منگل، 10 نومبر، 2015

تیمم کے دو ضرب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            تیمم کا مطلب عربی زبان میں قصد ہے اور شرعاً چہرہ اور ہاتھ پر مخصوس شرائط کے ساتھ وضو اور غسل یا کسی ایک عضو کے بدلہ میں مٹی پہنچان کو تیمم کہتے ہیں۔
            اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتے ہیں:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ
"اور اگر تم بیمار وہ یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجا سے آیا ہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کرلیا کرو یعنی چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔(سورۃ النساء آیت ۴۳)
            تیمم کے سات ارکان ہیں ان میں چہرہ کا مسح کرنا اور دونوں ہاتھ کا مسح کرنا ہے۔ ان دونوں کے لئے الگ الگ دو ضرب مٹی پر ماریں گے۔
اس کی اصل قرآن کریم کی آیتِ تیمم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تیمم وضو کا بدل ہےا ور وضو میں قرآن کریم میں چار اعضاء کو دھونے کا حکم دیا ہے اور تیمم جو کہ اس کا بدل ہے اللہ تعالیٰ نے ان چار میں سے صرف چہرہ اور ہاتھوں کا مسح باقی رکھا۔
            پھر اس بات پر بھی امت کا اجماع ہے کہ پورے چہرہ کا مسح کریں گے،  اسی لئے ہاتھوں کو بھی مرفقین یعنی کہنیوں تک کا مسح کریں گے کیوں کہ یہ عین قرآن کے حکم سے زیادہ مشابہ ہے نیز قیاس بھی یہی کہتا ہے اور جب نصوص متعارض ہوں گے تو جو مسئلہ قرآن کے زیادہ مشابہ ہوگا اس کو لیا جائے گا۔
            نیز احادیثِ شریفہ  بھی اس سلسلہ میں کافی موجود ہیں جن میں سے بعض بعض کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
            عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَضَرْبَةٌ لِلذِّرَاعَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا:
"تیمم کے لئے دو ضرب ہیں، ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک ضرب کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ کے لئے"۔(رواہ الدارقطنی و الحاکم والبیہقی)
            جہاں تک حضرت عمار بن یاسرؓ   کی کفّین یعنی ہتھیلیوں پر مسح کی روایت کا مسئلہ ہے اس کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
            "حضرت عمارؓ کی روایت سے ہم اس وجہ سے استدلال نہیں کرتے اس لئے کہ نبی کریمﷺ سے دوسری روایات میں چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک پر مسح کا ذکر موجود ہے جو  قرآن  اور قیاس سے زیادہ مشابہ  و قریب ہے۔"

تفصیل کے  لئے المجموع شرح مھذب(2/210)، تلخیص الحبیر(1/403) وغیرہ دیکھئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں