بدھ، 30 ستمبر، 2015

طہارت کے مسائل کے متعلق احادیث

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
          "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخس کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے، اور جس کی ہجرت دنیا پانے کے لئے تھی یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے تھی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔(متفق علیہ)
          امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اسے سات جگہ ذکر کیا ہے اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں جہاد کے باب میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن مھدیؒ نے فرمایا:اگر میں کوئی کتاب کی تصنیف کرتا تو اس کے ہر ایک باب کو اس حدیث سے ضرور شروع کرتا۔(تحفۃ المحتاج)
طہارت کا بیان
۲۔حضرت ابو ہریرہ (عبد الرحمن بن صخر) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا:
          "جب اللہ کے رسول ﷺ نماز میں تکبیرکہتے تو قرأت شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر خاموش رہتے۔" تو میں نے کہا:"اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان، میں نے آپ کا سکوت تکبیر اور قرأت کے درمیان دیکھے ہے آپ (ان کے درمیان) کیا فرماتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: میں یہ (دعا) کرتا ہوں:
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ
"اے میرے پروردگار! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرمادے جیسے آپ مشرق اور مغرب کے درمیان دوری فرمائی ہے، اے میرے پروردگار! مجھے خطاؤں سے ایسا پاک و صاف فرمادے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک و صاف کیا جاتا ہے، اے میرے پروردگار! میری خطاؤں کو دھودے برف اور ٹھنڈک کے پانی سے۔"(متفق علیہ،صحیح بخاری باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم باب ما یقول بین  تکبیرۃ الاحرام)

۳۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سمندر کے پانی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
          "اس کا پانی پاک ہے، اس کا مردار حلال ہے۔(رواہ احمد و ابن ماجہ باب الوضوء بماء البحر)
          ابن حبان ؒنے اسے صحیح کہا اور حافظ ابو علی بن السکنؒ نے فرمایا: یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس باب میں مروی ہے۔
نیز ابوداود،ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا ہے۔ ترمذی،بخاری،ابن خزیمہ،ابن حبان اور ابن السکن نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
۴۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(صحابہؓ نے) فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ بے شک آپ وضوء فرماتے ہیں بئر بضاعۃ سے اور اس میں  لوگ گندگی ڈالتے ہیں اور حیض کے کپڑے ڈالتے ہیں اور  ناپاک چیزیں ڈالتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔(قاسم بن اصبغؒ نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ روایت بئر بضاعۃ کے متعلق سب سے بہترین (احسن)ہے ۔ اور ابن القطانؒ نے فرمایا: یہ حسن ہے)
          ابو داود،نسائی اور ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابو سعید سعد بن مالک خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا اور امام احمد ؒ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا۔
۵۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے "مشرکہ کے مشکیزہ" کے قصہ میں مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو  جو جنبی (حالتِ جنابت میں)تھا  اس (مشکیزہ) میں سے (پانی کا ) برتن دیا پھر فرمایا:  تم جاؤ  اور اس کو  اپنے اوپر ڈال لو۔"(متفق علیہ)
۶۔ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے حیض کے خون کے متعلق دریافت کیا جو کپڑے کو لگ جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو لکڑی سے کھرچ دو اور اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے دھودو۔(رواہ ابواود،نسائی ، ابن ماجہ)
اس کو ابن خزیمہؒ اور ابن حبانؒ نے صحیح قرار دیا اور ابن القطانؒ نے فرمایا: اس کی سند صحۃ کی انتہا پر ہے اور میں نہیں جانتا کے اس میں کوئی علت ہے۔
۷۔ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائی پھر کہا: ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا ہے تو وہ اس کے ساتھ کیا کرے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اس کو رگڑ کر صاف کردو پھر  ہاتھ کی انگلیوں سے رگڑتے ہوئے پانی ڈالو پھر اس پر پانی ڈالو(یہاں تک کے اثر چلا جائے) پھر اس میں نماز پڑھو۔"(متفق علیہ)
۸۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک برتن سے غسل کیا  بڑے پیالہ سے (پانی لیکر) جس میں آٹے کا اثر تھا۔(رواہ نسائی، ابن ماجہ)
          نسائی اور ابن ماجہ نے اسے ایسی سند سے روایت کیا ہے جو صحیح کی  ہے سوائے عبد اللہ بن عامر الاشعری جو ابن ماجہؒ کے شیخ ہیں انہوں نے ان سے تفرد کیا ہے اور میں ان کا حال نہیں جانتا ہون۔ پس اگر وہ عبد اللہ بن براد الاشعری ہیں جیسا کہ ابن ماجہ نے نسبت کی ہے دوسری مرتبہ تو وہ صحیح کے رجال میں سے ہیں۔
۹۔ اسماعیل بن عیاش سے مروی ہے انہوں نے فرمایا مجھے صفوان بن عمر نے حدیث بیان کی اور وہ حسن بن ازہر سے روایت کرتے ہیں وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا: تم لوگ مشمس پانی سے غسل  مت کرو  کیوں کہ اس سے برص(کی بیماری) لاحق ہوتی ہے۔(رواہ دار قطنی)
          یہ سند صحیح ہے کیوں کہ اسماعیل کی روایت شامیوں سے ہے اور اس کی متابعت مغیرہ بن عبد القدوس عن صفوان ہے تو اس کو ذکر کیا، اس کو ابن حبان نے اپنی "ثقات" میں روایت کیا ہے اور وہ دونوں  مدد کر رہے ہیں ابراہیم بن یحیٰ عن صدقۃ بن عبد اللہ عن ابی الزبیر عن جابر عن عمر ؓ ناپسند کرتے تھے مشمس پانی سے وضو کرنا اور فرماتے  کہ اس سے  برص لاحق ہوتی ہے۔ اور تحقیق امام شافعیؒ، ابن جریجؒ اور ابن عدیؒ وغیرہ نے اس "ابراہیم" کی توثیق بیان کی ہے۔ اور میں نے رائج روایتوں کو ان ضعف کی وجہ سے بلکہ ان کے موضوع ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔
۱۰۔ حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے موری ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے اس پانی کے متعلق دریافت کیا گیا جو بیابان/صحراء میں ہوتا ہے اور اس میں درندے اور چوپائے بار بار لوٹتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
          "پانی جب دو قلہ کو پہنچ جاتا ہے تو وہ گندگی کو نہیں اٹھاتا ہے۔"(رواہ ابوداود،نسائی،ترمذی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ،ابن حبان)
ابن خزیمہؒ ،ابن حبانؒ،ابن مندہؒ، طحاویؒ اور حاکمؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے نیز امام حاکمؒ نے یہ اضافہ کیا: کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
۱۱۔ ابو داود اور ابن حبان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں " تو بیشک وہ نجس نہیں ہوتا" یحیٰ بن معین نے فرمایا: اس کی سند جید(عمدہ) ہے۔
۱۲۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے کہ فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب پانی  "قلال ھجر " کے دو قلہ  کو پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی۔(الکامل لابن عدی)
اسکو ابن عدیؒ نے روایت کیا ہے، اس کی سند میں مغیرہ بن صقلاب کے ہی متعلق ابن عدیؒ نے کلام کیا ہے۔ اور ابو حاتمؒ نے فرمایا: وہ صالح الحدیث ہے، اور ابو زرعہؒ نے فرمایا: لا بأس بہ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قلال ھجر:- قلال قلۃ کی جمع ہے ، بڑے گھڑے کو کہتے ہیں اور "ھجر" مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے۔ وہاں کے بنے ہوئے مٹکے مدینہ میں زیادہ استعمال کئے جاتے تھے۔
۱۳۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          "جب مکھی تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے پورا اس میں ڈبائے پھر اسے نکال کر بھینک دے کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔"(رواہ البخاری،ابو داود،ابن خزیمۃ، ابن حبان)
          ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اپنے اس پر کو آگے کرتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے۔(یعنی وہ پہلے اپنا بیماری والا پر ڈالتی ہے)
          ۱۴۔حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
          "پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی سوائے جو اس کی بو اور اس کے مزے اور اس کے رنگ پر غالب آجائے۔"(رواہ ابن ماجہ)
          اس کی سند میں رشدین بن سعد ہے اور اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، لیکن امام احمدؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ یہ صالح الحدیث ہے۔
۱۵۔ حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ  ﷺ کی یہ بات یاد رکھی:
جو شیز تمہیں شک میں ڈالے اس  کو چھوڑ دو اور اس چیز کی طرف متوجہ ہو جو تم کو شک میں نہ ڈالے۔(رواہ احمد،ترمذی،نسائی،ابن حبان،حاکم)
امام ترمذیؒ نے حسن صحیح فرمایا اور حاکم نے صحیح الاسناد فرمایا۔
۱۶۔ ابو قتادہ حارث بن ربعی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بلی کے متعلق فرمایا: بے شک وہ نجس(ناپاک) نہیں ہے، بے شک وہ تمہارے پاس بار بار آنے والی ہے۔(رواہ مالک،ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ،ابن حبان)
      ترمذی،ابن خزیمہ ، ابن حبان ،حاکم اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں