ہفتہ، 4 اپریل، 2020

علماء شوافع کی تصریحات کہ دعا عبادت ہے


علماء شوافع کی تصریحات کہ دعا عبادت ہے

          امام رازی شافعیؒ نے بھی اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ دعا اصل عبادت ہے:
ان المقصود من الدعاء ھو اظھار العبودیۃ والذلۃ والانکسار و الاعتراف بان الکل من اللہ والرجوع الیہ بالکلیۃ (دیکھئے: تفسیرِ کبیر: ۵/۱۰۸ ، شرح الاسماء الحسنیٰ:ص۸۷)
دعاء کا اصل مقصد عبودیت ، عاجزی، انکساری کا اظہار اور اس بات کا اعتراف کرنا کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، اور اسی کی طرف کلی طور پر رجوع ہونا ہے۔
علامہ ابن الاثیر شافعیؒ:
ونبہ ابن الاثیر إلی ان الدعاء مشتمل علی امرین عظیمین: احدھما انہ امتثال امر اللہ تعالیٰ حیث قال (ادعونی استجب لکم ) والثانی مافیہ من قطع الامل عما سوی اللہ و تخصیصہ وحدہ بسؤال الحاجات (النہایۃ فی غریب الحدیث: ۴/ ۳۰۵)
ابن الاثیر شافعیؒ نے بھی اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دعاء دراصل دو باتوں پر مشتمل ہے ، ایک تو یہ کہ دعاء میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ادعونی استجب لکم‘‘ پر عمل ہے ، دوسرے یہ کہ: دعاء میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر کسی سے امیدوں کو توڑا جاتا ہے، اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے حاجتوں کو مانگنا پایا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ فرماتے ہیں:
ان الدعاء من جملۃ العبادۃ لما فیہ من الخضوع والافتقار (فتح الباری)
دعاء بھی عبادت میں سے ہے ، اس لئے کہ اس میں انکساری اور محتاجی پائی جاتی ہے۔
امام فخرالدین رازی شافعی ؒ فرماتے ہیں:
قال الجمہور الأعظم من العقلاء: الدعاء أعظم مقامات العبادۃ (شرح الاسماءالحسنیٰ۸۴-۸۵ ، تفسیرِ کبیر:۵/۱۰۶- ۱۰۷)
اکثر عقلمندوں کا کہنا ہے کہ دعاء عبادت کے مقامات میں اونچا درجہ رکھتی ہے۔
مزید امام رازیؒ فرماتے ہیں:
ثبت ان الدعاء یفید القرب من اللہ ، فکان الدعاء افضل العبادات
(تفسیرِ کبیر:۵/ ۱۰۷)
یہاں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دعاء اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے ، پس دعاء افضل ترین عبادت ہے۔
امام ابن حبان شافعیؒ فرماتے ہیں:
وقال ابن حبان فی احدی تراجم کتاب الدعاء من صحیحہ: ’’ذکر البیان بأن دعاء المرء ربہ فی الاحوال من العبادۃ التی یتقرب بھا الی اللہ جل و علا
(الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان:۳/ ۱۷۳)
امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں کتاب الدعاء میں ایک باب کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: اس بات کا بیان کہ بندے کا حالات میں اپنے رب کو پکارنا ان عبادتوں میں سے ہے جن سے بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔
امام نووی شافعیؒ حضور ﷺ کے قول ’’ اللھم اغفرلی خطیئتی وجھلی‘‘  (ائے اللہ میری خطا اور لاعلمی کو معاف فرما) کی وضاحت میں علماء کے اقوال نقل کر کے  فرماتے ہیں:
وعلیٰ کل حال فھو صلی اللہ علیہ وسلم مغفور لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر فدعا بھٰذا و غیرہ تواضعًا ؛ لأن الدعاء عبادۃ
بہر صورت حضورﷺ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی گئی تھیں پس آپ کا ان الفاظ  کے ذریعہ دعا کرنا بطورِ تواضع کے ہے ، اس لئے کہ دعا عبادت ہے۔

امام رازی شافعی ؒ کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو۔
اعلم ان المقصود من ھٰذہ الآیۃ الرد علی عبدۃ الاصنام ، وھی مؤکدۃ لقولہ تعالیٰ قبل ذٰلک (قل انی نھیت ان اعبد الذین تدعون من دون اللہ) فقال (قل اندعو من دون اللہ) أی انعبد من دون اللہ                             (تفسیر کبیر : ۱۳/ ۳۱)
دیکھئے امام رازیؒ نے اس آیت کے ذیل میں ’’اندعو‘‘ (پکارنا) کی تفسیر ’’انعبد‘‘ (عبادت) سے کی ہے۔
وقال البغوی عند آیۃ سورۃ ابراھیم (ربنا وتقبل دعاء) أی عملی و عبادتی  (معالم التنزیل:۴/ ۳۵۸)
علامہ بغوی شافعیؒ سورہ ابراہیم کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ دعا سے عمل و عبادت مراد ہے۔
علامہ سمعانی شافعیؒ فرماتے ہیں:
فقال السمعانی عند قول الرب تعالیٰ حکایۃ عن اھل الجنۃ (انا کنا من قبل ندعوہ) أی نؤحدہ و نعبدہ ، الدعاء ھٰھنا بمعنی التوحید ، وعلیہ اکثر المفسرین      (تفسیرِ سمعانی:۵/ ۲۷۵)
اسی طرح علامہ سمعانی شافعیؒ اللہ تعالیٰ کے قول ’’انا کنا من قبل ندعوہ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ندعوہ‘‘ یعنی نؤحدہ و نعبدہ (اس کی عبادت کرتے تھے ) دعا یہاں توحید کے معنی میں ہے ، اسی کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ۔
امام حلیمی شافعیؒ فرماتے ہیں:
ولذٰلک قال اللہ عز وجل ( وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین)  فابان الدعاء عبادۃ
(المنھاج فی شعب الایمان:۱/ ۵۱۷)
اسی واسطے اللہ عز وجل کا یہ فرمان ہے:وقال  ربکم ادعونی ۔۔۔الاخیر
پس اس آیت میں ’’الدعاء‘‘ کو عبادت فرمایا ہے۔
امام حلیمی فرماتے ہیں:
الدعاء عبادۃ و استکانۃ
(المنہاج:۱/ ۵۳۰)
دعا عبادت ہے اور اپنی عاجزی کا اظہار ہے۔
          قرآن و حدیث اور علماء شوافع کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ دعا بھی عبادت ہی ہے ۔ جس طرح اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں  بلکہ شرک ہے ، اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی سے دعا مانگنا بھی جائز نہیں  شرک ہے۔(تحفۂ توحید : 30-33)

4 تبصرے:

  1. سالام عليكم، سوال یہ یے کہ ؛ میں نے قرض لیا تو اسے قرض سے زکات الفطر اور زکات المال دے سکتا ہوں یا نکال سکتا ہوں یا نہیں ؟
    آپ کو بڑا مہربان ہے ، مری سوال دے؛ کیوں کہ میں نے کۓ دفعہ یہاں سے سوال کیا کؤ جواب مجہے نہکں ملا ۔ جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  2. سالام عليكم، سوال یہ یے کہ ؛ میں نے قرض لیا تو اسے قرض سے زکات الفطر اور زکات المال دے سکتا ہوں یا نکال سکتا ہوں یا نہیں ؟
    آپ کو بڑا مہربان ہے ، مری سوال دے؛ کیوں کہ میں نے کۓ دفعہ یہاں سے سوال کیا کؤ جواب مجہے نہکں ملا ۔ جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں