بدھ، 7 ستمبر، 2016

قربانی کے احکام ومسائل (فقہ القرآن و الحدیث )



قربانی کے احکام ومسائل (فقہ القرآن و  الحدیث )

از:مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

قربانی کا حکم:حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ثلاث ھن علی فرائض ولکم تطوع ، النحر والوترورکعتی الفجر‘‘کہ تین چیزیں ایسی ہیں جومجھ پر فرض کی گئی ہیں اور تم پر فرض نہیں ہیں ، ایک قربانی، اور وتر کی نمازاور فجر کی دورکعت سنت( سنن بیہقی: ۹/۱۷۶)محمد بن سرینؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ واجب ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے قربانی کی اور اس کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی اور یہ سنت چلی آرہی ہے ( ابن ماجہ : ۳۱۲۴)جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے قربانی کے بارے میں ابن عمرؓ سے سوال کیا کہ کیا یہ واجب ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے قربانی کی اور س کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی تو اس آدمی نے دوبارہ سوال کیا تو حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کیا تم سمجھتے نہیں ہو !آپ ﷺ نے قربانی کی اور س کے بعد مسلمانوں نے قربانی کی( سنن ترمذی :۱۵۰۶)امام ترمذی ؒاس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بل کہ آپ ﷺ کے سنتوں میں سے ایک سنت ہے (سنن ترمذی)ان احادیث کی بنیاد پر فقہاء نے قربانی کے سنت ہونے پر استدلا ل کیا ہے چنانچہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں ’’ الضحایا سنۃ لااحب ترکھا ‘‘ کہ قربانی سنت ہے البتہ اس کے چھوڑنے کو میں پسند نہیں کرتا ( کتاب الام:۳/۵۷۷)
قربانی کے جانور:اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ ولکل امۃ جعلنامنسکا لیذکرواسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام ‘‘ا ور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائیں جانوروں پر اللہ کانام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھیں ہیں (الحج : ۳۴)علامہ ابن کثیر ؒ نے مذکورہ آیت میں لفظ ’’ بھیمۃ الانعام ‘‘ سے اونٹ ، گائے بیل ، اور بکری بکرااور مینڈھامینڈھی ان جانوروں کو مراد لیا ہے( تفسیر ابن کثیر: ۳/۴۲۹) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سات لوگوں کی طرف سے اونٹ پر قربانی کی اور گائے پر بھی سات لوگوں کی طرف سے قربانی کی ( ابن ماجہ : ۳۱۳۲)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے دو سفید سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی(مسلم : ۵۰۸۸)حضرت عطاء بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے سوال کیا کہ تم آپ ﷺ کے زمانہ میں کس طرح قربانی کیا کرتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی بکری ذبح کرکے اپنی طرف سے قربانی کرتا تھا(ترمذی :۱۵۰۵)مذکورہ آیت اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے گائے بیل، بھینس بھینسا، بکرا بکری، مینڈھا مینڈھی اور اونٹ پر قربانی کومشروع لکھا ہے چنانچہ علامہ رملیؒ فرماتے ہیں ’’ ولا تصح أی التضحیۃ الا من ابل وبقر أو جوامیس وغنم ضأن أو معز‘‘ قربانی اونٹ ، گائے بیل ، بھینس ، مینڈھا اور بکری کے علاوہ جانوروں پر صحیح نہیں ہوتی(نھایۃ المحتاج : ۸/۱۱۲)
قربانی کے جانوروں کی عمر:حضرت جابرؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ لا تذبحوا الا المسنۃ الا أن تعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن ‘‘ کہ تم صرف مسنہ ہی کی قربانی کرومگر کہ تم کو کوئی دشواری لاحق ہوتو تم مینڈھے کا ایک سالہ بچہ ذبح کرو(مسلم:۱۹۶۳)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ مسنہ جانور کا مطلب یہ ہے کہ گائے بیل ، بکرا بکری اور بھینس دوسال ،مینڈھا ایک سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،چنانچہ علامہ عمرانی ؒ فرماتے ہیں ’’فلا یجزیء الا الثنی من الابل والبقر والمعز والجزع من الضأن ، الثنی من الابل مااستکمل خمس سنین ، والثنی من البقر والمعز مااستکمل سنتین والجزع من الضأن مااستکمل سنۃ ‘‘ کہ قربانی میں اونٹ ، گائے بیل ،بکرا بکری ، مینڈھا مینڈھی کا ’’ ثنی ہونا ضروری ہے، یعنی اونٹ پانچ سال ، گائے بیل ، بکرا بکری اور بھینس دوسال ،مینڈھا ایک سال کا ہونا لازم ہے( البیان : ۴/۴۱۳)
قربانی میں ناکافی جانور:نبی کریم ﷺ نے فرمایا"لا یضحی بالعرجاء بین طلعھاولا بالعوراء بین عورھاولا بالمریضۃ بین مرضھا ولا بالعجفاء التی لا تنقی" کہ بہت زیادہ لنگڑے ، بہت زیادہ کانے(جس کی ایک آنکھ کام نہ کرے یا دونوں آنکھیں بیکار ہو)، بہت زیادہ بیمار، اور انتہائی کمزور جانورکی قربانی نہیں کی جائے گی(سنن ترمذی:۱۴۹۷)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام نووی ؒ نے فرمایا ’’ ولا تجزی ء ما فیہ عیب ینقص الحم کالعوراء والعمیاء والعرجاء التی تعجز عن المشاء فی المرعیٰ‘‘ کہ قربانی میں ہر وہ جانور ناکافی ہے جس میں کوئی ایسا عیب ہو جس سے اس کے گوشت کے اندر کمی واقع ہوجائے جیسے کانا، نابینا، ایسالنگڑاجو چراگاہ میں جانے سے عاجز ہو(المجموع: ۸/۲۹۲)ان کے علاوہ خارش زدہ ، مجنونہ ، مکمل دانت ٹوٹاہوا ، اور لاغر اور کمزور جانور قربانی میں نہیں چلے گے نیزکان کٹاجانور بھی قربانی میں نہیں چلے گا اس لئے کہ حدیث میں ’’ مصفرہ ‘‘ جانور کی قربانی سے منع کیا گیا ہے (سنن ابوداؤد:۲۸۰۳)اور مصفرہ کہتے ہیں اس جانور کو جس کا کان اس طرح کٹ گیا ہو کہ سوراخ نظر آئے چنانچہ امام یحی بن ابی الخیر عمرانیؒ فرماتے ہیں ’’ فلا تجزیء للخبر ولأن الأذن عضو مستظاب ‘‘ کہ مذکورہ جانور کافی نہیں ہوگا حدیث کی بناء پر اور اس لئے بھی کہ کان پسندیدہ عضو ہے ( البیان : ۴/۴۱۸) 
قربانی میں ناپسندیدہ جانور:حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا ’’أن نستشرف العین والاذن ولا نضحی ...ولا مقابلۃ ولا مدابرۃ ولا خرقاء ولا شرقاء ‘‘کہ ہم جانوروں کے کان اور آنکھ کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ہم ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کاکان آ گے یا پیچھے سے چرا ہوا ہو اور لٹکا ہو ا ہو اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کے کان میں داغنے کی وجہ سے سوراخ ہو،(سنن ابی داؤد :۲۸۰۴) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام یحی بن ابی الخیر عمرانیؒ فرماتے  ہیں "وأماالعیوب التی لا تمنع الاجزاء وتکرہ "وہ عیوب جوقربانی کے لئے تو مانع نہیں ہیں البتہ ان عیوب والے جانوروں کی قربانی مکروہ ہے، وہ عیوب مندرجہ ذیل ہیں 
(۱)المستأصلۃ ۔ جس کا سینگ جڑ سے نکل گیا ہو (لیکن اس کی وجہ سے گوشت میں کوئی نقص پیدا نہ ہوا ہو)
(۲) العصماء ۔ ایسا جانور جس کے سینگ کا غلاف (کور) نکل چکا ہو اورباطن باقی ہو۔
(۳)المدابرۃ والمقابلۃ۔ ایسا جانور جس کا کان چرا ہو اہو لیکن کان کا کوئی حصہ الگ نہ ہوا ہو۔
(۴) الخرقاؤالشرقاء ۔ ایسا جانور جس کے کان میں کسی قسم کا سوراخ کیا ہوا۔اس لئے کہ یہ عیوب ایسے ہیں جن سے گوشت میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا ہے( البیان : ۴/۱۹۔۴۲۰)اسی طرح اگر کسی جانور کے بعض دانت گرگئے ہو جس سے اس کو چرنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو یہ جانور بھی قربانی کے لئے کافی ہے( نھایۃ المحتاج :۸/۱۳۸) 
قربانی کے گوشت کی تقسیم:اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’ والبدن جعلنٰھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکروااسم اللہ علیھا صواف فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا وأطعمواالقانع والمعتر‘‘قربانی کے اونٹ کو ہم نے اللہ تعالی کی نشانیاں مقرر کی ہیں ان میں تمہارے لئے نفع ہے پس انھیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو پھر جب ان کے پہلو زمین  سے لگ جائیں ( یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بے روح ہوکر زمیں پرگرجائے تو اسے کانٹنا شروع کردو) اسے خود بھی کھاؤاور سوال کرنے والے اور بغیر سوال کے سامنے آنے والے کو کھلاؤ(الحج: ۳۶)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، کھلاؤ،ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو(مسلم ؛باب ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی، ۵۱۰۳۔۵۱۰۸) اس آیت اور حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک اپنے لئے ، دوسرا ملاقاتیوں اور رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا سائلین اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کے لئے ،چنانچہ امام بغوی ؒ فرماتے ہیں "ولہ أن یأکل من أضحیۃالتطوع وکم یأکل ؟ فیہ قولان ... والثانی وھو الأصح : الثلث لقولہ تعالی فکلوا منھا وأطعموالقانع والمعتر"  کہ سنت قربانی کرنے والے کے لئے جائز ہے کہ وہ قربانی میں سے کھائے، لیکن کتنا کھائے؟ تو اصح قول کے مطابق وہ ایک تہائی حصہ کھائے مذکورہ آیت کی بناء پر(التھذیب:۸/۴۴)اور ایک تہائی صدقہ کر ے اور ایک تہائی ہدیہ کرے ، امام شیرازی فرماتے ہیں "یأکل الثلث ویھدی الثلث ویتصدق بالثلث‘‘ کہ قربانی کے گوشت کے تین حصہ کرکے ایک حصہ کھائے ایک حصہ ہدیہ کرے اور ایک حصہ صدقہ کرے(المھذب مع لمجموع :۸/۳۰۶) گوشت کی تقسیم کا مذکورہ طریقہ معروف ومشہور ہے ، البتہ افضل یہ ہے کہ کچھ گوشت اپنے لئے رکھ کر مکمل گوشت صدقہ کرے ( مغنی المحتاج : ۶/۱۷۶)اور کچھ گوشت صدقہ کئے بغیر مکمل گوشت کو خود کھانا درست نہیں ہے بل کہ کچھ نہ کچھ گوشت صدقہ کرنا واجب اور ضروری ہے۔
قربانی کے گوشت کی ذخیرہ اندوزی:حضرت ابو سعید خذریؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے مدینہ والوں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد مت کھاؤتو ہم لوگوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ ہمارے اہل وعیال اور حشم وخدم ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا قربانی کا گوشت کھاؤ ، کھلاؤ اور بچا کر رکھو(مسلم : ۵۱۰۳) اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہوئے امام نووی ؒ فرماتے ہیں ’یجوز أن یدخر من لحم الأضحیۃ وکان ادخارھا فوق ثلاثۃ أیام منھیا نہ ثم أذن رسول اللہ ﷺ ‘‘ کہ قربانی کے گوشت کو بچاکر رکھنا اور ایام تشریق کے بعد تک کھاتے رہنا جائز ہے ، شروع میں آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا بعد میں آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی(المجموع : ۸/۳۱۰)اس اعتبار سے ایام تشریق کے بعد نہ کھانے کی ممانعت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
بطوراجرت جانور کی کھال وگوشت اور اس کی بیع:حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے اونٹوں کی قربانی پر مامور فرماکر فرمایا کہ گوشت اور کھال خیرات کردینا اور قصاب کو اس میں سے کچھ نہ دینا ہم اپنے پاس سے اس کی اجرت دیں گے(مسلم : ۱۳۱۷) اس حدیث کی تشریح میں امام نووی ؒ فرماتے ہیں قربانی کے جانور میں سے قصاب کو کچھ بھی نہیں دیا جائے گا اس لئے کہ اس کواس کے کام کے عوض میں کسی چیز کا دینا جانور کے کسی حصہ کی بیع کی طرح ہے ( شرح مسلم : ۹/۴۳۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے" فکلوا منھا وأطعمواالقانع والمعتر" اسے خود بھی کھاؤاور سوال کرنے والے اور بغیر سوال کے سامنے آنے والے کو کھلاؤ(الحج: ۳۶)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، کھلاؤ،ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو(مسلم ؛باب ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی، ۵۱۰۳۔۵۱۰۸) آیت اور حدیث میں قربانی کے مصرف میں بیع داخل نہیں ہے ،ان دلائل سے استدلال کرتے ہوئے علامہ خطیب شربینی ؒ فرماتے ہیں ’’ أنہ یمتنع علیہ اجارتہ لانھا بیع المنافع وبیعہ‘‘ کہ قربانی کرنے والے کے لئے جانور کے کسی حصہ کو اجرت کے طور پر دینا منع ہے کیوں کہ یہ منافع کی بیع ہے اسی طرح اس کے کسی حصہ کی بیع بھی منع ہے ( مغنی المحتاج : ۴/۳۳۷)
قربانی کے ایام:اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ واذکرواللہ فی أیام معدودات ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر مکی ؒنے حضرت ابن عباس ؓکے قول کو اس طرح نقل کیا ہے ’’ الایام معدودات ایام التشریق أربعۃ أیام یوم النحر وثلاثۃ ایام ‘‘ کہ ایام معدودات سے عید کا دن اور ایام تشریق کے تین دن مراد ہیں (تفسیر ابن کثیر:۱/۲۲۰)اور یہی قربانی کے ایام ہیں ،جیسے کہ علامہ عمرانی ؒ نے وضاحت کی ہے ’’ مذھب ....جمھور الصحابۃ والتابعین والفقہاء أنھا اربعۃ ایام من یوم النحر الی آخر ایام التشریق الثلاثۃ حتی تغیب شمسہ ‘‘ کہ جمہور صحابہ ، تابعین اور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ قربانی کے ایام چاردن ہیں یعنی عید کا دن اور ایام تشریق کے تین دن یہاں تک کہ ۱۳ ذیالحجہ کا سروج غروب ہوجائے( البیان :۴/۳۲۹)

4 تبصرے:

  1. السلام علیکن محترم دوستوں حج اور مسائل جدید بھی لیکئے اس بلاگ میں
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکن محترم دوستوں حج اور مسائل جدید بھی لیکئے اس بلاگ میں
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں