منگل، 17 فروری، 2015

وضو کے فرائض : ۶ ترتیب سے وضو کرنا

۶۔ ترتیب:
جیسا بتایا گیا اسی ترتیب سے وضو کرنا ضروری ہے یعنی پہلے نیت کرنا، پھر چہرہ دھونا پھر ہاتھ ، پھر سرکا مسح اور آخر میں پیر دھونا۔
ترتیب مستفاد ہوئی ہے اس آیت سے جس میں وضو  کے فرائض کا ذکر ہے یعنی سورہ المائدہ آیت ۶، اور رسول اللہ ﷺ کے فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے وضو نہیں کیا مگر اسی ترتیب سے جس طرح آیت میں آیا ہے۔ یہ بات صحیح صریح احادیث سے ثابت  ہے جیسا کہ ہم نے ہاتھ دھونے کے مسئلہ میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ والی حدیث ذکر فرمائی۔
امام نووی شافعیؒ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے
علماء شوافع نے قرآن کریم کی آیت سے دو دلیل لی ہیں ترتیب پر۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے دھونے کے اعضاء کے درمیان مسح کرنے کا ذکر کیا ہے یعنی جس اعضاء کو دھونا ہے وضو میں ان کے درمیان سر کے مسح کو ذکر کیا ہے اور عرب کی عادت ہے کہ جب وہ دو الگ الگ جنس کی چیزوں کا ذکر کرتے تو پہلے ایک جنس کی تمام چیزوں کا ذکر کرتے پھر دوسری جنس کی چیزوں کا ذکر کرتے ۔ وہ لوگ اس کے خلاف نہیں کرتے مگر جب ہی تب کے کچھ فائدہ ہو چنانچہ اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو کیوں نظیر کو توڑا جاتا۔ لہٰذا  مغسول اعضاء کے درمیان مسح کرنے کا ذکر اس بات کی دلالت ہے کہ وضو میں ترتیب شرط ہے۔
۲۔ دوسری دلیل اس آیت پاک میں یہ ہے کہ عرب کے لوگ جب چیزوں کا ذکر کرتے  اور بعض کو بعض پر اگر عطف کرتے تو  قریب والے سے شروع کرتے پھر اس سے قریب والے کا ذکر کرتے اور وہ لوگ اس کی مخالفت نہیں کرتے مگر جب کوئی مقصد ہو ۔ چنانچہ جب اللہ سبحانہ تعالیٰ  نے چہرے سے شروع فرمایا پھر ہاتھوں کا ذکر کیا پھر سر کا ذکر فرمایا اور پھر دونوں پیروں کا ذکر فرمایا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ترتیب پر۔ ورنہ اس طرح کہا جاتا اپنے چہروں کو دھو پھر سر کا مسح کرو  پھر دونوں ہاتھوں کو دھو پھر دونوں پیروں کو دھو۔
چنانچہ آیتِ کریمہ سے صاف واضح ہورہا ہے کہ وضو میں ترتیب فرض ہے۔
اور ساتھ میں احادیثِ صحیحہ جو وضو کی صفت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان تمام میں اسی ترتیب پر وضو کا ذکر ہے  کثرت سے روات کے اختلا ف کے ساتھ اور کثرت  سے وضو کی صفت میں اختلاف کے باوجود جیسا کہ ایک مرتبہ ،دو دو مرتبہ تین تین مرتبہ اعضاء وضو کو دھونا روایات میں ہیں اس کے باوجود تمام صحیح روایات میں  یہی ترتیب موجود ہے، اور ثابت نہیں ہے ترتیب کے علاوہ وضو کرنا صفات میں اتنا اختلاف ہونے کے باوجود۔
لہٰذا قرآن کریم کی آیت اور صحیح صریح احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وضو میں ترتیب  فرض ہے ۔(المجموع شرح المھذب ۱/۴۴۵)
مسئلہ: بھول کر یا عمداً ترتیب کی خلاف ورزی ہو تو وضو صحیح نہیں ہوگا۔ البتو چہرہ کا دھونا معتبر ہوگا اور اس کے بعد ترتیب سے جو ادا کرے وہ بھی معتبر ہوگا۔
مسئلہ: چار اشخاص نے کسی کے چاروں اعضاء وضو کو اس کی اجازت سے بیک وقت دھویا تو صرف چہرہ کا دھونا شمار ہوگا۔
مسئلہ: کسی نے پانی میں غوطہ لگا کر وضو کی نیت کرلی تو کافی ہے۔
مسئلہ: ترتیب کے تحقق کے لئے تھوڑی دیر پانی میں ٹھہرنا ضروری نہیں ہے۔
(ملخصاً تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۳)
(الفقہ المنھجی علی مذھب الامام الشافعیؒ)
مرتب : فرحان باجري الشافعی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں