پیر، 13 فروری، 2017

نجاستوں اور نجس پانی کا بیان

نجاستوں اور نجس پانی کا بیان

تعریف: نجاست لغت میں ہر گندگی کو کہا جائے گا، شریعت میں نجاست سے ایسی گندگی مراد ہے جس کی موجودگی میں عام حالات میں نماز صحیح نہیں ہوتی۔
نجاست کی قسمیں: نجاست کی دو (2) قسمیں ہیں
1)نجاستِ حکمیہ
2) نجاستِ  عینیہ
1) نجاست حکمیہ: نجاست حکمی ایسی نجاست جو اپنے محل سے آگے بڑھ جائے جیسے جنابت۔
2)نجاست عینیہ: ایسی نجاست جو اپنے محل سے تجاوز نہ کرے جیسے پیشاب وغیرہ۔
نوٹ:- جس نجاست عینیہ کا کائی اثر باقی نہ ہو جیسے پیشاب کپڑے پر لگ جائے جس میں نہ بدبو ہے نہ مزہ نہ رنگ اس کو بھی نجاستِ حکمیہ کہتے ہیں۔ (جمل 1/168)
اشیاء کی اقسام: ساری اشیاء کی دو قسم کر سکتے ہیں۔
1) جَماد
2) حیوان۔
1)جَماد: جماد کا مطلب جو نہ حیوان ہو نہ حیوان تھا نہ کسی حیوان کا جزء ہے نہ ہی کسی حیوان سے نکلا ہے۔
شراب اور نشہ والی نبیذ کے علاوہ سارے جَمادات پاک ہیں۔ حیوانات میں کتا، خنزیر (سُوَّر) اور ان دونوں سے کسی ایک کے بھی دوسرے جانور سے ملاپ کی وجہ سے جو پیدا ہو نجس ہیں۔ اس کے علاوہ سارے جاندار اپنی زندگی میں پاک ہیں۔
نوٹ:مردار میں پیدا ہونے والے کیڑے بھی پاک ہیں۔
مردار کی تعریف:- جن حیوانات کو شرعی طریقے سے (ذبح ، شکار وغیرہ کے ذریعہ) حلال نہ کیا گیا ہو اور روح نکل چکی ہو تو اس کو مردہ  کہا جائے گا۔ (جمل 1/173)
پاک مردار: مردار میں صرف مچھلی، ٹڈی اور انسان پاک ہیں۔ کسی جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے مردہ جنین برآمد ہو ، تو وہ بھی پاک ہے۔
نوٹ:- خلقت مکمل ہونے کے بعد برآمد ہونے والے جنین کو اپنے ماں کے تابع سمجھتے ہوئے کھانا جائز ہے لیکن علقہ او مضغہ کا کھانا  نا جائز ہے۔(جمل 1/173)
شرعی طریقہ سے ذبح کئے ہوئے جانور کا حکم:- شرعی طریقے سے شکار کئے ہوئے جاندار کو ذبح کرنے کا موقع نہ ملے اور مر جائے، تب بھی وہ پاک ہے اور اس کا کھانا حلال ہے۔
مردار کے اجزاء: اس کے علاوہ سارے مردار نجس ہیں۔ مردار کے تمام اجزاء (ہڈی، بال، اون وغیرہ) نجس ہیں۔ کیوں کہ ان سب میں زندگی ہوتی ہے۔ (مغنی المحتاج 1/78)
مکھی وغیرہ: وہ جاندار جن کو اگر زندگی میں کاٹا جائے تو ان کے بدن سے خون نہ بہے ( یا تو خون نہ ہونے کی وجہ سے یا اس لئے کہ معمولی سا ہے، بہنے جیسا نہیں ) جیسے مکھی وغیرہ، ان کا مردہ بھی نجس ہی ہے، لیکن یہ پانی یا دوسر سیال(بہنے والی) چیز میں گر جائے (اور اس میں کوئی تغیر اس مردار کی وجہ سے پیدا نہ ہو) تو وہ سیال چیز نجس نہیں ہوگی۔ البتہ کسی نے اس طرح کے مردہ کو پانی وغیرہ میں ڈال دیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔ اگر اس طرح کے مردوں کی کثرت کی وجہ سے تغیر پیدا ہو تو پھر وہ پانی یا مائع نجس ہوجائے گا۔ (مغنی المحتاج 1/78)
حدیث: آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر کسی کے برتن میں مکھی گرے تو اسے مکمل ڈبو کر پھر نکال دو، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔"(بخاری) بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے:"وہ اپنے بچاؤ کے لئے بیماری والا پر آگے کرتی ہے۔"(ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان، تلخیص الحبیر 1/37)
پھلوں میں موجود کیڑے: سرکہ یا سیب وغیرہ پھل میں جو کیڑے پڑتے ہیں ان کا مردار بھی نجس ہے۔ البتہ اس کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے بچنا مشکل ہے، نیز ان اشیاء کو ان کیڑوں سمیت کھانا جائز ہے کیوں کہ اسے جدا کرنا کافی دشوار ہے۔
نوٹ: جن جانوروں کو کھانا حرام ہے انہیں ذبح کیا جائے تب بھی وہ نجس ہیں۔(مغنی المحتاج 1/78)
حیوان کے اجزاء کا حکم
اصول: ایک عام اصول یہ ہے کہ کسی بھی زندہ حیوان سے جو حصہ جدا ہو وہ نجس ہے۔
حدیث: "زندہ  (جانوروں کے بدن) سے جو (حصہ) جدہ کیا جائے وہ مردہ ( کے حکم میں ) ہے۔(مسند احمد، ترمذی، حاکم وغیرہ۔ تلخیص 1/39)
البتہ مندرجہ ذیل اشیاء اس اصول سے مستثنیٰ ہیں۔
1) مأکول اللحم (جن جانوروں کا گوشت کھانا جائز ہے) حیوانات کے بال، اون اور پَر جو زندگی میں کاٹ لئے گئے ہوں یا خود بخود جھڑے ہوں (پاک ہیں)
2) انسان کے بال
3) انسان، مچھلی اور ٹڈی کے بدن کا کوئی حصہ اور
4) انسان کا مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ ہوتا ہے۔)

(تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی 1/69،70)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں