جمعرات، 19 مئی، 2016

اللہ اعلم کہنا بھی علم ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ اعلم کہنا بھی علم ہے
السلام علیکم، بہت سے لوگ جو یوٹیوب و سوشل میڈیا میں بہت سا دینی کام اور ریسیرچ پیش کرتے ہیں اور بہت سی باتوںمیں لوگوں کو غلط بات سے دور رکھتےہیں ، بے شک ان کی نیت کی بقدر ان کو اجر ملے گا لیکن اگر وہ بنیادی باتیں اگر معلوم کر لیتے تو بہتر ہوتا تھا۔ بہت سے مبلغین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مفتی بنے بیٹھتے ہیں یا وہ ایسی باتوں میں جس کا انہیں علم نہیں ہے بغیر سوچے سمجھے اس کے بارے میں سوال ہوتے ہی  جواب دی دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ان کو اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے۔ اور اس سے وہ حدیث کی رو سے جھوٹو ں میں شمار ہوجاتے ہیں کیوں کہ مسلم شریف کی مشہور حدیث ہے کہ "آدمی کا جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات(بغیر تحقیق کے ) دوسروں تک  پہنچا دے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہر سوال کا برجستہ جواب دینا اور سوال ہوتے ہی جواب دیدینا یہ کمال نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی بات پر علم نہیں تو آپ وقت لے سکتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق کر کے جواب دے سکتے ہیں اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں، جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا تو اکثر وہ لا ادری(مجھے علم نہیں ) کہتے تھے، اسی طرح امام مالک بن انسؒ سے 48 مسائل پوچھے گئے تو ان میں سے انہوں نے 32 مسائل کے بارے میں لا ادری کہا۔ نیز سفیان بن عیینہ ؒ اور سحنون بن سعیدؒ دونوں نے فرمایا، فتویٰ دینے میں وہ شخص زیادہ دلیر ہوتا ہے جو علم میں کم ہوتا ہے۔(فتاویٰ ابن الصلاحؒ جلد 1 صفحہ 12-13)
اور مزید محدثین و فقہاء کے اقوال کو محدث ابن الصلاحؒ نے اپنی اس کتاب میں نقل کیا ہے۔
اب ہمیں سونچنا چاہئے کہ ان بڑے بڑے مجتھدین و محدثین اکثر لا ادری کہتے تھے تو آج کل کے مترجم کتابیں ہم پڑھ کر کیا ہر بات کا جواب دے سکتے ہیں۔
چاہئے کہ تحقیق کریں اور جواب دیں اور عوام الناس کو بھی چاہئے کہ وہ ماہر علماء سے مسائل کو دریافت کریں۔ اور عوام کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر بات کا فوراً جواب دینا یہ کوئی کمال نہیں اگر ہوتا تو صحابہ کرامؓ اور مجتھدین و محدثین کیا باکمال نہیں تھے؟؟؟
قرآنِ کریم آپ پڑھیں کئی جگہ پر آپ کو آیت ملے گی "یسئلونک۔۔۔۔" یعنی لوگ آپ سے سوال کرتےہیں۔۔۔۔ یہ وہ آیتیں جس کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا گیا تھا آپﷺ نے توقف فرمایا اور وحی کے منتظر رہے۔ اسی طرح سورہ کہف اور دیگر سورتیں جن کا شانِ نزول آپ ﷺ سے سوال کیا جانا ہے۔
تو ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لینی چاہئے کہ ہر سوال کا جواب دینے والا باکمال نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کر کے جواب دینا اگرچہ اس میں دیر لگے یہ کمال ہے۔ اور کسی بات کا جواب معلوم نہ ہونا اور اس وقت اس کا جواب  نہ دینا ، نہ یہ شرم کی بات ہے نہ کم علمی ، کی بات ہے، بلکہ اس وقت جواب نہ دینا اور تحقیق کر کے جواب دینا یہ تقویٰ اور دیانت داری کی بات ہے۔ جیسا کہ اس حدیث شریف میں ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے (لوگوں کو مخاطب کرکے) کہا۔ لوگو! تم میں سے جو شخص کسی بات کو جانتا ہو وہ اس کو بیان کردے اور جو نہ جانتا ہو اس کی نسبت وہ کہہ دے کہ اللہ ہی جانتا ہے اس لئے کہ جس چیز کا اس کو علم نہیں ہے اس کی نسبت اللہ اعلم( اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے واسطے فرمایا   یعنی میں اس قرآن پر تم سے کوئی اجرت یا بدلہ نہیں مانگتا اور اس میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں۔(بخاری و مسلم از مشکاۃ المصابیح کتاب العلم فصل الثالث حدیث نمبر272 )

یہ سب باتیں لکھنے کی وجہ ایک ویڈیو بنی ہے جس میں اڈوکیٹ فیض صاحب نے سوال پر بالکل واقعہ کے خلاف جواب دیا ہے اسی طرح بہت سی مرتبہ میں نے ڈاکڑ ذاکر نائک کو بھی دیکھا ہے کہ وہ فوراً جواب دینے میں غلطی کرتے ہیں اور فوراً جواب دینا لوگ کمال سمجھتے ہیں، بلکہ یہ کمال نہیں ہے۔ اسی طرح بعض تبلیغی بھائی بھی وقت لگا کر آکر فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں چاہئے کہ وہ بھی اس سے بچیں۔ اور فیس بک وغیرہ پر تو بہت سے مفتیانِ کرام پھرتے ہیں چاہئے کہ ہم بھی بچیں اور معتبر ذرائع یعنی ماہر علماء سے معلوم کریں۔
ویڈیو کی لنک یہ ہے 
اور ہم نے اصل جو حدیث اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ذہن میں آئی تھی اس کو رومن بھی کردیا وہ آخر میں لکھی ہے۔ اور مضمون ذہن میں آتے گیا تو وہ طویل ہوگیا۔


Hazrat Abdullah bin Masood razi Allahu nahu se riwayat hai ke unho ne kaha: Logo! Tum me se jo Shakhs kisi baat ko jaanta ow wo usko bayan karde aur jo na jaanta ho as ki nisbat wo keh de ke “Allah hi Jaanta hai”  is liye ke jis cheez ka us ko Ilm nahi hai uski Nisbat ALLAHU ALAM  (Allah Behter Janta hai) kehna bhi ILM ki ek Qism hai, Chunache Allah Ta’ale ne Apne Nabi ke waste farmaya “IS QURAN PAR TUM SE KOI UJRAT YA BADLA NAHI MAANGTA AUR US ME TAKALLUF KARNE WALE LOGON ME SE NAHI HUN.(BUKHARI O MUSLIM AZ MISHKAT KITABUL ILM FASL 3 HADEES NO 272)

1 تبصرہ: