ہفتہ، 4 اپریل، 2020

امام شافعیؒ غیراللہ سے مانگنا کفر کا سبب ہے


(۱۸) چنانچہ اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے بانئ مسلک حضرت امام شافعیؒ کا قول نقل کرتے ہیں  کہ ’’غیراللہ‘‘ کو مؤثر سمجھنے اور اس کو کائنات میں متصرف سمجھنے والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے اس سلسلہ میں ایک قاعدۂ کلیہ بنا دیا ہے۔
          آپ ساحر کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أنہ إن وصف ما یوجب الکفر ، مثل ما اعتقد أھل بابل من التقرب إلی کواکب السبعۃ ، وأنھا تفعل ما یلتمس منھا فھو کافر

یعنی اگر وہ موجباتِ کفر سے متصف ہو جیسے کہ اہلِ بابل کا عقیدہ تھا   کہ وہ ’’سات ستاروں‘‘ کا قرب چاہتے تھے ، اور یہ سمجھتے تھے کہ ان ستاروں سے جو کچھ مانگا جاتا ہے وہ اس کو پورا کر دیتے ہیں (پس جو بھی یہ عقیدہ رکھے) تو وہ کافر ہے۔               (تفسیر ابن کثیر :۱/۱۴۷)
یہاں حضرت امام شافعیؒ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر یہ صاف بتلا دیا کہ اہلِ بابل ’’غیراللہ‘‘ سے وہ چیزیں مانگتے تھے جو اللہ سے مانگی جاتی ہیں لہٰذا یہ غیراللہ سے مانگنا ان کے کفر کا سبب ہے۔
          (۱۹) تقریباً یہی بات ’’ابن الصباغ شافعیؒ‘‘ نے بھی بیان کی ہے کہ ساحر اگر ان ستاروں کے تقرب کا عقیدہ رکھتا ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ان سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں وہ دیدیتے ہیں تو وہ کافر ہے۔ یہ بات امام رافعیؒ نے العزیز:۱۱/ ۵۶ پر ان سے نقل کی ہے ، نیز ابن حجر مکیؒ نے الاعلام بقواطع الاسلام ص ۱۰۰ پر ان سے نقل کی ہے۔
          (۲۰) حضرت امام شافعیؒ کی ایک اور  عبارت ملاحظہ ہو:
آپؒ حضورﷺ کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’قد جعل اللہ بالناس کلھم الحاجۃ الیھم فی دینھم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو دینی معاملات میں حضورﷺ کا محتاج بنایا ہے۔
          یعنی نبی کی اتباع کئے بغیر اور آپ کے طریقہ پر چلے بغیر اللہ کی رضامندی حاصل نہیں ہو سکتی، لہٰذا اللہ کی رضا کے لئے نبی کے طریقہ کی ضرورت ہے۔
          پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ للہ ولرسولہ المن و الطول علی جمیع الخلق ، وبجمیع الحاجۃ إلی اللہ تعالیٰ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کا پوری مخلوق پہ احسان ہے ، اور مخلوق اپنی تمام حاجتوں کے لئے اللہ کی محتاج ہے۔
          اب دیکھئے ! جب یہ فرمایا کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے تو یہاں دینی یا دنیوی کی قید نہیں لگائی ، بلکہ عام رکھا ،یعنی اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی کی محتاج ہے۔(الام:۶/ ۲۰۲)
          ہم یہاں واضح کرتے چلیں کہ متقدمین (یعنی امام شافعیؒ اور ان کے بعد قریبی لوگوں) کے زمانہ میں انبیاء اور صالحین سےمانگنے کا باطل رواج نہیں تھا ، اور کسی کے ذہن میں اس کا خیال بھی نہیں آتا تھا ، ہاں! البتہ فرقِ باطلہ ’’غیراللہ‘‘ کی پناہ مانگتے تھے ،چونکہ یہ بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے ، اس لئے علماء و ائمہ  نے اس پر  رد کیا ہے۔ (تحفۂ توحید : 84-86)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں