ہفتہ، 2 جولائی، 2016

ختم قرآن اور اس کے مستحب اعمال و دیگر مسائل



بسم اللہ الرحمن الرحیم


ختم قرآن اور اس کے  مستحب اعمال و دیگر مسائل


پہلا مسئلہ
ختم قرآن کا مستحب وقت:
مستحب ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے کہ اگر وہ تنہا تلاوت کر رہا ہو تو اس کو نماز میں ختم کرے۔ اور بہتر ہے کہ فجر یا مغرب کی سنت میں ختم کرے۔
مستحب ہے کہ ایک دور قرآن کا دن کی شروعات میں ختم کرے تو دوسرا دور دن کے آخر میں ختم کرے۔
جو نماز کے باہر قرآن ختم کرتے ہیں مستحب ہے کہ وہ اپنے ختم کو دن کی شروعات میں یا رات کی شروعات میں ختم کرے۔
دوسرا مسئلہ:-
ختمِ قرآن کے دن روزہ رکھنا:
مستحب ہے کہ ختم قرآن کے دن روزہ رکھے؛ ہاں اگر وہ دن قرآن ختم ہو جس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تو روزہ نہ رکھے(مثلا عیدین وغیرہ)۔
ابن ابی داود رحمہ اللہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ
"طلحہ بن مطرف، حبیب بن ابی ثابت اور مسیب بن رافع کوفہ کے تابعین رضی اللہ عنھم اجمعین، وہ سب جس دن قرآن ختم کرتے اس دن روزہ رکھتے۔"
تیسرا مسئلہ:-
ختمِ قرآن کی مجلس میں شریک ہونا:
ختم قرآن کی مجلس میں شریک ہونا بہت زیادہ مستحب ہے؛ چنانچہ صحیحین میں ثابت ہے کہ
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں عید کے دن نکلنے کا حکم دیا تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں۔"
دارمی اور ابن ابی ابو داود نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ انہوں نے ایک آدمی کو ایک قرآن پڑھنے والے آدمی کی نگرانی پر رکھا تھا تو جب وہ قاری قرآن ختم کرنے والا ہوتا تو یہ آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خبر دیتا تو آپ اس میں شریک ہوتے۔"
اور ابن ابی داود دو صحیح سندوں سے روایت کرتے ہیں کہ جلیل القدر تابعی قتادہ جو انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، فرماتے ہیں:
"جب انس بن مالک  رضی اللہ عنہ قرآن ختم فرماتے اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور دعا کرتے۔"
اور انہوں نے صحیح سندوں سے جلیل القدر تابعی  حکم بن عیینہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے  کہ انہوں نے فرمایا:
"مجاھد اور عتبہ بن لبابہ رحمہما اللہ نے مجھے بلا بھیجا، ان دونوں نے فرمایا:
"ہم نے آپ کو اس لئے بلا بھیجا ہے کہ ہم قرآن ختم کرنے والے ہیں؛ اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔"
اور بعض صحیح روایتوں میں ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے:
" بے شک ختم قرآن کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔"
اور انہوں نے صحیح سند سے مجاھد رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں:
"وہ لوگ ختم قرآن کے وقت جمع ہوتے تھے؛ وہ سب کہتے ہیں:  رحمت نازل ہوتی ہے"
 چوتھا مسئلہ:-
ختمِ قرآن کے بعد دعا قبول ہوتی ہے:
ختم قرآن کے فورا ً بعد دعا کرنا بہت زیادہ مستحب ہے جیسا کہ اوپر والے مسئلہ میں ہم نے ذکر کیا۔
دارمی نے اپنی سند سے  حمید الاعرج (تابعی)  سے نقل کیا، فرمایا:
"جو قرآن ختم کرے اور دعا کرے تو اس کی دعا پر چار ہزار (4000) فرشتے آمین کہتے ہیں۔
مناسب ہے کہ وہ الحاح یعنی اصرار کے دعا کرے، اور اہم امور کے متعلق دعا کرے؛ اور مسلمانوں اور ان کے سلطان اور تمام ان کے امور کے والیوں کے لئے  زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔
امام حاکم ابو عبد اللہ نیساپوری اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ(مشہور محدث) جب قرآن ختم کرتے تو بہت زیادہ دعا مسلمانوں، مومنوں اور مومنات کے لئے کرتے ۔
اور اس جیسا ان کے علاوہ نے بھی کہا ہے؛
نوٹ:- دعا کرنے والے کو چاہئے کہ جامع دعائیں کریں۔
پانچواں مسئلہ:-
قرآن کے ختم ہونے کے بعد دوسرا دور فوراً شروع کرلیں:
مستحب ہے کہ جب ختم سے فارغ ہو تو فوراً دوسرا دور کی تلاوت شروع کرلے، سلف صالحین نے اسے مستحب کہا ہے اور ان لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" بہترین اعمال حل اور رحلہ ہیں۔
کہا گیا وہ دونوں کیا ہیں؟
فرمایا: قرآن کا شروع کرنا اور اس کا ختم کرنا ہے۔"
          ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
(التبیان فی آداب حملة القرآن للنووي 158-162 ،ملخصا)
فرحان باجري الشافعی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں