منگل، 6 اکتوبر، 2015

باب اسباب الحدث یعنی نواقض وضو احادیث کی روشنی میں

باب اسباب الحدث(وضو کے ختم ہونے کا بیان)
سبیلین سے کچھ بھی  نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا:-
          ۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: وضوء نہیں ہے مگر آواز سے یا  بو  سے۔"(رواہ ابن ماجہ، ترمذی)
          امام ترمذیؒ نے حسن صحیح فرمایا۔
۲۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی پس میں  اس وجہ سے کہ آپ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں تھی رسول اللہ ﷺ سے(حکم ) دریافت کرنے سے شرمایا تو میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے پوچھ لیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"(مذی خارج ہونے پر)اپنے ذکر(پیشاب گاہ) کو دھولے اور وضو کرلے۔"(متفق علیہ)
۳۔ اور انہی سے یہ بھی مروی ہے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سرین کا بند آنکھیں ہیں پس جو سو جائے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابو داود، ابن ماجہ)
اس کی سند میں کلام ہے، لیکن ابن سکنؒ نے اسے اپنی  سنن الصحاح الماثورہ میں نقل کیا ہے۔
۴۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب سو جاتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے اور وہ وضو نہیں کرتے تھے۔(رواہ مسلم،ابو داود)
ابو داود کی روایت میں مزید یہ ہے: یہاں تک کہ انکے سر (نیند کی وجہ سے)جھک جھک جاتے تھے اور یہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا۔
اس سند کے تمام رجال(راوی) ثقہ ہیں۔
شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:-
۵۔ حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
          "جو اپنے ذکر(شرمگاہ) کو چھوؤئے تو چاہئے کہ وہ وضو کرے"(رواہ ابو داؤد،ترمذی،ابن ماجہ،نسائی،ابن حبان،احمد،دارقطنی،حاکم)
اس کو اربعہ(ابو داؤد،نسائی،ترمذی اور ابن ماجہ) نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اور امام احمدؒ ،ترمذیؒ،ابن حبانؒ، دارقطنیؒ اور حاکمؒ نے صحیح قرار دیا ہے، اور امام حاکمؒ نے فرمایا کہ یہ شیخیں(بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔ امام بخاریؒ نے فرمایا:" اس موضوع پر یہ صحیح تریں روایت ہے"۔
ابن حبان ؒ وغیرہ نے فرمایا: طلقؓ کی حدیث جس سے وضو ناقض نہیں ہوتا مروی ہے وہ اس حدیث کے ذریعے منسوخ ہے۔
۶۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو اپنی شرمگاہ تک پہنچائے اور ان دونوں کے درمیان کوئی  ستر(پردہ/حائل) نہ ہو تو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔(رواہ ابن حبان)
امام ابن حبان ؒنے  فرمایا: ہم نے اس میں نافع بن ابو نعیم (یہ ثقہ ہیں)سے احتجاج کیا ہے نہ کے یزید بن عبد الملک النوفلی (یہ ضعیف ہے)سے۔
وضو نماز کی کنجی ہے:-
۷۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"نماز کی کنجی طہور(وضو ) ہے اور اس کی تحریم تکبیر(یعنی اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردینے سے تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں) ہے اور اس کی تحلیل سلام (یعنی سلام کے بعد نماز اور تحریم ختم ہوجاتی ہے )ہے۔"(رواہ ابوداود،ترمذی،ابن ماجہ ،الحاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا یہ حدیث مشہور ہے۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا:یہ حدیث اس باب میں صحیح ترین اور احسن ہے۔
۸۔ حاکم کی ایک روایت میں جس کی سند صحیح ہے مسلم کی شرط پر یہ ہے:
"نماز کی کنجی وضو ہے۔"
طواف نماز ہی ہے:-
۹۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" خانہ کعبہ کا طواف  نماز ہے سوائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمارے لئے کلام(بات چیت) کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے تو وہ خیر کی ہی بات کرے۔(رواہ الحاکم)
مستدرک میں حاکم نے اس کو روایت کیا ہے سفیان ثوری عن عطاء ابن السائب عن طاووس عن ابن عباسؓ کے ذریعہ، اور سفیان الثوری نے عطاء سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جیسا کے امام احمدؒ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے،
امام حاکمؒ نے اس کے بعد فرمایا: یہ حدیث صحیح سند سے ہے اور اس پر جماعت (محدثین) متفق ہے۔
۱۰۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں کتاب التفسیر میں قاسم بن ابو ایوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"طواف نماز کی طرح ہے سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بات چیت کو حلال کیا ہے پس جو بات کرے وہ صرف خیر کی ہی بات کرے۔"
پھر فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
قاسم جو اس سند میں ہے وہ ثقہ ہیں جیسا کے ابو داودؒ وغیرہ ان کے بارے میں فرمایا۔
بے وضو شخص قرآن کو نہ چھوئے:-
۱۱۔ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے مروی ہے وہ اپنے والے سے اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اہل یمن کو خط لکھا اس میں فرائض،سنن اور دیات کے احکام تھے اور اس میں تھا:
"قرآن کو صرف طاہر شخص ہی چھوئے۔"(رواہ ابن حبان،حاکم)
امام حاکمؒ نے فرمایا: اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے۔
شک سے وضو نہیں ٹوٹتا:-
۱۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کچھ پائے اور اسے شک ہو کچھ اس سے نکلا یا نہیں تو وہ ہرگز مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کے وہ کوئی آواز سنے یا بو سونگھے۔(رواہ مسلم)
نامحرم کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
۱۳۔حضرت ابن  عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  انہوں نے فرمایا:
"جو شخص عورت کا بوسہ لے یا اسے ہاتھ سے چھوئے، اس پر وضو لازم ہے۔"(رواہ مالک،الشافعی)
۱۴۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا:
"بوسہ لینا بھی لمس میں داخل ہے اور اس سے وضو لازم ہے، لمس سے مراد جماع سے کمتر امور ہیں۔(رواہ البیہقی)
نوٹ: اس سلسلے میں قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر  6 اصل  ہے اس میں أَو لامستم النِّسَاء  یعنی عورتوں سے ملامسہ ہے۔ لمس کے حقیقی معنی چھونا ہے جیسا کہ بعض احادیث میں بھی یہ لفب اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

مرتب: فرحان باجرائی شافعی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں