بدھ، 23 ستمبر، 2015

ایک ہی شہر میں متعدد جمعہ (ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ)

ایک ہی شہر میں متعدد جمعہ (ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ)
جمعہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں:
”مدینہ منورہ“ میں اسلام کی سب سے پہلی جمعہ حضرت اسعد بن زرارہ﷜ کے گھر میں حضرت مصعب بن عمیر﷜ نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے جمعہ قائم فرمائی۔ (مصنف عبد الرزاق: 5144، سنن أبي داود: 1069) پھر رسول اللہﷺ نے ”مدینہ منورہ“ ہجرت فرمانے کے بعد جمعہ قائم فرمایا۔
”مدینہ منورہ“ میں کئی مساجد ہونے کے باوجود رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جمعہ صرف ایک جگہ یعنی مسجد نبویﷺ میں ہوتا تھا، چناں چہ امام بیہقی﷬ (جو مسلکا شافعی ہیں) اپنی سند کے ساتھ نقل فرماتے ہیں کہ ”اللہ کے رسولﷺ کے زمانہ میں صحابۂ کرام﷢ عام نمازیں حضرت بلال﷜ کی اذان (مسجدِ نبوی کی اذان) سنائی دیے جانے کے باوجود 9؍ مساجد میں پڑھتے تھے، لیکن جب جمعہ کا دن ہوتا تو سب مسجدِ نبویﷺ میں حاضر ہوتے تھے۔“  قَالَ أَحْمَدُ: وَفِيمَا رَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشْجِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَشْيَاخُنَا:  «أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ فِي تِسْعِ مَسَاجِدَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ يَسْمَعُونَ أَذَانَ بِلَالٍ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ حَضَرُوا كُلُّهُمْ مَسْجِدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (معرفة السنن والآثار: 4/392, رقم: 6574)
اور اہلِ مدینہ کے ساتھ اطراف کی آبادی کے بھی سارے صحابہ﷢ ”مدینہ منورہ“ میں آکر جمعہ ادا کرتے تھے، چناں چہ ”عَوَالِی“ کے رہنے والے (جو اس زمانے میں شہر مدینہ سے باہر شمار ہوتا تھا) مسجدِ نبویﷺ کے جمعہ میں شریک ہوتے تھے، (المراسيل لأبي داود: 50)
اسی طرح ”قُبَاء“ (جو اس وقت ”مدینہ منورہ“ سے باہر تھا، اور اب مسجد نبویﷺ سے پانچ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے) والے بھی ”مدینہ منورہ“ میں جمعہ ادا کرتے تھے، (سنن ابن ماجہ: 1124) بلکہ ایک صحابی﷜فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ”قُبَاء“ سے آکر ”مدینہ منورہ“ کی جمعہ میں شامل ہوں۔“ (سنن الترمذی: 501)
اسی طرح ”ذُوالحلیفہ“ والے (جو آج بھی مسجد نبویﷺ سےآٹھ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے) بھی مسجدِ نبویﷺ کی جمعہ میں شریک ہوتے تھے۔ (السنن الكبرى للبيهقی: 5595)
اور پھر ”مدینہ منورہ“ کے بعد سب سے پہلا جمعہ    7؁ھ میں مقام ”جُواثی“ میں قائم ہوا، جو ”بحرین“ کا ایک تجارتی شہر ہے۔ (صحيح البخاری: 892) اس مسجد کے آثار آج بھی قائم ہیں، اور ”مدینہ منورہ“ سے تقریبا 1200؍ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس درمیان میں جمعہ قائم کرنے کا کوئی ثبوت کتبِ احادیث و تواریخ میں نہیں ملتا ہے۔
جمعہ صحابۂ کرام﷢ کے دور میں:
  اسی طرح خلفائے راشدین و صحابۂ کرام﷢ کے دور میں بھی یہی بات ملتی ہےکہ ”مدینہ منورہ“ میں صرف ایک ہی جمعہ ہوتا تھا، اسی طرح جن شہروں میں جمعہ ہوتا تھا مثلا: ”مکہ“، ”بصرہ“، ”کوفہ“، ”“دمشق““ وغیرہ ان میں بھی صرف ایک ہی جمعہ قائم ہوتاتھا۔اور اس کی ادائیگی کے لیے صحابۂ کرام﷢ بڑی دور سے تشریف لاتے تھے۔
نیز صحابۂ کرام﷢ کے اقوال بھی ملتے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ایک شہر میں ایک سے زائد جمعہ قائم نہ کیے جائیں، چناں چہ حضرت ابن عمر﷠ فرماتے تھے: ”جمعہ سوائے بڑی مسجد کے ہوتی ہی نہیں ہے۔“ (الأوسط: 1866، معرفة السنن والآثار: 6576)
حضرت عمر﷜ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ”بصرہ“، ”کوفہ“، ”مصر“ وغیرہ کے گورنروں کے نام خط لکھا (جہاں کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاص حیسے صحابۂ کرام﷢ تھے) کہ ”ہر قبیلہ میں مسجد قائم کرو، جس میں وہ نمازیں ادا کرسکیں،  اور جب جمعہ کا دن ہو تو شہر کی بڑی مسجد میں سب کو جمع کرو؛ تاکہ شہر میں صرف ایک ہی جمعہ ہوسکے۔“ (تاریخ الشام لابن عساکر، بحوالہ فتاوى السبكی: 1/187)
حضرت معاویہ﷜ اپنے زمانۂ امارت میں ”دمشق“ میں خطبہ دیتے ہوئے اہلِ ”فائن“ کو بھی حکم دیتے کہ وہ شہر میں آکر جمعہ ادا کریں، جب مقام ”فائن“ ”دمشق“ سے تقریبا 24؍ میل کے فاصلے پر تھا۔ (مصنف عبد الرزاق: 5161)
حضرت مُعاذ بن جَبل﷜ (جو صحابہ﷢ میں سب سے بڑے مفتی تھے) منبر پر کھڑے ہوکر ان بستی والوں کو مخاطب کرتے، جو شہر ”دمشق“ سے چار یا پانچ فرسخ کے فاصلہ پر ہوتیں، اور  ان سے فرماتے کہ ”تمہاری جمعہ ہمارے ساتھ ہی درست ہوگی۔“ (مصنف عبد الرزاق: 5162)
علامہ سبکی﷬ (756؁ھ) فرماتے ہیں کہ ”میری نظر میں صحابۂ کرام﷢ میں سے کوئی بھی ایک شہر میں ایک سے زائد جمعہ کا نہ قولا قائل ہے، اور نہ فعلا“ (فتاوى السبكی: 1/171)
جمعہ تابعینکے دور میں:
صحابۂ کرام﷢ کا زمانہ گزرنے کے بعد تابعین کا زمانہ آیا، اس میں بھی کسی تابعی نے قولا یا فعلا ایک شہر میں دو جمعہ کی بات نہیں کی، سوائے عطاء بن ابی رباح﷬ (114؁ھ) کے، چناں چہ ابن جریج﷬ کہتے ہیں کہ ”میں نے عطاء﷬ سے پوچھا کہ ”بصرہ“ کی بڑی مسجد میں گنجائش نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟، تو انہوں نے فرمایا: ہر محلہ والے اپنی مسجد میں جمعہ ادا کریں۔“ (مصنف عبد الرزاق: 5190) ابن جریج﷬ فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا:”ان کو اپنی مسجد میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت اس وقت ہوگی جب کہ بڑی مسجد میں گنجائش نہ ہو؟“ تو عطاء﷬ نے فرمایا: ”جی ہاں!“ (الأوسط: 4/117) چناں چہ  تابعین کا بھی زمانہ گزر گیا، اور جمعہ ہر شہر کی اپنی بڑی مسجد میں ہی ادا کی جاتی تھی۔
زمانۂ تابعین کے بعد:
تابعین کا بھی دور گزر گیا، لیکن اس میں ایک شہر میں متعدد جمعہ قائم کرنے کی کوئی عملی دلیل نہیں ملتی ہے۔ پھر اس کے بعد شہر ”بغداد“ بسایا گیا، اور اس میں اولا ”جامع منصور“ بنایا گیا، پھر ”جامع مہدی“ پھر اس کے علاوہ اور جامع مسجد بنائی گئیں۔
شہر بغداد میں متعدد جمعہ کی وجہ:
تاریخ اسلامی میں ایک ہی شہر میں متعدد جمعہ کا واقعہ صرف ”بغداد“ میں ملتا ہے، اس کے علاوہ کسی اسلامی شہر کے بارے میں نہیں ملتا ہے کہ وہاں متعدد جمعہ ہوتی تھی۔ اس کی کیا وجہ بنی، اس سلسلے میں علامہ خطیب بغدادی شافعی﷬ (463؁ھ) اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”تاریخ بغداد“ میں فرماتے ہیں کہ ”بغداد میں جمعہ صرف ”جامع مسجد“ میں ہوتا تھا، پھر  259؁ھ میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے خلیفہ مہدی باللہ نے مقام ”رصافہ“ میں ایک اور ”جامع مسجد“ تعمیرکی۔“ (تاريخ بغداد وذيوله: 1/123)
شہر بغداد کے درمیان سے دریائے دجلہ گزرتی ہے، اب تمام لوگوں کا ایک ہی جگہ جمع ہونا دشوار و محال ہوگیا، لہذا دریائے دجلہ کے اس پار ایک جمعہ قائم کی گئی، اور دوسرے پار دوسری جمعہ قائم کی گئی۔
نیز بغداد کے اکثر لوگ حنفی المسلک تھے، اور وہاں کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) امام ابویوسف﷬ تھے، جو خود بھی حنفی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ شہر بغداد میں دو سے زائد جمعہ کے قائل نہ تھے، نیز وہ جمعہ کے دن دریائے دجلہ کے پل اٹھوادیتے تھے؛ تاکہ دجلہ کے دونوں کنارے مستقل شہر شمار ہوں، اور گویا کہ ہر شہر میں ایک ہی جمعہ شمار کی جائے۔ (بدائع الصنائع: 1/260،  الاختيار: 1/83، تبيين الحقائق: 1/218، مجمع الأنهر: 1/167)
اور بعض علماء کی تحقیق ہے کہ شہر بغداد میں دوسرا جمعہ کسی شرعی وجہ سے علماء کی اجازت سے نہیں شروع کیا گیا، بلکہ خلیفہ معتضد باللہ کے زمانہ میں حکومتی کارندوں نے شروع کیا  تھا؛ اس لیے کہ ان کے اپنے کرتوتوں کی بنا پر ان کا عام مساجد میں نماز پڑھنا مشکل ہوگیاتھا۔ یہ 280؁ھ کی بات ہے۔ (التلخيص الحبير: 2/137) گویا کہ اس قول کے مطابق علماء کی اجازت اور شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے جمعہ شروع نہیں کی گئی، بلکہ خود پسندی کے پندار میں مبتلاء حکومت و حکومتی کارندوں نے اپنی مرضی سے شروع کی تھی۔
متعدد جمعہ کے بارے میں امام شافعی کا موقف:
امام بیہقی﷬ نے اپنی سند کے ساتھ امام شافعی﷬ سے نقل کیا ہے کہ ”جب شہر بڑا ہو، تو میری رائے یہ ہے کہ شہر کی بڑی مسجد میں جمعہ ادا کی جائے۔ اور وہ اس لیے کہ رسول اللہﷺ اور بعد کے زمانے میں ”مدینہ منورہ“ و اطراف میں جمعہ صرف مسجدِ نبویﷺ میں ہوتا ہے۔“ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّافِعِيُّ قَالَ: فَإِذَا كَانَ مِصْرٌ عَظِيمٌ، رَأَيْتُ أَنْ يُصَلِّيَ الْجُمُعَةَ فِي مَسْجِدِهِ الْأَعْظَمِ, وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُ كَانُوا يُصَلُّونَ الْجُمُعَةَ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِالْمَدِينَةِ، وَحَوْلَ الْمَدِينَةِ فِي الْعَوَالِي وَغَيْرِهَا. (معرفة السنن والآثار: 6571)
اسی طرح امام شافعی﷬ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”الام“ میں تحریر فرمایا ہے کہ”شہر کی صرف بڑی مسجد میں جمعہ ادا کی جائے، اگرچہ شہر کی مردم شماری، آبادی اور مساجد بڑھ جائیں، جمعہ ایک ہی مسجد میں ادا کیا جائے۔“ وَلَا يُجْمَعُ فِي مِصْرٍ وَإِنْ عَظُمَ أَهْلُهُ وَكَثُرَ عَامِلُهُ وَمَسَاجِدُهُ إلَّا فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ وَإِنْ كَانَتْ لَهُ مَسَاجِدُ عِظَامٌ لَمْ يُجْمَعْ فِيهَا إلَّا فِي وَاحِدٍ. (الأم للشافعی: 1/221) اسی طرح کی بات امام شافعی﷬ سےان کے  شاگردوں نے مندجہ ذیل کتابوں میں نقل کی ہے:
(1)مختصر المزني (8/122)
(2) الحاوي الكبير (2/447)
(3)المهذب في فقة الإمام الشافعي للشيرازي (1/220)
(4) البيان في مذهب الإمام الشافعي (2/ 619)
(5)فتح العزيز بشرح الوجيز = الشرح الكبير للرافعي (4/ 498)
(6)المجموع شرح المهذب (4/ 584)
(7)روضة الطالبين وعمدة المفتين (2/ 5)
(8)التلخيص الحبير (2/ 135)
اسی طرح امام شافعی﷬ سے منقول ہے: ”جب شہر بڑھ جائے، اس کی آبادی گھنی ہوجائے اور اس میں چھوٹی بڑی کئی مساجد تعمیر ہوجائیں تب بھی میرے نزدیک جمعہ صرف ایک ہی مسجد میں ادا کیا جائے گا۔“ وَإِذَا اتَّسَعَتْ الْبَلَدُ وَكَثُرَتْ عِمَارَتُهَا فَبُنِيَتْ فِيهَا مَسَاجِدُ كَثِيرَةٌ عِظَامٌ وَصِغَارٌ لَمْ يَجُزْ عِنْدِي أَنْ يُصَلِّيَ الْجُمُعَةَ فِيهَا إلَّا فِي مَسْجِدٍ وَاحِدٍ. (الأم للشافعی: 1/222)
 اسی جیسی بات مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
(1)مختصر المزني (8/122)
(2) مختصر اختلاف العلماء (1/332)
(3)الحاوي الكبير (2/447)
(4) المهذب في فقة الإمام الشافعي للشيرازي (1/220)
(5)شرح التلقين (1/976)
(6)البيان في مذهب الإمام الشافعي (2/619)
(7) تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (30/543)
(8) المغني لابن قدامة (2/248)
(9)المجموع شرح المهذب (4/584)
(10)                   الشرح الكبير على متن المقنع (2/190)
مذکورہ مسئلہ میں سختی کی وجہ!:
اس مسئلہ میں علماء کا سخت رویہ اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہﷺ، خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام﷢ کے زمانے سے مسلسل یہ عمل چلا آرہا ہے، اور اس کے خلاف کا  کوئی ثبوت قرونِ اولی میں نہیں ملتا ہے، اور اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ”جس نے ایسا کام کیا  جو ہمارے طریق پر نہ ہو وہ مردود (بدعت) ہے۔“ (صحيح مسلم: 1718)
علماء نے اس مسئلہ میں منقول روایات کو ”متواترِمعنوی“ قرار دیا ہے، جس کا درجہ قرآن کی آیت (نص قطعی) کے برابر ہوتا ہے۔ (البدر المنير: 4/594، إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل: 3/81) اس سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
نیز شہر میں ایک جمعہ کا ہونا مسلمانوں کی اجتماعیت کا ذریعہ ہے، محبت و الفت کے بڑھانے کا ذریعہ ہے، اور مسلمانوں کا الگ الگ جمع ہونا ”اختلاف و تفریق“ کا ذریعہ ہے، جو ”مسجدِ ضِرار“ کی صفات میں سے ہے۔ ”مسجدِ ضِرار“ کو منافقین نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ و تفریق پیدا کرنا تھا، اور اس کو توڑنے کا حکم اللہﷻ نے قرآن میں نازل فرمایا۔ (توبہ: 107) (ماخوذ فتاوى السبكی: 1/175)
متعدد جمعہ کے سلسلے میں فقہائے شوافع کا موقف:
اسی طرح بعد آنے والے فقہائے شوافع نے بھی ایک ہی بات اپنی کتابوں میں لکھی ہے کہ شہر میں صرف ایک ہی جمعہ قائم کیا جائے گا، بلکہ اس سے بڑھ اکثر فقہائے شوافع نے جمعہ کے صحیح ہونے کی شرط قرار دیا ہے کہ ایک شہر میں ایک سے زائد جمعہ نہ ہو، چناں چہ امام نووی﷬ تحریر فرماتے ہیں کہ ”جمعہ درست و صحیح ہونے کے شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ اس شہر میں اس سے پہلے بھی کوئی جمعہ نہ ہو، اور نہ اس کے ساتھ“ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ فَشَرْطُ الْجُمُعَةِ أَنْ لَا يَسْبِقَهَا فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ جُمُعَةٌ أُخْرَى وَلَا يُقَارِنَهَا. (المجموع شرح المهذب: 4/585) اور یہی بات تمام فقہائے شوافع نے لکھی ہے:
(1)روضة الطالبين وعمدة المفتين (2/ 5)
(2) منهاج الطالبين وعمدة المفتين في الفقه (ص: 47)
(3)النجم الوهاج في شرح المنهاج (2/ 458)
(4) المقدمة الحضرمية (ص: 104)
(5)فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب (1/ 87)
(6)منهج الطلاب في فقه الإمام الشافعي رضي الله عنه (ص: 24)
(7)المنهاج القويم شرح المقدمة الحضرمية (ص: 175)
(8)تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي (2/ 425)
(9)الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع (1/ 181)
(10)                    مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج (1/ 543)
(11)                   فتح المعين بشرح قرة العين بمهمات الدين (ص: 198)
(12)                   غاية البيان شرح زبد ابن رسلان (ص: 125)
(13)                   نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج (2/ 301)
(14)                   حاشيتا قليوبي وعميرة (1/ 315)
(15)                   حاشية الجمل على شرح المنهج = فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب (2/ 15)
(16)                   حاشية البجيرمي على الخطيب = تحفة الحبيب على شرح الخطيب (2/ 194)
(17)                    حاشية البجيرمي على شرح المنهج = التجريد لنفع العبيد (1/ 382)
(18)                   شرح المقدمة الحضرمية المسمى بشرى الكريم بشرح مسائل التعليم (ص: 387)
(19)                   إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين (2/ 73)
(20)                    نهاية الزين (ص: 139)
(21)                   السراج الوهاج (ص: 85)
(22)                    القول المبين في أخطاء المصلين (ص: 385)
(23)                   النجم الوهاج في شرح المنهاج (2/ 458)
(24)                    شرح مشكل الوسيط (2/ 271)
(25)                   شرح المقدمة الحضرمية المسمى بشرى الكريم بشرح مسائل التعليم (ص: 387)
(26)                   عمدة السالك وعدة الناسك (ص: 82)
(27)                   الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي (1/ 203)
(28)                   العزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير (2/ 251)
(29)                   الفتاوى الفقهية الكبرى (1/ 235)
(30)                   الفقه الإسلامي وأدلته (2/437)
فقہائے شافعیہ نے اس مسئلہ پر مستقل کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں، جن میں اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ ایک شہر میں ایک ہی جمعہ قائم کیا جائے، جب کہ ایک مسجد میں سب جمع ہوسکتے ہوں، نیز اسی پر تمام ائمہ کا اجماع بھی ہے۔ ان میں سے چند کتابیں یہ ہیں: (1)كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالْوَاحِدِ الْأَحَدِ مِنْ إقَامَة جُمُعَتَيْنِ فِي بَلَدٍ (2) ذَمُّ السَّمَعَةِ فِي مَنْعِ تَعَدُّدِ الْجُمُعَةِ (3) تَعَدُّدُ الْجُمُعَةِ وَهَلْ فِيهِ مُتَّسَعٌ (4) الْقَوْلُ الْمُتَّبَعُ فِي مَنْعِ تَعَدُّدِ الْجُمَعِ.
کیا متعدد جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے؟
اس سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عذر ہو تو ایک شہر میں متعدد جمعہ کی گنجائش ہے، اور ان اعذار کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے، چناں چہ وہ اعذار یہ ہے: (1) مقام جمعہ بہت زیادہ دور ہو۔ (2) مقام جمعہ تک پہنچنے کا راستہ مامون نہ ہو۔ (3) ایک مسجد میں جمع ہونے کی گنجائش نہ ہو۔ ان کے علاوہ کسی بھی عذر سے متعدد جمعہ قائم کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔  
(1)                   مقامِ جمعہ کا بہت زیادہ دور ہونا:
ایک شہر میں متعدد جمعہ کی گنجائش اس وقت ہے جب کہ مقام جمعہ بہت زیادہ دور ہو۔ دوری کی تحدید زمانۂ صحابہ﷢ میں دیکھتے ہیں تو اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ مسجدِ نبوی میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے صحابۂ کرام﷢ پانچ کلومیٹر یا آٹھ کلومیٹر کے فاصلے سے آکر مسجدِ نبوی میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد صحابۂ کرام﷢ سے منقول ہے کہ کئی دور سے جمعہ ادا کرنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔
صحابۂ کرام﷢ کے مذکورہ عمل کی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ مقامِ جمعہ اتنا دور ہو فجر کی نماز کے بعد چل کر مقامِ جمعہ تک پہونچنا دشوار ہو تو پھر گنجائش ہے کہ دوسرا جمعہ قائم کیا جائے۔
اور بعض علماء کی رائے ہے کہ اگر مقام جمعہ اتنا دور ہو کہ اذانِ جمعہ سنائی نہ دے تو گنجائش ہے کہ دوسری جگہ جمعہ قائم کیا جائے۔
علامہ ابن حجر ہیثمی﷬ فرماتے ہیں: ”شہر کے کنارے اتنے دور ہوں کہ وہاں تک اذان کی آواز نہ پہونچتی ہو۔ اور ظاہر ہے اس شکل میں بھی تعدد کی گنجائش ہے جب کہ اتنی دوری ہو کہ فجر کے بعد نکل کر بھی جمعہ کا ملنا مشکل ہو۔“
اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ عبدالحمید شروانی و احمد عبادی فرماتے ہیں: ”اس سے مراد دور سے آنے میں اتنی مشقت ہو، جس کو عام طور سے برداشت نہ کیا جاسکتا ہو۔“
قَالَ فِي الْأَنْوَارِ أَوْ بَعُدَتْ أَطْرَافُ الْبَلَدِ أَوْ كَانَ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَالْأَوَّلُ مُحْتَمَلٌ إنْ كَانَ الْبَعِيدُ بِمَحَلٍّ لَا يُسْمَعُ مِنْهُ نِدَاؤُهَا بِشُرُوطِهِ السَّابِقَةِ وَظَاهِرٌ إنْ كَانَ بِمَحَلٍّ لَوْ خَرَجَ مِنْهُ عَقِبَ الْفَجْرِ لَمْ يُدْرِكْهَا؛ لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُهُ السَّعْيُ إلَيْهَا إلَّا بَعْدَ الْفَجْرِ كَمَا مَرَّ وَحِينَئِذٍ. (تحفة المحتاج في شرح المنهاج: 2/426) وَلَوْ كَانَ بِمَحَلٍّ يَسْمَعُ مِنْهُ حَيْثُ لَحِقَهُ بِالْحُضُورِ مَشَقَّةٌ لَا تُحْتَمَلُ عَادَةً لِتَحَقُّقِ الْعُذْرِ الْمُجَوِّزِ لِلتَّعَدُّدِ حِينَئِذٍ وَلَعَلَّ هَذَا مُرَادُ الْأَنْوَارِ وَلَا يُنَافِي ذَلِكَ قَوْلُهُمْ يَجِبُ السَّعْيُ مِنْ الْفَجْرِ عَلَى بَعِيدِ الدَّارِ؛ لِأَنَّ مَحَلَّهُ إذَا لَمْ يَتَأَتَّ إقَامَةُ الْجُمُعَةِ فِي مَحَلِّهِ فَالْحَاصِلُ أَنَّ مَشَقَّةَ السَّعْيِ الَّتِي لَا تُحْتَمَلُ عَادَةً تُجَوِّزُ التَّعَدُّدَ دُونَ التَّرْكِ رَأْسًا م ر. اهـ. (حواشي الشرواني والعبادي: 2/426)
اسی طرح کی بات مندرجہ کتب میں بھی مذکورہ ہے:
(1)نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج (2/ 301)
(2) أسنى المطالب في شرح روض الطالب (1/ 248)
(3)حاشية البجيرمي على الخطيب = تحفة الحبيب على شرح الخطيب (2/ 195)
(4) شرح المقدمة الحضرمية المسمى بشرى الكريم بشرح مسائل التعليم (ص: 387)
(5)نهاية الزين (ص: 139)
(6)الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (2/ 1299)
(2)                   مقام جمعہ کے راستہ مامون نہ ہونا:
دوسری وجہ علماءنے لکھی ہے کہ مقامِ جمعہ تک پہونچنے میں راستہ کا امن باقی نہ رہے، درمیان میں جنگ یا فساد جاری ہو، جس کی وجہ سے جان یا مال کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو، تو اب گنجائش ہے کہ اگر جمعہ کے بقیہ شرائط پائے جاتے ہیں تو متعدد جمعہ قائم کیے جائیں۔
محمد بن عمر نووی﷬ فرماتے ہیں: ”یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک شہر میں متعدد جمعہ کی اجازت ضرورت کے وقت ہی ہوگی۔ پھر ضرورت میں یہ داخل ہے کہ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا دشوار ہو ... درمیان میں جنگ جاری ہونے کی وجہ سے ... چناں چہ اس مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادہ صحیح قول کے مطابق اگر واقعی ضرورت ہو تو متعدد جمعہ کی گنجائش ہے۔“
يُفِيد أَن التَّعَدُّد فِي مصر كُله لحَاجَة فَعَلَيهِ لَا تجب الظّهْر ثمَّ عسر الِاجْتِمَاع إِمَّا لكثرتهم كَمَا مر أَو لقِتَال بَينهم أَو لبعد أَطْرَاف الْبَلَد بِحَيْثُ كَانَ من بطرفها لَو سعى إِلَيْهَا بعد الْفجْر لَا يُدْرِكهَا فَإِن اجْتمع من أهل الْمحل الْبعيد أَرْبَعُونَ أَقَامُوا الْجُمُعَة وَإِلَّا صلوها ظهرا. وَحَاصِل مَا يُقَال فِي هَذِه الْمَسْأَلَة إِن التَّعَدُّد ان كَانَ لحَاجَة جَازَ بِقَدرِهَا على الْأَصَح. (نهاية الزين: 139)
یہی یا اس جیسی بات مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
(1)تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي (2/ 426)
(2) نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج (2/ 301)
(3)حاشية البجيرمي على شرح المنهج = التجريد لنفع العبيد (1/ 382)
(4) حاشية البجيرمي على الخطيب = تحفة الحبيب على شرح الخطيب (2/ 195)
(5)شرح المقدمة الحضرمية المسمى بشرى الكريم بشرح مسائل التعليم (ص: 387)
(6)الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (2/ 1299)
(3)                   ایک مسجد میں جمع ہونے کی گنجائش کا نہ ہونا:
متعدد جمعہ قائم کرنے کے لیے تیسری وجہ علماء نے لکھی ہے کہ اگر مسجد میں اتنی تنگی ہو کہ پورے علاقہ والوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا دشوار ہو تو اب متعدد جمعہ کی گنجائش ہے۔
علامہ ابوالقاسم رافعی﷬ فرماتے ہیں: ”تمام شہروں میں ایک سے زائد جمعہ کی اجازت ہے، جب لوگ زیادہ ہوجائیں، اور ان کا ایک ساتھ جمع ہونا دشوار ہو۔“
تجوز الزيادة على الجمعة الواحدة في سائر البلاد إذا كَثُر النَّاس، وعَسُر اجتماعُهم. (العزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير: 2/252)
تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ اگر کسی مسجد میں لوگوں کا جمع ہونا کثرت کی وجہ سے دشوار ہوگیا ہو تو علماء نے لکھا ہے کہ کوئی ایسی جگہ تلاش کی جائے، جس میں تمام اہلِ شہر جمع ہوسکتے ہوں، چناں چہ علماء نے جو تعبیر اختیار فرمائی ہے وہ قابل غور ہے: عَسُرُ اجْتِمَاعُهُمْ فِي مَوْضِعٍ أو مَكَانٍ کہ کسی بھی جگہ ان کا جمع ہونا دشوار ہوجائے۔ (یہاں عربی قواعد کی رو سے تنوین تنکیر کے لیے ہے۔)
چناں چہ علماء نے اسی کے ضمن میں اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ اگر پورے شہر میں ایسی مسجد نہ ہو، جس میں تمام نمازی جمع ہوسکتے ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟ تو اس پر لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ اگر شہر میں مسجد نہ ہو تو کوئی اور ایسی جگہ تلاش کی جائے جس میں تمام اہل شہر جمع ہو سکتے ہوں، خواہ وہ کوئی میدان ہو یا کھلا مقام۔ گویا صرف مسجد میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے متعدد جمعہ کی اجازت پھر بھی نہیں دی جائے گی۔
علامہ ابن حجر ہیثمی﷬ اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں: ”یہ بات طے شدہ اور معلوم ہے کہ امام شافعی﷬ اور بہت سے علماء کے نزدیک کے نزدیک متعدد جمعہ کا قائم کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ واقعی ضرورت ہو، اس طور پر کہ شہر میں کوئی ایسی جگہ ہی نہ جس میں تمام شہر والے سما سکیں، تب ضرورت کے بقدر متعدد جمعہ کے قائم کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہ بات بھی معلوم و طے شدہ ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ اگر شہر میں کوئی ایسی جگہ ہو جس میں سب سما سکتے ہوں، خواہ وہ مسجد کے علاوہ کوئی جگہ ہو تو اسی جگہ جمعہ قائم کرنا واجب ہے، اور اس وقت میں متعدد جمعہ قائم کرنا بلاضرورت ہے۔“
مِنْ الْمَعْلُوم الْمُقَرَّر أَنَّ الْجُمُعَةَ لَا يَجُوزُ تَعَدُّدُهَا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ وَعِنْدَ كَثِيرِينَ مِنْ الْعُلَمَاء إلَّا إنْ اُحْتِيجَ بِأَنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْبَلَدِ مَحَلٌّ يَسَعُ أَهْلَهَا فَحِينَئِذٍ يَجُوزُ التَّعَدُّدُ بِقَدْرِ الْحَاجَةِ فَقَطْ وَأَنَّهُ لَا يُشْتَرَطُ لِإِقَامَتِهَا الْمَسْجِدُ بَلْ مَتَى كَانَ فِي الْبَلَدِ مَحَلٌّ يَسَعُ أَهْلَهَا وَلَوْ غَيْرَ مَسْجِدٍ وَجَبَتْ إقَامَةُ الْجُمُعَةِ فِيهِ وَأَنَّهُ إذَا وَقَعَ تَعَدُّدٌ غَيْرُ مُحْتَاجٍ. (الفتاوى الفقهية الكبرى: 1/250)
اسی طرح کی بات مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی مذکور ہے:
(1)تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي (2/ 426)
(2) مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج (1/ 544)
(3)فتح المعين بشرح قرة العين بمهمات الدين (ص: 198)
(4) حاشيتا قليوبي وعميرة (1/ 315)
(5)حاشية الجمل على شرح المنهج = فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب (2/ 16)
(6)حاشية البجيرمي على شرح المنهج = التجريد لنفع العبيد (1/ 382)
(7)شرح المقدمة الحضرمية المسمى بشرى الكريم بشرح مسائل التعليم (ص: 387)
(8)إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين (2/ 74)
(9)نهاية الزين (ص: 139)
(10)                   السراج الوهاج (ص: 85)
مذکورہ بالا صراحتوں سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پاس ایک جمعہ قائم کرنے کے لیے اگر مسجد نہ بھی ہو تب ان کو چاہیے کہ ایسی جگہیں تلاش کریں جہاں سارے مسلمان جمع ہوکر ایک ساتھ جمعہ ادا کرسکیں۔
فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس طرح کے مقامات تو تقریبا ہر شہر میں پائے جاتے ہیں، لہذا وہاں پر متعدد جمعہ قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، چناں چہ علامہ شروانی تحریر فرماتے ہیں: ”اور یہ بات معلوم ہوئی کہ اکثر جگہوں پر جو متعدد جمعہ قائم کی جاتی ہیں ان کی ضرورت نہیں؛ اس لیے کہ اکثر شہروں میں ایسی جگہیں پائی جاتی ہیں جن میں تمام لوگ سما سکتے ہوں۔“
وَقَدْ اُسْتُفِيدَ مِنْهُ أَنَّ غَالِبَ مَا يَقَعُ مِنْ التَّعَدُّدِ غَيْرُ مُحْتَاجٍ إلَيْهِ إذْ كُلُّ بَلَدٍ لَا تَخْلُو غَالِبًا عَنْ مَحَلٍّ يَسَعُ النَّاسَ، وَلَوْ نَحْوَ خَرَابَةٍ وَحَرِيمِ الْبَلَدِ. (حواشي الشرواني والعبادي: 2/425)
ان کے علاوہ بھی متعدد علماء نے یہ بات اپنی کتابوں میں لکھا ہے، جن کے نام یہ ہیں:
(1)حاشية الجمل على شرح المنهج = فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب (2/ 16)
(2) حاشية البجيرمي على الخطيب = تحفة الحبيب على شرح الخطيب (2/ 195)
(3)حاشية البجيرمي على شرح المنهج = التجريد لنفع العبيد (1/ 382)
البتہ متاخرینِ شوافع نے اس کی گنجائش دی ہے کہ میدان یا آسمان تلے جمع ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ مساجد میں جمع ہونا کافی ہے، چناں چہ علامہ سلیمان بن عمر ازہری﷬ (1204؁ھ) فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے: ”تمام اہل شہر کا ایسی جگہ جمعہ ہونا مراد ہے جس میں عادۃ لوگ جمع ہوسکتے ہوں جیسے مسجد، چناں چہ اگر تمام اہل شہر ایک مسجد میں جمع نہ سکتے ہوں متعدد جمعہ کی اجازت ہوگی۔“
وَقَوْلُهُ: فِي صَدْرِ الْقَوْلَةِ أَيْ مِنْ الْأَمْكِنَةِ الَّتِي جَرَتْ الْعَادَةُ بِفِعْلِهَا فِيهَا يُفِيدُ أَنَّهُ إذَا كَانَ يُمْكِنُ اجْتِمَاعُهُمْ فِي مَحَلٍّ لَمْ تَجْرِ الْعَادَةُ بِفِعْلِهَا فِيهِ كَزَرِيبَةٍ وَفَضَاءٍ فِي الْبَلَدِ يَسَعُهُمْ كُلُّهُمْ وَيُغْنِيهِمْ عَنْ التَّعَدُّدِ فَلَا يَلْزَمُهُمْ فِعْلُهَا فِي ذَلِكَ الْمَحَلِّ الَّذِي يَرْتَفِعُ بِهِ التَّعَدُّدُ بَلْ يَفْعَلُونَهَا فِي مَوَاطِنِ الْعَادَةِ كَالْمَسَاجِدِ وَإِنْ لَزِمَ عَلَيْهِ التَّعَدُّدُ حَيْثُ لَمْ يَسَعْ الْجَمِيعَ مَوْضِعٌ مِنْ تِلْكَ الْمَوَاضِعِ وَهَذَا هُوَ الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ. (حاشية الجمل على شرح المنهج = فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب: 2/16)
اب ایک سوال یہ ہےکہ مذکورہ بالا تصریحات کے باوجود اگر ایک ہی علاقہ متعدد جمعہ شروع کی ہی گئی، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟، ان میں سے کون سی درست اور کون سی دہرانے کے قابل ہے؟۔
ایک علاقہ میں متعدد جمعہ کا حکم:
علماء نے اس مسئلہ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر ایک ہی علاقہ میں متعدد جمعہ بلاکسی ضرورتِ شرعیہ کے (جن کی تفصیل اوپر گزر چکی) قائم کیے جائیں تو لوگوں کی نمازوں کا کیا ہوگا۔
اس سلسلے میں اصحابِ الفقہ المنہجی تحریر فرماتے ہیں: ”اگر ایک ہی علاقہ میں بلاضرورت متعدد جمعہ قائم کیے جائیں، تو ان میں صرف وہ جمعہ درست ہوگی، جو سب سے پہلے ادا کی گئی۔ اور ادائیگی کا اعتبار ابتداء (تکبیرِ تحریمہ) سے ہوگا، نہ کہ  سلام سے، چناں چہ جس امام نے پہلے نماز شروع کی ہوگی وہی جمعہ درست ہوگی۔ اور بقیہ لوگوں کی نماز جمعہ ناقص سمجھی جائے گی جب کہ وہ الگ الگ جمعہ ادا کریں۔اور اگر شہر کی پہلی متعدد جمعہ کی طرف وہ لوگ توجہ نہ دیں تو سب کی جمعہ باطل ہوجائے گی، اور اس کی جگہ ظہر پڑھنا واجب ہوگا۔
اور اگر ادائیگی کے اعتبار سے پہلی جمعہ کونسی ہے، اس کا علم نہ ہو تو تمام جگہوں کی جمعہ باطل ہوگی، اور اگر وقت میں گنجائش ہو تو تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع ہوکر دوبارہ جمعہ ادا کرنی پڑے گی، ورنہ تمام لوگ نماز ظہر ادا کریں؛ شرائط جمعہ میں کمی کرنے کی وجہ سے، بلکہ جمعہ کو باطل ہونے سے بچانے کے لیے۔“
فلو تعددت الجمعات في البلدة الواحدة بدون حاجة، لم يصح منها إلا أسبقها، والعبرة بالسبق البداءة لا الانتهاء، فالجمعة التي بدأ إمامها بالصلاة قبلاً، هي الجمعة الصحيحة، ويعتبر أصحاب الجمعات الأخرى مقصرين إذا انفردوا بجمعات متعددة، ولم يلتقوا جميعاً في أول جمعة بدأت في البلدة، فتكون جمعاتهم لذلك باطلة ويصلون في مكانها ظهراً. فإن لم تعلم الجمعة السابقة فالكل باطل، ويستأنفون جمعة جديدة في مكان واحد إن أمكن ذلك واتسع الوقت، وإلا صلى الجميع ظهراً، جبراً للخلل، بل تداركاً للبطلان. (الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي: 1/204)
اسی طرح کی بات یا اسی سے ملتی جلتی بات تمام ہی کتبِ فقہ میں موجود ہے؛ اس لیے ہر کتاب کا حوالہ دینا ضروری نہیں، اور ا س کے علاوہ اس سلسلے میں گنجائش والی بات کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی ہے۔
ایک مخلصانہ درخواست:
یہ بات واضح رہے کہ بندہ کا مقصد اس تحریر سے فتنہ انگیزی یا شر پھیلانا ہرگز نہیں ہے، بلکہ دلوں کا حال جاننے والی ذات نیتوں سے بخوبی واقف ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف ایک شریعت کے مسئلہ کی طرف توجہ دلانا ہے، اور علم کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اللہﷻ کے حضور جواب دہی کی ذمیداری کا احساس ہے، وہ بھی اس لیے کہ اس سلسلے میں کتابوں میں جو باتیں درج ہیں وہ بڑی سخت ہیں، اور تقریبا ایک ہزار سے زائد لوگوں کے فریضۂ جمعہ کی ادائیگی کا مسئلہ ہے، نیز ایسا نہیں ہے کہ جمعہ شروع ہونے کے بعد بطور فتنہ انگیزی اس مسئلہ کو اٹھایا جارہا ہے، بلکہ جمعہ شروع ہونے سے پہلے ہی متعدد ذمیداران و علمائے کرام کو متوجہ کیا گیا تھا، لیکن کوئی ذمیدارانہ اقدام دکھائی نہ دینے پر جنبشِ قلم کی جسارت کی گئی؛ تاکہ صحیح بات لوگوں تک پہونچ سکے، اور ہم قیامت کی جوابدہی سے سبکدوش رہ سکیں۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ بندہ کو اپنی کم مائگی و قصورِ علمی کا ہر دم اعتراف و اقرار ہے، نیز اپنی رائے پر اصرار و ہٹ دھرمی کا بھی ہرگز ارادہ نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ علاقہ کے اہلِ علم نہ سہی، کوکن کے جو مایۂ ناز اہلِ علم ہیں، جن پر پورے علاقہ کا اعتماد و بھروسہ ہے، ان کو مدعو کیا جائے اور علاقہ کی نوعیت کا مشاہدہ کرانے کے بعد ان سے تحریرا سندِ اجازت حاصل کی جائے؛ تاکہ مسئلہ میں شک و شبہ ہی باقی نہ رہے۔
اہلِ علم سے بھی درخواست ہے کہ وہ انظر إلى ما قال و لاتنظر إلى من قال کے سنہرے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ذاتیات پر بات نہ کرتے ہوئے علمی دلائل پیش کریں۔ اپنی قصورِ علمی کے اعتراف کے ساتھ جتنی کتابوں کی طرف رجوع کیا گیا، ان میں سے کسی ایک بھی کتاب میں اس کے خلاف کی کوئی گنجائش نہیں ملی، چناں چہ اگر کہیں کسی کتاب میں کوئی گنجائش کی بات لکھی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں، بندہ اپنی بات سے رجوع کرنے کے لیے ہردم آمادہ ہے۔ فقط
نوٹ: مذکورہ بالا مضمون فقہ شافعی کے مطابق ہے، لیکن بعد تحقیق و مراجعت کتب واضح ہوسکتا ہے کہ فقہ حنفی بھی اس سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں