروہ تھا جو خشکی پر ’’یا ابراھیم أغثنی‘‘ اور ’’اعل ھبل ‘‘اور ’’یاعزّٰی‘‘وغیرہ کہا کرتے تھے۔ مگر موجوں کے تھپیڑوں میں وہ سب کچھ فراموش کر کے صرف ذات باری  تعالیٰ پر اعتماد کیا کرتے تھے اور صرف اسی کو پکارا کرتے تھے اور ہر باحیامسلمان کا یہی عقیدہ ہونا چاہیئے۔
فتح مکہ سے پہلے مکہ میں شدید قحط پڑا تھا ، تو حضرت ابو سفیان جواس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ، مکہ سے سفر کر کے حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور قحط سالی دور ہوئے کیلئے دعا کی درخواست کی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قوم فرعون کا حال بیان فرمایا کہ جب کوئی عذاب ان پر آتا ہے تو فوراً حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ سے دعاکی درخواست کرتے ہیں ۔                                                دیکھے سورہ اعراف آیات(۱۳۴)
حضرت حصینؓ فرماتے ہیں: اسلام لانے سے قبل ایک مرتبہ آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺنے مجھ سےسوال کیا۔ حصینؓ !میں نے کہا: جی۔ فرمایا: کتنے اِلہٰوں کی تم روزانہ عبادت کرتے ہو ؟
میں نے کہا: حضرت ! سات کی،   ایک آسمان پر ہے اور باقی چھ زمین پر۔
آپﷺنے فرمایا:
فایّھم تعدّ لرغبتک ورھبتک؟  قال: الذی فی السماء
ان میں خوف اور رجا ، امید وبیم کے لیے تم کس اِلہٰ کو کام کا سمجھتے ہو؟ حضرت حصین ؓ نے کہا وہ  تو وہی ہے جو آسمانوں میں ہے۔
  آپ ؐ نے فرمایا ۔اگرتم مسُلمان ہو جاؤ تو میں تمہیں دو کلمے سکھادوں ۔
چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد وہ دوکلمے انہوں نے سیکھ لیے۔
(رواہ احمدوالنسائی باسناد صحیح  )
ان آیات واحادیث سے معلوہوا کہ مشرکین اگر چہ بعض حالات میں غیروں کو سفارشی مان کر پکارا کرتےتھے۔ لیکن جب انتہائی مصیبت کا شکار ہوتے اور دریا کی موجوں میں مبتلا ہوتے تھے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے اور تمام مافوق الاسباب سفارشی  بھوُل جاتے تھے ۔لیکن جب خشکی پر قدم دھرتے تو وہی  شرک شروع کر دیتے تھے ۔ یعنی غیر اللہ کو متصرف مان کر پُکارنا۔
یہ تو قرآنی مشرک تھے ، جو شدید مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں، افسوس صدافسوس آج سعدی صاحب  اور ان جیسے حضرات مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ مصیبت کے وقت غیراللہ کو پکاراجائے۔
اور اسی  پر بس نہیں؛ بلکہ اپنی بات کی نسبت  ان مقتدرعلماء اور فقہاء کی طرف بھی کردی ، جن کے علم و تقدس اور جن کے صحیح العقیدہ ہونے کی گواہی تاریخ دیتی ہے۔
کیا سعدی صاحب  ان بڑے بڑے علماء امام نووی، حافظ ابن حجر اور امام بخاری وغیرہ کو ان کفار سے بھی بدتر سمجھتے ہیں کہ کفار تو مصیبت میں اللہ کو پکاریں، اور یہ جلیل القدر علماء ’’غیر اللہ‘‘ سے مدد مانگنے کا درس دیں! (العیاذ باللہ)(تحفۂ توحید : 36-39)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں