جمعرات، 24 ستمبر، 2015

مسائل قربانی

(1)     قربانی کسے کہتے ہیں:  

قربانی کے دنوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ اللہ تعالی کی رضامندی کے لیے جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں۔

(2)     قربانی کی فضیلت: 

(1)حضرت عائشہ﷞ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”عید الاضحی کے دن اللہﷻ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب کوئی عمل نہیں ہے۔ اور جو جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہﷻ کے یہاں اس کا ایک درجہ ہوتا ہے، تو خوش دلی سے قربانی کرو۔“ (سنن الترمذی: 1493)
(2) حضرت ابن عباس﷠ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”عید کے دن جانور قربان کرنے کے لیے جو رقم خرچ ہوتی ہے اس سے افضل کوئی رقم نہیں۔“ (شعب الإيمان: 6953)
(3)حضرت زید بن ارقم﷜ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام﷢ نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ قربانی کی کیا حقیقت ہے؟“، آپﷺ نے فرمایا: ”یہ تمہارے باپ ابراہیم﷤ کی سنت ہے۔“، پھر صحابۂ کرام﷢ نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! ہمیں اس پر کیا ملے گا؟“، تو ارشاد فرمایا: ”جانور کے ہر بال پر ایک نیکی۔“ (سنن ابن ماجہ: 3127)
(4)حضرت عمران بن حصین﷜ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ﷞ سے فرمایا: ”اس قربانی کے پہلے خون کے گرتے ہیں تیرے پچھلے کیے ہوئے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔“ (شعب الإيمان: 6957)
(5)حضرت علی﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! قربانی کرو، اور اس پر اجر کی امید رکھو؛ اس لیے کہ قربانی کا خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اللہﷻ کی حفاظت میں چلا جاتا ہے۔“ (المعجم الأوسط: 8319)

(3)     قربانی کا حکم: 

امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک ہر صاحب حیثیت پر قربانی کرنا واجب ہے۔ (الكوثر: 2، سنن ابن ماجہ: 3123) اور امام شافعی﷬ کے نزدیک ہر صاحب حیثیت پر قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ (صحيح مسلم: 1977)

(4)     قربانی کرنے والے کے شرائط: 

امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک قربانی کرنے والے کا مسلمان ہونا، مقیم ہونا اور صاحبِ حیثیت ہونا۔ (اپنی ضروریات و قرض کے علاوہ 595؍ گرام چاندی کی قیمت یا اس کے برابر ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہونا ضروری ہے۔ (بدائع: 5/64) اور امام شافعی﷬ قربانی کرنے والے کا مسلمان ہونا اور صاحبِ حیثیت ہونا ضروری ہے۔ (عید کے رات و دن اور ایام تشریق کے خرچ کے علاوہ اتنا مال ہو کہ قربانی کا چھوٹا جانور یا بڑے جانور کا ایک حصہ خرید سکے۔ (حاشية الجمل: 5/251)

(5)     قربانی کا جانور:

  انہی جانوروں پر قربانی جائز ہے جن کے بارے میں نص وارد ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہیں: اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور دنبہ، خواہ یہ نر ہوں یا مادہ۔ (الحج: 28، الأنعام: 143)

(6)     قربانی کے جانور کی عمر: 

بڑے جانور (گائے، بیل، بھینس وغیرہ) کی عمر دو سال ہو۔ اور امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک چھوٹے جانور (بکرا، بکری، دنبہ وغیرہ) کی عمر ایک سال ہو، البتہ دنبہ چھ ماہ کا بھی ہو، لیکن دکھنے میں ایک سال کا معلوم ہوتا ہو جائز ہے۔ (صحيح مسلم: 1963)، البتہ امام شافعی﷬ کے نزدیک گائے اور بکری وغیرہ کی عمر دو سال ہو، البتہ دنبہ ایک سال کا بھی چل جائے گا یا کم از کم اس کے دانت گرچکے ہوں۔ (المجموع: 8/394)

(7)     ایک جانور میں شرکت: 

ایک بڑے جانور میں سات لوگ شریک ہوں گے۔ (صحيح مسلم: 1318) اور ایک چھوٹے جانور میں امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک ایک چھوٹے جانور میں صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی جائز ہے۔ (اللباب: 3/232) اور امام شافعی﷬ کے نزدیک بھی ایک چھوٹا جانور صرف ایک شحض کی طرف سے جائز ہے، البتہ دونوں اماموں کے نزدیک اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو ثواب میں شریک کرنا جائز ہے۔ (سنن الترمذی: 1505، المجموع: 8/384)

(8)     جانور کا عیب سے خالی ہونا:  

جانور کا ہر ایسے عیب سے خالی ہونا ضروری ہے جس کا اثر گوشت تک یا چربی تک پہونچتا ہو،جیسے اندھا ہونا، بہرا ہونا، لنگڑا ہونا، بیمار ہونا، بہت زیادہ کمزور ہونا۔ (سنن النسائی: 4370)

(9)     بڑے جانور میں تمام شرکاء کی عبادت کی نیت ہو: 

امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک بڑے جانور میں تمام شرکاءکی نیت کسی نہ کسی عبادت کی ہو، خواہ قربانی ہو، یا عقیقہ ہو، یا نذر وغیرہ۔ ان میں سے کسی کی نیت صرف گوشت کھانے یا بیچنے کی نہ ہو۔ (رد المحتار: 6/326) اور امام شافعی﷬ کے نزدیک بڑے جانور میں کھانے یا بیچنے کی نیت سے بھی شرکت کی گنجائش ہے، اور سب کی نیت درست ہوجائےگی۔ (المجموع: 8/397)

(10) قربانی کا وقت: 

امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک دسویں ذوالحجہ کے طلوع شمس کے بعد سے وقت شروع ہوجاتا ہے، البتہ شہر والوں کے لیے جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، نمازعید کے مکمل ہونے کا یا کم از کم نماز کے برابر وقت کے گزرنے انتظار ضروری ہے۔ اور گاوں والوں کے لیے جہاں نماز عید نہیں ہوتی ہے طلوع شمس کے بعد ہی قربانی جائز ہے۔ (صحيح البخاری: 5546)اور امام شافعی﷬ کے نزدیک طلوع شمس کے اتنی دیر کے بعد قربانی کی جاسکتی ہے جس میں عید کی نماز اور دو خطبے مختصرا دیے جاسکتے ہیں۔ (الحاوي الكبير: 15/85) بہرحال نماز سے پہلے کسی کے یہاں قربانی جائز نہیں ہے۔ (صحیح البخاری: 983)

(11) قربانی کا آخری وقت: 

امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک قربانی کے کل ایام تین دن ہیں: (10؍ 11؍ اور 12؍ ذوالحجہ) (السنن الكبرى للبیہقی: 19254) اور امام شافعی﷬ کے نزدیک قربانی کے کل ایام چار دن ہیں: (10؍ 11؍ 12؍ اور 13؍ ذوالحجہ) (مسند أحمد: 16751)

(12) قربانی سے پہلے کے مستحبات: 

 (1)قربانی سے کئی دن پہلے سے جانور کو پالنا۔ (2)جانور کے گلے میں پٹہ ڈالنا یا گودڑی اوڑھانا۔ (الحج: 32، صحيح مسلم: 1321) (3) جانور کو قربانی کی جگہ پر نرمی سے لے کر جانا، اس کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ (صحيح مسلم: 1955) (4) قربانی کرنے والے کا یکم ذوالحجہ سے قربانی ہونے تک اپنے بدن کے بال یا ناخن کا نہ کاٹنا۔ (صحيح مسلم: 1977)

(13) قربانی سے پہلے کے مکروہات: 

 (1) امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک جانور کا دودھ یا اون نکالنا۔ () البتہ امام شافعی﷬ کے نزدیک جانور کا دودھ یا اون نکالنے سے جانور کو یا ا س کےبچے کو کوئی نقصان نہ ہو تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔ () (2) امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر بوجھ لادنا۔ ()البتہ امام شافعی﷬ کے نزدیک قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر بوجھ لادنا جائز ہے۔ ()

(14) قربانی کے جانور کے مستحبات: 

 (1)جانور کا بھاری بھرکم و صحت مند ہونا، سینگ والا، و خصی ہو۔ (مسند أحمد: 25046) (2) جانور کا رنگ سفید ہو، یا سرخی مائل ہو اور اس کے پیر سیاہ ہوں۔ (مسند أحمد: 9404، صحيح مسلم: 1967)

(15) قربانی کرنے والے کے مستحبات: 

(1)قربانی کرنے والے کا اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا۔ اور اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو قربانی کے وقت حاضر رہے۔ (المستدرك للحاكم: 7524) (2) ذبح کرنے والا یہ دعا کرے: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» (سنن أبي داود: 2795) (3) پہلے دن قربانی کرنا۔ (آل عمران: 133)

(16) ذبح کا بیان: 

 ذبح کے دو طریقے ہیں: نحر اور ذبح۔ اونٹ میں نحر کرنا مستحب ہے۔ [الكوثر: 2] امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک اونٹ کے علاوہ کسی میں بھی نحر نہیں ہوگا، امام شافعی﷬ کے نزدیک اونٹ کی طرح جتنی لمبی گردن والے جانور ہیں، ان میں بھی نحر مستحب ہے۔ (مغنی المحتاج: 6/104) اونٹ کے علاوہ تمام جانوروں میں ذبح مستحب ہے۔ [البقرة: 67]

(17) ذبح کی حقیقت:  

ذبح کی حقیقت یہ ہے کہ جانور کی چار رگیں کٹ جائیں۔ وہ چار رگیں یہ ہیں: حَلْقوم (کھانے کی رگ)، مرئی (ہوا کی رگ)، وَدَجَین (دو خون کی رگیں) امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک ان چار میں سے کسی بھی تین کا کٹنا ضروری ہے، ورنہ ذبح نہیں ہوگا۔ () اور امام شافعی﷬ کے نزدیک ان میں سے دو: حلقوم اور مرئ کا کٹنا ضروری ہے، ورنہ ذبح نہیں ہوگا۔ ()

(18) ذبح کے صحیح ہونے کے شرائط: 

 (1)ذبح کے وقت جانور زندہ ہو، چناں چہ ذبح کے بعد مرنے کے آثار بھی ظاہر ہوں، جیسے خون کا نکلنا، جانور کا تڑپنا۔ () (2)جانور کی روح محض ذبح کی وجہ سے ہو، ذبح کرنے والے کے زور سے یا کسی اور سبب سے جانور کی موت نہ ہو۔ (بدائع: 5/51، الوسيط: 7/143)

(19) ذبح کرنے والے کے شرائط: 

 (1) امام ابوحنیفہ﷬ کے نزدیک عقل مند ہو، خواہ مرد ہو یا عورت۔ اور امام شافعی﷬ کے نزدیک سمجھدار بچے کا بھی ذبح کرنا درست ہے۔ (2) مسلمان یا کتابی ہونا۔ (3) حالت احرام میں نہ ہونا۔ () (4) بسم اللہ کہہ کر ذبح کرے۔ [الأنعام: 121] (5) گردن کےاگلے حصے سے ذبح کرے، ذبح مکمل ہونے سے پہلے ہاتھ نہ اٹھانا۔(6) آلہ دھار دار ہو، ناخن یا دانت نہ ہو، خواہ وہ لوہے کا ہو یا کسی اور دھات کا۔ (صحیح البخاری: 5509)

(20) ذبح کے مستحبات: 

 (1)چھری لوہے کی دھاردار ہو۔ (سنن ابن ماجہ: 3170) (2) ذبح کرنے میں جلدی کرنا۔ (3) ذبح کرنے والا و جانور دونوں کا قبلہ رخ ہونا۔ (مصنف عبد الرزاق: 8585) (4) جانور کو لٹانے سے پہلے چھری کو دھار کرنا۔ (المستدرك للحاكم: 7563) (5) جانور کو نرمی کے ساتھ اس کے بائیں سمت لٹانا۔ (صحيح مسلم: 1967) (6) ذبح سے پہلے جانور کو پانی پیش کرنا۔ (7) قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے تین مرتبہ تکبیر پڑھنا۔ (8) داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا۔ (9) ذبح میں مبالغہ نہ کرنا کہ گردن ہی کٹ جائے۔ (السنن الكبرى للبیہقی: 19136)

(21) قربانی کے بعد کے مستحبات: 

 (1)جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کو تھوڑی دیر چھوڑے رکھنا؛ تاکہ وہ ٹھنڈا ہوسکے۔ (السنن الكبرى للبیہقی: 19124) (2) قربانی کا گوشت خود بھی کھانا، دوسروں کو بھی کھلانا اور ذخیرہ کرکے رکھنا۔ (الحج: 28، صحیح البخاری: 5569) بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی اپنے لیے رکھے، ایک تہائی رشتہ داروں میں تقسیم کرے اور ایک تہائی فقراء کو دے۔ (الفقہ الإسلامی وأدلتہ: 4/2740)

(22) قربانی کے بعد کے مکروہات: 

(1)روح پوری طرح نکلنے سے پہلے ہی کھال نکالنا۔ (2) جانور کی کوئی بھی چیز بیچنا۔ (السنن الصغير للبیہقی: 1839) (3) قصائی کو قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت دینا۔ (صحیح البخاری: 1717)

(23) میت کی طرف سے قربانی: 

میت نے اگر وصیت کی ہے تو اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اگر وصیت نہ کیا ہو تو حنفیہ کے نزدیک درست ہے، اور شافعیہ کے نزدیک نہیں۔ وصیت والی قربانی میں سے کچھ کھانا جائز نہیں، بلکہ تمام صدقہ کرنا ضروری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں