منگل، 5 جولائی، 2016

روزہ کا فدیہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
روزہ کا فدیہ
کسی کا رمضان، نذر یا کفارہ کا واجب روزہ عذر کی وجہ سے فوت ہو اور اس کی قضا کے امکان اور قدرت سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوجائے، تو اس کے تدارک اور تلافی کی ضرورت نہیں اور نہ وہ گنہگار ہوگا۔ مثلا ًکوئی بیمار ہوجائے اور روزہ فوت ہو اور موت تک بیمار ہی رہے یا سفر میں روزہ فوت ہو اور موت تک سفر جاری رہا یا حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ فوت ہو اور اسی حال میں انتقال ہو، ان تمام صورتوں میں نہ تلافی کی ضرورت ہے اور نہ گنہگار ہوگا۔
اگر بلا عذر روزہ فوت ہو تو گناہ بھی ہوگا اور تدارک بھی لازم ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

اگر بلا عذر یا عذر کی وجہ سے روزہ فوت ہو اور قضا کے امکان کے بعد انتقال ہو، تو اس کے ترکہ میں سے ہر دن کے روزہ کے بدلے اپنے شہر کی غالب غذا سے ایک ایک مد(ایک مد =600 گرام) فطرہ کی جنس سے فدیہ ادا کرے یا اس کا کوئی رشتہ دار اس کی جانب سے روزہ رکھے یا کوئی اجنبی رشتہ دار کی اجازت یا میت کی وصیت سے روزہ رکھے۔

نوٹ:- امکان کے بعد انتقال ہوا تو دونوں صورتوں میں گناہ ہوگا، اس لئے موقع ملتے ہی فورا قضا کرنا بہتر ہے۔
احادیث:
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جسکا انتقال ہو اور اس کے ذمہ روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔"(صحیح بخاری 1952، صحیح مسلم)
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے پھر کہا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزہ تھے، کیا میں ان کو قضاکروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہان! اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کی قضا کی جائے۔"( صحیح بخاری 1953، صحیح مسلم)


3۔ کسی کا انتقال ہو اور ذمہ روزہ ہو تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو طعام دیا جائے۔(سنن الترمذی و صحیح وقفہ علی ابن عمر)
4۔ ایک عورت کی والدہ کا انتقال ہوا۔ اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے تو اس کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اپنی امی کی جانب سے تم روزہ رکھو۔"(صحیح مسلم)

جو شخص ایسے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑے جس کے ختم ہونے کی کوئی توقع و امید نہ ہو جیسے بوڑھا یا ایسا مرض جس سے شفا یابی کی امید نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلہ ایک مد (600 گرام) اناج دے، آئیندہ روزہ قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔
 فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورہ البقرہ 184)
ترجمہ: "جو شخص تم میں سے (ایسا) ہو جو بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو دوسے ایام کا شمار (کر کے ان میں روزہ ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اور ( دوسی آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں ان کے ذمہ فدیہ ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا کھلا دینا یا دے دینا ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دے) تو اس شخص کے لئے اور بھی بہتر ہے اور تمہارا روزہ رکھنا ( اس حال میں ) زیادہ بہتر ہے اگر (روزہ کی فضیلت سے )خبر رکھتے ہو۔"

امام بغوی ؒفرماتے ہیں :
"یعنی جو نوجوانی میں میں روزہ پر قادر تھے اور اب بڑھاپے میں عاجز ہیں، ان کے ذمہ ایک فقیر کا کھانا فدیہ ہے۔(تفسیر بغوی)

 اگر مشقت اٹھا کر روزہ رکھے تو یہ کافی ہے۔ فدیہ ادا کرنے سے پہلے (اتفاقا ًاور خلاف توقع) عذر زائل ہو جائے تب بھی فدیہ ادا کرسکتا ہے۔ روزہ رکھنا واجب نہیں۔ دن سے قبل رات ہی میں اس دن کا فدیہ ادا کرسکتا ہے۔  رات سے قبل آئندہ کا فدیہ جائز نہیں۔

درج ذیل افراد کو روزہ کی قضا اور فدیہ ( 600 گرام) دونوں لازم ہیں۔

1۔ کسی آدمی یا حیوان محترم کی زندگی بچانے یا کسی عضو کو یا منفعت کو تلف ہونے سے بچانے کے لئے روزہ توڑنا پڑے۔
مثلا ًکوئی ڈوب رہا تھا اور اس کے بچانے میں پانی اندر چلا گیا اور روزہ ٹوٹ گیا۔

2۔ حاملہ عورت صرف اپنے حمل (جنین) کو نقصان اور خطرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھے۔

3۔ مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) شیر خوار بچہ کو نقصان اور خطرہ ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے۔

جنین اور بچہ کو روزہ سے نقصان ہو تو روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔ مرضعہ کا بچہ اپنا ہو یا دوسرے کا یہی حکم ہے۔

مذکورہ( اوپر بیان کی ہوئی) تینوں صورتوں میں افطار ( روزہ نہ رکھنے سے) دو افراد کو فائدہ پہنچا اس لئے فدیہ سمیت قضا لازم ہوا۔
آخری دو صوروں کے لئے آیت سابقہ  وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ( سورہ بقرہ 184)  سے بھی استدلال کیا گیا کیوں کہ بقول ابن عباس رضی الہ عنہما ان دونوں کے حق میں یہ آیت منسوخ نہیں۔ ( رواہ البیہقی) 

مسئلہ:-جس شخص کو رمضان کے روزوں کے قضا کا موقع ملے ( یعنی بلا عذر روزہ رکھنے کے ایام میسر ہوں) اور وہ روزہ نہ رکھے، یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا، تو اسے قضا کے ساتھ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد ( 600 گرام) فدیہ دینا واجب ہے۔ کیوں کہ 6 صحابہ کرام نے یہی فتوی دیا ہے اور ان کے مخالف کسی صحابی سے مروی نہیں۔

جتنے سال تاخیر ہوگی اتنے ہی فدیہ واجب ہوں گے، جب کہ ہر سال روزہ رکھنے کی گنجائش کے باوجود مؤخر کرے۔  کیوں کہ مالی حقوق میں تداخل نہیں ہے۔

مثلاً کسی نے باوجود گنجائش کے 5 روزے 3 سال مؤخر کئے تو 5 روزوں کی قضا کے ساتھ ہر روزہ کے بدلہ تین تین مد( 600 گرام * 3 = 1800 گرام) اناج لازم ہے۔

بھول کی وجہ سے یا تاخیر کی حرمت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے قضا میں تاخیر ہوئی تو فدیہ کی مقدار میں اضافہ نہ ہوگا۔
مذکورہ صورت میں ایک سال تاخیر کے بعد روزہ کی قضا سے پہلے انتقال کر جائے تو اسکے ترکہ میں سے ہر روزہ کے بدلہ دو مد (2 *600 گرام) نکالے، ایک روزہ کا اور ایک تاخیر کا۔ اور ولی اس کی جانب سے روزہ رکھے تو،  صرف ایک مد ( 600 گرام ) تاخیر کا نکالے۔

مسئلہ:- مذکورہ فدیہ کا مصرف فقیر اور مسکین ہیں۔ کیوں کہ مسکین کا ذکر آیت و حدیث میں ہے اور فقیر اس سے بھی زیادہ تنگ دستی میں ہوتا ہے۔

مسئلہ:- سارے مد ایک فقیر یا مسکین کو بھی دے سکتا ہے، کیوں کہ ہر دن مستقل عبادت ہے لہذا سارے مد مختلف کفاروں کی طرح ہیں۔ 

مسئلہ: ایک ہی مد دو میں تقسیم نہ کرے، بلکہ ایک مد مکمل ایک شخص کو دے۔  

(ماخوذ تحفہ الباری فی الفقہ الشافعی 361 – 363، الفقہ المنھجی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں