بدھ، 11 فروری، 2015

طہارت کا بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین سیدنا محمد النبی الامی و علی اٰل محمد وصحبہ اجمعین اما بعد
کتاب الطہارۃ (پاکی و صفائی کا بیان)
باب: پاک پانی
          ارشاد خداوندی ہے "وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا"( الْفُرْقَانَ  ۴۸).
ترجمہ:- اور ہم نے آسمان سے پاکی حاصل کرنے کا پانی اتارا"(سورہ فرقان :۴۸)
حدیث: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلَاةُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ(مسند احمد14662، مسند ابی داود الطیالسی 1899 بسند آخر، سنن الترمذی 4، المعجم الاوسط للطبرانی 596،شعب الإيمان للبيهقي 2456)"
ترجمہ:"آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ "جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہارت ہے۔"
(رواہ احمد 14662)
نوٹ:  اس حدیث (مسند احمد کی روایت میں)کے راوی "ابو یحیٰ قتات "مختلف فیہ  اسی طرح "سلیمان بن قرم" بھی مختلاف فیہ ہے اور ان کو امام احمد نے ثقہ کہا ہے، ابن عدی نے ان کی احادیث کو حسن کہا ہے، امام حاکم نے کہا کہ امام مسلم نے ان کی روایت شاہد کے طور پر لی ہے، ساتھ  لغو اور سوء حفظ کا عیب بھی ان کو لگا ہے۔
یحی بن معین نے : لیس بشیء کہا، ابن حبان نع غالی رافضی قرار دیا ہے۔(تفسیل کے لئے البدر المنیر از ابن الملقن دیکھئے 3/450)
یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے اور بعض میں سلیمان بن قرم نہیں ہے جیسے کہ سنن ترمذی  وغیرہ میں ۔ سنن الترمذی کے محقق علامہ شاکر نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے "قال البانی صحیح لغیرہ"
یعنی البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے۔
اس حدیث کہ دوسرے جز  (وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ )کے شواہد بھی بکثرت موجود ہیں۔(مسند احمد 1006،سنن الدارمی 714،سنن ابن ماجہ 275،276، سنن ابی داود 61،618،سنن الترمذی3،238۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

          اسی طرح صحیح مسلم شریف کی ایک طویل روایت میں آپ ﷺ نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ الخ(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث ۲۲۳)
طہارت کے لغوی معنیٰ:        لفظ  "طہارت" عربی لغت میں نظافت کے لئے اور حسی میل اور معنوی عیب سے صاف ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً نجاست، تھوک ، بلغم،حسد،کبر، بغض وغیرہ سے پاک و صاف ہونا
طہارت کے اصطلاحی معنیٰ :شرعاً   وضو، غسل، تیمم اور نجاست کے ازالہ کے لئے اس لفظ  " طہارت  " کو استعمال کرتے ہیں۔(بشریٰ ۱/14)
کس پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟
وضو، غسل اور نجاست کے لئے مطلق پانی (ماء مطلق) کا ہونا ضروری ہے وہ پانی جس میں کوئی لازمی قید نہ ہو اسے مطلق پانی کہیں گے۔
          اگر لازمی قید آجائے، مثلاً  گلاب کا پانی، شکر کا پانی وغیرہ تو یہ مطلق نہ ہونے کی وجہ سے طہارت میں استعمال نہیں ہوسکتا، گلاب کے پانی کو آپ صرف پانی نہیں کہہ سکتے ، لہٰذا اس قید کو قید لازم کہیں گے البتہ کنویں یا ندی یا بارش کے پانی کو آپ بغیر قید کے صرف پانی بھی کہہ دیں گے، معلوم ہوا یہ قید لازمی نہیں اور اسی کو مطلق پانی کہا جائے گا۔

(ماخوذ تحفۃ الباری مع تخریج احادیث فرحان باجرائی الشافعی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں