منگل، 6 ستمبر، 2016

اگردوسال کابکرانہ ملے


اگردوسال کابکرانہ ملے

بقلم  مفتی فیاض احمدمحمودبرمارے حسینی(جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور)

قربانی کے لئے جن جانوروں کوشریعت نے مشروع کیاہے ان میں سے ایک بکرااوربکری بھی ہے،اوربکراوبکری کی عمرکے سلسلہ میں ناصرالحدیث امام شافعیؒ  کانقطہ نظراحادیث کی روشنی میں یہ ہے کہ بکرے کی عمردوسال یااس سے زیادہ ہوناچاہیے،اس لئے کہ حضرت جابرؓ نے فرمایا "لاتذبحواالاالمسنۃ الاان تعسرعلیکم فتذبحواجذعۃ من الضان" کہ تم صرف مسنہ ہی کی قربانی کرواگرتم کوکوکوئی دشواری لاحق ہوتوتم مینڈھے کاایک سالہ بچہ ذبح کرو(مسلم :1963) حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابو بردہؓ نے عید کی نماز سے قبل قربانی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم نے گوشت کیلئے  بکری ذبح کی(قربانی نہیں ہوئی)۔حضرت ابو بردہؓ نے فرمایا میرے پاس ایک سالہ بکری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی قربانی کرو،یہ تیری طرف سے کافی ہے تیرے بعد کسی کیلئے کافی نہ ہوگا  (ابوداود 2801) امام عمرانیؒ ان دلائل  کی روشنی میں فرماتے ہیں  کہ "فلایجزی ء الاالثنی من الابل والبقروالمعزوالجزع من الضان ..الثنی من الابل مااستکمل خمس سنین ،والثنی من البقروالمعزمااستکمل سنتین والجزع من الضان مااستکمل سنۃ" کہ قربانی کے لیے اونٹ گاے بیل، بکرابکری، مینڈھا مینڈی ثنی ہوناضروری ہے.یعنی اونٹ پانچ سال کا،گاے بیل بکرابکری دوسال کااورمینڈھاایک سال کاہوناضروری ہے،اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو بردہؓ  کو ایک سالہ  بکری ذبح کرنے کی رخصت  دی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ تمھارے بعد کسی کیلئے جائز نہ ہوگی.لہذا کسی نے ایک سالہ بکری پر قربانی کی تو اصح  قول کے مطابق قربانی درست نہیں ہوگی-(البیان :4/415)
لیکن موجودہ زمانہ میں دوسالہ بکرے کابکثرت دستیاب نہ ہونے کی بناء پرلوگ پریشان نظرآتے ہیں،اوربسااوقات بکروں کے تجارحضرات بھی عمرکے بتلانے میں جھوٹ اورفریب سے کام لیتے ہیں،ایسی صورت حال میں ہمیں قرآن وحدیث اورقرآن وحدیث سے ماخوذفقہ اسلامی سے روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے.سب سے پہلے توہمیں اس بات پرغورکرناہے کہ کیاجس بکرے کی عمرکولے کرہم پریشان ہیں،وہ صرف اس وجہ سے کہ اس پرقربانی کرناافضل ہے۔ یااس  کے مقابلہ میں  کوئی اورجانورافضل ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ "میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا ہی بہتر ہے ایک سالہ مینڈھے کے ذریعہ قربانی  .پس لوگ  مینڈھوں پر ٹوٹ پڑے.(ترمذی: 1499) اس حدیث کےذریعہ فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ بکرے کے مقابلے میں مینڈھا افضل ہے.نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مینڈھوں کے ذریعہ قربانی کی(بخاری:5554)
مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مینڈے کوآپﷺ نے افضل قراردیاہے،چنانچہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں "والضئان احب الی من المعز" (الام 3/583) کہ مینڈھابکرے کے مقابلہ میں افضل ہے، امام ماوردیؒ فرماتے ہیں "افضل الضحایا من الابل ثم الجزع من الضئان ثم الثنی من المعز." (الحاوی الکبیر 15/77) کہ افضل تواونٹ ہے اوربکرے بکری کے مقابلہ میں مینڈھاافضل ہے،جب مینڈھاافضل ہے، اورشریعت کی مقررکردہ عمرکے مطابق مینڈے دستیاب بھی ہیں توپھرافضلیت کوچھوڑکرصرف عمدہ گوشت کومقصدبناکرغیرافضلیت کواختیارکرنے اوراس کی عمرکے تعلق سے بھی شک وشبہ میں مبتلارہ کرقربانی کی چنداں ضرورت نہیں،البتہ اگرمارکیٹ میں مینڈے دستیاب نہیں ہیں،اوران کاحصول بھی ممکن نہ ہواورکسی اورجانورپرقربانی ممکن نہ ہوتوبدرجہ مجبوری دوسال سے کم عمربکرے وبکری پرقربانی کی گنجائش ہے.۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں