ہفتہ، 4 اپریل، 2020

کسی لفظ کا معنی متعین کرنے کا طریقہ


کسی لفظ کا معنی متعین کرنے کا طریقہ
یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ فقہاء و اصولیین کے نزدیک یہ مسلم اصول ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں حکم لگانے میں جمیع احادیث و دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا ، صرف ایک ہی دلیل کو دیکھ کر اور دوسرے متعارض دلائل کو چھوڑ کر فیصلہ کرنا غلط ہے ۔ جیسے:
فرقِ باطلہ میں سے خوارج کبائر کے مرتکب کو کافر مانتے ہیں ، اور استدلال کرتے ہیں حدیث کے ان الفاظ سے ’’لا یزنی الزانی حین یزنی وھو مؤمن‘‘ کوئی بھی زانی زنا کرتے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے ان کا یہ کہنا غلط ہے، اس لئے کہ انہوں نے دیگر دلائل کو سرے سے چھوڑ دیا ہے۔
دوسری طرف ان کے بالمقابل فرقِ باطلہ میں سے ’’مرجئہ‘‘ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صرف ایمان ہی نجات کے لئے کافی ہے، کسی بھی عمل نماز ، روزے کی ضرورت نہیں، یہ حضرات استدلال کرتے ہیں  ’’من قال لا الٰہ الا اللہ دخل الجنۃ‘‘( کہ جو بھی  لا الٰہ الا اللہ کہے وہ جنتی ہے۔ ) جیسی روایتوں سے۔
ظاہر ہے ان کا بھی یہ کہنا غلط ہے اس لئے کہ ان حضرات نے بھی دیگر دلائل کو چھوڑ دیا ہے، اور ان کے درمیان ’’اہلِ سنت والجماعت‘‘ ہیں، جن کا تمام دلائل کے پیشِ نظر معتدل کلام  یہ ہے کہ آدمی کفر و شرک کے علاوہ کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے ایمان سے خارج نہیں ہوتا، البتہ اس کو توبہ کرنا ضروری ہے، اسی طرح ایمان کے ساتھ ساتھ اعمالِ صالحہ بھی مطلوب اور ضروری ہیں۔
دیکھئے اہلِ سنت والجماعت کا یہ فیصلہ تمام دلائل کے پیش نظر اور مبنی برحق ہے۔
اسی طرح ایک مثال اور دیکھ لیجئے:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا‘‘ یقیناً اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمائے گا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آخرت میں کفر و شرک بھی معاف ہوگا، اس لئے کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’ان اللہ لا یغفر أن یشرک بہ‘‘  اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) کفر و شرک کو معاف نہیں فرمائے گا۔
الغرض تمام آیات و دلائل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ۔
بالکل اسی طرح ؛ ان فقہاء کے کلام سے ایک عبارت کو لے کر اس کا معنی متعین کرنا اور یہ کہنا کہ یہ حضرات استغاثہ یعنی انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے کو جائز کہتے ہیں ، یہ غلط ہے ، بالخصوص اس لئے بھی کہ دوسری جگہ یہ حضرات خود اس کو شرک کہہ رہے ہیں۔
بلکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر ان حضرات کی ایسی کوئی عبارت مل  بھی جاتی  تو اس کا وہ معنی مراد لیتے جو قرآن وحدیث کے دلائل کے مطابق اور ان حضرات کی دیگر عبارتوں کے موافق ہوتا ۔
اس طرح ایک عبارت کو لے کر اور دیگر عبارتوں کو چھوڑ کر کسی لفظ کا ترجمہ متعین کرنا یہ علمی مزاج اور علماء کے اصول کے خلاف ہے۔ (کسی بھی علمی کام کرنے والے کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔)( تحفۂ توحید : 16-18)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں